کوئی بھی تحریک ہو، وہ کارکنوں کے بغیر کچھ نہیں، تحریک کا نام کارکن ہیں اور کارکنوں کا نام، تحریک ہے۔ کارکنوں کا تحریک سے تعلق ایسے ہی ہے جیسے انسانی جسم میں خون کا ہے، خون رواں دواں رہے تو انسانی زندگی قائم رہتی ہے۔ خون رک جائے تو انسانی زندگی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
تحریک، فعال کارکن کا نام ہے
اسی طرح کارکن تحریک میں خون کی طرح ہر مختلف عہدوں اور ذمہ داریوں پر ہر وقت آتے جاتے رہیں اور ہر وقت ظاہر ہوتے رہیں اور ہر لمحہ رواں دواں رہیں، ہر کال پر لبیک کہتے رہیں، سرتا پائوں خون کی طرح یہ پوری تحریک میں نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے تک مختلف ذمہ داریوں اور عہدوں پر آتے رہیں تو تحریک، تحریک ہے، اگر نیچے سے چل کر سینے اور دل تک پہنچیں اور اس سے تنظیمی دماغ تک اوپر پہنچنا ان کے لئے منع ہوجائے تو تحریک اپنی موثریت کھونے لگتی ہے اور رفتہ رفتہ اپنی مقبولیت سے ہاتھ دھونے لگتی ہے اور اس کی دلی پذیرائی میں کمی آنے لگتی ہے، یوں کارکن تحریک کے حقیقی دل قائد کی قربت تک پہنچتا ہے لیکن اپنی صلاحیت و قابلیت کی بناء پر اوپر غیر اعلانیہ ’’بندش‘‘ کی بناء پر تنظیمی عہدہ تک پہنچ نہیں پاتا اور یوں تحریک کا بالائی عہدہ اور اوپر کا تنظیمی منصب چند کارکنوں کے نام ہو جاتا ہے۔
تنظیم میں عہدے کی اجارہ داری کا قیام
یوں وہ آہستہ آہستہ اسے عہدے پر طوالت اور اجارہ داری حاصل کرلیتے ہیں اور اس بناء پر اب اوپر کے تنظیمی دماغ و عہدہ تک پہنچنا عام کارکنوں کے لئے مشکل ہوجاتا ہے، اب اجارہ دار عہدیدار اس کے مختلف عذر تراشتا ہے۔ بسا اوقات ناتجربہ کاری کا طعنہ دیا جاتا ہے اور کبھی باصلاحیت افراد کے معدوم ہونے کا رونا رویا جاتا ہے اور کبھی افراد کے نہ ملنے کا بہانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی افراد تو ہیں مگر ان کے پاس وقت کے نہ ہونے کا افسانہ گھڑا جاتا ہے اور کبھی کوئی اس تنظیمی دماغ و عہدے تک آجاتا ہے تو پھر اپنی مرضی و خوشی سے جاتا ہی نہیں اور اس کی ساری تنظیمی کاوشوں کا اپنی تنظیمی ذمہ داریوں کے دوران مرکزی نکتہ یہ ہوتا ہے کہ میرا تنظیمی جال ایسے پھیلے کوئی مجھے اس کی مرکزیت سے دور نہ کرسکے اور ہر جگہ سے مخصوص افراد کی رائے میں ’’میرا میرا‘‘، ’’میں میں‘‘ اور ’’میں ہوں میں ہوں‘‘ حتی کہ اس عہدے کی ’’جان‘‘، ’’میں ہوں‘‘ اور اس عہدے کی پہچان ’’میں ہوں‘‘ اور ہر کوئی بولے تو فقط میرا ہی نام بولے اور ہر بار جو بھی طریق انتخاب ہو فقط میرا ہی انتخاب ہو۔
پرانے چہروں کو تاریخی چہرہ بنایا جائے
ایسی سوچ کے حامل پرانے چہرے، ہر سطح پر خواہ وہ ٹائون کی تنظیم میں ہوں، یا تحصیل کی تنظیم میں ہوں۔ ضلع کی تنظیم میں ہوں یا صوبے کی تنظیم میں ہوں۔ حتی مرکز کی، مرکزی تنظیم میں ہوں۔ یہ اس قابل ہیں کہ ان کو اب تحریک کا موجودہ اور عصری نہیں بلکہ تاریخی چہرہ بنادیا جائے۔ ان کے تاریخی چہرے سے جو کہ اب پرانا چہرہ ہوچکا ہے۔ اس تحریک کے نئے چہرے کو ان کے تجربات سے مستفید کرایا جائے مگر اس صورت میں کہ یہ Exective Seat پر نہ ہوں بلکہ Advisory Seat پر ہوں۔ ان کی حیثیت روزانہ کی عملی اور معمولاتی نہ ہو بلکہ مشاورتی ہو۔
بلاشبہ یہ تحریک کا اثاثہ تو ہیں، تحریک نے ان کو ایک عرصے تک اپنی پہچان دی ہے۔ یہ تحریک کی پہچان میں ڈھلے ہیں، بس جس قدر یہ تحریک میں آئے ہیں اور جتنی تحریک ان میں آئی ہے اور جتنا ان کے قول و عمل سے فکر قائد، ظاہر ہوئی ہے اور ہورہی ہے اس سے ضرور استفادہ کیا جائے۔ اس لئے کہ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں۔ نئے چہرے وہاں سے اپنا سفر شروع کریں جہاں سے پرانے چہرے والوں نے سفر ختم کیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ نئے چہرے والے پھر سے واپس پلٹ کر اپنے تجربات کے ذریعے یہاں تک پہنچیں تو پھر ان کی بھی رخصتی کا وقت آجائے۔ اس صورت حال میں چہرے تو بدلتے رہیں گے مگر تحریک ایک ہی جگہ کھڑی رہے گی۔
تنظیمی عہدے کی مدت دو سال ہو
اس لئے نئے چہرے پرانے چہروں سے مشاورت ضرور کریں۔ ان کے تجربات سے فائدہ لازمی اٹھائیں، جو تجربات ہوچکے ہیں ان سے آگے بڑھیں ان کا آگے بڑھنا ہی تحریک کا آگے بڑھنا ہوگا۔ تحریک کا تنظیمی عہدیدار کا دستور یہ ہو کہ دو سال کے لئے منتخب ہو یا مزید اور دو سال کے لئے منتخب ہو مسلسل چار سال کے بعد کسی کو تنظیمی عہدے پر نہ رہنے دیا جائے۔ اس کے بعد وہ کسی اور ذمہ داری کا انتخاب کرکے اس سے تنظیم کو ترقی ملے گی وگرنہ تنظیم اجارہ داری کا شکار ہوگی جس کا نتیجہ تباہی ہے ترقی ہرگز نہیں۔
تنظیمی عہدہ ملازمت نہیں
پرانے تحریکی چہرے یہ بات ذہن نشین کریں کہ تحریک میں ہر شعبہ ملازمت ہوسکتا ہے مگر تنظیمی شعبہ ملازمت نہیں۔ اس شعبے میں جس قدر نئے افراد آتے رہیں گے تحریک آگے بڑھے گی مگر اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پرانے چہروں کو بالکل رخصت کردیا جائے بلکہ ان میں سے معتدل اور صائب سوچ رکھنے والے چہروں کو مشاورتی عمل میں شریک کیا جائے۔ ان کو عزت و تکریم دی جائے، ان کو عضو معطل نہ بنایا جائے ان کو تحریک سے لاتعلق نہ کیا جائے۔ حتی کہ ان کو کسی نہ کسی دوسرے شعبے میں منتقل کیا جائے ان کے دیرینہ تحریکی تعلق اور ملازمت کی حفاظت بھی ہو اور تحریک میں ان کی خدمت کے احساس کا پاس اور عزت بھی ہو۔ میری دانست میں ایک بات مسلمہ ہونی چاہئے ان پرانے چہروں کو ضائع نہ کیا جائے سوائے اس کے جو خود ضائع ہونے کے لئے آمادہ ہو۔
تحریکی کارکن انمول ہے
اس لئے تحریک کا سب سے بڑا اثاثہ، کارکن ہیں۔ تحریک کے بقیہ سارے اثاثے، شاندار عمارات، عمدہ دفاتر، عالیشان ادارے، سنٹرز، سب بعد میں ہیں۔ یہ سب چیزیں لاکھوں، کروڑوں اور اربوں کی کیوں نہ ہوں مگر تحریکی کارکن انمول ہے۔ ہر چیز کی قیمت ہوسکتی ہے تحریکی کارکن، قیمت کے تصور سے ہی بالا ہے بلکہ کارکن کے لئے قیمت کا لفظ ہی قابل توہین ہے۔ اس لئے یہ تحریک کا انمول اثاثہ ہے اسے قائد نے اپنے فکرو نظریے سے پالا ہے۔ اس کے فکرو عمل کو اپنے خون جگر سے سینچا ہے۔ اس کو اپنی زبان دی ہے، اس کو اپنا دل دیا ہے، اس کو اپنی سوچ دی ہے اور اس کو اپنا قول اور عمل دیا ہے اور اس کو اپنی سیرت و کردار دیا ہے۔ تحریک کے سارے ادارے قائد ہی کی تعمیر ہیں مگر عظیم قائد نے سب سے زیادہ وقت اپنے کارکن کی تعمیر پر صرف کیا ہے۔ اس لئے تحریک کی تعمیرات میں، تحریک کے اداروں میں، تحریک کے شعبوں میں، تحریک کے دفتروں میں، سب سے قیمتی چیز کارکن ہے۔
تحریکی کارکن سب سے زیادہ مستحق عزت ہے
اس لئے پوری تحریک میں سب سے زیادہ عزت ایک کارکن کی ہونی چاہئے جو عہدیدار خواہ وہ کسی بھی سطح کا ہو حتی کہ مرکز کا ناظم اعلیٰ یا امیر تحریک ہو اگر کارکن کی عزت نہیں کرتا تو وہ اخلاقی طور پر اس عہدے پر رہنے کا مجاز نہیں۔اس لئے کارکنوں کو عزت دینا خود قائد کو عزت دینا ہے، کارکنوں کی فلاح کا سوچنا اور انہیں ہر طرح کی آسائش دینا اور ان کی ہر طرح سے خیر خواہی کرنا تحریک میں نئی جان ڈالنا ہے۔ اس لئے تحریک کارکنوں کے بغیر نہیں اور کارکن تحریک کے بغیر نہیں۔
قائد تحریک کی روح ہے
پھر یہ دونوں تحریک اور کارکن مل کر بھی کچھ نہیں اگر ان کے پاس عظیم قائد نہیں، تحریک میں قائد کی حیثیت اس طرح ہے جیسے پورے جسم میں دل کو ہے اور دماغ کو ہے قائد تحریک فیصلہ کن دماغ ہے اور تحریک میں خیرات و حسنات کا سرچشمہ و منبع دل کا مقام رکھتا ہے۔ باری تعالیٰ حضور غوث الاعظم کے اس فیض کو جو کہ بصورت حضور شیخ الاسلام جاری و ساری ہے۔ باری تعالیٰ اس فیض کو دوام عطا فرمائے اور ہمارے عظیم قائد کو صحت و سلامتی عطا فرمائے۔ آمین