اللہ رب العزت کی رحمت و بخشش کے دروازے یوں تو ہر وقت ہر کسی کے لیے کھلے رہتے ہیں۔ ’’لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰه‘‘ (اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو) کی فضاؤں میں رحمت الہٰی کا دریا ہمہ وقت موجزن رہتا ہے۔ اس کی رحمت کا سائبان ہر وقت اپنے بندوں پر سایہ فگن رہتا ہے اور مخلوق کو اپنے سایہِ عاطفت میں لیے رکھنا اسی ہستی کی شانِ کریمانہ ہے۔ اس غفّار، رحمن و رحیم پروردگار نے اپنی اس ناتواں مخلوق پر مزید کرم فرمانے اور اپنے گناہ گار بندوں کی لغزشوں اور خطاؤں کی بخشش و مغفرت اور مقربین بارگاہ کو اپنے انعامات سے مزید نوازنے کے لیے بعض نسبتوں کی وجہ سے کچھ ساعتوں کو خصوصی برکت و فضیلت عطا فرمائی جن میں اس کی رحمت و مغفرت اور عطاؤں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے اور جنہیں وہ خاص قبولیت کے شرف سے نوازتا ہے۔
ان خاص لمحوں، خاص ایام اور خاص مہینوں میں جن کو یہ مقام حاصل ہے رب کائنات کی رحمت کی برسات معمول سے بڑھ جاتی ہے۔ ان خصوصی ساعتوں میں ماہ شعبان کو خاص اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔
٭ امام بیہقی شعب الایمان میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’شعبان میرا مہینہ ہے پس جس نے شعبان کی تعظیم کی اس نے میرے حکم کی تعظیم کی اور جس نے میرے حکم کی تعظیم کی روزِ قیامت میں اس کے لیے مسرت اور نجات کا باعث بنوں گا۔‘‘
٭ مسند دیلمی میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔‘‘ ماہ شعبان کی ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نسبت ہی اس کی قدر و منزلت کو اجاگر کررہی ہے۔
٭ مسند دیلمی میں ہی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’شعبان کی فضیلت تمام مہینوں پر ایسی ہی ہے جیسے میری فضیلت تمام انبیاء علیہم السلام پر ہے۔‘‘
٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’رجب دوسرے مہینوں پر وہی بزرگی رکھتا ہے جو قرآن مجید دوسری تمام کتابوں پر۔ اسی طرح شعبان کی بزرگی دوسرے مہینوں پر اسی طرح ہے جس طرح مجھے تمام انبیاء پر فضیلت عطا کی گئی ہے اور رمضان المبارک کی فضیلت باقی تمام مہینوں پر ایسی ہی ہے جیسے ساری مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی ذات کی فضیلت و بزرگی ثابت ہے۔‘‘
٭ حضور غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رَحِمہ اﷲ ماہِ شعبان کی فضیلت بیان کرتے ہوئے غنیۃ الطالبین میں فرماتے ہیں:’’اللہ ربّ العزت نے سال کے مہینوں میں سے چار مہینے رجب، شعبان، رمضان اور محرم برگزیدہ فرمائے۔ ان میں سے شعبان کو چن لیا اور اسے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مہینہ قرار دیا۔ سو جیسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیاء سے افضل و برتر ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مہینہ شعبان بھی تمام مہینوں سے افضل ہے۔‘‘ الغرض شعبان وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں تمام بھلائیوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ آسمان سے برکتیں اتاری جاتی ہیں، گناہ گار بخشش پاتے ہیں اور برائیاں مٹادی جاتی ہیں۔ اسی لیے شعبان کو ’’اَلْمُکَفِّر‘‘ یعنی گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بننے والا مہینہ کہا جاتا ہے۔
شعبان کی وجہ تسمیہ
شعبان اسلامی سال کا ساتواں مہینہ ہے جو دو مبارک مہینوں رجب اور رمضان کے درمیان میں آتا ہے جس سے اس کی فضیلت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ القاموس میں ہے کہ شعبان ’’شعب‘‘ سے مشتق ہے۔ اس کے معنی تفرق، پھیلانا اور شاخ درشاخ ہونا ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’شعبان کو شعبان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس ماہ میں احترام رمضان کی وجہ سے بہت سی نیکیاں پھیلتی ہیں اور رمضان کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس ماہ میں بہت سے گناہ جلا دیے جاتے ہیں۔
٭ التدوین میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شعبان کو شعبان اس لیے کہا جاتا ہے کہ ’’اس ماہ میں روزہ دار کی نیکیوں میں درختوں کی شاخوں کی طرح اس قدر اضافہ ہوتا ہے کہ وہ جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔‘‘
ماہِ شعبان میں معمولاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
٭ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے: ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کثرت سے روزہ رکھا کرتے تھے یہاں تک کہ ہمیں خیال ہوتا کہ اب کبھی افطار نہ کریں گے۔ اور روزہ نہ رکھتے تو ہمیں خیال آتا کہ اب کبھی روزہ نہ رکھیں گے۔ اور میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ماہ شعبان کے علاوہ کسی اور مہینے کے پورے روزے رکھتے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘
٭ امام نسائی ’’السنن‘‘ میں روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کو سب مہینوں سے زیادہ شعبان المعظم کے مہینے میں روزے رکھتے دیکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ مقدس مہینہ ہے جس سے لوگ غافل اور سست ہیں۔ رجب اور رمضان المبارک کے درمیان یہ وہ مہینہ ہے جس میں آدمی کے اعمال اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچائے جاتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس طرح سے پیش ہوں کہ میں اس وقت حالت روزہ سے ہوں۔‘‘ تو آقا علیہ السلام نے اس ماہ کی فضیلت کا ایک راز یہ بھی بتا دیا کہ ہمارے اعمال خدا کے حضور پیش کیے جاتے ہیں۔ جو شخص اس مہینے میں زیادہ اعمال صالحہ کرتا ہے، زیادہ عبادات کرتا ہے، روزے رکھتا ہے، صدقات و خیرات کرتا ہے۔ اسے اتنی ہی اﷲ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت نصیب ہو گی اور اسی قدر بارگاہِ الہٰی سے قرب اور قبولیت نصیب ہو گی۔
٭ امام بیہقی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں: ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا: (یا رسول اﷲ!) کون سے روزے افضل ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رمضان کی تعظیم و قدر کے لیے شعبان میں روزے رکھنا۔‘‘
٭ امام بیہقی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ماہِ رجب کی آمد پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ’’اے اللہ! ہمارے لیے رجب و شعبان میں برکتیں نازل فرما اور رمضان ہمیں نصیب فرما۔‘‘
٭ شعب الایمان میں حضرت عثمان بن محمد سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک انسان کے فوت ہونے کا وقت لکھ دیا جاتا ہے۔ انسان شادی بیاہ کرتا ہے، اس کے ہاں اولاد پیدا ہوتی ہے حالانکہ اس کا نام مُردوں کی فہرست میں لکھا جاچکا ہوتا ہے۔‘‘
٭ مختلف روایات میں آتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ماہ شعبان میں روزہ دار کی نیکیوں میں درختوں کی شاخوں کی طرح اضافہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ(عرب میں سب سے زیادہ بکریاں رکھنے والے) قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی بخشش فرماتا ہے۔ سوائے مشرک، بغض رکھنے والے، قاتل، متکبر، زانی، والدین کے نافرمان اور شرابی کے (جب تک وہ سچی توبہ نہ کرلیں) ہر ایک اس ماہ میں نفع پاتا ہے۔‘‘ اسی ماہِ مبارک میں وہ مبارک رات بھی آتی ہے جسے ’’شب برات‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔ لطائف المعارف میں حضرت عطاء بن یسار سے منقول ہے کہ لیلۃ القدر کے بعد شعبان کی پندرہویں رات سے زیادہ کوئی رات افضل نہیں۔‘‘
شبِ برات کی وجہ تسمیہ
یہ لفظ شب برات احادیث مبارکہ کے الفاظ ’’عتقاء من النار‘‘کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ آقا علیہ السلام کا عطا کردہ لفظ ہے۔ چونکہ یہ رات دوزخ سے برات کی، آزادی کی رات ہے۔ اس رات رحمت خداوندی کے طفیل لاتعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں اس لیے اسے ’’شب برا ت‘‘ کہا جاتا ہے۔ امام طبری نے جامع البیان میں اللہ تعالیٰ کے فرمان: فِيْهَا يُفْرَقُ کُلُّ أَمْرِ حَکِيْمٍ. ’’اس شب میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔‘‘(الدخان)، کی تفسیر میں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی کہ شعبان کی پندرہویں رات میں سارے سال کا حال لکھ دیا جاتا ہے۔ اس سال میں زندہ رہنے والوں کے اور جمع کرنے والوں کے ناموں کی فہرست تیار کردی جاتی ہے اور پھر سال بھر نہ ان میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ کمی کی جاتی ہے۔‘‘
اس مبارک مہینہ میں پائی جانے والی اس بابرکت رات کی فضیلت مشکوٰۃ شریف کی اس روایت سے بھی عیاں ہوتی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے: ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! تمھیں معلوم ہے کہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ حضرت عائشہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا ہوتا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس رات سال میں جتنے بھی لوگ پیدا ہونے والے ہیں سب کے نام لکھ دیے جاتے ہیں اور جتنے بھی لوگ فوت ہونے والے ہیں ان سب کے بھی نام لکھ دیے جاتے ہیں اور اس رات تمام لوگوں کے (سارے سال کے) اعمال اٹھالیے جاتے ہیں اور اسی رات لوگوں کی روزی بھی مقرر کی جاتی ہے۔‘‘
شب برات میں اللہ تعالیٰ کا آسمانِ دنیا پر نزول اِجلال
٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’ليلة النصف من شعبان‘‘ (پندرہویں شعبان کی رات) میں شب بیداری کیا کرو اور دوسرے دن روزہ رکھا کرو کیوں کہ اس شب اللہ تعالیٰ مغرب کے وقت سے ہی آسمان دنیا پر نزولِ اِجلال فرماتا ہے اور اس کی رحمت مسلسل پکارتی ہے کہ ہے کوئی جو مجھ سے مغفرت طلب کرے کہ میں اسے بخش دوں، ہے کوئی رزق کا طلب گار کہ میں اسے روزی عطا کروں، ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے عافیت بخشوں اور یہ سلسلہ طلوع فجر تک جاری رہتا ہے۔
٭ حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شعبان کی پندرہویں شب اللہ تعالیٰ جبریل امین کو جنت میں یہ حکم دے کر بھیجتا ہے کہ آج کی رات پوری جنت سجادی جائے کیوں کہ آج کی رات آسمانی ستاروں، دنیا کے شب و روز، درختوں کے پتوں، پہاڑوں کے وزن اور ریت کے ذروں کی تعداد کے برابر اپنے بندوں کی مغفرت کروں گا۔
شب برات میں معمولاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
٭ امام ترمذی ’’السنن‘‘ میں روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں: ایک رات میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (بستر مبارک پر) موجود نہ پایا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (مدینہ منورہ کے قبرستان) جنت البقیع میں موجود ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (مجھے دیکھ کر) فرمایا: کیا تجھے ڈر ہوا کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کرے گا؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے سوچا شاید آپ کسی دوسری زوجہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شعبان کی پندرہویں شب اﷲتبارک وتعالیٰ آسمان دنیا کی طرف ایک خاص شان کے ساتھ نازل ہوتا ہے۔ اور (عرب میں سب سے زیادہ بکریاں رکھنے والے) قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ تعداد میں لوگوں کو بخشتا ہے۔
٭ امام ابن ماجہ ’’السنن‘‘ میں حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب شعبان کی پندرہویں شب آئے، تو اس رات قیام کیا کرو اور دن میں روزہ رکھا کرو۔ اس رات غروب آفتاب کے وقت سے ہی اﷲتعالیٰ آسمانِ دنیا پر (اپنی شان قدرت کے ساتھ) نزولِ اِجلال فرماتا ہے اور اعلان فرماتا ہے کہ ہے کوئی مجھ سے گناہوں کی معافی مانگنے والا سو میں اسے معاف کردوں، ہے کوئی مجھ سے رزق طلب کرنے والا کہ میں اس کے رزق میں وسعت پیدا کر دوں، ہے کوئی مصائب و آلام میں مبتلا شخص کہ مجھ سے مانگے سو میں اسے عافیت عطا کر دوں، ہے کوئی ایسا شخص کوئی ایسا شخص ہے کوئی ایسا شخص (ساری رات اللہ تعالیٰ یہ اعلان فرماتا رہتا ہے اور اپنی عطا و سخا کے دامن کو پھیلائے رکھتا ہے) حتی کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔
٭ امام بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے طویل حدیث پاک کی تخریج کی کہ ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے کسی حصے میں اچانک ان کے پاس سے اٹھ کر کہیں تشریف لے گئے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے گئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت البقیع میں مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے استغفار کرتے پایا، سو میں واپس آگئی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے تمام صورتحال بیان کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (اصل بات یہ ہے کہ) ابھی جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور عرض کیا: آج شعبان کی پندرہویں رات ہے اور اس رات اللہ تعالیٰ قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے مگر مشرکین، دل میں بغض رکھنے والوں، رشتہ داریاں ختم کرنے والوں، تکبر سے پائنچے لٹکانے والوں، والدین کے نافرمان اور عادی شرابی کی طرف اللہ تعالیٰ اس رات بھی توجہ نہیں فرماتا (جب تک کہ وہ خلوص دل سے توبہ نہ کرلیں)۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں کھڑے ہو گئے۔ قیام کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک (اس قدر) طویل سجدہ کیا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ مجھے گمان ہوا کہ حالت سجدہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا ہے۔ میں پریشان ہو گئی اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تلوؤں مبارک کو چھوا اور ان پر ہاتھ رکھا تو کچھ حرکت معلوم ہوئی اس پر مجھے خوشی ہوئی۔ اس وقت حالتِ سجدہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا پڑھ رہے تھے:
أَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ وَأَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخْطِکَ وَأَعُوْذُبِکَ مِنْکَ جَلَّ وَجْهُکَ لَا أُحْصِي ثَنَآءً عَلَيْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَيْتَ عَلٰی نَفْسِکَ۔
(اے اللہ میں تیرے عفو کے ساتھ تیرے عذاب سے پناہ چاہتا ہوں، تیری رضا کے ساتھ تیرے غضب سے پناہ چاہتا ہوں اور تیرے کرم کے ساتھ تیری ناراضگی سے پناہ چاہتا ہوں۔ میں کماحقہ تیری تعریف نہیں بیان کرسکتا تو ایسا ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف بیان کی ہے)۔ صبح جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان دعاؤں کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ رضی اللہ عنہا ! یہ دعائیں خود بھی یاد کرلو اور دوسروں کو بھی سکھاؤ۔ مجھے جبریل علیہ السلام نے (اپنے ربّ کی طرف سے) یہ کلمات سکھائے ہیں اور انہیں حالت سجدہ میں بار بار پڑھنے کو کہا ہے۔
شعبان کی پندرہویں شب کے بارے میں وارد ہونے والی اَحادیث مبارکہ کے مطالعہ سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ اس مقدس رات قبرستان جانا، کثرت سے اِستغفار کرنا، شب بیداری اور کثرت سے نوافل ادا کرنا اور اس دن روزہ رکھنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولاتِ مبارکہ میں سے تھا۔
خلاصہ کلام
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر قسم کے گناہوں سے معصوم ہونے کے باوجود اپنے ربّ کے حضور اس قدر عجز و نیاز اور گریہ و زاری فرمائیں، تو ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے۔ اور جب رحمت الہٰی کا سمندر طغیانی پہ ہو تو ہمیں بھی خلوص دل سے توبہ و استغفار کرنا چاہیے کیوں کہ اس وقت رحمت الہٰی پکار پکار کر کہہ رہی ہوتی ہے کہ کوئی ہے بخشش مانگنے والا کہ اسے بخش دوں، کوئی ہے رزق کا طلب گار کہ میں اس کا دامن مراد بھردوں۔ امام ابن ماجہ ’’السنن‘‘ میں حدیث بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہترین دعا کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اَللّٰهُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنَّا يَا غَفُوْرُ
’’اے اللہ! بے شک تو معاف فرمانے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے۔ پس اے بخشنے والے! ہمیں بھی بخش دے۔‘‘
یہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ شبِ برات کی اس قدر فضیلت و اہمیت اور برکت وسعادت کے باوجود ہم یہ مقدس رات بھی توہمات اور فضول ہندوانہ رسومات کی نذر کر دیتے ہیں اور اس رات میں بھی افراط و تفریط کا شکار ہو کر اسے کھیل کود اور آتش بازی میں گزار دیتے ہیں۔ من حیث القوم آج ہم جس ذلت و رسوائی، بے حسی، بدامنی، خوف و دہشت گردی اور بے برکتی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اس سے چھٹکارے اور نجات کی فقط ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ کہ ساری قوم اجتماعی طور پر اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں مغفرت طلب کرے اور اس رات کو شبِ توبہ اور شبِ دعا کے طور پر منائے۔ آیئے اس غفار، رحمن اور رحیم ربّ کی بارگاہ میں ندامت کے آنسو بہائیں اور خلوصِ دل سے توبہ کریں، حسبِ توفیق تلاوت کلام پاک کریں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں ہدیہ درود و سلام پیش کریں، نوافل خصوصاً صلاۃ التسبیح پڑھیں، استغفار اور دیگر مسنون اَذکار کے ساتھ دلوں کی زمین میں بوئی جانے والی فصل تیار کریں اور پھر اسے آنسوؤں کی نہروں سے سیراب کریں تاکہ رمضان المبارک میں معرفت و محبت الہٰی کی کھیتی اچھی طرح نشوونما پاکر تیار ہوسکے۔ قیام اللیل اور روزوں کی کثرت ہی ہمارے دل کی زمین پر اُگی خود رَو جھاڑیوں کو (جو پورا سال دنیاوی معاملات میں غرق رہنے کی وجہ سے حسد، بغض، لالچ، نفرت، تکبر، خودغرضی، ناشکری اور بے صبری کی شکل میں موجود رہتی ہیں) اکھاڑ سکے گی اور ہمارے دل کے اندر ماہ رمضان کی برکتوں اور سعادتوں کو سمیٹنے کے لیے قبولیت اور انجذاب کا مادہ پیدا ہو گا۔ سو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ماہ شعبان المعظم، عظیم ماہ رمضان المبارک کا ابتدائیہ اور مقدمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ماہ مبارک کے اندر
محنت و مجاہدہ اور ریاضت کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم ’’اَلصَّوْمُ لِي وَاَنَا اَجْزِي بِهِ‘‘ کے فیض سے صحیح معنوں میں اپنے قلوب و اَرواح کو منور کرسکیں اور اِن مقدس اور سعید راتوں کی برکت سے اﷲ تعالیٰ ہمیںدنیوی و اُخروی فوز و فلاح سے مستفید فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔