اصلاح و تشکیلِ معاشرہ میں اساسی عنصر کی حامل اور تہذیبِ انسانی کی معمار و انسانیت کی تخلیق ساز عورت ہے۔ معاشرہ میں افراد کو اعلیٰ اقدار کا حامل بنانا اور بنیادی اخلاقیات کی تعمیر بھی عورت ہی کرسکتی ہے۔ اس حیثیت سے دین کی ترویج و اقامت میں عورت کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ دینِ اسلام بلا تخصیص مردو زن سب کو ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے۔ وہ انہیں انفرادی فرائض و ذمہ داریاں عائد کرتا ہے اور اپنے قیام کی جدوجہد کے لئے بھی دونوں کو یکساں پکارتا ہے۔ نیکی اور بدی کمانے میں مرد و خواتین دونوں کا علیحدہ علیحدہ ایک مکمل اخلاقی تشخص ہے۔ مرد جو نیکی کماتا ہے تو اپنے لئے اور جو بدی کماتا ہے وہ بھی اپنے لئے اور عورت جو نیکی کماتی ہے اُسکا اجر اُس کے لئے ہے اور عورت جو بدی کماتی ہے تو اسکا وبال بھی اُسی کے اُوپر ہوگا۔ عورت دینی معاملات میں مرد کے تابع نہیں ہے۔ مرد کا نیک یا بہترین حُسن و کردار کا مالک ہونا عورت کے لئے نجات کا سبب نہیں بنے گا۔ دونوں کو اپنے اعمال کا نتیجہ دیکھنا پڑے گا۔ فرمانِ خداوندی ہے۔
’’وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُوْلَـئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلاَ يُظْلَمُونَ نَقِيرًاo‘‘
(النساء، 4: 124)
(اور جو کوئی نیک اعمال کرے گا (خواہ) مرد ہو یا عورت درآنحالیکہ وہ مومن ہے پس وہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اوران کی تِل برابر (بھی) حق تلفی نہیں کی جائے گیo)
اسی طرح ارشاد ربانی ہے:
’’فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ‘‘
(آل عمران، 3: 195)
(پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی (اور فرمایا) یقینا میں تم میں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے میں سے (ہی) ہو)
یعنی نیکی، تقوی و پرہیزگاری میں سب انسان بحضورِ خدا مساوی حیثیت کے حامل ہیں، نوع انسانی کے دونوں اصناف میں سے جو بھی صنف اپنے نامہ اعمال کو پاکیزہ کردار سے روشنی دے، سرخروئی و کامیابی اس کے لئے مقدر ہو چکی ہے۔
اجر و جزا میں بھی دونوں برابر کے شریک ہیں، روزِ محشر خالق کائنات کی جانب سے یہ سوال نہیں کیا جائے گا کہ تمہارا تعلق کس طبقہ اور کس صنف انسانی سے ہے بلکہ سوال اور فیصلہ ہوگا تو فقط اعمال صالحہ کی بنیاد پر۔ پس اگر خواتین دعوتِ دین سے پہلو تہی کریں گی تو عند اللہ ان کا مواخذہ ہوگا۔
اُستادِ گرامی ڈاکٹر ظہور احمد اظہر ’’دعوتِ دین‘‘ میں عورت کے کردار کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’تبلیغ دین بحیثیتِ مجموعی امت کا ایسا فریضہ ہے جسے ہر فردِ امت مرد اور عورت سبھی نے ادا کرنا ہے۔ تبلیغ دین کے بارے میں جتنے بھی احکام آئے اور امر و نہی کے جتنے صیغے وارد ہوئے۔ وہ عربی زبان و بلاغت کے قواعد کے حوالے سے مرد اور عورت دونوں کے لئے ہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ عورت کے لئے تبلیغ دین فرض کفایہ ہے وہ دو چیزوں کا بیک وقت انکار کرتے ہیں۔ پہلی یہ کہ وہ مرد و زن کی مساوات کا انکار کرتے ہیں بلکہ جسکے داعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ہیں اور دوسری یہ کہ تبلیغ دین کے اوامر جو قرآن و حدیث میں ہیں اُن سے عورت کو محروم کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے جو کچھ سمجھا ہے اُسکی بناء پر ذمہ داری سے یہ کہتا ہوں کہ دیگر فرائضِ دین کی طرح تبلیغِ دین اور اشاعتِ قرآن و سنت مرد اور عورت دونوں کی یکساں ذمہ داری ہے۔‘‘
اسی طرح ’’جلال الدین عمری‘‘ دعوتِ دین میں عورت کے کردار و عمل کی ناگزیریت کے بارے میں رقمطراز ہیں:
’’خواتین کا دعوت و تبلیغ کے لئے تیار ہونا ایک اور پہلو سے بھی ضروری ہے کہ اس وقت خواتین کی اصلاح و تربیت کا کام بھی بالعموم مردوں ہی کو کرنا پڑتا ہے۔ اس میں دشواریاں اور نزاکتیں بھی ہیں۔ اسکا فطری طریقہ یہ ہے کہ مردوں کے درمیان مرد اور عورتوں کے درمیان عورتیں کام کریں۔ عورتوں کی نفسیات، مسائل، الجھنوں، خوبیوں اور خامیوں سے مردوں کے مقابلہ میں عورتیں زیادہ واقف ہیں اور اسے حل بھی کرسکتی ہیں۔ اس لئے عورتوں کے درمیان کام کے لئے عورتیں ہی موزوں ہو سکتی ہیں۔ اگر خواتین اس محاذ کو سنبھال لیں تو دعوت و تبلیغ کا مسئلہ حل ہو جائے۔ وہ بڑا مبارک وقت ہوگا جبکہ اس اُمت کے مرد اور خواتین دونوں ہی اللہ کے دین کی خدمت کے لئے کھڑے ہو جائیں۔ اس وقت قرآن مجید کا یہ منشا پورا ہوگا۔
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ
]التوبۃ، 9: 71[
’’اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔‘‘
(مسلمان خواتین کی دعوتی ذمہ داریاں، سید جلال الدین عمری، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، (س ن) 22)
جوابدہی میں انفرادی ذمہ داری
اسلام نے جس طرح مرد و خواتین کو نیکی و تقوی اور اجر و ثواب میں برابری کی بنیاد پر رکھا ہے۔ اسی طرح اعمال کی جوابدہی میں بھی انفرادی ذمہ داری عائد کی ہے۔ آخرت میں سرخروئی پالینے کی جدوجہد میں دونوں اپنے نیک اعمال میں اضافے کے لئے باہمی تعاون تو کرسکتے ہیں لیکن یہ ممکن نہیں کہ اپنے نامہِ اعمال بدل لیں۔ یا اپنی نیکیاں یہاں سے وہاں منتقل کرکے ایک دوسرے کو بچالیں۔ اللہ رب العزت نے دونوں کے ذمہ الگ الگ فرائض و ذمہ داریاں لگائی ہیں۔
’’مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَo‘‘
(النحل، 16: 97)
(جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت جب کہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے، اور انہیں ضرور ان کا اجر (بھی) عطا فرمائیں گے ان اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے تھےo)
اسی طرح امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم اللہ نے صرف مردوں کو نہیں دیا اور نہ ہی خواتین کو اس سے مستثنیٰ کیا بلکہ فرمایا
’’وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَo‘‘
(آل عمران، 3: 104)
(اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیںo)
درج بالا آیۃ مبارکہ میں دعوت الی الخیر اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم بلا تخصیص دیا جا رہا ہے۔ یہاں یہ بیان نہیں ہے کہ امت میں سے یہ خاص گروہ کسی خاص قبیلہ یا لوگوں کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو دعوت دے بلکہ حکم پورے عموم سے دیا جا رہا ہے۔ اُمت کی ذمہ داری اسی وقت ساقط ہوگی جب اُمت کے ہر فرد تک اللہ کا پیغام پہنچ جائے۔
اب ذہنوں میں یہ سوال بھی اُٹھتا ہے کہ جن احباب تک یہ دعوت پہنچانی ہے اُن میں مرد و خواتین دونوں اصناف شامل ہیں اگریہ فریضہ صرف مردوں پر عائد ہوتا ہے تو کیا خواتین تک دعوت اِلی اللہ مرد پہنچائیں گے اور اگر وہ کم تعداد میں ہونیکی وجہ سے یہ دعوت نہ پہنچاسکے تو خدا کی جانب سے عائد کئے گئے اس فریضہ کا حق کما حقہ ادا ہو سکے گا؟ یقیناً نہیں۔ لہٰذا یہ ثابت ہوتا ہے کہ نائبینِ انبیاء کا حق ادا کرنے کے لئے امت کے ہر فرد (خواہ مرد ہو یا عورت) کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا ہوگا۔ مخالفت کی صورت میں جس طرح مرد زیر عتاب آئے گا۔ اسی طرح عورت بھی سزا وار ٹھہرے گی۔
خواتین کا دعوت دین میں مطلوبہ کردار
عہدِ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کہ اُمتِ مسلمہ کے لئے تاحشر نمونہ عمل ہے اس دور میں اقامتِ دین کی جدوجہد میں عورتوں نے مردوں کے شابہ بشانہ حصہ لیا۔ اُس دور میں جب حق کا اعلان کرنا مصیبتوں اور آزمائشوں کے در کھولنے کے مترادف تھا۔ ایک خاتون نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر لبیک کہا۔ سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا نے نہ صرف قبولِ اسلام میں سبقت کی بلکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو اولین وحی پر نصرتِ خداوندی کا تیقن دینے والی، حق کی امداد کا یقین دلانے والی، غیبی تائید و کامیابی، توکل اِلی اللہ اور صبر کی تلقین کرنے والی تھیں۔ ایک خاتون نے ہی سب سے پہلے دینِ حق کا علم اُٹھایا اور ایسی وفاداری اور عشق و شوق کے ساتھ کہ ان کی وفاداری نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں اور تمام نسلِ انسانی کے لئے قابلِ فخر ہے۔
اہلِ حق پر سخت سے سخت امتحان گزرے، کون سی صعوبتیں تھیں جو انہیں نہیں سہنا پڑیں، کانٹوں سے ان کے جسموں کو چھلنی کیا گیا، گرم سلاخوں سے داغا گیا، گرم ریت پر لٹائے گئے، بری طرح زدو کوب کئے گئے۔ ان مصیبتوں کو مردوں کی طرح خواتین نے بھی برداشت کیا بلکہ راہ عزیمت میں صبر و استقلال اور قربانیوں کی ان سے بہتر مثالیں مرد بھی پیش نہیں کرسکتے۔ ہجرتِ حبشہ میں بھی خواتین پیش پیش تھیں ہجرت مدینہ کے موقع پر بھی یہ عظیم خواتین سارے علائق کو ترک کرکے راہ حق پر گامزن رہیں۔
اسلام نے اپنے زریں دور میں جس قدر جنگیں لڑیں ان میں مردوں نے اگر تیرو خنجر چلائے تو عورتوں نے بڑھ چڑھ کر زخمیوں کی دیکھ بھال کی، ان کی مرہم پٹی کی، ان کی ڈھارس بندھائی۔ اپنے مال و زیورات سے دین کی مالی اعانت کی۔ غرض یہ کہ دعوتِ دین اور اقامتِ اسلام کی کون سی خدمت تھی جو اہل ایمان خواتین نے انجام نہیں دیں۔
آج بھی وقت خواتین سے اسی کردار کا طالب ہے۔ عہد رسالتماب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح عہد صحابہ میں بھی ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شفاء بنت عبد اللہ کو مارکیٹ کے امور کا نگران مقرر کیا مزید براں ان کو مجلس شوری کا ممبر بنایا، سیاسی امور میں بھی ان سے مشورہ لیا کرتے اور ان کی رائے کو اہمیت دیتے تھے۔ عورتوں سے بھی اسلام نے اُنہیں اوصاف حمیدہ کا تقاضا کیا ہے۔ جن کا مطالبہ مردوں سے ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَـئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌo‘‘
(التوبۃ، 9: 71)
(اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بے شک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہےo)
’’اس ارشاد ربانی میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے حوالے سے عورت کی ذمہ داری قابل توجہ ہے، زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جس پر اس حکم کا اطلاق نہ ہوتا ہو، اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے لازماً گھر سے باہر نکلنا پڑے گا۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق مرد و خواتین دونوں اس حکم کے مکلف ہیں۔
درج بالا آیۃ مبارکہ میں مومنین کی پانچ صفات کا ذکر کیا ہے۔ بدلے میں ان صفات کے حامل لوگوں کے لئے بہترین جزا کا وعدہ بھی کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بیان فرما دیا کہ جس طرح مردوں میں ان اوصاف جمیلہ کا ہونا ضروری ہے اسی طرح خواتین میں بھی یہ اوصاف ہونا اشد ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر فضل الہی اپنی کتاب میں علامہ ابن نحاس دمشقی کا قول نقل کرتے ہیں:
’’قلت و فی ذکره تعالٰی ’’والمومنات‘‘ هنا دليل علی ان الامر بالمعروف والنهی عن المنکر واجب علی النساء کوجوبه علی الرجال حيث وجدت الاستطاعه.‘‘
(نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں خواتین کی ذمہ داری، پروفیسر ڈاکٹر فضل الہی، اگست 2008، 51۔ 52)
(میں کہتا ہوں اللہ تعالیٰ کا ایمان والی عورتیں فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ بحالتِ استطاعت عورتوں پر مردوں کی مانند امر بالمعروف و نہی عن المنکر واجب ہے۔ )
دعوت و اقامتِ دین کی جدوجہد میں خواتین کی تاریخ بہت روشن ہے۔ اسلام نے اپنے ابتدائی زمانہ میں جس قدر حالات کے پیچ و خم دیکھے۔ اُن میں خواتین قدم بقدم ساتھ رہیں۔ اپنے روشن زمانہ میں اسلام کے جانبازوں نے جس قدر جنگیں لڑیں، عورتیں ہر لمحہ اور ہر لحظہ اُنکی معاون و مددگار رہیں۔ مردوں کی طرح اُنہوں نے بھی اپنا گھر بار چھوڑا، رشتہ داروں اور قرابت داروں سے قطع تعلقی اختیار کی، اپنے مال و متاع سے دینِ حق کی امداد کی، حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے نام لینے والے کم تھے تو چھوٹی چھوٹی بچیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خیر مقدم کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعریف کے گیت گائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ اے بچیو! کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟ انہوں نے کہا ہاں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں بھی تم سے محبت کرتا ہوں۔
آج جبکہ دین نہایت نازک حالات میں ہے۔ اسلام کی قدریں پامال ہو رہی ہیں۔ نئی نسل افکارِ مغرب سے متاثر ہو کر اپنی تہذیب و ثقافت سے دُور جا رہی ہے خواتین کو اسلام کے دورِ اوائل کی طرح پھر دین حق کی دعوت لے کر اُٹھنا ہوگا جس سے دین کے پیروکاروں میں وسعت آئے جیسا کہ آج سے پندرہ صدیاں بیشتر خواتین کی دعوتی سرگرمیوں سے بہت سے نفوس حلقہِ بگوش اسلام ہوئے۔ بہت سے جید صحابہ کرام بھی خواتین کی دعوت دین سے متاثر ہو کر اسلام کی دعوت پر لبیک کہنے پر مجبور ہوئے۔
مثلا: ’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنی ہمشیرہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بنتِ خطاب رضی اللہ عنہ کے زیر اثر اسلام لائے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سعدی بنت کریز کی دعوت پر حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اپنی بیوی اُم سلیم کے ذریعے، حضرت عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ اپنی بیوی اُم حکیم کی تبلیغی مساعی کے ذریعے راہ حق کے مسافر بنے۔‘‘
(عورت ماں بہن بیوی اور بیٹی، افتخار فریدی، مجلس نشریاتِ اسلام، کراچی، س ن، 131)
اپنے کردار و عمل کی وہی تصویر اغیار کے سامنے لانی ہوگی تاکہ یہ عیاں ہوسکے کہ عورت صرف تشہیر ہی کا ذریعہ نہیں بلکہ اُس کا اصل منصب تربیت و اصلاح اقوام ہے، ملک و ملت کی تعمیر میں عورت دائیں ہاتھ کی مانند ہے جس کی جدوجہد اور حرکتِ عمل کے بغیر ترقی کا عمل محال ہے۔
(جاری ہے)