اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ.
’’اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر۔‘‘
(التوبة، 2: 228)
اس آیت کریمہ نے اسلامی معاشرے کے کردار کا متعین کردیا ہے۔ کردار دو چیزوں سے عبارت ہوتا ہے، حقوق کیا اور فرائض کیا ہیں؟ دونوں کو اگر واضح طور پر متعین کرلیا جائے تو کردار سامنے آجاتا ہے۔
گویا حقوق و فرائض کا فلسفہ سمجھے بغیر نہ مرد کے کردار کو متین کرسکتے ہیں، نہ عورت کے کردار کو۔ حقوق و فرائض کے درمیان اسلام نے ایک نسبت قائم کی ہے۔ اسلام نے سوسائٹی میں دو افراد کو آپس میں ایک رشتے میں منسلک کرنے کے بعد اُن کے حقوق و فرائض کو ایک دوسرے سے ایسے پیوست کر دیا ہے کہ ایک کا حق دوسرے کا فرض بنا دیا ہے۔
مثلاً والدین کا حق ہے کہ اُن کی عزت کی جائے، اُن کا حکم مانا جائے، اُن کی تعظیم کی جائے اور یہ اولاد کا فرض ہے۔ اور اولاد کا حق ہے کہ اُن کی اچھی پرورش کی جائے، دیکھ بھال کی جائے اور جو اولاد کا حق ہے یہی والدین کا فرض ہے۔ حکمران کا حق ہے کہ نیک کاموں میں اُس کا حکم مانا جائے اور محکوم کا فرض ہے کہ اُس کے حکم کی اطاعت کرے۔ اب محکوم کا حق ہے کہ اُس کی ضروریات کی کفالت کی جائے، شوہر کا حق ہے کہ جائز امور میں اُس کے حکم کی تعمیل کی جائے اور اُس کے حقوق کی حفاظت کی جائے۔ اُس کی امانتوں کی حفاظت کی جائے، یہ شوہر کا حق ہے اور بیوی کا فرض ہے۔ بیوی کا حق ہے کہ اُس کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے۔
نظامِ معاشرت کی صالحیت، بہتری اور اِس کی کامیابی و کامرانی اِس بات پر منحصر ہے کہ ہر شخص اپنا فرض ادا کرتا ہوا نظر آئے اِس شان سے کہ وہ فرض ادا کرے اور دوسرے کا حق خودبخود ادا ہو جائے۔
اشتراکی اور سرمایادارانہ معاشروں کا فرق یہ ہے کہ وہاں تمام طبقات اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اِس کے برعکس اسلام کا نقطہ نظر حقوق کا مطالبہ کرنا نہیں ہے بلکہ دوسرے کا حق ادا کرنا ہے۔ اسلام یہ صورتحال گوارا ہی نہیں کرتا کہ کوئی شخص اپنا حق مانگے۔ پورا قرآن کسی مقام پر غریب سے یہ نہیں کہتا کہ تو اپنا حق مانگے، بلکہ ہر جگہ امیر سے کہتا ہے کہ وہ غریب کا حق دے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّهٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ.
(الاسرا، 17: 26)
رشتہ دار غریب ہے تو اُس کا حق دے، مسافر ہے تو اُس کا حق دے، مسکین ہے تو اُس کا حق دے۔ حضور علیہ السلام کے عطا کردہ دین اور بنی اسرائیل کے ہاں سنتِ انبیاء میں فرق یہ تھا کہ پہلے انبیاء حق دینے کے لیے بلاتے تھے۔ حضرت موسی علیہ السلام نے جب حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹوں کو پانی بھر کر دیا اُنہوں نے جا کر اپنے والد گرامی حضرت شعیب علیہ السلام سے کہا کہ فلاں شخص نے بھیڑ دیکھ کر ہم پر مہربانی کی اور ہمارے جانوروں کے لیے پانی بھر دیا۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی بیٹی کو بھیجا، اُنہوں نے جا کر کہا اے حضرت موسی! آئیے، ہمارے والد آپ کو بلاتے ہیں۔
اَجْرَ مَا سَقَیْتَ لَنَا.
(القصص، 28: 25)
جو آپ نے پانی ہمارے لیے بھرا اُس کا اجر آپ کو دیں تو حضرت شعیب علیہ السلام کی سنت یہ ہے کہ جس کا حق ہے اُسے بلا کر دیا جائے تا کہ اُسے مانگنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ لیکن سنتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ہے کہ جس کا حق ہے اُسے بلا کر نہ دیا جائے بلکہ اُس کے ہاں جا کر دیا جائے، حضور علیہ السلام نے فرمایا: مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اُس کی مزدوری دے دو۔ یہ نہیں کہ وہ مانگے۔گویا حقوق کے مطالبے کی صورت حال جو سوسائٹی میں پیدا ہوتی ہے وہ اسلامک سوسائٹی نہیں کہلاتی۔
تین الفاظ بیان ہوتے ہیں انصاف، عدل اور احسان۔ انصاف یہ ہے کہ دو کو برابر دیا جائے۔ یعنی اگر 100 روپے ہیں اور اُن میں سے کسی کو 75 کی ضرورت ہے، دوسرے کو اپنی ضروریات کے حوالے سے 25 درکار ہیں تو انصاف یہ ہے کہ 75 اور 25 نہ دئیے جائیں بلکہ دونوں کو پچاس پچاس دیا جائے، اسے انصاف کہتے ہیں۔
یہ تصور مغرب کی سوسائٹی نے دیا ہے۔ اسلام انصاف کی بجائے عدل پہ یقین کرتا ہے۔ عدل یہ ہے ہر کسی کو اتنا دیا جائے کہ اُس کی ضرورتوں کی کفالت ہو جائے۔ مثلاً جسے 75 درکار ہیں اُسے 75 دئیے جائیں، جسے 25 درکار ہیں اُسے 25 دئیے جائیں۔ اِس لیے اللہ پاک نے قرآن مجید میں فرمایا:
اِنَّ اﷲَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ.
(النحل، 16: 90)
اسلام کے ہاں عمل کا کمتر درجہ یہ ہے کہ عمل کو عدل کے درجے پر کھڑا کیا جائے۔ کہ جو آپ کا حق ہے وہ آپ کو دیا جائے جو دوسرے کا حق ہے وہ دوسرے کو دیا جائے۔ یہ تو عمل کا کم تر درجہ ہے لیکن اسلام مرد و زن کے رشتے کے معاملات میں عمل کو عدل کی سطح پر نہیں بلکہ احسان کی سطح پر دیکھنا چاہتا ہے۔ انصاف میں حق تلفی ممکن تھی لیکن عدل میں حق تلفی ممکن نہیں ہے۔ عدل میں ہر شخص کو اُس کے حق کے مطابق مل جائے گا مگر اسلام کے نزدیک یہ اخلاق اور عمل کی کم تر حالت ہے اور اعلی حالت یہ ہے کہ احسان کیا جائے۔
اور احسان کی تعریف یہ ہے کہ اپنے حق سے کم رکھا جائے اور دوسرے کے حق سے زیادہ اُسے دیا جائے۔ جب زاویہ نگاہ سوسائٹی میں عدل کے بجائے احسان کا ہو جاتا تو کوئی شخص سڑکوں پر باہر نکلتا ہوا نظر نہیں آتا۔ کوئی شخص روتا نظر نہیں آتا، حق تلفی کے شکایت کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ سو ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ ہم اسلام کی اصل تعلیمات سے دور جا چکے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کا ایک طویل زمانہ ہندو سوسائٹی کے ساتھ گزرا، جس کی وجہ سے ہندو تصورات ہماری سوسائٹی میں آگئے ہیں۔ عورت کو نیچ سمجھنا ہندوانہ تصور ہے۔
بعض گھرانوں میں تو عورتوں کو عزت کے لائق ہی نہیں سمجھا جاتا۔ یہ سب کچھ، قدیم عیسائیت یا ہندو تصورات کی پرورش کا نتیجہ ہے۔ اسلام نے عورت کو اس قدر معزز، محترم، مقرب اور معظم مقام عطا کیا کہ اس مقام کی عظمت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ عورت بے شک چار ہی درجات اور مرحلوں سے گزرتی، پہلا درجہ عورت کی پرورش کا بطور بیٹی ہے، پھر وہ بہن ہے، پھر وہ بیوی ہے، پھر وہ ماں ہے۔ اسلام کے زاویہ نگاہ سے عورت کو ہر سطح پر ایک عظیم انسان نظر آتی ہے۔
اگر بطور بیٹی کے عورت کے مقام کو متعین کرنا ہے تو سنت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھیں۔ کہ جس آقائے دو جہاں کی بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرا اپنے ابا جان سے ملنے کے لیے آتی ہے تو آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو جاتے اور اپنی چادر بچھا دیتے اپنی بیٹی کو بیٹھنے کے لیے کہتے اور شفقت سے اُن کا سر چوم لیتے۔
حضور علیہ السلام نے فقط اپنی نجی حیثیت میں اپنی بیٹی کے ساتھ پیار کا مظاہرہ ہی نہیں بلکہ امت کے ہر فرد و بیٹی کے ساتھ حسن سلوک کا سبق دیا ہے۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کہ جس شخص نے دو بچیوں کو، دو بیٹیوں کو پالا، اُس کو جنت کی ضمانت عطا کرتا ہوں، یہ تو بطور بیٹی کے عورت کا مقام ہے۔ بہن کے وہ تمام تر حقوق ہیں، اِس پر دلیل اور سند آیت المواریث میں جو حق ایک بیٹی یا دو بیٹیوں کا بنتا ہے جب بیٹیاں موجود نہ ہوں تو وہی حق بہنوں کا بنتا ہے۔ اس آیت کریمہ کے حکم سے پتہ چلا کہ بہن بیٹی ہی کے قائم مقام ہوتی ہے عورت کو جب بیوی کے روپ میں دیکھتے ہیں، اِس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام نے انتظاماً، انصراماً مرد کو درجہ عورت سے بلند عطا کیا ہے، لیکن قرآن کا ارشاد:
وَلِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ.
(البقرة، 2: 228)
اس کا معنی یہ ہر گزنہیں کہ مردوں کے مقابلے میں عورت نیچ اور گھٹیا مخلوق ہے۔ یہ تصور اسلام کا نہیں۔
اِس آیت کا معنی یہ ہے کہ مردوں کے لیے جو حقوق ہیں اُسی طرح کے عورتوں کو بھی حقوق اُن کے حسبِ حال حاصل ہیں اور مردوں کے جو فرائض ہیں اُسی طرح کے فرائض عورتوں کے لیے اُن کے حسبِ حال ہیں۔ موازنہ میں اللہ نے مردوں کو ایک گنا اوپر فضیلت دی۔ اور فضیلت کیوں دی؟
اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ ﷲُ بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍ.
(النساء، 4: 34)
اِس لیے فضیلت دی کہ عورتوں کے تمام تر ضروریا ت و حاجات کی کفالت کا انتظام مردوں کے سپرد ہے۔ گویا یہ عورت کو privilege دیا ہے۔ اِس آیت کریمہ نے عورت کو کمانے سے نہیں روکا، عورت کو آزادی دی ہے اپنی عزت و عفت کی حدود کے تعین کے ساتھ آزادی دی ہے مگر ذمہ داری مرد کے سر ٹھہرائی ہے۔
اسلام عورت کو معاشرے میں عضوِ معطل بنا کر ایک جگہ نہیں رکھ دینا چاہتا بلکہ عورت کے اوپر پورے معاشرے کے کردار کی تشکیل کی ذمہ داری دیتا ہے۔ عورت اپنی ذات میں انجمن ہے۔ اپنی ذات میں مدرسہ، مکتب، کالج، یونیورسٹی ہے۔ اِس لیے کہ ہر مرد اِسی گود سے پَل کر نکلتا ہے۔ سوسائٹی کا ہر مرد وہ حاکم ہو یا محکوم، حسن مجتبیٰؓ ہے یا امام عالی مقام حسینؓ، وہ غوث اعظمؒ ہیں کوئی اور بلند درجے کی ہستی ہیں ہر فرد نے اسی عورت کی گود میں پرورش پائی ہے۔
اگر عورت کی گود کو تقدس نہیں دیا جائے گا تو پَل کر نکلنے والا کبھی مقدس نہیں ہو سکتا اِس لیے بیوی کے اعتبار سے جب ہم عورت کو دیکھتے ہیں تو حضور علیہ السلام نے بیوی کے لیے حسنِ سلوک کو مرد کا فرض قرار دیا۔ اور فرمایا: خیرکم خیرکم لإہلہ وأنا خیر لأہلی۔ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی بچوں سے بہتر ہے.
اپنے ہاتھوں سے حضور علیہ السلام ازواج مطہرات کے ساتھ گھروں کے کام کاج میں شرکت فرماتے، اُن کی معاونت فرماتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں: کہ ہر روز عصر کے بعد ہمارے مابین حضور علیہ السلام تشریف رکھتے اور ہمارے ساتھ مزاح کی بات بھی کرتے، ہماری دلجوئی کی بات بھی کرتے۔
اللہ نے سوسائٹی کے ہر مرد کی جنت کو کسی نہ کسی عورت کے قدموں سے منسلک کردیا، گویا بطور ماں کے اس کی قدرومنزلت کا یہ عالم صحابی پوچھتے ہیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ اوررسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ہم پر کس کا حق ہے؟
اللہ اور رسول کے بعد تین گنا حق ماں کا قرار دیا ہے اور چوتھا حق باپ کا ہے، اس سے بڑھ کر ایک عورت کی عظمت کا تصور کسی سوسائٹی میں اور کیا ہو سکتاہے اور اگر اس حدیث کا خطاب ماںسے ہو کہ پھر ماںکوجنجھوڑ جا رہاہے، اسے خواب غفلت سے بیدار کیا جار ہاہے، کہ ماؤں سنو، تمہاری اولاد کی جنت خود تمہارے قدموں کے نیچے ہے، چاہو تو ان کی ایسی تربیت کرو کہ جنت تک پہنچا دو، چاہو تو ایسی پرورش کرو کہ دوزخ تک پہنچا دو۔
اگر بچے بدتمیزی کریں تو انھیں یہ تو سناتی ہیںکہ تمہاری جنت میرے قدموںکے نیچے ہے۔ کاش! آج کی ماں یہ نہیں سوچتی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اولادکی جنت اے ماں تیرے قدموں کے نیچے رکھی ہے۔ گویا تجھے ذمہ داری دی جارہی ہے کہ ماں اگر تیری اولاد دوزخ میں جاتی ہے ذمہ دار توہے، اس کی جنت تو تیرے قدم کے نیچے تھی اس کے باوجود لائق دوزخ کیوں بن گی۔ ماں کی گود کی تربیت بیان کی اور وہ مائیںجو بچپن سے اولاد کی اس طرح تربیت کرتی ہیں تو پھر جنت کی حق دار ٹھہرتی ہیں۔
حضرت فریدالدین گنج شکر بابافرید ؒابھی اپنی والدہ کے بطن میں تھے۔ ان کی والدہ محترمہ بہت عابدہ، زاہدہ، متقی خاتون تھیں، انہوں نے کبھی ناجائز کے کسی کا مال نہیں کھایا تھا، ایک روز انھیں حاجت ہوئی وہ باہر تشریف لے گئی، کچھ بھوک کی شدت تھی، بیر کا درخت تھا، دو چار دانے بیر کے گرے ہوئے پائے اور مالک کا پتہ نہیں تھا کہ کون ہے۔ وہ بیر کے دو تین دانے اٹھا کے کھانے لگی، ابھی ان کا ہاتھ منہ کے قریب نہ پہنچا تھا، پیٹ میں موجود بچے نے اتنی تیزی سے حرکت کی کہ بیر کے دانے گر گے اور کھانہ سکیں، پھر وہ بچہ حضرت بابا گنج شکر فرید کی شکل میں پیدا ہوا۔
حضرت فریدالدین گنج شکر ابھی نو دس سال کے بچے تھے ایک روز ماں گود میں لے کر کھلا رہی ہے اور والدہ فرمانی لگی فرید دیکھ جب تو میرے پیٹ میں تھا، تو میں کبھی ایک دانہ بھی ناجائز اپنے منہ کے قریب لانے کی کوشش نہیںکی اور میں نے عمر بھر تجھے حلال رزق مہیا کیاہے، اس پر وہ چھوٹا سا معصوم بچے حضرت بابا فرید مسکرا پڑا، کہنے لگا اماں جان آپ درست فرما رہی ہیں، لیکن ایک دن غلطی ہونے لگی تھی جب آپ بغیر اجازت کے کھا رہی تھیں۔
جب مائیں اس قدر احتیاط سے چلتی ہیںاور تقوی، پرہیزگاری کو اپناتی ہیں، ہمہ وقت باوضو رہتی ہیں اور قرآن کی تلاوت ہر وقت کرتی ہیں تو بیٹا پیدا ہوتے ہی اللہ کے قرآن کی تلاوت کرتاہے جب مائیں ایسی ہونا تو بیٹا بابا فرید ہوتاہے، تو بطور ماںکے آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ جب اولاد جونوان ہوجائے اور وہ آپ کے ادب واحترام کا خیال نہ رکھے، بڑھاپے میں آپ کا خیال نہ کریں، تو بوڑھی مائیں شکوہ کرتی نظر آتی ہیں، کہ ان کو ہوش تک نہیں کہ ماں کے حق کوپہچانیں، آج اپنے بیٹے کے کردار پر شکوہ کرنے سے پہلے اس کے بچپن میں اپنے کردار پر نظر ڈالنی تھی جب اس کو سنوارنا اس کی ذمہ داری تھی اس نے کس حد تک ذمہ دار کو نبھا یا۔ اعلیٰ سے اعلیٰ سکولوں میں اپنے بیٹے کو داخل کرنے کے لیے تو ماں پریشان نظر آتی ہے، لیکن قرآن کی تعلیم دینے کے لیے کونسی ماں ہے جو پریشان نظر آئے، ماں نے بتایا کب ہے اپنی اولاد کو کہ ماں باپ کے حقوق کیاہیں، جب پرورش کی ذمہ داری تم پر تھی تم نے فرض نہ نبھایا، جب ادب احترام کی ذمہ داری اولاد پر آئی انہوں نے بھی فرض نہیں نبھایا، تو معاملہ برابر ہوگیا۔ اس لیے ماں کا کردار سوسائٹی میں بڑا اہم ہے، عورت اپنے اعتبار سے پوری سوسائٹی کے کردار کو تبدیل کرتی ہے، سوسائٹی کا ہر مرد جب اس کی گود سے پرورش پاکر آتاہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ماں کا کردار سوسائٹی کے سارے مردوں کے اند ر نظر آتا ہے، یہ تو اس کی عائلی زندگی کا کردارہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے عورت کی دینی اورضروری تعلیم پر بھی پوری توجہ دی۔ فرمایا:
طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیضَةٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ.
( ابن ماجه، السنن، 1: 81، رقم : 224)
علم حاصل کرنا فرض ہے ہر مسلمان پر خواہ وہ مرد ہے خواہ وہ عورت ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو ہی صرف نہیں بلکہ اپنی صحابیات کو بھی تعلیم مرمت فرمائی۔ آج بعض ذہن اسلا م کے تصور کو فرسودہ بنانے کے لیے اور نئی نسل کو اسلام سے باغی اور متنفرکرنے کے لیے اس امر پر زور دے رہے ہیں کہ عورت کو تعلیم نہیں دینی چاہیے، اور عورت کے لیے تعلیم نہیں تاکہ وہ جاہل رہے، جاہل فرد سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری نبھائے گا۔ ایک جاہل جب اپنے فرض کو ہی نہیں سمجھ سکتا، اپنی ذمہ داری کو ہی نہیں جان سکتا، اس کو نبھائے گا کیسے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہفتے میں ایک دن خواتین کی تعلیم کے لیے مستقل طور پے مقرر کررکھا تھا، خواتین سوال کرتیں آقا دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جواب دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جانتے تھے کہ خواتین کی تعلیم و تربیت پر توجہ نہیں دی جائے گی تو پوری سوسائٹی کی تعلیم و تربیت کا اہتمام نہیں کیا جاسکتا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نصف دین کہا، آٹھ ہزارکے قریب صحابہ کرام حضرت عائشہ صدیقہؓ کے شاگرد تھے۔ اس قد ر حضرت ام المومنین کا مقام علم میں بلند تھا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا خود بہت بڑی عالمہ تھیں، آپ کی نظر قرآن، حدیث، فقہ صر ف ان علوم پر نہ تھی بلک ادب، انصاب، تاریخ کے علم کی ماہرہ تھیں، حتی کہ میڈیکل سائنس اور علم طب پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا گہری نظر تھی،
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابیات کی تعلیم کاباقاعدہ اہتمام فرمایا، اور قرآن مجید نے کہا :
قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْن.
کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں۔
(الزمر، 39: 9)
جب قر آن علم کی فضیلت بیان کرتاہے تو اس فضیلت میں عورت کو کسی سطح پر پیچھے نہیں رہنے دیتا یہی نیتجہ ہے کہ اس دور کی عورتیں سوسائٹی میں دینی اور فکری اعتبار سے، اپنا بھر پور کردار ادا کرتی تھیں، سماجی، معاشرتی، آئینی و دستوری اور سیاسی زندگی میں اہم امور میں عورتوں کے مشورے شامل ہوتے تھے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مابین جب حضرت عبدالرحمن بن عوف استصواب عام کروا رہے تھے۔
آپ نے مردوں کی طرح شانہ بشانہ عورتوں کو بھی رائے طلب کرنے میں شریک رکھا۔
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا دور حکومت تھا آپ عورت کے مہر کی حد مقر ر کرنا چاہتے ہیں، کہ چار سو درہم سے زیادہ مہر مقر ر نہ کیاجائے، جب آپ نے اس قانون کا اعلان فرمایا، تو صحابہ اور صحا بیات کے اجتماع میں سے ایک صحابیہ عورت کھڑی ہوئی اور پوچھنے لگی اے امیرالمومنین! جب اللہ نے ہمارے مہر پر حد مقر ر نہیں کی، تو آپ کو حق کس نے دیا کہ ہمارے مہر پر حد مقرر کریںاس دور کی عورتوں کا یہ اجتہاد یہ فہم وبصیرت اور علم کے اندر یہ آگہی و گہرائی کا عالم تھا، سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے پوچھا بہن آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ اللہ نے مہر پر حد مقر ر نہیں فرمائی، وہ صحابیہ عرض کرنے لگی امیر المومنین جب اللہ نے کہا:
ان اتیتم احداهن قنطارا من ذهب.
(عبدالرزق، المصنف، 1: 180، رقم: 10420)
اگر عورتوں کو ڈھیروں کا ڈھیر سونا بھی دے چکے ہو توخدا نہ کرے جدائی کی نوبت آئے تو ایک پائی بھی واپس نہ لو، وہ فرمانے لگے ادھر مال کو ڈھیروں کا ڈھیر کہا اللہ نے اس کا مطلب ہے اس پر کوئی حد نہیں جہاں تک بساط او ر استطاعت ہو مقر ر کیا جاسکتاہے، ان کی بات سن کر حضرت فاروق اعظم نے اپنی رائے واپس لے لی، اس سے پتہ چلتاہے کہ سماجی، معاشرتی، آئینی دستوری اور سیاسی زندگی میں، عورت کو اپنی حدود کے اندر قائم رہتے ہوئے سوسائٹی میں بھر پور مقام ادا کرناہے، اکتساب مال میں عورت کو محروم نہیں رکھا، اللہ رب العزت نے فرمایا:
لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْاط وَلِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ.
مرد کے لیے وہ حصہ ہے جو وہ کمائیں، اور عورتوں کے لیے حصہ ہے جو وہ کمائیں۔
(النساء، 4: 32)
حضرت خدیجہ الکبریؓ اپنے دورکی مالدار عورت تھیں، عرب کے سارے تاجروںکی دولت ایک طرف اور حضرت خدیجۃ الکبریؓ کا سارا مال اور تجارت ایک طرف اوراگران کا تجارت کرنا اور مال کمانا ناجائز ہوتا تو عورت کا مال تجارت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود لے کر شام کی منڈیوں تک نہ جاتے اور آقا دو جہاں کا تعلق بھی اسی بنیاد پر قائم ہوا، پھر جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسلام کا اعلان فر رہے تھے تو شروع دور میں دس گیارہ برس تک اسلام کی تبلیغ پر حضرت خدیجۃ الکبریؓ کا مال خرچ ہو رہا تھا۔
لہذا مرد اور عورتیں اسلام کے عطا کردہ اس کردار کوپہچانیںاور سوسائٹی میں اپنے کردار کو پہچانیں تاکہ ان کی عصمت و عفت بھی محفوظ رہے اور سوسائٹی میں ہر اعتبار سے صحت مندماحول پیدا کرسکیں، لیکن افسوس ہے ہم تو اپنے کردار کے تعین کے لیے نہ قرآن سے روشنی لینا چاہتے ہیں اور نہ سنت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہم نے تو اپناآئیڈیل مغرب کو بنا رکھا ہے اور افراط وتفریط کا شکار ہو گئے ہیں، یا عورت کو عضو معطل کرنا چاہتے ہیںیا اس کو سڑکوں پر لانا چاہتے ہیںاور جب عورت کی عصمت اور پردے کی با ت کی جاتی ہے تو یہ تصور دیا جاتا ہے کہ آخر عورت کو ضرورت کیا ہے کہ وہ باپردہ خاتون ہو، مغرب میں عورت پردہ نہیں کرتی۔
لیکن بات یہ ہے کہ یہ قدرومنزلت اللہ نے عورت کو عطاکی ہے، اسلام کی نظرمیں وہ مغرب عطانہیں کرسکتا ہے اورجو شے جتنی زیادہ قیمتی ہوتی ہے اس کی حفاظت کا اسی قدر زیادہ اہتمام کیا جاتاہے، جو چیز سٹرکوں پر عام پھینک دی جائے تو تاثر یہ ہوتاہے کہ شاید یہ چیز قیمتی نہیں ہے، پس عورت ایک متاع ہے، عورت ایک قیمت ہے، عورت ایک نایاب دولت ہے، جس کو ہر صورت اسلام عزت دینا چاہتا ہے، آج کادور اسلام کی نشاہ ثانیہ اور حیا ء کا دور ہے۔ اس دور میں نشاۃ ثانیہ کی جو ذمہ داری مردوں کے کندھوں کے ساتھ عورت پر عائد ہوتی ہے۔ فرض منصبی کو پہچانتے ہوئے اپنی اولادوں کی تربیت کریں، اپنے گھر کے ماحول کو سنواریں، اور ذمہ داری اس طرح نبھائے کہ احیاء اسلام کی اس تحریک میں برابر کردار ادا کرسکیں۔
بہت سی غلط رسوم، ذمہ داری عورت کی صوابدید پر ہیں وہ چاہے تو ان کا قلعہ قمعہ ہوسکتا ہے۔