اہل سلوک و طریقت کے لیے عقل اور شعور کی اہمیت اور ضرورت
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کائناتِ آفاق و انفس میں دنیائے ارضی (plant earth) اور مخلوقاتِ عالم میں انسان (human being) کو سب سے زیادہ خوبصورت بنایا۔ اللہ جل شانہ‘ حسن و جمال کو پسند فرماتا ہے۔ نبی محتشم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اکثر رب العالمین کے بارے فرماتے تھے، ’’ اللهُ جَمِيْلٌ و يُحِّبُ الجَمَالٌ‘‘ ( اللہ خود بھی حسین و جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔) اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے نور کے پر تو سے نور محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خلق فرمایااور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وجود پاک کے مسلسل انقسام سے آفاق و انفس پیدا فرمائے۔ (حدیث نور مصنف عبدالرزاق) پھر اللہ تعالیٰ دنیا کی جانب متوجہ ہُوااور اُس کی ہر چیز کو نہایت حسین پیدا فرمایا، دنیا کو حسین بنانے کی وجہ یہ تھی کہ محبوب خدا سر چشمہ، کائنات حسن صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی شان بشری کا جلوہ کرانے کچھ عرصہ دنیائے ارضی پر رہنا مقصود تھا۔ دنیا کی ہر مخلوق؛ جنّات، جمادات، نباتات اور حیوانات میں سے انسان کوسب سے بڑھ کر خوبصورت بنانے کا سبب بھی یہ تھا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے محبو ب مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انسانوں کی جنس کے درمیان رہ کر اُن کو نور ہدایت سے منور کرنا تھا۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کائنات میں خلافت الٰہیہ کی امانت کا بوجھ جب مخلوقات کی مختلف انواع کے سامنے رکھا تو کسی نے بھی اس بارِ امانت کو اٹھانے پر آمادگی ظاہر نہ کی کیونکہ وُہ امانتِ خلافت کی ذمہ داریوں کو بکمال و تمام سر انجام دینے کی صلاحیتوں سے محروم تھے۔ اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ نے پیدائش سے پہلے انسان کے خمیر میں خلافت کے انتظام اور انصرام کی صلاحیت رکھ دی تھی۔ جس کے اظہار کے لیے انسان نے عریضہ خدمت حضرت اقدس میں پیش کرنے کی جسارت کی۔ جناب اقدس جل شانہ‘ نے درخواست منظور فرمائی اور اس کو زمین کے لیے اپنا خلیفہ نامزد کر دیا۔
انسانی مادّہ میں اُنس کی خاصیت کی وجہ سے انسان کو فطری طور پر اپنے خالق سے محبت ہو گئی، خلیفہ کے انتخاب کے وقت اپنی والہانہ محبت کی تسکین اور قرب الہی کے لیے محض اللہ کو خوش کرنے کے لیے انسان نے امانتِ خلافت کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا نے کا ارادہ ظاہر کر دیا۔ یہ کون سا جذبہ تھا جس نے انسان کو اس حد تک اپنے آپ سے بیخود کر دیاکہ قرب الہی کے اشتیاق میں اس کے ذہن نارسا میں خلافت کی ذمہ داریوں کی تمام تر مشکلات کا علم و ادراک ہونے کے باوصف محبوب کے قرب و رضا کے حصول کے لیے اس نے اتنا بڑا قدم اٹھایا۔
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
انسان کی سرشت میں شہادت تھی وہ اس وقت بھی عالَمِ شہادت کی سر مستی میں گم تھا۔ اللہ کی شدید محبت نے اس کے حواس، عقل اور وجدان کو پوری طرح اپنی گرفت میں لیا تھا۔ اُس وقت اُس کے سامنے کسی قسم کے خدشات اور خطرات کی بجائے فقط مولا کے قرب و رضا کے حصول کی تمنا تھی۔ اُس کا ذہن مرضی کے تصور سے خالی تھا۔ اس عالم سر خوشی میں وہ صرف اللہ کی مرضی کی تکمیل کا خواہاں تھا۔ اللہ تعالیٰ اس کے مادّہ (matter) کے تمام اجزاء لا تجزٰی کا خالق و مالک تھا۔ اس کو انسان کے ظاہر و باطن کے ہر جز میں موجود خاصیتوں کا علم تھا۔ وُہ علیم و خبیر تھا۔ اُسے معلوم تھا کہ انفس کے اندر موجود نفسانی خواص نے دنیا میں اس سے کیا کچھ کرانا ہے۔ یہ وُہ وقت تھا جب اُس کے جذبہِ عشق کی کو دیکھ کر اللہ سبحانہ‘ و تعالیٰ نے اُس کو بڑی مان سے ظلوماً جہولا کہہ کر پکارا۔
میانِ عاشق و معشوق‘ رمز یست
کراماً کاتبین راہم خبر نیست
ازل سے ابد تک کائنات آب و گل میں موجود مخلوقات الہی انگشت بدنداں حضرت انسان کے عشق کی سرمستیاں دیکھتی رہیں گی۔ وہ بار بارظالم اور جاہل انسان کے جذبہ عشق و محبت کی سر خوشیوں پر حیران ہوتی رہیں گی۔ عالم افلاک میں خاکی انسان کی طرح طرح کی اڑانیں فرشتوں‘جنات اور اللہ کی نادیدہ مخلوقات کو مسلسل حیرت زدہ کرتی رہیں گی۔ اور انسان اللہ کی محبت میں سر شار اپنی آخری منزل کی جانب مسلسل بڑھتا جائے گا۔
متاع بے بہا ہے دردو سوز و آرزو مندی
مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی
حشر کے دن‘ اللہ کے شاہکار اول شافع محشر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان محمدیت و شافعیت اور جنت میں مومنین کا قطار اندر قطار داخل ہونے کا منظر فرشتوں کو ایکبار پھر اپنا پرانا نعرہ لگانے پر مجبور کرے گا۔
’’ قَالُوْا سُبْحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ط اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلَيْمُ الْحَکيْمُ o ‘‘
(البقرہ: 32)
( فرشتوں نے کہا تو پاک ہے۔ جتنا علم تو نے ہمیں بخشا ہے۔ اس کے سِوا ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ بے شک تو دانا (اور) حکمت والا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور ابلیس کو آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیافرشتوں نے حکم الہی پر بغیر کسی لیت و لعل کے عقل سے کام لے کر فوراً سجدہ کر دیا۔ ابلیس نے عقل سے منہ موڑا، تکبر اور غرورسے اُس کا شعلہ نارسہ آتشہ ہُوا، وُ ہ سجدہ سے انکاری ہوا۔ راندہ درگاہ ٹھہرا اور فتّور عقل اُس کو قرب الہی سے دورلے گیا۔ جن و ملائکہ کا یہ اپنا اپنا اندازبندگی تھا۔ آدم نے اللہ تعالیٰ کے سِوا کسی اور مخلوق کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہونا تھا۔ انسان کا سجدہ صرف اللہ کے لیے تھا اور ہمیشہ اسی کے لیے رہے گا۔ انسان سے بندگی کے علاوہ اطاعت، عبادت اور فرمانبرداری کا مطالبہ کر کے اللہ تعالیٰ کو گویااس طرح اس کا امتحان لینا مقصود تھا کہ ارادہ، عمل اور اختیار کی آزادی اُس کو کس حد تک اللہ تعالیٰ کے ساتھ قریب لائے گی اور کس قدر دُورکرے گی۔ محض آفاق و انفس کی پیدائش پر غور کرنے اورپیغمبروں کی دعوت پر بن دیکھے کون خدا کی ہستی کو تسلیم کریں گے، کون اس سے محبت کریں گے اور اس کی اطاعت میں اپنی جان، مال اور اولااد تک کو قربان کر دیں گے۔ وُہ جانثار کون ہوں گے جو کلمہ حق کی سر بلندی کے لیے خوشی خوشی جام شہادت نوش کر جائیں گے ہیں۔
مقامِ بندگی دیگر، مقام عاشقی دیگر
زنوری سجدہ می خواہی، زخاکی بیش ازاں خواہی
عالم امر میں عریضہ ملازمت پیش کرنے کی اس والہانہ ادا کو رب ذوالجلا ل نے پسند فرمایا، انسان کو ملازمت کا شرف بخشا اور اس کو بے شمار قوتیں عطا فرمائیں تا کہ عالم تمثال میں خلافت کی امانت کا بھا ری بوجھ اٹھانے میں اس کو کسی قسم کی دِقّت پیش نہ آئے۔ ظاہری اور باطنی حواس خمسہ کی قوتوںکے باہمی تعامل سے انسان کو عقل بھی عطاکی گئی۔ عقل کی وسعت سمندر جیسی ہے، وُہ پورے کائنات آفاق و انفس میں یکساں رواں دواں ہے۔ اور اللہ کا بہت بڑا عطیہ ہے۔ قران حکیم میں عقل اور فکر سے کام لینے کی بہت تاکید آئی ہے جو انسان عقل سے کام نہیں لیتے اُنہیں حیوانات سے بد تر قرار دیا گیا ہے اور ان کا مقام جہنم بتایا گیا ہے، سورہ الاعراف کی آیت نمبر 179 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’ اور ہم نے بہت سے جن اور انس کو جہنم کے لیے پیدا کیا ہے۔ (اس لیے کہ) ان کے دل ہیں لیکن اس سے وہ فکر نہیں کرتے، (قران اور حدیث پر غور نہیں کرتے کہ کسی نتیجہ پر پہنچیں) اور ان کی آنکھیں ہیں۔ لیکن ان سے وہ (اسوہ محمدی) کو نہیں دیکھتے (اور اس پر عمل نہیں کرتے) اور ان کے کان ہیں لیکن اس سے وہ (اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے احکامات اور ارشاداتِ نبوی) سنتے(تک) نہیں (عمل تو درکنار) یہ لوگ جانوروں کے جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بے راہ ہیں (مقصد حیات سے ناواقف جہل میں مبتلا ) یہی لوگ غافل ہیں۔
اس آیت کریمہ سے یہ مطلب اخذ کرنا درست نہیں کہ بہت بڑی تعداد میں جنات اور انسانوں کو اللہ سبحانہ‘ تعالیٰ خواہ مخواہ دوزخ میں ڈالناپسند فرمائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جن و انس کی تخلیق کا مقصد تو اپنے اختیار اور ارادہ سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت کرنی ہے، دنیا میں اُس کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنی ہے اور اس کی خوشی اور رضا کی خاطر جینا اور مرنا ہے۔ جو انسان اور جنات ایسا کریں گے اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں داخل کرے گا۔ اور اگرکوئی اپنے اختیار اور ارادہ سے مقصد تخلیق کے خلاف عمل کر کے اللہ تعالیٰ کے احکام سے روگردانی کریں گے تو ان کے اعمال بد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کو دوزخ میں داخل کرے گا گویا اُن کو اپنی قربت سے محروم کردے گا۔ مہجوری کی یہ آگ شدید اذیت والی ہو گی۔
نبی محتشم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک متفق علیہ حدیث ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے اپنی دو اُنگلیوں سے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور ان کے درمیان کچھ امور مشتبہ ہیں جن کا بہت سے لوگوں کو علم نہیں ہے۔ سو جو شخص شبہات سے بچا، اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو محفوظ کر لیا اور جس نے امورِمشتبہ کو اختیار کیا، وہ حرام میں مبتلا ہو گیا۔ جس طرح کوئی شخص کسی(دوسرے شخص کی ملکیتی) چراگاہ کے اردگرد جانور چرائے۔ تو قریب ہے ( احتمال ہے) کہ اس کے جانور اس (پرائی) چراگاہ میں بھی چر لیں۔ سنو!ہر بادشاہ کی ایک خاص حد ہوتی ہے۔ اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی حدود اس کی حرام کی ہوئیں چیزیں ہیں اور سنو! جسم میں گوشت کا یک ایسا ٹکڑا ہے، اگر وُہ ٹھیک ہو تو پورا جسم ٹھیک رہتا ہے اور اگر وُہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے اور یاد رکھو، وُہ گوشت کا ٹکڑا قلب ہے‘‘
(بخاری، مسلم، ابودائود، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)
اہل سلوک و طریقت کا شمار اُولوالالباب یعنی صاحبانِ عقل و شعور میں ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں۔ جو دنیا میں اللہ کی رضا کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ‘ قران حکیم میں ان کو کہیں صاحب ایمان و یقین، کہیں ارباب فکر و دانش، کہیں عالم و حکیم اور کہیں متقی پرہیز گار اور حلیم کے نام سے یاد فرماتا ہے اور ان کو اپنی آیات اور نشانیوں کو جاننے، سمجھنے اور ماننے والے حکماء اور عَالِمین (سائنسدانوں) میں شمار کرتا ہے۔ قران حکیم کی متعدد آیات کریمہ میں ان نفوس قدسیہ کا ذکر جہاں جہاں ملتا ہے وہاں ان کو قومٍ يعقلون، قومٍ يؤقنون، قومٍ يؤمنون، قومٍ يتفکرون اور قومٍ يذکروّن کہاگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت میں ڈوب کر یہ لوگ جب کائنات آفاق و انفس میں اللہ کی نشانیاں ڈھونڈتے ہیں اور ان پر غورو فکر کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور دانش کا راز پا لینے کے بعد بے اختیار ان کی جبینیں اللہ کے سامنے سر بسجود ہو جاتی ہیں اور یہ اللہ کی واحدنیت، احدیت اور طاقت کے اعتراف میں نعرہ مستانہ لگاتے ہیں۔
’’رَبَّناَ ماَ خَلْقتَ هٰذَا باطِلاً سُبحٰنَک فَقِناَ عَذَابَ النّار‘‘
(آل عمرآن:191)
’’ اے ہمارے رب جل شانہ‘! تو نے یہ (سب کچھ عبث اور) باطل تو نہیں بنایا۔ (یہ تیرا کارخانہ قدرت جو تیری ہی ذات و صفات کی طرف نشاندہی کر رہا ہے۔ اور تو (تیرا ہر قانون اور طریقہ) تمام عیبوں، (اور کوتاہیوں) سے پاک ہے پس (اے ہمارے پاک پروردگار) تو ہم کو (اپنے قرب کی دوری اور مہجوری کی ) آگ کے عذاب سے بچا لے۔ (اورجو لوگ حقیقت سے منہ موڑ کر اپنی فکر اور ارادہ سے تیری راہ سے دور ہوتے ہیں۔ ہمیں ان کی بے عقلی، بے شعوری اور بیوقوفی سے بچا تیری ذات پاک ہے اور تیرا بتایا ہوا راستہ سیدھا اور صحیح ہے) اللہ سبحانہ و تعالیٰ سورہ اعراف کی آیت 185 میں ان کور چشم گمراہ لوگوں کے بارے ارشاد فرماتا ہے’’ کیا ان لوگوں نے ارض و سما کی بادشاہت اور خدائی تخلیق پر کبھی غور نہیں کیا اور اس بات پر کہ شاید ان کی موت قریب آ گئی ہے‘‘ اللہ تعالیٰ کے نزدیک غور فکر نہ کرنے والے بے عقل اور بے شعور لوگوں کا شمار گویا زندوں ہی میں نہیں ہوتا بلکہ ان کو مردہ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔
وہ کیسے لوگ ہیں جو آفاق و انفس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بے حد و شمار نعمتوں سے زندگی کے ہر لمحے مستفید بھی ہوتے رہتے ہیں اور اگر ان پر یہ نعمتیں ایک لمحہ کے لیے روک دی جائیں تو ان کی زندگی ختم ہو جائے لیکن پھر بھی وُہ اپنے خالق اور مالک ربّ عزّ و جلّ کی رضا کے خلاف، اپنی مرضی سے دنیا میں زندگی بسر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر کے اُس کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے کی بجائے شاہراہ حیات پر اپنے خود ساختہ راستوں پر چلنے کو ترجیح دیتے ہیں اہل ایمان کے لیے ان لوگوں کی نافرمانی اور سر کشی میں نصیحت اور عبرت کا سامان موجود ہے۔ ایسے افراد کا نفسیاتی اور شعوری مطالعہ اور مشاہدہ کرنا اہل سلوک و طریقت کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے تا کہ وہ ان کی حالت دیکھ کر اپنے آپ کو ان کی بیماریوں سے محفوظ کر سکیں۔ اس بات پر غور کرناضروری ہے کہ آیا یہ لوگ ’’عقل‘‘ سے ایسا کرتے ہیں یا ان کے عقل میں فتور پیدا ہوتاہے جو یہ ایسی نافرمانی اور سر کشی کا ارتکاب کرتے ہیں اوران کی زندگی ان کے اپنے ہاتھوں تباہ ا ور برباد ہوتی رہتی ہے۔
دنیا میں جب کوئی شخص کسی کو تکلیف، اذیت اوردکھ پہنچاتا ہے اور ظلم کا ارتکاب کرتا ہے، اس وقت انسان میں عدل، انصاف، صبر، حوصلہ اور برداشت کی خاصیت مفقود ہو جاتی ہے۔ وُہ بلا سوچے سمجھے ایسے کام کرتا ہے کہ جس سے بنی نوع انسان اور خود اُس کی تکلیفوں اور مصیبتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ظلم کے وقت عقل ظالم سے دور چلی جاتی ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ظالم لوگ بے عقل، بے شعور اور بے وقوف ہوتے ہیں۔ یعنی بادی النظر میں ہر وہ کام جس سے اللہ کے بندوں کے حقوق کی پامالی ہوتی ہو وہ خلاف عقل ہوتے ہیں، بے وقوف اوربے شعور لوگ ہی ایساکر تے ہیں۔ عقلمند ایسا کر ہی نہیں سکتے۔ بظاہر تعلیم یافتہ، عقلمند اور ہوشیار نظر آنے والے لوگ بھی جب اللہ کی مرضی کے خلاف اُس کی مخلوق کواذیت دینے والے کام کرتے ہیں تو در حقیقت وُہ بے وقوف، بے شعور اور بے عقل ہی ہوتے ہیں۔
اہل طریقت کی زندگی میں عقل، شعور، فہم، دانش اور دانائی کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ امام اعظم امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عقل دماغ میں ہوتا ہے۔ داہرۃ المعارف الاسلامیہ میں علامہ محمد فرید وجدی کے حوالے سے بیان ہے کہ عقل (wisdom) انسان میں ادراک (perception) کرنے کی قوت ہے اور یہ روح کے مظاہر میں سے ایک مظہر ہے اور اس کا محل(مقام) مخ (مغز) ہے۔ جیسا کہ ابصار (بصارت؛دیکھنے کی حس) روح کی خصوصیت میں سے ایک خاصہ (characteristic) ہے اور اس کا آلہ (instrument, organ) آنکھ ہے۔ تاج العروس میں علامہ زبیدی کے حوالہ سے علامہ مجد الدین کی کی گئی اس تعریف کا ذکر ہے کہ عقل وُہ قوت ہے جس سے اچھی اور بری چیزوں میں تمیز حاصل ہوتی ہے۔ علامہ راغب اصفہانی کے مطابق عقل وہ قوت ہے جس سے قبول علم کی صلاحیت ہے، عقل قلب یا دماغ میں ایک روحانی نور ہے جس سے نفس علوم بد یہیہ (self-evident truths, axioms) اور نظریہ کا ادراک کرتا ہے۔
علامہ شرتونی نے لکھا ہے کہ عقل ایک روحانی نور اور وُہ طبعی صفت ہے جس کی وجہ سے انسان میں فہم خطاب کی صلاحیت ہوتی ہے۔ کتاب التعریفات میں علامہ میر سید شریف رقمطراز ہیں کہ عقل وُ قوت ہے جس سے حقائق اشیاء کا ادراک ہوتا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کا محل سر ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس کا محل قلب ہے۔ علامہ تفقا زانی لکھتے ہیں، عقل وہ قو ت ہے جس سے علوم اور ادراکات (sagacity, perceptions, comprehensions) کی صلاحیت ہے اور ایک قول یہ ہے کہ عقل ایک جوہر (essennce) ہے جس سے غائبات کا بالواسطہ اور محسوسات کا بالمشاہدہ ادراک ہوتا ہے۔ علامہ زبیدی نے اشیطی سے نقل کیا ہے کہ عقل اگر عرض ہے تو وُہ نفس میں ایک ملکہ ہے جس کی وجہ سے نفس میں علوم اور ادراکات کی صلاحیت ہے اور اگر عقل جو ہر ہے تو وہ ایک جوہر لطیف ہے جس کی وجہ سے غائبات کا بالواسطہ اور محسوسات کا بالمشاہدہ ادراک ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کو دماغ میں پیدا کیا ہے اور اس کا نور قلب میں ہے۔
(تاج العروس)
عقل کی اہمیت بارے حکماء صوفیاء نے پندو نصائح کے جو گلستان سجائے ہیں، لازم ہے کہ دروس سلوک و تصّوف کے قارئین کے اذہان اُس سے یکساں معّطر و معنّبر ہوں:
٭ حضرت لقمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ عقل ادب کے ساتھ ایسی ہے جیسا کہ درخت کے ساتھ پھل اور عقل بغیر ادب کے ایسی ہے جیسا کہ بے پھل والا درخت۔
٭ سقراط نے کہا، بیشک عقل سب سے اچھی چیز ہے اور تمام امور کا انحصار اسی پر ہے مگربعض اشیاء ایسی ہیں جنہیں ہم روز مرہ دیکھنے کے با وجود بھی ان کے وجودکی غرض و غایت نہیں سمجھتے۔ افلاطون کا قول ہے کہ عقل جس جگہ کامل ہو گی۔ حرص و شر ناقص ہو گا۔ عالم کا امتحان اس کی کثرت علم سے نہیں ہوتا بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ وُہ فتنہ انگیز باتوں سے عقل کے ذریعے کیسے بچتا ہے۔
٭ ایک شخص نے حکیم افلاطون سے کہا کہ آج فلاں امیر تیری بہت تعریف کرتا تھا، افلاطون نے یہ سنتے ہی سر نیچے کر لیا اورشدید اندیشے میں گھر گیا۔ اُس شخص نے کہا اے حکیم! آپ کس اندیشے میں مبتلا ہو گئے۔ میں نے کوئی بُری بات نہیں کی۔ افلاطون نے جواب دیا۔ تیرے بات کی مجھے کچھ فکر نہیں۔ لیکن جومیں سوچتا ہوں کہ مجھ سے ایسی کیا بیوقوفی ہوئی جو اس جاہل امیر کے پسند آئی کیو نکہ جب تک نادانی نہ ہو عقل کی بات جاہل پسند نہیں کرتا۔
٭ یاد رکھو کہ خدائے کریم کے عطیوں میں عقل و حکمت سب سے بڑھ کر ہے اور عاقل و حکیم وہ ہوتا ہے جس کے قول اور فعل دونوں یکساں ہوں۔
٭ نصائح حکیم بقراط میں ہے کہ عقل کی پہچان جہالت سے دوری میں ہوتی ہے۔ قدرت نے دماغ کو دل سے اونچی جگہ دی ہے اس لیے دلی جذبات کو ہر حالت میں عقل اور تمیز کے تابع رکھنا ضروری ہے۔
٭ دیو جانس کلبی کہتے ہیں کہ انسان کی احتیاج اس کی عقل سے بہت زیادہ ہے لہذا احتیاج کو عقل کے تابع رکھ۔ بے علم لوگوں اور جہلا کے سامنے علمی باتیں کرنا انہیں اذیت پہنچانا ہے۔ علم کا دشمن تکبر، عقل کا دشمن غصہ، صبر کا دشمن لالچ اور راستی کی دشمن دروغ گوئی ہے۔
٭ دل اایک بچہ ہے جو دیکھتا ہے وہی مانگتا ہے، عقل کو دل کا نگران ہونا چاہیے۔
٭ دولت پر علم اور عقل کو ترجیح حاصل ہے کیونکہ علم اور عقل سے دولت حاصل ہو سکتی ہے مگر دولت سے علم اور عقل حاصل نہیں ہو سکتی۔
٭ عقلمند کے سامنے زبان، بیوقوف حاکم کے سامنے آنکھ اور بزرگوں کے سامنے دل کو قابو میں رکھنا چاہیے۔
٭ جاہل کے خیال اور عمل میں بہت کم فاصلہ ہوتا ہے۔
٭ عقلمند کہتے ہیں کہ اعتدال پر نگاہ رکھ کہ اس کی ہر دو اطراف میں افراط اور تفریط حائل ہے۔
٭ ایک بادشاہ نے اپنے عقلمند اورعالم بیٹے سے پوچھا کہ ہمارے خاندان میں سلطنت کب تک رہے گی، عاقل شہزادے نے کہا، جب تک اس میں عدالت رہے گی۔
٭ عقلمند سوچ کر بولتا ہے اور بیوقوف بول کر سوچتا ہے۔
٭ علم سیکھے بغیر خلوت نشینی اور گوشہ گیری موجب تباہی ہے۔
٭ ان پڑھ ہی بیوقوف نہیں ہوتے بلکہ وہ تعلیم یافتہ بھی بیوقوف ہوتے ہیں جو علم کے ساتھ عقل کا صحیح استعمال نہیں جانتے۔
٭ حضرت فضیل رضی اللہ عنہ نے فرمایا : دین کی اصل عقل، عقل کی اصل علم اور علم کی اصل صبر ہے۔
٭ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے عاقل پہلے قلب سے پوچھتا ہے پھر منہ سے بولتا ہے۔
٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا:عقلمند اپنے آپ کو پست کر کے بلندی حاصل کرتا ہے اور نادان اپنے آپ کو بڑھا کر ذلت اٹھاتا ہے۔
٭ عقل دو قسم کی ہوتی ہے۔ طبعی اور سماعی۔ عقل سماعی سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا اگر طبعی عقل نہ ہو، جیسے تاوقتیکہ بصارت نہ ہو، سورج کی روشنی بیکار ہے۔ اورآنکھ اُسے دیکھ نہیں سکتی۔
٭ آدمی کی عقل اس کے کلام کی خوبی سے اور شرافت اس کے سلوک و افعال کی عمدگی سے ظاہر ہوتی ہے۔
٭ اپنی عقل کو ناقص سمجھتے رہو کہ عقل پر بھروسہ کرنے سے غلطی بھی سر زد ہوتی ہے۔ (جاری ہے)