27 ویں عالمی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب
آخری حصہ مرتّب : اظہر الطاف عباسی معاونت : مصباح کبیر
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا زیر نظر خطاب (CD#1453) 27 ویں عالمی میلاد کانفرنس 2011ء کے موقع پر ہوا جس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے میلاد، مدینہ اور محبت کے عنوان پر سیر حاصل گفتگو کی۔ اس خطاب کے دو حصے ماہنامہ دختران اسلام ماہ اپریل، مئی2011ء میں شائع ہوچکے جن میں شیخ الاسلام نے لا اقسم بهذا البلد وانت حل بهذا البلد والد وماولد کی آیات مبارکہ کو موضوع بحث بناتے ہوئے فضیلت کا معیار، مکہ و مدینہ کی فضیلت، مقام ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم، لیلۃ القدر پر شب میلاد کی فضیلت اور محبت و عشق پر مبنی حقائق کو قرآن پاک کی آیات، احادیث مبارکہ اور ائمہ حدیث کے اقوال کی روشنی میں بیان فرمایا۔ اسی خطاب کا آخری حصہ نذر قارئین ہے :
اسی طرح یہ حدیث مکہ پر مدینہ کی فضیلت کے حوالے سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَللّٰهُمَّ اِنَّ اِبْرَاهِيْمَ عَبْدُکَ وَخَلِيْلُکَ وَنَبِيُّکَ، وَاِنِّيْ عَبْدُکْ واِنَّهُ دَعَاکَ لِمَکَّة وَ اِنِّيْ اَدْعُوْکَ لِلْمَدِيْنَةِ بِمِثْلِ مَادَعَاکَ بِهِ لِمَکَّة وَمِثْلُهُ مَعَهُ.
(مسلم، الصحیح، کتاب الحج، 2 : 1000، رقم : 1373)
’’اے ہمارے رب (حضرت) ابراہیم (علیہ السلام) تیرے بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے مکہ کے لئے جیسی دعا کی تھی میں بھی ویسی بلکہ اس سے بڑھ کر (دوگنی) دعا مدینہ کے لئے کرتا ہوں (یعنی ہمارے شہر مدینہ میں مکہ مکرمہ سے دوگنی برکتیں نازل فرما)‘‘۔
اس حدیث کو امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی، امام نسائی اور امام ابوعوانہ نے روایت کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کے لئے دعا کی تھی، مکہ کی برکتوں کے لئے دعا کی تھی جیسے
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُO
(البقرہ، 2 : 126)
’’اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا : اے میرے رب! اسے امن والا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں کو طرح طرح کے پھلوں سے نواز (یعنی) ان لوگوں کو جو ان میں سے اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لائے، (اللہ نے) فرمایا اور جو کوئی کفر کرے گا اس کو بھی زندگی کی تھوڑی مدت (کے لیے) فائدہ پہنچاؤں گا پھر اسے (اس کے کفر کے باعث) دوزخ کے عذاب کی طرف (جانے پر) مجبور کر دوں گا اور وہ بہت بری جگہ ہے‘‘۔
ابراہیم علیہ السلام نے تجھ سے مکہ کی دعا کی تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وَاِنِّيْ اَدْعُوْکَ لِلْمَدِيْنَة... میرے مولا میں تجھ سے اپنے مدینہ کے لئے دعا کرتا ہوں۔ خدا تعالیٰ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے پوچھتے ہیں محبوب دعا قبول ہوئی اب کتنی برکت کی دعا کرتے ہو۔ قربان جائیں یہ حق حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی ہے۔ محبوب کے سوا ایسی لاڈ کی بات خدا سے کوئی اور نہیں کرسکتا۔ برکت تو میں دیتا ہوں محبوب بتاؤ کتنی برکت مانگتے ہیں۔
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرض کیا بِمِثْلِ مَادَعَاکَ بِهِ لِمَکَّة باری تعالیٰ! پہلے تو اتنی برکت دے جتنی دعائے ابراہیمی کے نتیجے میں مکہ کو دی وَمِثْلُهُ مَعَه اور پھر میری خاطر اتنی برکت مزید دوگنا کردے۔ اس سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مدینہ سے محبت حد درجہ پہلو نظر آتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں میرے آقا مدینہ کی محبت کی خاطر صرف یہیں تک نہیں رکے بلکہ دل چاہا اور ملے۔ فرمایا مکہ سے مدینہ کی برکت تین گنا کردے اس حدیث کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔
اَللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِيْ مَدِيْنَتِنَا اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ مَعَ الْبَرَکَةِ بَرَکَتَيْن.
(مسلم، الصحیح، کتاب الحج، 2 : 1001، رقم : 1374)
باری تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں جتنی برکت مکہ کو دی ہے پہلے تو اتنی ہی برکت مدینہ کو دے دے تو مدینہ برکت میں سب سے پہلے مکہ کے برابر ہوگیا۔ یہ ایک برکت آگئی پھر فرمایا واجعل مع البرکۃ برکتین اور یہ برکت جو مدینہ کو مکہ کے برابر کررہی ہے اب اس پر مزید دوگنا برکتیں عطا کر۔ تو اب مدینہ کی برکت مکہ کی برکت پر تین گنا بڑھ گئی۔ اسی طرح ایک اور مقام پر آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا :
اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِيْنَةِ ضِعْفَيْی مَا جَعَلْتَ بِمَکَّةِ مِنَ الْبَرَکَةِ.
(بخاری، الصحیح، ابواب فضائل المدینہ، 2 : 666، رقم : 1786)
جو برکت اہل مکہ کے لئے ہے اس سے دوگنا کردے۔
اسی طرح کہیں فرمایا مثلین کہ مکہ کی برکت سے دوگنا زیادہ مدینہ کی برکت کردے آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے کثرت کے ساتھ ایسی احادیث میں مدینہ کی برکت کی کثرت و زیادتی اور کئی گنا ہونے کو بیان کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کسی شخص کے بارے میں اگر یہ سن لیتے کہ وہ مکہ کو مدینہ سے افضل جانتے ہیں تو اس کو طلب کرلیتے اور پوچھتے کہ میں نے سنا ہے تم مکہ کو مدینہ سے افضل کہتے ہو؟ یہ مسلک عمر فاروق ہے اور اگر یہ غلو ہے تو فتویٰ ہم پر نہیں بلکہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر جاکر لگایئے تو اس وقت سمجھ آجائے گی کہ ایمان کی حقیقت کیا ہے۔ حدیث صحیح ہے۔ حضرت عبداللہ بن عیاض المخذومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کام کے سلسلے میں آئے کام کے بعد جب جانے لگے۔
فَلَمَّا اَدْبَرَ عَبْدُاللّٰهِ نَادَاهُ عُمَرَ بْنُ الْخَطَّابَ فَقَالَ : اَاَنْتَ الْقَائِلُ لِمَکَّةُ خَيْرٌ مِّنَ الْمَدَيْنَةِ؟ فَقَالَ عَبْدُاللّٰهِ فَقُلْتُ هِيَ حَرَمُ اللّٰهِ وَاَمْنُهُ وَفِيْهَا بَيْتُهُ. فَقَالَ عُمَرَ لَا اَقُوْلُ فِيْ بَيْتِ اللّٰهِ فِيْ حَرَمِهِ شَيْئًا. ثُمَّ قَالَ عُمَرُ : اَ اَنْتَ الْقَائِلُ لِمَکَّةُ خَيْرُ مِّنَ الْمَدِيْنَةِ؟ قَالَ : فَقُلْتُ هِيَ حَرَمُ اللّٰهِ وَاَمْنُهُ وَفِيْهَا بَيْتُهُ فَقَالَ عُمَرَ : لَا اَقُوْلُ فِيْ حَرَمُ اللّٰهِ وَلَا فِيْ بَيْتِهِ شَيْئًا. ثُمَّ النْصَرَف.
جب عبداللہ رضی اللہ عنہ واپس جانے کے لئے مڑے تو حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اسے بلایا اور کہا کیا تو نے یہ کہا ہے کہ مکہ مدینہ سے بہتر ہے؟ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا حرم ہے اور اس کا پرامن شہر ہے اس میں بیت اللہ ہے (میں اللہ تعالیٰ کے گھر اور حرم کے متعلق کچھ نہیں کہتا۔ میرا سوال ان شہروںکے بارے میں ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بتا تونے یہ کہا کہ کعبہ مدینہ سے بہتر ہے؟) پھر عبداللہ خاموشی سے چلا گیا‘‘۔
(مالک، الموطا، کتاب الجامع، باب ماجاء فی امر المدینۃ، 2 : 894، رقم : 1586)
بلکہ میں تو کہتا ہوں مکہ اللہ کا حرم ہے اور امن کی جگہ اور اس کا گھر ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : لا اقول۔ ۔ ۔ میں اللہ کے گھر کی اور اس کے حرم ہونے کی بات نہیں کررہا کھری کھری بات کرو کیا کہ تمہارا یہ کہنا مقصود ہے کہ لمکۃ خیر من المدینۃ۔ مکہ مدینہ سے بہتر ہے۔
(وہ حرم اور اللہ کا گھر ہے مگر کیا مکہ کو مدینہ سے افضل جانتے ہو؟ انہوں نے دوبارہ صفائی دی۔ امیرالمومنین نہیں میں نے صرف یہ کہا وہ مکہ اللہ کا گھر اور امن کی جگہ ہے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ مطمئن ہوئے اور فرمایا جاؤ) یہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا عقیدہ ہے اور کیوں نہ ہوتا کیونکہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمادیا تھا کہ قیامت سے پہلے لوگو ایک وقت ایسا آئے گا جب پوری دنیا پر کفر چھاجائے گا : ایمان اور اسلام ہر طرف سے خارج ہوجائے گا، اسلام کا نام لیوا کوئی نہ رہے گا، ایمان و اسلام سکڑتا جائے گا۔ پھر ساری دنیا سے نکل کر حجاز میں آجائے گا اور حجاز سے نکل کر بالآخر مدینہ میں آجائے گا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : اگر مسجد نبوی میں جائیں اور ریاض الجنۃ میں داخل ہوں تو دروازے پر یہ متفق علیہ حدیث آج تک لکھی ہے۔
اِنَّ الْاِيْمَانَ لَيَأرِزُ عَلَی الْمَدِيْنَةِ، کَمَا تَأرِزُ الْحَيَةُ، اِلَی جُحْرِهَا.
(مسلم، الصحیح، کتاب الایمان، 1 : 131، رقم : 147)
’’ایمان اس طرح سمٹ کر مدینہ میں چلا جائے گا، جس طرح سانپ اپنے بل میں چلا جاتا ہے‘‘۔
جب اطراف و اکناف عالم اور پوری دنیا میں ایمان کی کوئی جگہ باقی نہ رہے گی۔ ہر طرف سے سکڑتا سکڑتا مدینہ میں آکر ایمان اس طرح آکر بند ہوجائے گا جس طرح سانپ اپنے بچاؤ کے لئے اپنے بل میں آکر بند ہوجاتا ہے جب روئے زمین پر کہیں ایمان نہیں بچے گا تو اس وقت بھی مدینہ ایمان کا گھر ہوگا، ایمان کی آخری منزل مدینہ ہوگی۔ یہ بات سمجھنے کے قابل ہے کہ ایمان کی آخری منزل مدینہ کی بجائے مکہ کیوں نہیں ہوگی؟ ایمان ہر طرف سے سکڑ کر پوری دنیا میں اس کے تین مرحلے ہوں گے۔ تینوں الگ الگ احادیث میں ہیں۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا سب سے پہلے پوری دنیا سے حجاز میں آجائے گا۔
(جامع ترمذی، ابواب الایمان، 5 : 18، رقم : 2630)
پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : حجاز میں آکر ایمان سکڑ کر مکہ اور مدینہ کی دو مسجدوں کے درمیان آکر رک جائے گا ادھر مکہ اور ادھر مدینہ یعنی دو مسجدوں کے درمیان میں آجائے گا۔ اسی طرح ایمان کی حفاظت کا آخری مرحلہ مدینہ سے ہی چل کر پھر مدینہ میں ہی بند ہوجائے گا۔
(مسلم، الصحیح، کتاب الایمان، 1 : 131، رقم : 147)
پوری دنیا سے چل کر حجاز میں اور حجاز سے چل کر بین المسجدین حرمین اور حرمین سے چل کر مدینہ۔ ایمان کی آخری منزل کعبۃ اللہ اور مکہ کو کیوں نہیں بنایا؟ ایمان کی آخری منزل مدینہ اس لئے ہوگی۔ کہ یہاں مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آرام گاہ بننا ہے۔
تو اس حدیث سے پتہ چلا کہ ایمان نسبت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ہے۔ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں ہوں ایمان وہاں جاتا ہے، جدھر مصطفی ہوں ایمان کا مستقر، ایمان کا ملجا و ماویٰ اور ایمان کی حفاظت وہاں ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا :
اِنَّ الْاِسْلَامَ بَدَأ غَرِيْبًا، وسيعود غَرِيْبًا کَمَا بَدَأ، وَهُوَ يَأرِزُ بَيْنَ الْمَسْجِدَيْنِ کَمَا تَأرَزُ الْحَيَةُ اِلَی جُحْرِهَا.
(مسلم، الصحیح، کتاب الایمان، 1 : 131، رقم : 146)
’’اسلام ابتدا میں اجنبی تھا اور آخر میں بھی پہلے کی طرح اجنبی ہوگا اور آخر دور میں اسلام دو مسجدوں (کعبۃ اللہ اور مسجد نبوی) میں اس طرح سمٹ جائے گا جیسے سانپ (سمٹ کر) اپنے بل میں چلا جاتا ہے‘‘۔
جیسے ابتدا میں اسلام اجنبی کے طور پر شروع ہوا تھا اس کا اختتام (end) بھی ایسا ہی ہوگا۔ اس کے بعد مسجد حرام مکہ اور مدینہ کے درمیان آکر رک جائے گا پھر سکڑتا سکڑتا ایمان تمام اشیاء سے نکلتا نکلتا مدینہ میں آجائے گا۔ کَمَا بَدَأ جیسے سانپ کو ہر طرف سے ڈر ہوتا ہے کہ لوگ اسے ماردیں گے تو وہ پھر اپنے بل میں آکر حفاظت پکڑتا ہے اس طرح ایمان بھی ہر طرف سے نکل کر میرے مدینہ میں حفاظت پائے گا اور یہ ایمان محبت والا ایمان ہے۔ اس لئے یہ مکہ کا رخ نہیں کرتا بلکہ مدینہ کا کرتا ہے۔ مکہ مرکزِ عبادت ہے اور مدینہ مرکزِ محبت ہے۔ عبادت کے لئے مکہ کی طرف جایا جاتا ہے جیسے دوران نماز رخ مکہ (بیت اللہ) کا کرتے ہیں، مدینہ کا نہیں کرتے۔ اسی لئے عبادت کا رخ مکہ اور محبت کا رخ مدینہ ہے ایمان کو آخری زمانے میں جب اپنی حفاظت کی ضرورت ہوگی تو وہ مکہ میں پناہ نہیں ڈھونڈے گا بلکہ مدینہ (گنبد خضریٰ) میں پناہ ڈھونڈے گا اور محبت پر ایمان رکھنے والوں کو اس دور میں غرباء کہا جائے گا۔ جب پورے زمانے میں فساد برپا ہوگا تو اس وقت جو محبت کا درس دے کر لوگوں میں اصلاح کرنے والے ہوں گے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو غرباء کے نام سے موصوف کیا اور فرمایا :
لِلْغُرَبَاءِ اِذَا فَسَدَ النَّاسُ.
(احمد بن حنبل، المسند، 1 : 184)
جب دنیا میں فساد اٹھایا جائے گا۔ یہ حدیث موجودہ حالات کی عکاسی کر رہی ہے کہ آج دہشت گردی کا وقت آگیا، فساد کی جنگ چھڑ گئی ہے۔ مسجدوں میں بم بلاسٹ ہورہے ہیں۔ مسلم اور غیر مسلم ہلاک ہورہے ہیں بے گناہ عورتیں مرد بچے قتل ہورہے ہیں۔ مسجدوں اور Church پر بم گرائے جارہے ہیں۔ غیر جنگجو (Non Combatant) گھروں میں بیٹھے ہوئے راتوں رات بموں سے مارے جارہے ہیں۔ فَسَدَ النَّاسُ۔ جب دنیا میں، عالم انسانیت میں فساد ہوجائے گا۔ فساد کے زمانے میں محبت کا درس دینے والوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث کے ذریعے مبارکباد دی ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص روایت کرتے ہیں۔ فرمایا جب ہر طرف فساد اور فتنہ ہوجائے گا، قتل و غارت گری ہوجائے گی، خون بہایا جائے گا۔
اس فساد کے زمانے میں بھی محبت اور امن کا درس دینے والے غرباء ہوں گے، جو محبت والے ہوں گے، وہ ایمان کو اپنے سینے سے لگائے ہوں گے۔ فرمایا : ان امتیوں کو مبارک ہو۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا :
والله ان تربتها لمومنه ان الايمان لينخاف اليها کما يحون السيل الغثاء.
جیسے سیلاب آجاتا ہے تو جو چیز راستے میں ملتی ہے۔ درخت، پتے، ٹہنیاں وغیرہ سب چیزوں کو ایک ساتھ سمیٹتا ہوا سیلاب اپنی منزل کی طرف لے کر چلتا ہے۔ اسی طرح آخری زمانے میں ایمان اپنی ہر خوبی کو سمیٹتے ہوئے میرے مدینہ میں آجائے گا۔
(ابن ابی حاتم، علل الحدیث، 1 : 298، رقم : 897)
اسی طرح فرمایا خدا کی قسم مدینہ کی مٹی میں بھی ایمان ہے۔ ارے جس شہر کی مٹی میں آقا نے فرمایا ایمان ہے۔ جبل احد کو جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا خدا کی قسم یہ ہم سے پیار کرتا ہے اور ہم اس سے پیار کرتے ہیں۔
(صحیح بخاری، کتاب المغازی، ج4 ص : 1610، رقم : 4160)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کی وادیوں سے پیار کیا۔ ایک بیمار شخص آیا تو میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کی مٹی اٹھا لی، لب مبارک لگائے اور فرمایا اس شہر مدینہ کی مٹی کی برکت سے مولا تجھے شفا دے۔
(صحیح بخاری، کتاب الطب، ج : 5، ص1268، رقم : 5413)
مدینہ کی مٹی کو ایمان بنایا۔ شفا بنایا، خیر بنایا اور اسی طرح اللہ رب العزت کی محبت کا یہ عالم کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے جب مدینہ ہجرت فرمائی تو پہلے مکہ سے نکلے پھر مدینہ میں داخل ہوئے، اللہ رب العزت نے فرمایا : حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا کی۔
وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِيْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا.
(الاسراء : 17 : 80)
’’اور آپ (اپنے رب کے حضور یہ) عرض کرتے رہیں : اے میرے رب! مجھے سچائی (و خوش نودی) کے ساتھ داخل فرما (جہاں بھی داخل فرمانا ہو) اور مجھے سچائی (و خوش نودی) کے ساتھ باہر لے آ (جہاں سے بھی لانا ہو) اور مجھے اپنی جانب سے مدد گار غلبہ و قوت عطا فرمادے ‘‘۔
باری تعالیٰ مجھے سچائی کے گھر میں داخل فرما اور سچائی کے گھر سے نکال مکہ سے خروج پہلے اور مدینہ میں دخول بعد میں تھا مگر مدینہ میں داخل ہونے کا ذکر پہلے کیا اور مکہ سے نکلنے کے بعد میں کیا مگر تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتنا بھی گوارہ نہ کیا کہ پہلے یہاں مکہ سے نکلنے کو پہلے پھر مدخل صدق مدینہ میں داخل ہونے کو بعد میں بیان کردیتے چونکہ مکہ اور مدینہ کا اکٹھا ذکر ہورہا تھا آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت نے ایمان والوں کی سمت ایمان کی بنادی کہ مولا پہلے مجھے مدینہ میں داخل کر پھر مکہ سے نکال تاکہ میری امت اپنے ایمان کا مرکز مدینہ کو بنائے ایمان کی بنیاد محبت کو بنائے اور ان کی محبت کا رخ مدینہ ہو چونکہ میں مدینہ میں ہوتا ہوں۔ اس لئے آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا قیامت کے دن سب سے پہلے میں اٹھوں گا حشر ہوگا پھر میرے ساتھ اہل بقیع اٹھیں گے اور اس کے بعد اہل مکہ اٹھیں گے۔
(ترمذی، الجامع الصحیح، ابواب المناقب، 5 : 585، رقم : 3611)
قربان جاؤں گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ سے لے کر قیامت کے دن تک مدینہ کو ساتھ رکھا اور فرمایا۔
لَا يَدْخُلُ الْمَدِيْنَة رعبُ المَسِيْحِ الدَجَّالِ، لها يومئذ سبعة اَبْوَابٍ عَلٰی کُلِّ بَابٍ ملکان.
’’مدینہ میں دجال کا رعب داخل نہیں ہوگا، اس دن مدینہ منورہ کے سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر دو فرشتے ہوں گے‘‘۔
(بخاری، الصحیح، کتاب الحج، 2 : 664، رقم : 1780۔ 1781)
مدینہ کے ہر دروازے کے اوپر اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کے لئے دو فرشتے مقررکررکھے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے مدینہ میں نہ طاعون اور نہ دجال داخل ہوگا وہ ہر شے سے مدینہ کو بچارہے ہیں تاکہ جب کہیں بھی ایمان نہ بچے تو اس کا مستقر مدینہ رہے ان تمام احادیث صحیحہ سے جوایک سبق ملتا ہے کہ ایمان وہی خیر والا ہے جس کی بنیاد محبت پر ہوگی اور محبت برمبنی ایمان کا رخ مدینہ ہے۔ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مستقر آرام گاہ وہاں ہے تو جس نے جس قدر آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اپنی نسبت محبت، نسبت ظاہری، نسبت باطنی، نسبت حبی، نسبت اتباعی، نسبت ادبی و تعظیمی اور نسبت تقریبی و وصابی قائم کرلی تھی اور آج بھی جس نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی نسبت قائم کرلی اسی کا ایمان بچ گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے ایمان کیسے بچتا ہے کیونکہ ایمان اپنے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر میں جاکر بچاتا ہے۔ ایمان خود کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ میں جاکر بچاتا ہے تو ہمارا ایمان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے کیوں نہ بچے گا جو لوگ نسبت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جتنا دور ہوگئے وہ ایمان کی برکتوں سے اتنا ہی محروم ہوگئے۔ اسی لئے جب محبت کا ایمان وسیع ہوتا ہے تو پھر انسانیت سے محبت ہوتی ہے،
نفرت نہیں ہوتی۔ دہشت گردی نہیں ہوتی، قتل و غارت گری نہیں ہوتی۔ Extremism، Radicalism اور Terrorism نہیں ہوتی پھر ہر شخص کے ساتھ بندہ پیار کرتا ہے ہر ایک کو سینے سے لگاتا ہے چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم لیکن میرے نبی کی شان رحمۃ للعالمینی ہے ساری کائناتوں کی رحمت سے پھر مرد مومن کی محبت بھی پوری انسانیت کے لئے شفقت و محبت عام ہوجاتی ہے۔