خدمت دین کی توفیق محض اللہ رب العزت کے فضل و کرم اور اس کے احسان کی وجہ سے ہی نصیب ہوتی ہے۔ جس شخص سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے اسے اپنے دین کے لیے منتخب فرمالیتا ہے۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ ہر نیکی کی توفیق اللہ رب العزت ہی عطا فرماتا ہے ورنہ از خود کوئی فرد کسی نیک کام کرنے کا مختار نہیں لہذا ہر وہ شخص جو اللہ کی رضا کی خاطر اس کے دین کے استحکام اور اس کی اقامت و احیاء کے لیے تگ و دو اور مجاہدہ کرتا ہے اسے یہ توفیق و صلاحیت بھی صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ کسی کو اپنے دین کی خدمت سونپ دے تو یہ مت سمجھا جائے کہ اس اُس کا ذاتی کمال ہے۔ نہیں بلکہ یہ فقط اللہ کا کرم ہے وہ چاہے تو ابوجہل اور ابولہب جیسے قریشی سرداروں کو دھکے دے کر اپنی بارگاہ سے بے دین اور کافر کرکے نکال دے اور چاہے تو حبشہ سے ایک سیاہ فام غلام بلالؓ کو اٹھا کر امت کا سردار بنادے وہ چاہے تو منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی کو جہنم رسید کردے اور چاہے تو فارس سے حضرت سلمان فارسیؓ کو لاکر مدینہ کے صحابہؓ میں اعلیٰ مقام عطا فرمادے۔ یہ فقط نگاہ لطف کے کرشمے ہیں اور چناؤ کی بات ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَللهُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْهِ مَنْ یَّشَآءُ وَیَهْدِیْٓ اِلَیْهِ مَنْ یُّنِیْبُ.
’’اللہ جسے (خود) چاہتا ہے اپنے حضور میں (قربِ خاص کے لیے) منتخب فرما لیتا ہے اور اپنی طرف (آنے کی) راہ دکھا دیتا ہے (ہر) اس شخص کو جو (اللہ کی طرف) قلبی رجوع کرتا ہے۔‘‘
(الشوریٰ، 42: 13)
لہذا یہ حقیقت پختگی کے ساتھ ذہن نشین کرائی گئی کہ کسی بھی شخص کی کوششوں اور شبانہ روز محنتوں سے اگر دین کو تقویت ملے وہ جہاں بھی اللہ کا پیغام لے کر پہنچے اس کے ذہن میں کبھی یہ خیال نہ آئے کہ اللہ تعالیٰ کا دین (نعوذ باللہ) میری اس کوشش کا محتاج ہے یا میں اگر نہ رہا تو شاید یہ کام رک جائے اس آیت میں فرمایا: ’’نہیں، نادان اگر تو یہ سوچتا ہے تو تیری نادانی ہے بلکہ میرا دین کبھی کسی شخص، مخصوص طبقے یا جماعت کی کوششوں کا محتاج نہیں ہوتا۔ میں جب چاہوں اور جس کو چاہوں توفیق عطا کردوں۔ تم اگر آج میرے دین کی خدمت سے کنارہ کشی اختیار کرلو گے تو اس سے میرے دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا البتہ تمہارا اپنا دنیوی و اخروی خسارہ ضرور ہوگا۔ میں چاہوں تو تمہارے کام چھوڑنے سے پہلے تم سے بہتر افراد پر مشتمل جماعت اس کام پر مامور کردوں۔
تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے منہاج القرآن ویمن لیگ خواتین کا ایک ایسا شعبہ ہے جو اس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں خدمت دین کے لیے مربوط اور منظم نیٹ ورک رکھتی ہے۔ گزشتہ 31 سال سے منہاج القرآن ویمن لیگ علمی و عملی جدوجہد کے ذریعے مصطفوی مشن کا پیغام خواتین معاشرہ تک پہنچارہی ہے۔ خدمت دین اور دینی استحکام کے لیے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پوری دنیا میں تنظیمی نیٹ ورک قائم کیا جس کے درج ذیل مقاصد ہیں۔
- دعوت و تبلیغ کا ایسا مربوط نظام قائم کرنا جس سے دین کو معاشرے میں بطور نظام حیات متعارف کروایا جائے تاکہ دین مبین سے دوری کا خاتمہ ہوسکے اور خواتین کے کردار کی تشکیل ممکن ہوسکے۔ خواتین معاشرہ میں حقوق و فرائض کی ادائیگی کا شعور بھی پیدا کیا جاسکے تاکہ اصول مواخات و مساوات پر مبنی مثالی معاشرہ قائم ہوسکے۔
- اقامت دین کے لیے عوامی شعور کو بیدار کرنا اور عملی تڑپ پیدا کرنا تاکہ قوم میں دینی غیرت و حمیت اور قومی و ملی جذبہ حریت پیدا ہوسکے خواتین کو بطور انسان، شہری اور امتی معاشرہ کی تشکیل میں اپنا عملی کردار ادا کرنے کے لیے تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم پر متحد ہونے کی ترغیب دینا۔
خدمت دین میں تنظیمی استحکام کی اہمیت
تنظیم مختلف افراد کو جمع کرکے ایسا مجموعہ بناتی ہے جن کے ذریعے وہ کام کیا جاسکے جو ہر فرد الگ الگ نہیں کرسکتا۔ نیز اس کے اندر اتنی قوت پیدا کرتی ہے جو صرف افراد کے مجموعے سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ تنظیم ایک جمع ایک کرکے صرف دو نہیں بناتی بلکہ گیارہ بناتی ہے۔ یہ صرف صلاحیتوں کو جمع نہیں کرتی بلکہ ان کو ملٹی پلائی کرتی ہے۔ ان کے اندر کئی گنا اضافہ کرتی ہے۔ یہ وہ کام ہے جو ایک تنظیم ہی کرسکتی ہے اگر چند افراد مل کر بھی کوئی کام سرانجام نہ دے سکیں اور دس افراد کی مجموعی قوت بھی پانچ یا دس افراد کے برابر رہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تنظیم غیر موثر اور غیر فعال ہے۔ جتنی پیش رفت مقصد کی طرف اور جتنی تیزی کے ساتھ ہو اتنی ہی تنظیم موثر ہوگی۔
تنظیم کو محض اس کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے قائم نہ کیا جائے بلکہ تنظیم کو مقصد کے حصول کا ذریعہ ہونا چاہئے۔ بسا اوقات تنظیمات جب پھیلنا شروع ہوتی ہیں تو وہ خود اپنی ہی جگہ پر مقصد بنانا شروع ہوجاتی ہیں اور یہ تصور ایک تنظیم کو جمود کی طرف لے جانے کا سبب بن جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں وہ صلاحیت، محنت اور وقت جو مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے لگنا چاہئے تھا اس کا بیشتر حصہ تنظیم کو برقرار رکھنے کے لیے لگتا ہے۔ اگرچہ وسائل ناگزیر تقاضا ضرور ہیں مگر یہ اصل مقصد نہیں ہیں اور اگر یہ ایک حد سے بڑھ جائے تو تنظیم کی تاثیر کے اثر و نفوذ میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے۔
تنظیم کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے منظم اصول ہوتے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
- تنظیم کی توجہ اور ترجیح فقط استحکام پر مرکوز رہنی چاہئے تنظیم مستحکم ہوگی تو ورکنگ کو ایک سمت مہیا ہوگی وگرنہ تنظیمی سٹرکچر میں ٹوٹ پھوٹ غیر یقینی صورتحال کو جنم دیتی ہے اور اہداف کے حصول میں یکسوئی، تسلسل اور نتیجہ خیزی برقرار نہیں رہتی۔ یکسوئی کے بغیر دعوت و تربیت، اصلاحی و فلاحی کام تنظیم پر منتج نہیں ہوتے۔ یکسوئی سے اپنے عمل کو جاری رکھنا اور اصل کام پر توجہ مرکوز کرنا تنظیمی زندگی کا حسن ہے۔
- ورکنگ کو گذشتہ سے پیوستہ رکھنا اور تسلسل برقرار رکھنا تنظیمی نتائج کے لیے دوسرا سنہری اصول ہے۔ ورکنگ میں تسلسل کی کمی نتیجہ خیزی پیدا نہیں کرتی۔ تسلسل سے مراد ہے ہر عمل کو ہدف سے جوڑنا ہر بات کو مشن کے پیغام سے بدلنا، ہر کام کو نیکی و تقویٰ کے فروغ کے لیے کرنا، تعلیم حاصل کرتے ہوئے، انفرادی و اجتماعی تمام ذمہ داریوں کی انجام دہی کو مشن کے پیغام و فروغ اور تنظیمی نتائج سے جوڑنے کا نام تسلسل ہے۔
- اہداف مقرر کرنے کے بعد ناقدانہ جائزہ لیں کہ آپ کی حکمت عملی سے کیا نتائج پیدا ہوئے ہیں۔ اگر وہ نتائج پیدا نہیں ہوئے جو آپ کی حکمت عملی کے نتیجے میں پیدا ہونا چاہئے تھا تو پھر آپ خود احتسابی کے ذریعے جائزہ لیں کہ کہیں آپ کی حکمت عملی تو غلط نہیں تھی۔ ناکامی کے اسباب کا کھوج لگائیں اور پھر اپنی حکمت عملی کو آگے بڑھائیں۔
- اہداف کو حاصل کرنے کے لیے وقت کا تعین کریں کہ اتنے عرصے میں کام کو اس سطح تک لے جانا ہے اگر مطلوبہ نتائج مقررہ وقت میں حاصل کرلیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہدف کے حصول کا تعین درست کیا تھا لیکن اگر نتائج وہ پیدا نہیں ہوئے تو خود احتسابی کے ذریعے کھوج لگائیں۔
منہاج القرآن ویمن لیگ کی تنظیمات بلاشبہ خدمت دین اور اصلاحِ احوال میں نمایاں کردار ادا کررہی ہیں۔ تحریک منہاج القرآن نے تنظیمی استحکام پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے وژن 2025ء کے تناظر میں مثالی تنظیمات کا تصور دیا ہے۔