ترتیب و تدوین: محمد حسین آزاد الازہری معاونت: ملکہ صبا
10 ستمبر 1992ء کو مرکزی سیکرٹریٹ منہاج القرآن پر عالمی میلاد کانفرنس کے عظیم الشان اجتماع سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خصوصی خطاب فرمایا جس کی اہمیت کے پیش نظر ایڈٹ کر کے قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے جو قارئین مکمل خطاب سماعت کرنا چاہتے ہیں وہ خطاب کی سی ڈی نمبر (CD#1117) کو سن سکتے ہیں۔
(منجانب: ادارہ دختران اسلام)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وَالضُّحٰیo وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰی. مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰیo وَ لَـلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰیo وَلَسَوْفَ يُعْطِيْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰیo
(الضحیٰ، 93 : 1 تا 5)
’’قَسم ہے چاشت کے وقت کی (جب آفتاب بلند ہو کر اپنا نور پھیلاتا ہے)۔ اور قَسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے۔ آپ کے رب نے (جب سے آپ کو منتخب فرمایا ہے) آپ کو نہیں چھوڑا اور نہ ہی (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہوا ہے۔ اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہے۔ اور آپ کا رب عنقریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے‘‘۔
مہمانان خصوصی فضیلت الشیخ علامہ مفتی شیخ عبدالعزیز ابراہیم یوسف شامی، محترم مشائخ و علمائے کرام، معزز خواتین و حضرات اور عزیزان گرامی قدر! اللہ رب العزت کا شکر ہے جس کی توفیق سے ہمیں اس سال بھی شب میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس عظیم الشان سالانہ محفل میں حاضری نصیب ہوئی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے ہمیں اس مبارک رات میں جاگنے، اپنا اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرنے اور سننے کی توفیق مرحمت فرمائی۔ ثانیاً حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت اور دنیا میں آج کی رات تشریف آوری اس کائنات کی سب سے بڑی نعمت ہے، اللہ کی اس عظیم نعمت پر میں آپ سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
جس آیت کریمہ کی تلاوت کا میں نے شرف حاصل کیا ہے اس میں اللہ رب العزت نے والضحیٰ کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کھائی ہے جس کا شان نزول یہ ہے کہ مشیت ایزدی سے کچھ دنوں کے لئے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا تو اس پر کفار اور مشرکین مکہ جو دشمن تھے اور وہ پہلے ہی موقع کی تلاش میں رہتے تھے انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس موقع پر طعنہ دیا اور کہا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رب محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے ناراض ہوگیا ہے۔ جس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر پر بوجھ آیا۔ جانتے سب کچھ تھے مگر اس کے باوجود دشمنوں کا یہ طعنہ محبوب کے حق محبوب نے گوارا نہ کیا۔ لہذا پریشان ہوگئے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت مقدسہ کا یہ حال دیکھا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا کہ وحی تو ہم نے کچھ دنوں کے لئے کسی اور غرض سے بند کی تھی۔ یہ ایک راز تھا ہمارے اور ہمارے حبیب کے درمیان مگر غیروں نے اس کا معنی کچھ اور ہی لے لیا ہے۔ اے جبرائیل! جا! ان کے بوجھ کو اتار اور میرا محبت بھرا پیغام میرے محبوب کو پہنچادے۔ وہ پیغام کیا تھا؟
وَالضُّحٰیo وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰیo مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰیo
(الضحیٰ،93 : 1 تا 3)
’’قسم ہے چاشت کی اور قسم ہے اندھیری رات کی جب وہ چھا جائے۔ میرے حبیب! آپ کا رب نہ آپ سے روٹھا ہے نہ اس نے آپ کو چھوڑا ہے‘‘۔
یہاں اللہ رب العزت نے دو قسمیں کھائیں۔ اب نہ تو چاشت کے وقت میں کوئی اتنی بڑی بات ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر کے بوجھ کو دور کرنے کے لئے اور دشمنوں کے طعنے کو رد کرنے کے لئے بات کی جائے اور چاشت کی قسم سے کی جائے اس کا ظاہراً اتنا کوئی ربط نظر نہیں آتا اور نہ رات کے چھا جانے میں کوئی اتنا بڑا اشارہ ہے جس کا ایک تعلق اس طعنہ کے ازالہ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر کے بوجھ کو دور کرنے سے بنتا ہو۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ فرمانا تو یہ مقصود ہے کہ دشمنوں کا طعنہ غلط ہے۔ قسم اس لئے کھائی کہ دشمنوں کا پرزور رد کیا جائے اور اپنے محبوب کے دل کو تسکین دی جائے۔ اس کے لئے قسم بھی ایسی ہونی چاہئے تھی کہ جس سے آقا کا دل ٹھنڈا ہوجاتا، جس کے سنتے ہی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں اطمینان کی لہر دوڑ جاتی لیکن جب اس مقصود کو سامنے رکھیں تو چاشت اور رات کی قسم اس مقصود کو پورا کرتی نظر نہیں آتی۔ اس پر مفسرین نے گفتگو کی ہے۔ قسم ظاہری معنی میں بنتی ہے مگر شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی تفسیر عزیزی میں بعض عارفوں اور تفسیر کے اماموں کا حوالہ دیتے ہوئے اس قَسم کے اصل معنی اور معارف پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک معنی بیان کرتے ہیں جو اس ضرورت کو پورا کرتا ہے وہ یہ ہے:
’’قسم ہے چاشت کی طرح چمکتے ہوئے ہوئے تیرے مکھڑے کی‘‘ چاشت کا وہ وقت جو روشنی میں لاجواب ہوتا ہے اور گرما دینے والی تپش میں نرم ہوتا ہے اور تپش کم ہوتی ہے اور روشنی اس سے بہتر پورے دن میں نہیں ہوتی یعنی میرے محبوب تیرے چہرے میں چمک دمک چاشت کی طرح ہے اور اس میں ٹھنڈک چاشت کی ٹھنڈک کی طرح ہے اور اندھیری رات کی طرح تیری زلف عنبریں کی قسم، تیری تاریک زلفوں کی قسم کہ جب تو کنگھی کرتا ہے تو وہ تیرے شانے پر بکھر جاتی ہیں اور پھر یوں لگتا ہے جیسے اندھیری رات چھاگئی ہے اور تیرے شانوں پر تیری زلفیں بوسہ دینے لگتی ہیں۔
پیارے حبیب! جو رب تیرے چہرے کی قسم کھاتا ہے اور تیری زلفوں کی قسم کھاتا ہے بھلا وہ رب بھی تجھ سے ناراض ہوسکتا ہے؟ میرے حبیب جس رب کی قسموں کا موضوع تیرا چہرہ ہو جس رب کی قسموں کا مرکز تیری زلفوں کے کنڈل ہوں بھلا وہ رب تمہیں چھوڑ سکتا ہے؟
اے کافرو! بدبختو! بے نصیبو! مشرکو! اور بے عقلو! سوچو تو سہی کہتے ہو کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا رب، محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو چھوڑ گیا اور ناراض ہوگیا۔ جو رب اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسمیں کھاتا ہے وہ کیسے ناراض ہوسکتا ہے؟ میرے حبیب تو اپنے دل کو دکھی نہ کر، تیرا رب تجھ سے ناراض نہیں ہوا، اس نے تجھے نہیں چھوڑا۔ یہ جو وحی چار دن کے لئے روکی تھی اس سے مقصود تجھے انتظار کرانا تھا، تیرے انتظار میں شدت پیدا کرناتھا۔ ہم تو تعلق کو مزید بڑھانا چاہتے ہیں۔ لہذا چار دن کے لئے وحی کا روکنا بھی تعلق کو بڑھانے کے لئے تھا اور تعلق بڑھنے کا پتہ بھی اگلی آیت سے ملتا ہے۔ فرمایا:
وَلَلْاٰخِرَةٌ خَيْرُلَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی.
محبوب اس لئے یہ وقفہ ڈالا ہے کہ تیری ہر بعد کی گھڑی پچھلی سے بہتر ہوجائے یعنی اگلا دن پچھلے سے بہتر ہو۔ یوں تیرا تعلق اونچے سے اونچا ہوتا جائے۔ پھر فرمایا:
وَلَسَوْفَ يُعْطِيْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی.
(الضحیٰ،93 : 5)
’’اور آپ کا رب عنقریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے‘‘۔
لہذا ہماری تو عطائیں بھی تجھے راضی کرنے کے لئے ہیں۔ جیسے قرآن پاک میں ہے ہم اس سے مانگتے ہیں وہ عطا کرتا ہے۔
اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ.
(البقرة : 186)
’’میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے، پس انہیں چاہیے کہ میری فرمانبرداری اختیار کریں ‘‘۔
مگر میرے محبوب تیرے ساتھ تعلق کا عالم یہ ہے کہ آپ کا رب عنقریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے۔
محبوب ہم عطائیں ہی اس لئے کرتے ہیں کہ آپ راضی ہو جائیں تو بھلا ان مشرکوں سے پوچھو کہ ایسا رب بھی کبھی اپنے محبوب سے ناراض ہواکرتا ہے۔ اللہ رب العزت نے کافروں کے سارے طعنوں کو ایک محبت کی ضرب کے ساتھ توڑ دیا۔ اسی آیت کریمہ کا دوسرا معنی شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے تفسیر عزیزی میں بیان فرمایا ہے:
’’والضحیٰ سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوم میلاد ہے‘‘ (یہ ان ائمہ کرام میں سے ہیں جنہیں بریلوی اور دیوبندی دونوں مانتے ہیں اور یہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے صاحبزادے ہیں۔) یہ بات انہوں نے بھی اور ان سے پہلے لوگوں نے بھی لکھی۔ لہذا یہ عقیدہ محبت آج کا گھڑا ہوا نہیں بلکہ یہ شروع سے چلا آرہا ہے اور محدثین اس کو نقل کرتے چلے جارہے ہیں۔ اس طرح والضحیٰ واللیل اذا سجی کا معنی یہ ہوگا کہ ’’قسم ہے دن کی یعنی آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے یوم میلاد کی اور قسم ہے رات کی یعنی شب معراج کی‘‘۔ اس میں بہت سی نسبتیں ہیں جب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا میں بھیجا تو رات جارہی تھی اور دن آرہا تھا اس لئے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی قسم یوم میلاد سے کھائی اور جب اپنے پاس بلایا معراج کے لئے تو رات کو بلایا یعنی محبوب کی جلوت لوگوںکے لئے رکھی اور خلوت اپنے لئے رکھی۔ اس لئے کہ جلوت کا حال اور ہوتا ہے اور خلوت کا حال اور ہوتا ہے۔ جلوت میں لوگ وہی کچھ دیکھتے ہیں جو اوپر سے نظر آتا ہے اور خلوت میں وہی نظر آتا ہے جو جلوت والے لوگ نہیں دیکھتے اس لئے فرمایا محبوب کو بھیجا مخلوق کی طرف توجلوت دی اور دن دیا اور اپنی طرف بلایا تو رات دی اس لئے کہ محبوب کی حقیقت مخلوق کی نظر سے اوجھل ہے اور خالق کی نظر میں آشکار ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ میری حقیقت کو میرے رب کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا‘‘۔ لہذا فرمایا: ’’قسم ہے ولادت کے دن کی اور معراج کی رات کی‘‘۔
شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک معنی اور بھی ہے۔
والضحیٰ سے مراد ہے: اے میرے حبیب! قسم ہے آپ کے نور علم کی جس کے باعث سارے مخفی خزانے آپ کے سامنے آشکار ہوجاتے ہیں اور واللیل سے مراد ہے: قسم ہے رات کی جب وہ چھاجائے کہ وہ نور علم آپ کو میسر ہے کہ مخفی چیزیں اور اسرار بھی دیکھتے ہیں اور پھر قسم ہے محبوب آپ کے حسن خلق کی امت کے سارے عیب دیکھ کر بھی آپ اس پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔
پھر شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک معنی اور بھی ہے۔ فرمایا: قسم ہے حبیب آپ کے احوال ظاہری کی وہ ظاہری کمالات جنہیں ہر کوئی جانتا ہے اور قسم ہے آپ کے ان احوال باطنی کی جنہیں کوئی کوئی جانتا ہے مخلوق نہیں جانتی جو ان سے چھپے ہوئے ہیں۔
اس تفسیر کے مطابق ربیع الاول میں وہ رات ہے جس کی رب العزت نے قسم کھائی ہے۔ اب یہ دن اس مخلوق کو کب ملا اور کیسے ملا؟ تھوڑا اس کا بھی تذکرہ کرلیتے ہیں۔
حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشری تخلیق کا جب اللہ پاک نے ارادہ کیا تو سیدنا جبرائیل امین علیہ السلام کو حکم دیا کہ جبرائیل! میں اپنے محبوب کا وجود بشری بنانا چاہتا ہوں لہذا جا اور زمین سے کسی ایسی جگہ سے مٹی لے آجو میرے محبوب کے وجود کے لائق ہو (تو حدیث میں ہے کہ) سیدنا جبرائیل امین زمین پر اترے اور آج جس جگہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گنبد خضریٰ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور ہے اس مقام سے مٹی لے گئے۔
علامہ ابن جوزی الوفا بالاحوال مصطفی جلد1 ص 27 پر فرماتے ہیں: اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس زمین کے ٹکڑے سے بہتر ساری کائنات میں کوئی اور ٹکڑا نہیں ہے اور اس جیسا بھی ساری کائنات میں کوئی ٹکڑا نہیں ہے۔ حتی کہ یہ اپنے رتبے میں اور فضیلت میں روئے زمین سے بہتر ہونا تو درکنار عرش معلیٰ سے بھی اونچا ہے۔ سیدنا جبرائیل امین علیہ السلام اس روئے زمین سے مٹی لے گئے اور اللہ رب العزت کے حضور پیش کی۔ اس مٹی کو تسنیم (جنت) کے پانی میں دھویا گیا پھر اس کے اندر نور نبوت رکھا گیا پھر اس خاک کو عرش و کرسی و لوح و قلم کے گرد طواف کرایا گیا اور زمین و آسمان میں پھرایا گیا تاکہ کائنات کا ہر ہر ذرہ و گوشہ اس خمیر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچان لے اور پھر اس میں نور نبوت رکھ کر کائنات کے ہر ہر گوشہ میں اس نور نبوت کو پھیلایا گیا اور بعد ازاں یہ نور نبوت سیدنا آدم علیہ السلام کی پشت میں رکھا گیا جس سے آدم علیہ السلام کی پیشانی مبارک میں ایک نور چمکنے لگا۔ آدم علیہ السلام کا حضرت حوا علیہا السلام کے ساتھ عقد نکاح کا حکم آیا اور جب عقد کرنے لگے تو حضرت حوا علیہا السلام کی شادی کا حق مہر مقررکرنے کا وقت آیا حضرت آدم علیہ السلام نے تو عرض کیا: باری تعالیٰ روئے زمین کی اس پہلی شادی کا مہر مقرر فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
میرا وہی محبوب نبی جس کے نور سے آپ کی پیشانی کو روشن کیا ہے اس پر دونوں مل کر درود و سلام پڑھ لو یہ تمہارے نکاح کا مہر ہوگا۔
(قسطلانی، المواہب اللدنیہ، ج: 1، ص: 76)
اب جو بات میں سمجھانا چاہتا ہوں اس حدیث کے ذریعے وہ یہ ہے کہ قیامت تک پوری نسل انسانی کی ولادت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درود و سلام کا صدقہ ہے۔ گویا مقاربت کی حلت درود و سلام سے ہوئی۔ تعلق اور رشتہ کو حلال کرنے والا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام ہے اور ساری انسانیت اور نسل انسانی کی ابتداء بھی آقا علیہ الصلوۃ والسلام پر درود و سلام سے ہوئی۔
حضرت حوا علیہا السلام کے بطن مبارک سے ہر بار ایک جوڑا پیدا ہوتا مگر جب حضرت شیس علیہ السلام کی ولادت کا وقت آیا (جن کی پشت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کو منتقل کرنا تھا) یہ تنہا پیدا ہوئے تاکہ تولد کے وقت جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور منتقل ہو تو اس کا حصہ پانے میں بھی کوئی شریک نہ ہو۔ اس طرح حضرت شیث علیہ السلام پیدا ہوئے اور آقا علیہ السلام کا نور مبارک نسل در نسل پاک پشتوں اور رحموں میں منتقل ہوتا ہوتا حضرت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے زمانے تک آپہنچا۔ حضرت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی پشت میں جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور چمکنے لگا تو ان کو دیکھنے کے لئے دور دور سے یہودی راہب، احبار اور ان کی کتابوں کے عالم آتے تھے اور جب عبدالمطلب کو دیکھتے تو پہچان لیتے کہ اس شخص کی پیشانی میں جو روشنی چمک رہی ہے یہ نبی آخرالزمان کا نور ہے۔
حضرت عبدالمطلب کی شادی ہوگئی اور جب حضرت عبداللہ کی ولادت ہوئی اور وہ نور حضرت عبداللہ کی پیشانی میں منتقل ہوگیا۔ تو بڑی بڑی برکات کا ظہور ہونے لگا۔ آپ کی پیشانی میں بھی نور چمکتا دیکھ کر اس دور کے یہود پہچان گئے (ایک بات ذہن نشین رکھ لیں مدینہ (یثرب) ایک چھوٹی سی بستی تھی جو دنیا میں نہ کسی تجارت کا بڑا مرکز تھی، نہ کوئی صنعت و حرفت کا مرکز تھی اور نہ کسی تہذیب و ثقافت کا مرکز تھی۔ لہذا یہودیوں کا اپنی بستی، وادی سینا، کنان، مصر کو چھوڑ کر مدینہ کی ایک چھوٹی سی بستی یثرب میں آکر یہاں رہنے کا کوئی معمولی سا بھی جواز نہ تھا سوائے ایک جواز کے کہ ہر یہودی عالم، ہر قبیلے اور بنی اسرائیل کی ساری نسلوں نے ہر زمانے کے نبی و رسول سے ایک بات سن رکھی تھی کہ لوگو! ہم سارے نبی و رسول اس کائنات کے عظیم تاجدار نبی اور رسول کی آمد کی منادی دینے والے ہیں۔ یہ ساری بزم کائنات جس نبی آخرالزماں کے لئے، جس حبیب کبریا کے لئے، جس پیکر جمال کے لئے، جس نور حق کے لئے، جس رحمت للعالمین کے لئے سجی ہے وہ نبی آنے والا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علاقہ، ہجرت کا شہر، آپ کا مسکن، آپ کا وطن آپ کے خدوخال، آپ کا حلیہ مبارک، آپ کا خاندان، آپ کا قبیلہ، آپ کا حسب و نسب، آپ کے احوال زندگی، دشمنوں کی مخالفتیں، غزوات، خلفائے راشدین کا ساتھ دینا، مدینہ میں وصال فرمانا اور وہاں گنبد خضریٰ بننے تک کا بیان پرانی کتابوں میں درج تھا۔
یہ نشانیاں حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت شعیب علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام ، حضرت زکریا علیہ السلام، حضرت یحییٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بیان فرمائی تھیں۔
یہی وجہ ہے کہ یہودی علماء حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معارف و محاسن و کمالات و معجزات اور سیرت طیبہ کو اپنی کتابوں میں پڑھ کر اس طرح پہچانتے تھے جیسے قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
يَعْرِفُوْنَهُ کَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَهُمْ.
(البقرة، 2 : 146)
’’وہ اس رسول (آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی شان و عظمت) کو اسی طرح پہچانتے ہیں جیسا کہ بلاشبہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں‘‘۔
حتی کہ سیدنا حضرت یحییٰ علیہ السلام جب شہید کئے گئے تھے تب ان کا ایک جبہ تھا جو انہوں نے پہنا ہوا تھا۔ آپ کی شہادت کے بعد وہ یہودیوں نے ملک شام کی عبادت گاہ میں تبرک کے طور پر رکھ دیا۔ اس جبہ سے شہادت سے لے کر 5، 6 سو سال گزر جانے کے بعد ہمیشہ ایک ایک قطرہ خون کا گرتا رہتا تھا اور کتابوں میں لکھا تھا کہ یہ گرنا اس دن بند ہوگا جس دن حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی پشت سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوں گے۔ یہودیوں کی عبادت گاہ میں جب اس جبہ سے خون کا قطرہ گرنا بند ہوا تو وہ دوڑ پڑے کہ نبی آخرالزماں پیدا ہوگئے ہیں۔ مقصد یہ کہ یہودیوں کے پاس بہت ساری علامتیں موجود تھیں وہ اپنے بچوں کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احوال باقاعدہ پڑھایا کرتے تھے۔ یہ احوال جان کر قافلوں کے قافلے اس مدینہ کی بستی میں آکر آباد ہوئے اس انتظار میں کہ نبی آخرالزماں نے اس شہر میں آنا ہے اور ہم ان کے امتی بن جائیں گے، ان کا زمانہ پالیں گے، انکی خدمت کریں گے، ان کو چاہت تھی مگر ساتھ وہ یہ توقع بھی کرتے تھے کہ وہ ہمارے ہی خاندان و نسل یعنی بنی اسرائیل سے پیدا ہوں گے جس میں سارے انبیاء آئے تھے کیونکہ بنی اسماعیل کے ساتھ عناد اور عداوت تھی مگر جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ہوئی اور بنی اسرائیل یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل اور حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل سے نہ ہوئی تو یہودی حاسد ہوگئے اور حسد کے باعث انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کردیا۔
یہاں ایک خاص پہلو یہ بھی ہے کہ جب یہودیوں اور راہبوں کو مکہ و مدینہ پہنچ کر اس بات کا علم ہوا کہ یہاں تو قریشی ہیں اور اس قریش کے خاندان میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہونے والے ہیں تو اسی وقت سے وہ آپ کے دشمن ہوگئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔ جب حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی پیشانی میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور چمکنے لگا تو یہودیوں نے پہچان لیا کہ یہ وہ شخص ہے جو اس محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا باپ ہوگا کیونکہ پیشانی میں وہی نور چمک رہا ہے چنانچہ یہودیوں نے سازش تیار کی اور یہودیوں کے سب سے بڑے راہب نے اپنے ساتھ 70 یہودی تیار کئے اور قافلے کی صورت میں چھپ چھپا کر مکہ پہنچے اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو تلاش کرنا شروع کیا تاکہ کہیں آپ رضی اللہ عنہ انہیں اکیلے مل جائیں اور آپ کو شہید کردیا جائے۔
ایک روز حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ باہر صحرا میں اکیلے شکار کے لئے نکلے۔ یہودیوں نے دیکھا تو وہ سارے وہاں پہنچ گئے اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو گرفتار کرلیا اور شہید کرنے کے لئے لے جارہے تھے کہ اتنے میں حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے والد ماجد راہب بن عبد مناف کا گذر وہاں سے ہوا انہوں نے جب دیکھا کہ یہودی ہمارے قریشی بھائی حضرت عبدالمطلب کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو ناپاک ارادے سے لے جارہے ہیں کیونکہ ان کی پیشانی میں نور چمکتا ہے (اور دنیا کے دور دراز علاقوں میں اس کی شہرت بھی ہوگئی تھی)۔ اسی لئے تو اللہ پاک نے قسم کھائی تھی۔
لَآ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِo وَاَنْتَ حِلٌّم بِهٰذَا الْبَلَدِo وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَo
(البلد، 90: 1 تا 3)
’’میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں۔ (اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں۔ (اے حبیبِ مکرّم! آپ کے) والد (آدم یا ابراہیم علیہما السلام) کی قَسم اور (ان کی) قَسم جن کی ولادت ہوئی‘‘۔
یعنی میرے حبیب! میں شہر مکہ کی قسم کھاتا ہوں اس لئے کہ تو اس شہرمیں آیا اور نہ صرف اس شہر کی قسم کھاتا ہوں بلکہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ تک جس جس شخص کو تیرا والد ہونے کا شرف ملا اور جس جس کی پشت و پیشانی میں تیرا نور چمکتا رہا اور جسے تیرے آباء ہونے کا شرف ملا۔ حبیب! اس اس پشت کی قسم!
یہ پہچان تھی مگر اب یہودیوں کو یہ بھی پتہ چل چکا تھا کہ زمانہ ولادت قریب آپہنچا ہے اس لئے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے والد فی الفور قریشیوں کو لے کر دوڑے اور یہودیوں سے چھڑالیا اور چھڑا کر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی پیشانی کو خوب ٹکٹکی باندھ کر دیکھا تو وہ اس نورکو پہچان گئے۔ ان کو گھر بھیجا اور خود اپنے گھر آئے اور اپنی زوجہ حضرت پراء رضی اللہ عنہا یعنی (حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ماجدہ) کو بلایا اور کہا براء! میرا دل کرتا ہے کہ ہم اپنی بیٹی آمنہ کا رشتہ اس کو دے دیں تاکہ وہ نور ہماری بیٹی آمنہ رضی اللہ عنہا کے نصیب میں آجائے۔ فیصلہ ہوگیا تو آپ کی زوجہ محترمہ حضرت عبدالمطلب کے گھر آئیں اور اپنی بیٹی حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا جو حسب و نسب، خوبصورتی، خوب سیرتی، کردار، تقویٰ، شہرت اور عظمت میں قریش کی ساری عورتوں کی سرتاج تھیں اور بہت اونچا مقام رکھتی تھیں کے رشتے کا پیغام دیا جسے حضرت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے لئے قبول فرمالیا۔
واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا نور چمکنے لگا تو اس نور کی دھوم پہنچتے پہنچتے ملک شام تک پہنچ گئی اور ملک شام کا ایک بادشاہ تھا جس کی بیٹی کا نام فاطمہ تھا۔ وہ بھی بڑی شہرت، عظمت اور حسن و جمال کے اندر بڑا اونچا مقام رکھتی تھی اور شاہ روم کی بیٹی نے جب حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے نور کے چرچے سنے تو اپنے خدام کے ساتھ مال و دولت لے کر شام سے چل کر مکہ میں کعبۃ اللہ کے پاس آکر پڑاؤ کیا۔ حضرت عبداللہ سے رابطہ و ملاقات کرنے کے لئے کوشش کی۔ ادھر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ ان کے قریب سے گزرے تو انہیں دیکھ کر نکاح کی پیشکش کردی۔ یہاں دو روایات آئی ہیں ایک یہ کہ جب پیشکش کی اس وقت ابھی حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ وہ اپنے والد حضرت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکاح کرکے لانے کے لئے تشریف لے جارہے تھے۔
(ابونعیم، دلائل النبوۃ، ج 1، ص 91)
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اچھا میں اس پر غور کرتا ہوں میں کل اپنے والد سے پوچھ کر آپ کو جواب دوں گا۔ ایک دن کی مہلت لے لی اور ادھر عقد کی بات کرنے گئے جب بات کی تو بات پکی ہوگئی اور حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کو دلہن بناکر لے آئے۔ اسی رات آقا علیہ الصلوۃ والسلام کا نور مبارک منتقل ہوگیا۔
دوسری روایت یہ ہے کہ جس کو زیادہ محدثین و علماء نے بیان کیا وہ یہ ہے کہ شادی ہوچکی تھی تین سال یا اس سے کچھ زائد عرصہ گزر چکا تھا اور اس رات بات ہوئی تو فرمایا کہ کل میں آپ کو جواب دوں گا مگر وہی رات جمعہ کی رات تھی اور نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے بطن مبارک میں منتقل ہوگیا اور صبح والد گرامی سے بات کی انہوں نے اجازت دے دی کیونکہ ایک سے زائد نکاح کا عربوں کے ہاں عام رواج تھا اور عیب کی بات نہ تھی۔ لوگ 18، 18 شادیاں بھی کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے بعد اور اسلام کی تعلیم نے انہیں آکر ختم کیا اور آخری حد چار کی مقرر کی مگر ایک کو ترجیح دی۔ جب حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ صبح پلٹ کر اسی خاتون کے پاس جواب لے کر پہنچے اور فرمایا گھر سے اجازت مل گئی ہے میں آپ کی دعوت کو قبول کرنے کے لئے آیا ہوں۔ اس فاطمہ نے آپ کے چہرے کو پھر دیکھا اور منہ دوسری طرف کرلیا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کل تو تو نے خود دعوت دی تھی اور یہاں تک کہا تھا کہ مجھ سے اگر آج ہی شادی کرلو تو میں 100 اونٹ تحفہ بھی دوں گی لیکن آج میری طرف نہیں دیکھتی یہ تبدیلی کہاں سے آئی ہے؟ اس نے کہا اے عبداللہ! میں تجھ پر جس حسن و نور کی وجہ سے عاشق ہوئی تھی جسے کل تیری پیشانی میں میں دیکھتی تھی اور نکاح کی پیشکش کردی تھی وہ خوش نصیب آمنہ رضی اللہ عنہا لے گئی۔ اب اس کے بعد مجھے تمہاری کوئی حاجت نہیں ہے۔
حضرت کعب الاحبار روایت کرتے ہیں اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے کہ اس شب جمعہ جب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور اقدس پشت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بطن آمنہ رضی اللہ عنہا میں منتقل ہوا تو اس رات اللہ رب العزت کی طرف سے ملائکہ نے منادی کر دی اور حکم ہوا کہ آج رات نور ازلی کا پرتو، نورحق کا مخفی خزانہ جسے ختم نبوت کا تاج پہنایا جانے والا تھا اور جسے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روپ میں دنیا میں تشریف لانا تھا اے جنتیو! اے ملکو! اے ملاکوتیو! آج وہ نور حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے بطن میں منتقل ہوگیا ہے۔ اب اس نور کے ظہور کا آخری مرحلہ یعنی مرحلہ ولادت باقی رہ گیا ہے اور دنیا کی تاریکی کو دور کرنے کے لئے وہ نور بس اب ظاہر کرنے کو باقی رہ گیا ہے، آج جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں، آج جنت میں چراغاں ہو، جنت پر رونق ہوجائے، جنتوں میں تازہ بہار آجائے۔ لہذا جس رات نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منتقل ہوا نہ صرف جنتوں پر بلکہ روئے زمین پر اور نہ صرف خاندان قریش پر بلکہ شہر مکہ کے ہر گھر پر نور کا اجالا ہوا۔
کتب حدیث، کتب سیر اور کتب فضائل میں آتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کا منتقل ہونا صرف انسانوں سے مخفی رکھا گیا جبکہ باقی ساری مخلوقات کو آگاہ کردیا گیا۔ قریش کے گھر کا ہر چوپایہ اپنی زبان میں بول اٹھا کہ آج ختم المرسلین کا نور اپنی والدہ کے بطن مبارک میں منتقل ہوگیا ہے۔ حرم کعبہ چمک اٹھا اس رات بھی بت گرے اور ولادت کی صبح بھی گرے اور زمین اور کائنات میں بہار کا آغاز ہوگیا اور پھر حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے بطن مبارک میں عرصہ حیات پورا ہوا اور ولادت کا وقت آگیا۔
اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے واقعہ کو امام ابو نعیم، ابن حبان، خطیب بغدادی، امام ابن سعد، طبرانی، بیہقی، نیشیاء پوری، امام زرقانی اور تمام آئمہ حدیث نے بیان کیا ہے۔ ان تمام احادیث کو جمع کرکے سیرت و فضائل نبی میں درج کیا گیا ہے۔ جن میں المواہب اللدنیہ، الخصائص الکبریٰ، سیرت حلبی، الوفائ، انوارالمحمدیہ و دیگر کتب سیرت شامل ہیں۔ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مقدسہ کا وقت قریب آیا تو مجھ پر ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ اچانک مجھے یوں محسوس ہوا کہ سفید پرندے کے پر کی طرح کسی روشن چیز نے میرے دل پر مسح کیا ہے جس سے درد فوری دور ہوگیا۔ پھر مجھے جنت کا ایک سفید مشروب پیش کیا گیا وہ میں نے پی لیا۔ اب ولادت کے آغاز ہی سے زمینی چیزیں اٹھالی گئیں اور سارا انتظام جنت سے ہورہا ہے۔ فرماتی ہیں:
’’پھر مجھے پھر ایک عظیم نور نے گھیر لیا ور میں نے خوبصورت طویل القامت عورتوںکو دیکھا تو مجھے تعجب ہوا کہ یہ کون ہیں؟ میں نے پوچھا کہ تم میرے پاس کہاں سے آئی ہو۔ پہلی بار دیکھا ہے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا ہم میں سے ایک فرعون کی بیوی (حضرت) آسیہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائی تھی اور دوسری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ (حضرت) مریم بنت عمران رضی اللہ عنہا ہیں اور ہم آپ کی داعیاں بن کر آئی ہیں اور یہ سب جنتی حوریں ہیں جن کو ہمارے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’پھر میں نے زمین سے آسمان تک ایک سفید روشنی دیکھی۔ پھر میں نے فضاء میں ایسے مرد دیکھے جن کے ہاتھوں میں چاندی کی صراحیاں تھیں‘‘ (یہ 12 ربیع الاول کی رات ہے صبح صادق کے وقت جب نور محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک پیکر حسین بن کر حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی گود میں تشریف لائے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہورہی ہے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا اسی وقت اس سہانی گھڑیوں کا منظر پیش کررہی ہیں) فرماتی ہیں:
’’پھر میں نے سفید جنتی چڑیوں کو دیکھا (مقصد جنت کی کوئی چیز نہ رہی جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ولادت کے وقت استقبال کے لئے زمین پر نہ آئی ہو ایسا لگتا ہے ولادت کے وقت ہر نورانی مخلوق نے درخواست دی ہوگی کہ اے میرے مولا! آج تیرے حبیب کی ولادت کا وقت ہے ساری زندگی زمین والے خدمت کریں گے اور دیدار کریں گے آج ولادت کے وقت کی ذمہ داری ہمیں سونپ دے پھر اللہ رب العزت نے کہا ہوگا کہ آج کی رات تم سارے سائلوں کی درخواستیں منظور کی جاتی ہیں) حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ان جنتی چڑیوں کی چونچ زمرد کی اور پر یاقوت کے تھے۔ وہ میرے کمرے پر سایہ فگن ہوگئیں ان کا سائبان بن گیا پھر اچانک ایک نور ظاہر ہوا۔ جس سے مشرق سے مغرب تک ساری کائنات روشن ہوگئی اور یہ وہ نور تھا جس سے شام کے محلات تک بھی دکھائی دیئے‘‘۔
اس دوران فرماتی ہیں: ’’میں نے تین جھنڈے دیکھے ایک جھنڈا دیکھا کہ مشرق میں نصب ہوا، ایک مغرب میں نصب ہوا، ایک کعبہ کی چھت پر نصب ہوا‘‘۔ فرماتی ہیں: ’’میں نور کے چمکنے کا اور مشرق سے مغرب تک اور کعبۃ اللہ کی چھت پر جھنڈوں کا نصب کئے جانے کا منظر دیکھ رہی تھی۔ بس اس منظر کے مشاہدے میں مگن تھی اچانک دیکھا کہ پیکر نور مسکراتا ہوا میری جھولی میں آگیا‘‘۔ آقائے دوجہاں کی ولادت ہوگئی۔ وہ نور ازل، وہ نور ابد، وہ نور جو بزم کائنات کی رونق تھا، وہ نور ختم المرسلین کا نور تھا۔ وہ نور جو حبیب کبریا کا نور تھا۔ وہ نورجو عالم ارواح میں نبیوں کی روحوں پر چمکا۔ وہ نور جس کی معرفت نبیوں کی روحوں کو کرائی گئی۔ وہ نور جس کو سامنے رکھ کر نبیوں سے کلمہ پڑھوایا گیا۔ وہ نور جس پر نبیوں نے کلمہ پڑھا تو رب کائنات نے انہیں نبوت عطاکرنے کا وعدہ کیا۔ وہ نور جس پر انبیاء و رسل ایمان لائے۔ وہ نور جس کی نبوت پر ایمان لانے پر نبیوں پر خدا خود گواہ بن گیا۔ وہ نور جس کے فیض سے عالم ارواح میں ساری روحیں معطر ہوئیں۔ وہ نور جسے پیدا ہونے سے پہلے ہی نبی بنایا گیا۔ وہ نور جس پر پیدائش سے پہلے نبوت کے احکام جاری ہوئے۔ وہ نور جس سے حضرت آدم کی پیشانی چمکی۔ وہ نور جس کا نام جنت کے درختوں کے ایک ایک پتے پر لکھا گیا۔ وہ نور جس کا کلمہ عرش کے پائے پر لکھا گیا۔ وہ نور جس کے صدقے سے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔ وہ نور جس کے صدقے سے انبیاء علیہ السلام کی نسلوں سے ایک سلسلہ نبوت جاری کیا گیا۔ وہ نور جس کے صدقے سے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی تیرنے لگی۔ وہ نور جس کے صدقے سے حضرت ابراہیم کو آگ سے بچایا گیا۔ وہ نور جس کے صدقے سے حضرت اسماعیل کو چھری کے نیچے سے نکالا گیا۔ وہ نور جس کے باعث صحرائے عرب میں مکہ کی سرزمین پر جہاں کچھ نہ تھا وہاں کعبۃ اللہ بنایا گیا۔ وہ نور جس کے صدقے سے بے آباد ریگستان کو آباد بستی بنایا گیا۔ وہ نور جس کی خاطر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑیوں کے رگڑنے سے چشمہ نکالا گیا تاکہ قبیلے یہاں آکر آباد ہوں، وہ نور جس کی خاطر قریش کے قبیلے کو دنیا کے قبیلوں میں ممتاز بنایا گیا۔ وہ نور جس کے لئے رب کائنات ساری دنیا کے لئے شفاعت کی محفل سجائے گا۔ وہ نور جو سب سے پہلے پیدا ہوا اور سب سے آخر میں ظاہر ہوا۔ وہ نور جس کا صدقہ ہم آج کھارہے ہیں اور وہ نور جس کی آمد کی تکریم میں ہم آج جاگ رہے ہیں۔ وہ نور جس کی خاطر ہر صاحب ایمان کا ایمان زندہ ہے۔ جسکی خاطر بخشش و مغفرت ہوگی۔ جس کی خاطر ہمیں دین ملا۔ جس کی خاطر خدا کی شناسائی ملی۔ جس نور نے آخرت کی معرفت دی۔ جس نور نے انسان کو انسان بنایا، جس نور نے ہمیں مسلمان بنایا اور جس نور نے کلمہ پڑھنے والوں کو ایک عظیم امت بنایا۔
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآن وہی فرقاں وہی یسٰں وہی طہٰ
پھر پیداہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرارہے ہیں جبکہ دوسرے بچے روتے ہوئے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ بھی ولادت کا مختلف اصول تھا۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ اس نبی کا آنا روتے ہوؤں کو مسکراہٹ دینا ہے، غم دور کرنا ہے، یتیموں کو تحفظ دینا ہے، بے سہارا کو سہارا دینا ہے اور ایک عظیم نظام، انسانیت کو عطا کرنا۔ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے دیکھا کہ پھر آپ سجدے میں گرگئے یعنی پیدا ہوتے ہی سجدے میں گر کر اللہ کے حضور پہلی گریہ و زاری کی اور اپنی انگشت شہادت اللہ کی توحید پر گواہی دینے کے لئے اٹھادی۔ فرماتی ہیں: اتنی دیر میں آسمان کی طرف سے ایک سفید بادل نمودار ہوا۔ اس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھانپ لیا اور ایک منادی نے آواز دی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشارق و مغارب اور بحرو بر میں لے جاؤ تاکہ ساری دنیا اس کو پہچان لے۔ پھر فرماتی ہیں:
تھوڑی دیر بعد وہ بادل کھل گیا اور آپ نمودار ہوئے اس وقت میں نے آنکھ بھر کر آپ کی زیارت کی اور میں نے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چودھویں رات کی چاندنی کی طرح چمک رہے تھے اور جسد پاک سے تازہ کستوری کے حُلے پھوٹ رہے تھے۔ اس وقت غیب سے تین افرادنمودار ہوئے کے ہاتھ میں چاندی کی صراحی تھی۔ ایک کے ہاتھ میں زمرد کا تشت تھا۔ ایک کے ہاتھ میں سفید ریشم کی چادر تھی۔ ایک اس صراحی کے اندر جنت کا پانی تھا جس سے آپ کو غسل دیاگیا۔ پھر دونوں شانوں کے درمیان مہر لگائی گئی جو اس ریشم میں لپٹی تھی پھر چادر ڈال کر لٹادیا گیا اور فرماتی ہیں: میں نے غور سے دیکھا تو پیدائشی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سرمہ ڈالا ہوا تھا، ناف بریدہ تھی، ختنہ شدہ تھے۔ ( حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی اسی طرح روایت فرمائی ہے)
(دحلان، السیرۃ النبویۃ، ج: 1، ص: 48)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ مکہ میں ایک یہودی راہب تھا جو کسی کام سے ٹھہرا ہوا تھا۔ جس رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی اس نے قریش مکہ کی ایک گلی میں زور سے چیخنا شروع کردیا لوگ جمع ہوگئے اس نے پوچھا اے قریش مکہ! دیکھو تم میں سے کس کے گھر آج بچہ پیدا ہوا ہے۔ ایک قریشی نے کہا کہ ہمیں تو معلوم نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ آج ضرور کسی کے گھر بچہ ہوا ہے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے گھر بیٹا پیدا ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے وہاں لے چلو میں اس بچے کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے پاس اس یہودی کو لایا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس نے زیارت کی اور کہنے لگا کہ میں چاہتا ہوں کہ میں اس کی پشت دیکھوں۔ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے آگے کردیا کہ دیکھ لو۔ یہودی نے جب شانوں کے درمیان مہر نبوت کو دیکھا اس کی چیخ نکلی اور بیہوش ہوکر گر پڑا اور جب ہوش میں آیا تو قسم کھا کر کہنے لگا:
وَاللّٰهِ ذَهَبَتِ النَّبُوَتُ مِنْ م بَنِی اِسْرَائِيْل.
’’اللہ کی قسم نبوت بنی اسرائیل سے نکل گئی‘‘۔
مکے میں دائیاں آگئیں۔ دائی حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا اوران کے شوہر قبیلہ بنی سعد کے غریب لوگ تھے جو کمزور لاغر سواری کو لے کر پہنچ گئے۔ کسی بڑے امیر گھرانے کا بیٹا نہ ملا، پتہ چلا کہ حضرت عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے گھر ایک یتیم بیٹا پیدا ہوا ہے۔ ادھر آکر حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا سے بات کی وہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کو اندر لے گئیں۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا توایک نور تھا جو آسمان تک جارہا تھا۔ وہ بے ساختہ گر پڑیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اٹھایا، سینے سے لگایا اور فرمایا: ان کو میں لے جاتی ہوں تین دن مکہ میں رہیں اور لے کر سیدھا حرم کعبہ میں گئیں کہ جاکر پہلے کعبہ کا طواف کرلوں کعبہ کا طواف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گود میں اٹھا کر کیا۔ جب حجر اسود کے سامنے آئیں بوسہ لیا اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی بوسہ دلانا چاہا، ابھی حجر اسود سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لب مبارک دورتھے فرماتی ہیں: خدا کی قسم! میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ حجر اسود نے کعبہ کی دیوار کو چھوڑ دیا اور باہر نکل کر مصطفی کے چہرے کا بوسہ لیا۔
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے کہا میرا مقدر چمک اٹھا ساتھ ہی دودھ پلایا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دائیں طرف سے دودھ پیا اور بائیں جانب سے پینے سے انکار کردیا۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیوں چھوڑ دیا؟ کیونکہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے شیر خوار بیٹے حمزہ بھی تھے جو بائیں جانب سے پیتے تھے۔ جتنے سال حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی رضاعت کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دائیں طرف سے پیتے تھے اور بائیں جانب سے چھوڑ دیتے تھے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ولادت کے پہلے دن سے عدل کا نمونہ قائم کردیا تھا کہ میں لوگوں کو حق دلانے آیا ہوں اوروں کے حق کھانے نہیں آیا۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا مزید فرماتی ہیں: ادھر آقا علیہ الصلوۃ والسلام کا مظاہرہ عدل تھا تو ادھر حضرت حمزہ کا مظاہرہ ادب تھا کہ جب بھی میرے بیٹے کو بھوک لگی اور وہ رویا اور میں نے اس کو دودھ پلانا چاہا مگر دو سال تک ایک بھی دن اس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے دودھ نہ پیا۔ فرماتی ہیں: جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سواری پر بٹھایا توسواری لاغر تھی۔ آپ کے بیٹھنے سے تندرست و توانا ہوگئی۔ اس کے تھنوں میں دودھ آگیا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر بستی پہنچی تو حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں بستی قحط زدہ تھی سبزہ نہ تھا، کھیت ویران تھے لیکن وہاں پہنچتے ہی ہماری کھیتیاں ہری بھری ہوگئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گھر لے کر گئیں۔ فرماتی ہیں: جس دن تک ہمارے کوٹھوں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رہے رب ذوالجلال کی عزت کی قسم! ان کمروں میں کبھی چراغ جلانے کی نوبت نہ آئی، نہ کوئی تکلیف آئی، ہمارے مقد بدل گئے۔
اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بچپن سے گزرے پھر لڑکپن و جوانی سے گزرے پھر بھرپور جوانی کا وقت آگیا۔ پھر اعلان نبوت ہوا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ عظیم احسان انسانیت پر کیوں ہوا؟ اور اس ولادت کا مقصد کیا تھا؟ مقصد ولادت یہ تھا کہ انسانیت میں ایک بہت بڑا انقلاب لانا تھا۔ آقا علیہ السلام نے بعثت کے بعد اپنا پیغام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تک اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوری عالم انسانیت تک پہنچایا اور لوگوں کے دلوں میں ایمان کو داخل کیا اور جو جو لوگ اس ایمان سے بہرہ مند ہوئے ان کی فکرو سوچ بدل گئی۔ یہ تبدیلی کیسے آئی؟ وہ یہ ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایک بیٹا جو بدر کی جنگ تک ابھی مسلمان نہ ہوا تھا۔ بدر کا میدان ہے بیٹا تلوار ہاتھ میں لے کر والد کے خلاف لڑ رہا ہے (اور مسلمان ہوجانے کے بعد بیٹا عرض کرتا ہے) ابا جان! بدر کے دن جب میں کافر تھا اور آپ سے لڑرہا تھا دو مرتبہ آپکی گردن میری تلوار کے نیچے آئی تھی اگر میں چاہتا تو ایک جھٹکے سے آپ کی گردن الگ کردیتا مگر دونوں بار میں نے آپ کو باپ سمجھ کر چھوڑ دیا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب یہ بات سنی تو جلال میں آگئے۔ فرمانے لگے بیٹے! تو نے دوبار مجھے باپ سمجھ کر چھوڑ دیا اس رب کی عزت کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تیری گردن ایک بار میری تلوار کے نیچے آجاتی خدا کی قسم! کبھی نہ چھوڑتا بلکہ تیرا سرقلم کردیتا۔
فرق کیا تھا ادھر کفر تھا ادھر ایمان آگیا تھا۔ جو لوگ نظریہ کفر پر لڑرہے تھے ان کے لئے باپ بیٹے کا خونی رشتہ مقدم تھا اور اپنا نظریہ موخر تھا اور جو ایمان کے لئے لڑرہے تھے ان کے لئے ایمان اور کفر کے رشتے کی اہمیت مقدم تھی اور باپ بیٹے کے رشتے کی اہمیت ثانوی تھی۔ ان کے لئے اسلام کی خاطر، ایمان کی خاطر، بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر اپنے بیٹے تک کا سرقلم کردینا ان مومنوں کے لئے آسان بن گیا تھا۔
اسی طرح روایت ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگو! لشکر اسلام کے لئے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔ مال و دولت لے آؤ اور لشکر اسلام پر خرچ کرو۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ گھر جاتے ہیں اور سوئی دھاگے اور کپڑوں تک جو کچھ گھر میں میسر تھا لاکر آقا علیہ السلام کے قدموں پر نچھاور کردیتے ہیں۔ آقا علیہ السلام نے پوچھا:
اے ابوبکر! گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ کر آئے ہو۔ فرمایا: آقا علیہ السلام گھر میں جو کچھ تھا وہ تو آپ کے قدموں پر لٹادیا ہے اور گھر والوں کے لئے اللہ اور اللہ کا رسول ہی کافی ہے۔
(جامع ترمذی، ابواب المناقب، ج: 5، ص : 614)
توجہ طلب بات یہ ہے کہ کہنا آسان ہے مگر عمل کرنا مشکل ہے۔ اب ہم میں سے کوئی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تو نہیں بن سکتا مگر ان کے بتائے ہوئے راستے کو دیکھ تو سکتا ہے ان کے طرز حیات کا اندازہ تو کرسکتا ہے کہ گھر کا سارا کچھ لٹادینا اور پلٹ کر پیچھے نہ دیکھنا کہ کیا چھوڑا ہے شام کے کھانے کے لئے بھی کچھ ہے یا پھر نہیں ہے۔ یہ قربانی دے دی۔ یہ قربانی ان کے لئے آسان کب بن گئی؟ جب ایمان اندر آگیا اور آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی قدر آگئی اور یہ بات سمجھ آگئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس لئے دنیا میں آئے کہ ہماری زندگیوں میں یہ تبدیلی پیدا کردیں اور ہم اس لئے ایمان پر لائے ہیں کہ اپنا تن من دھن، مال کا رشتہ، خون کا رشتہ، اولاد کا رشتہ، دنیا کا رشتہ، دنیا کی ہر محبت، ہر حرص، ہر لالچ، ہر رغبت، جب ایمان پکارے قربان کرنا آسان ہوجائے۔ یہ ذہنی، فکری اور قلبی تبدیلی تھی اس پختہ ایمان نے فکر کے پیمانے بدل دیئے تھے اور نوبت یہاں تک جاپہنچی۔
ایک رات جوان صحابی جس کی شادی ہوئی اور جوان صحابیہ جو دلہن ہے پہلی رات کی۔ دونوں آپس میں بیٹھے گفتگو کررہے تھے اچانک مدینہ کی گلی سے آواز آئی جوانو! آقا علیہ السلام نے جہاد کے لئے طلب فرمالیا ہے۔ آجاؤ۔ اس جوان صحابی نے جو دولہا تھا اپنی دلہن سے رخصت لے کر جانے لگا۔ دلہن نے پیچھے سے آواز دی اور پوچھا میرے سرتاج کہاں جارہے ہو؟ جواب دیا اپنے سرتاج کی بارگاہ میں جارہا ہوں۔ کہنے لگی آج کی رات گزار کر صبح چلے جانا قافلہ جہاد کے لئے صبح جائے گا۔ فرمانے لگے۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ صبح تک زندہ بھی رہوں یا نہ رہوں گا۔ میں اپنے آقا کی بارگاہ میں لبیک کہنے میں ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہیں کرنا چاہتا کیونکہ زندگی کا بھروسہ نہیں ہے۔ یہ فرماکر اٹھے اور چل پڑے اور فرمانے لگے دلہن اگر جہاد سے بچ کر واپس آگیا تو زندگی کے چند دن اکٹھے گزارلیں گے اگر شہید ہوگیا تو حوض کوثر پر ملاقات ہوگی۔ یہ کیسے کہہ دیا کہ حوض کوثر پر ملاقات ہوگی؟ کیونکہ بن دیکھے ایمان لایا ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے:
يومنون بالغيب.
(البقرة : 3)
’’(مومن وہ ہیں جو)غیب پر ایمان لاتے ہیں‘‘۔
اس کے ایمان کی حالت دیکھیں کہ نہ ابھی مرے ہیں نہ دوبارہ جی کر اٹھے ہیں نہ قیامت بپا ہوئی ہے مگر کہہ رہے ہیں حوض کوثر پر ملاقات ہوگی جیسے آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوستو! جس شے پر ایمان لائیں اس پر یقین اتنا پختہ ہوجائے کہ آنکھوں دیکھی چیز پر شک ہوجائے مگر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بتائی ہوئی ان دیکھی چیز پر شک نہ ہو اور ایمان کا معنی یہ تھا کہ جب بن دیکھے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتادیا کہ لوگو! آخرت دنیا سے بہتر ہے، آخرت کا سودا دنیا کے سودے سے بہتر ہے، اللہ کا قرب دنیا کی نعمتوں سے بہتر ہے، مولا کی جزا دنیا کی نعمتوں سے بہتر ہے۔ جب آقا نے فرمادیا لوگو! دنیا کماتے رہو مگر اسے جمع کرنے سے اللہ کی راہ میں خرچ کردینا زیادہ بہتر ہے۔ ارے جان کو سنبھال سنبھال کر رکھنے والو! اس جان کو سنبھالنے سے اللہ کی راہ میں لٹادینا بہتر ہے۔ ارے دنیا کے حرص و لالچ میں مارے مارے پھرنے والو! حرص و لالچ کو لات مار دینا بہتر ہے۔ مولا کی طرف چل پڑنا اور اب دنیا کو دین پر قربان کردینا بہتر ہے۔ دنیا دکھائی دے رہی ہے آخرت اور دین کا مفاد دکھائی نہیں دے رہا۔ دنیا دست بدست سودا ہے۔ آخرت کا ادھار سودا ہے مگر ایمان یہ ہے کہ دست بدست سودا کردیا جائے اور مولا کا ادھار دیا ہوا سودا لے لیا جائے۔ یہ انقلاب آگیا تھا اس لئے انہوں نے نفس کی خواہشیں قربان کردیں، لذتیں قربان کردیں، دنیا کی راحتیں قربان کردیں، رشتے قربان کردیئے، کچھ بھی نہ رکھا بلکہ مولا نے جو مانگا وہی دے دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس شے کو طلب کیا وہی دے دیا اور قربان جائیں وہ دن اور وہ رات یاد کرو جب احد کے میدان سے صحابہ پلٹے ہیں۔ ( اس غزوہ میں70 صحابیوں کو شہید کردیا گیا تھا اور جو بچ گئے ان کا سر سے پاؤں تک جسم لہولہان ہے اور تیر اور تلواروں کے ساتھ چھلنی ہے۔ اٹھنے کی سکت نہیں، پٹیاں بندھی ہوئی ہیں۔ علاج نہیں ہوئے، زخموں سے خون رس رہے ہیں، مدینہ شہر میں رات کو پہنچے ہیں ابھی بستروں پر گرے ہیں۔ اٹھنے کی طاقت نہ تھی۔ احد میں تلواریں کھا کھا کر آئے تھے ابھی صبح نہ ہوئی تھی اس حال میں اچانک آقا علیہ السلام کی آواز آئی اور منادی ہوئی! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لوگو! اٹھو اہل مکہ نے حملے کا پھر سوچا ہے۔ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہیں قافلے کی صورت میں پھر لے جانا چاہتا ہے اپنی تلواریں اٹھالوا ور میرے ساتھ چل پڑو۔ قربان جائیں اسی وقت کسی نے زخموں کو نہ دیکھا۔ جسم کا چھلنی چھلنی ہونا نہ دیکھا۔ اپنے زخم بھول گئے اور مصطفی کی ندا پر لبیک کہہ کر چل پڑے۔ مولا کو ان کی اس قربانی کی آخری ادا اتنی پسند آئی کہ فرمایا: تم نے جو غلطی کی تھی اور احد کے میدان میں مورچے کو چھوڑا تھا جس کی وجہ سے مسلمانوں کو شکست ہوئی تھی اور میرے حبیب کے دندان شہید ہوئے تھے۔ میں تم سے بڑا ناراض تھا۔ تمہاری اتنی بڑی خطاء تھی شاید میں کبھی بھی معاف نہ کرتا مگر اے زخمی صحابیو! میں نے تمہاری ساری خطائیں معاف کردیں۔
اس طرح زندگیوں کے معیار اور رخ بدل گئے۔ دوستو! لب لباب یہ نکلا کہ جو پیغام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لائے وہ پیغام قربانی کا پیغام ہے اور حق زندہ نہیں ہوسکتا جب تک قربانی نہ دی جائے۔ اگر قربانی دیئے بغیر حق کے زندہ ہونے کی کوئی صورت ہوتی تو آقا علیہ السلام وطن کی قربانی نہ دیتے، ہجرت نہ کرتے اور قربانی کے بغیر اگر کوئی صورت حق کے زندہ ہونے کی ہوتی تو امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے وطن کو نہ چھوڑتے اور اپنے خانوادے حتی کہ اپنی گردن کی قربانی نہ دیتے اور یہ کربلا آباد نہ ہوتا۔ قربانی ہی ایک راستہ ہے حق کو زندہ کرنے کا۔ اس شب میلاد پاک کا پیغام یہ ہے کہ قربانی کے بغیر اسلام کبھی زندہ نہ ہوا نہ ہوسکتا ہے۔ یہ قربانی اور جہاد مال میں، جان میں، عمل میں، نفس میں، علم میں ہوگا تب ہی حق زندہ ہوسکتا ہے اور اسلام کو سربلندی نصیب ہوسکتی ہے۔ اللہ رب العزت ہمارے حال پر لطف و کرم فرمائے اور آقا علیہ السلام کے نعلین پاک کے تصدق سے اپنے لطف و کرم کی خیرات سے نوازے۔ آمین