قربانی کا لغوی و اصطلاحی مفہوم:
قربانی عربی زبان کا لفظ ہے جو قرب سے مشتق ہے۔ قرب کسی چیز کے نزدیک ہونے کو کہا جاتا ہے۔ اسلام میں قربانی کے لیے نسک، نحر، ہدی، قلائد، بہیمیہ الانعام، بدنہ جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جب کہ دیگر مذاہب میں اسے قربان، بھینٹ، بلوٹان، تھوسیا، یگیا اور قربانیاں جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ اسلامی اصطلاح میں قربانی کا ایک خاص مفہوم ہے۔ امام راغب اصفہانی مفردات القرآن میں لکھتے ہیں۔ قربانی سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کے ذریعے اللہ کی رضا جوئی کی جائے۔
(امام راغب اصفهانی، مفردات القرآن، 2: 283)
عربی زبان میں قربانی کو اضیحہ بھی کہتے ہیں۔
(امام الطبرانی، المعجم الکبیر، 2: 85)
دسویں ذی الحجہ کو جس میں قربانی کی جاتی ہے۔ عیدالاضحی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ فقہی اصطلاح میں قربانی اس حلال جانور کو کہتے ہیں جسے عیدالاضحی (بقر عید کے روز) گیارہویں یا بارہویں ذی الحجہ تک مستحب یا واجب ہونے کے اعتبار سے اللہ کی راہ میں ذبح یا نحر کرتے ہیں۔
(الحدائق الناضره، 17، 199، محمد حسن نجفی، جواهرالکلام، 19: 219)
عیدالاضحی یا عید قربان دین اسلام کے پیروکاروں کا دوسرا عظیم تہوار ہے جو اپنی اہمیت، فضیلت، معنویت اور روحانیت کے حوالے سے کئی نمایاں خصوصیات کا حامل ہے۔
قربانی کی ابتدا و تاریخ:
قرب الہٰی کے حصول کے لیے حلال جانور کو ذبح کرنے کی تاریخ حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی سے شروع ہوئی۔ یہ سب سے پہلی قربانی تھی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ م اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ.
(المائدة، 5: 27)
’’(اے نبی مکرم!) آپ ان لوگوں کو آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں (ہابیل و قابیل) کی خبر سنائیں جو بالکل سچی ہیَ جب دونوں نے (اللہ کے حضور ایک ایک) قربانی پیش کی سو ان میں سے ایک (ہابیل) کی قبول کر لی گئی اور دوسرے (قابیل) سے قبول نہ کی گئی ‘‘۔
اگرچہ ان دونوں کا نام بیان نہیں ہوا لیکن تاریخی واقعات میں اس معنی کی بہت تاکید ہوئی ہے کہ جس طرح قربانی قبول ہوئی وہ ہابیل تھے اور جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی وہ قابیل تھے۔
(شیخ طبرسی، مجمع البیان طبرسی، 3: 283)
علاہ ابن کثیر نے اس آیت کے تحت حضرت ابن عباسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ ہابیل نے مینڈھے کی قربانی کی اور قابیل نے کھیت کی پیداوار میں سے کچھ غلہ صدقہ کرکے قربانی پیش کی۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق آسمانی آگ نازل ہوئی۔ ہابیل کے مینڈھے کو کھالیا، قابیل کی قربانی کو چھوڑ دیا۔
(تفسیر ابن کثیر، 2: 518)
اللہ تعالیٰ نے قابیل کی قربانی نہ ہونے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ قابیل بے تقویٰ تھے جیسا کہ ہابیل کی قربانی کے قبول ہونے کی وجہ تقویٰ تھا۔ قربانی کی قبولیت کے بعد عالم بشریت میں پہلی جنگ ہوئی قابیل نے ہابیل کو دھمکی دی اور پھر قتل کرکے خسارہ والوں میں داخل ہوگیا۔
(المائده: 30)
قربانی کی خاص شناخت حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام کے واقعہ سے ہوتی ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت ابراہیمؑ کے بڑے صاحبزادے تھے۔ یہ حضرت ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت ہاجرہ اور ننھے اسماعیلؑ کو اس بنجر اور ویران علاقے میں چھوڑ دیا جسے اب مکہ معظمہ کہتے ہیں اور جو مسلمانوں کا قبلہ ہے۔
یعنی جب ابراہیم علیہ السلام کا بیٹا اس قابل ہوگیا کہ باپ کے ساتھ چل کر ان کے کاموں میں مددگار بن سکے تو حضرت ابراہیمؑ نے کہا: اے میرے پیارے بیٹے! میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں، بتاؤ تمہاری رائے کیا ہے؟ سعادت مند بیٹا بھی تو خلیل کا بیٹا تھا کہنے لگے: ابا جان آپ وہ کام کر گزریں جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے آپ ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔
جب باپ بیٹا قربانی کے لیے تیار ہوئے اور باپ نے بیٹے کو قربان کرنے کے لیے چہرہ کے بل کروٹ پر لٹادیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ابراہیم آپ نے خواب کو سچا کر دکھایا‘‘۔
(الصافات، 37: 104-107)
مفسرین کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ایمان و خلوص کے درجات عیاں ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مینڈھا آگیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کیا۔ حضرت اسماعیلؑ کی اسی قربانی کی یاد میں مسلمان ہر سال 10ذی الحج کو عیدالاضحی مناتے ہیں اور جانوروں کی قربانی کرکے سنت ابراہیمی ادا کرتے ہیں یہ حقیقت ہے کہ قربانی کے عمل میں واقعہ ذبح اسماعیل علیہ السلام کو خاصہ دخل ہے۔ اس لیے نسبت ان کی طرف کی گئی ہے اس واقعہ میں نوع انسانی کے لیے بڑی نصیحت ہے کہ ہم نے اقرار کیا ہے کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ ہمارا نہیں اللہ کا ہے۔ ہم اللہ کے حکم پر چلیں گے اور اس کے حکم پر اپنی خواہشات سے بے پرواہ ہوجائیں گے۔
قربانی کی تاریخ و ابتدا:
اگرچہ قربانی کی ابتداء حضرت آدمؑ کے بیٹوں سے ہوئی لیکن ان پر ختم نہیں ہوئی۔ تقریبا ہر مذہب کے لوگ اور مختلف قبائل کے لوگ قربانی دیتے رہے ہیں۔ عموماً قربانی کے فریضے کی ادائیگی کے لیے جانور اور مال منتخب کیے جاتے۔ تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کئی مذاہب میں دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے بھی انسانوں کو بھینٹ چڑھا دیا جاتا تھا۔ ہندو مذہب میں قربانی پر تصور موجود ہے، اس مذہب میں جانوروں کو ذبح کرنا یگیا (قربانی) کے لیے گھی، اناج، مصالحوں اور لکڑی وغیرہ کو آگ میں پھینکا جاتا ہے اس موقع پر منتر اور اشلوک پڑھے جاتے ہیں۔ ویدوں کے زمانے میں یگیا کے لیے دودھ، ملائی، گھی، اناج اور کچھ پودوں کا استعمال کیا جاتا لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہندو دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے معصوم انسانوں کو ان کی بھینٹ چڑھانا قابل فخر سمجھتے ہیں۔ قربانی پر تصور اب بھی موجود ہے عموماً یہ انسانی قربانیاں پوشیدہ ہوتی ہیں۔
قبل از اسلام مصری دریائے نیل کی روانی برقرار رکھنے کے لیے ایک خوبصورت کنواری دوشیزہ کو زیورات سے سجاکر دریا کی نذر کردیا کرتے تھے۔ یہ قبیح رسم اسلام کی آمد کے بعد عہد فاروقی میں ختم ہوئی۔ حضرت عمر فاروقؓ کے عہد میں عمرو بن العاصؓ مصر کے گورنر مقرر ہوئے۔ سال میں وہ وقت بھی آگیا جب دریائے نیل خشک ہوکر قربانی مانگنے لگا۔ لوگ دریائے نیل کے لیے قربانی تیاریاں کرنے لگے۔ جس دن قربانی دی جاتی تھی حضرت عمرو بن العاصؓ سخت پریشان ہوکر دریائے نیل کے کنارے جاپہنچے دیکھا کہ لوگ پندرہ سالہ لڑکی کو لے کر دریا کے کنارے جاپہنچے تھے۔ لوگوں نے سمجھا کہ حضرت عمرو بن العاصؓ بھی ان کی طرح قربانی کا منظر دیکھنے آئے ہیں لیکن حضرت عمرو بن العاصؓ کے دریافت کرنے پر لوگوں نے تفصیل بتائی کہ دریائے نیل روانی کے لیے ہر سال انسانی قربانی مانگتا ہے۔ یہ سن کر حضرت عمرو بن العاصؓ نے کہا کہ ظلم ہے اسلام ان باتوں کو پسند نہیں کرتا۔ یہ فضول باتوں کو مٹانے کے لیے آیا ہے۔ آئندہ ایسا نہیں کرو گے دریائے نیل خشک ہونے سے زمینیں بنجر ہوگئیں۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کو خط لکھ کر تفصیل بتائی۔ جواباً حضرت عمر فاروقؓ نے دریائے نیل کے نام خط لکھا۔ یہ خط اللہ کے بندے عمر بن خطابؓ کی طرف سے دریائے نیل کے نام تھا۔
’’اے دریا! اگر تو اللہ کے حکم سے بہتا ہے تو ہم بھی اللہ سے تیرا جاری ہونا مانگتے ہیں اور تو اللہ کے حکم سے جاری ہوگا اور اگر تو اپنی مرضی سے بہتا ہے اور اپنی مرضی سے رک جاتا ہے تو پھر میری کوئی پرواہ اور ضرورت نہیں‘‘۔
حضرت عمرو بن العاصؓ نے یہ رقعہ دریائے نیل میں ڈال دیا اس دن سے اب تک دریائے نیل جاری و ساری ہے ایک لمحے کے لیے بھی اس کا پانی خشک نہیں ہوا۔
جنوبی امریکہ، افریقہ، انڈونیشیا، جرمن اور سکینڈے نیویارک کے بعض قبائل اپنے دیوتاؤں کے غضب سے بچنے کے لیے ان کی رضا کے حصول کے لیے کسی نئی عمارت کی تعمیر یا بادشاہ کی موت اور اچانک ٹوٹنے والی آفت کے وقت ایک انسان کی بجائے سینکڑوں انسانوں کی قربانی کرتے تھے یہ جن انسانوں کی قربانی کرتے تھے۔ عموماً دشمن قبیلے کے ہوتے تھے۔ ہسپانوی مہم جوئیوں نے جب میکسیکو کو فتح کیا تو بڑی تعداد میں ہسپانوی لوگوں نے وحشی قبائل کو کلیر کیا وہ ان کو قربان کرنے والے تھے کہ انہیں بچا لیا گیا۔
قدیم یونانی بھی انسانی قربانی کے قائل تھے یہ قربانی کے لیے بچے، نوجوان، مرد اور عورتوں کو استعمال کرتے تھے۔ جس کی تصدیق ان کی ہڈیوں سے ہوتی ہے جنہیں آثار قدیمہ کے ماہرین نے کھدائی کے دوران برآمد کیا قلعہ کریٹ سے ملنے والی بچوں کی ہڈیوں سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں ذبح کیا گیا۔ ایتھنز کے لوگ قربانی کے لیے بار برداری میں جوتے جانے والے بیل کی قربانی دیا کرتے تھے۔ یہ سینکڑوں بیل قربان کرتے ان کا گوشت پکا کر دعوت دی جاتی۔ اس موقع پر سرکاری میلہ بھی سجایا جاتا تھا۔ یہ اپنے سمندری دیوتا پوسیڈن اور منورٹا کو خوش کرنے کے لیے انسانوں کی قربانی دیا کرتے تھے قربانی کے لیے سات نوجوان مرد اور سات نوجوان عورتوں کو کریٹ بھیجا جاتا تھا۔
روم کے صوبہ شام کے شہر دومۃ الجندل کے لوگ ہر سال خاص انداز سے ایک شخص کا انتخاب کرتے اور اپنے خداؤں اور بتوں کے حضور اسے قربان کردیتے پھر اس کا جسم قربان گاہ کے قریب دفن کردیتے تھے۔
عرب کے بہت سے قبائل جب کسی جنگ میں کامیاب ہوجاتے تو مغلوب قوم کے اموال لوٹ لیتے ان کے لوگوں کو قیدی بنالیتے اس فتح کے شکرانے میں جو کام سرانجام دیتے ان میں سے ایک یہ تھا کہ قیدیوں میں سے خوبصورت ترین شخص کو اپنے بتوں کے حضور قربان کردیتے۔ اس کے خون کو کامیابی کے تسلسل کے لیے اپنے سر اور چہرے پر ملتے۔ اسلام سے قبل مشرکین مکہ بھی قربانی کیا کرتے تھے۔ یہ قربانی سنت ابراہیمی کے مطابق جانوروں یعنی اونٹ، بھیڑ، بکریوں وغیرہ کی کی جاتی تھی۔ علاوہ ازیں عرب خصوصی منتیں مان کر بھی اولاد کی قربانی دیا کرتے تھے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد حضرت عبداللہ کی قربانی کا واقعہ ہے۔
جب حضرت عبدالمطلب زمزم کا کنواں جو گمنام ہوچکا تھا اسے الہام الہٰی سے نشان دہی ملنے کے بعد کھودنے لگے تو انہیں دشواری ہوئی تو انہوں نے منت مانی کہ اگر میرے دس بیٹے ہوں تو میں ان میں سے ایک کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کردوں گا۔ ان کے بیٹے ہوئے تو انہوںنے قرعہ اندازی کی جس میں حضرت عبداللہ کا نام نکلا جو ان کے چہیتے بیٹے تھے۔
حضرت عبدالمطلب انہیں قربان گاہ کی طرف لے گئے تو ان کے بھائیوں اور قبیلے کے دوسرے لوگوں کے اصرار پر حضرت عبداللہ اور دس اونٹوں پر قرعہ ڈالا گیا۔ مگر نام حضرت عبداللہ کا ہی نکلا پھر تعداد بڑھائی گئی مگر ہر بار قرعہ میں نام حضرت عبداللہ کا ہی نکلتا۔ آخر کار سو اونٹوں پر قرعہ ڈالا گیا تو اونٹ پر قرعہ نکلا۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ کی جگہ سو اونٹوں کی قربانی کی گئی۔ (طبقات ابن سعد، سیرت ابن ہشام، جلد اول)
انسانی نسل کی تمام نمایاں تہذیبوں میں قربانی کا تصور کسی نہ کسی طرح موجود رہا ہے۔ یہ کوئی رسم نہیں بلکہ اس کا رشتہ قدیم ترین مذہبی عبادات سے جڑتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعض ادیان میں جانور کی قربانی اصلاً ممنوع ہے مثلاً بدھ مت اور ہندو مت کے ہاں جانور کی قربانی ممنوع ہے۔ بدھ مت میں تو اب بھی یہی تصور پایا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زرتشت کے ہاں کہ جانور کی قربانی کا تصور نہ تھا اور بعد میں اس کے ماننے والوں نے قربانی شروع کی۔
یہود بھی قربانی کرتے تھے جب ان کے پیغمبر ان کو قربانی کا حکم دیتے تھے تو وہ آبادی سے باہر قربانی کے جانور کو پہاڑ یا کسی اونچی جگہ چھوڑ دیتے پیغمبر کی دعا سے تھوڑی دیر کے بعد ایک خاص آگ اتر کر اسے جلا کر رکھ دیتی تھی اب یہودی اہل فصیح کے موقع پر ایک سالہ بھیڑ کے بچے کی قربانی کرتے ہیں۔ اس میں غیر یہودیوں کو شامل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔ عید فصیح کے پچاسویں دن یوم خمس منایا جاتا ہے اس میں سات بھیڑیں یا بیل اور دو دنبے کیے جاتے ہیں اور غریب غربا کو دعوت پر بلایا جاتا ہے۔
سابق انبیا کرام کی شریعتوں میں قربانی کا تسلسل حضرت عیسیٰؑ کی بعثت تک پہنچتا ہے۔ عیسائی قربانی کرتے تھے۔ بائبل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ ملتا ہے جس میں انھوں نے بیٹے کو قربانی کے لیے چنا۔ بائبل اس کا نام حضرت اسحاقؑ بتاتی ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم کے مطابق وہ حضرت اسماعیلؑ تھے۔ دین اسلام میں 10 ذوالحجہ کو قربانی کا حکم دیا گیا ہے۔ دیگر مذاہب کے برعکس اس مذہب میں ہر صاحب نصاب خود قربانی کرسکتا ہے۔ قربانی 10، 11، 12 ذوالحجہ کو کسی بھی دن کی جاسکتی ہے۔ اس مذہب میں قربانی کے واضح احکام ملتے ہیں۔ ذیل میں قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلام کے تصور قربانی کا جائزہ لیا جارہا ہے۔
قرآن حکیم میں قربانی کا بیان:
1۔ قرآن حکیم میں کئی مقامات پر قربانی کی حقیقت اور فضیلت کا ذکر ملتا ہے:
وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰـھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللهِ لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ فَاذْکُرُوا اسْمَ اللهِ عَلَیْھَا صَوَآفَّ ج فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ط کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰـھَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ. لَنْ یَّنَالَ اللهَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰـکِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ط کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللهَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ ط وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ.
’’اور قربانی کے بڑے جانوروں (یعنی اونٹ اور گائے وغیرہ) کو ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنا دیا ہے ان میں تمہارے لیے بھلائی ہے پس تم (انہیں) قطار میں کھڑا کرکے (نیزہ مار کر نحر کے وقت) ان پر اللہ کا نام لو، پھر جب وہ اپنے پہلو کے بل گر جائیں تو تم خود (بھی) اس میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں کو اور سوال کرنے والے (محتاجوں) کو (بھی) کھلاؤ۔ اس طرح ہم نے انہیں تمہارے تابع کر دیا ہے تاکہ تم شکر بجا لاؤ۔ ہرگز نہ (تو) اللہ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے، اس طرح (اللہ نے) انہیں تمہارے تابع کر دیا ہے تاکہ تم (وقتِ ذبح) اللہ کی تکبیر کہو جیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی ہے، اور آپ نیکی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں‘‘۔
(الحج، 22: 36-37)
وَمَنْ یُّـعَـظِّـمْ شَعَآئِرَ اللهِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ.
’’اور جو شخص اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے (یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات، احکام اور مناسک وغیرہ کی تعظیم جو اللہ یا اللہ والوں کے ساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں) تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقویٰ میں سے ہے (یہ تعظیم وہی لوگ بجا لاتے ہیں جن کے دلوں کو تقویٰ نصیب ہوگیا ہو)‘‘۔
(الحج، 22: 32)
امت مسلمہ سے قبل جتنی امتیں گزری ہیں ان میں قربانی کا طریقہ یہ تھا کہ قربانی ذبح کرنے کے بعد وقت کے نبی علیہ السلام قربانی کی قبولیت کی دعا مانگتے اور آسمان سے ایک آگ اتر کر اسے کھا جاتی جو قربانی کی قبولیت کی علامت تھی۔ امت محمدیہ پر خاص انعام ہوا کہ قربانی کا گوشت ان کے لیے حلال کردیا گیا۔
اَلَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللهَ عَهِدَ اِلَیْنَآ اَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُوْلٍ حَتّٰی یَاْتِیَنَا بِقُرْبَانٍ تَاْکُلُهُ النَّارُ.
’’جو لوگ (یعنی یہود حیلہ جوئی کے طور پر) یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں یہ حکم بھیجا تھا کہ ہم کسی پیغمبر پر ایمان نہ لائیں جب تک وہ (اپنی رسالت کے ثبوت میں) ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ (آ کر) کھا جائے‘‘۔
(آل عمران، 3: 183)
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ للهِ رَبِّ الْعٰـلَمِیْنَ.
’’فرما دیجیے کہ بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘۔
(الانعام، 6: 162)
اس آیت کریمہ میں نسک سے مراد قربانی ہے۔ وہ جانور جو تقرب الہٰی کے حصول کے لیے ذبح کیا جائے نسک کہلاتاہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ لفظ نسک قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔
قربانی کے حکم کو ایک اور انداز سے یوں بیان کیا ہے:
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ.
’’پس آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کریںاور قربانی دیا کریں (یہ ہدیۂ تشکرّہے)‘‘۔
(الکوثر، 108: 2)
لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللهِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَارَزَقَھُمْ مِّنْ م بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ ج فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَ.
’’تاکہ وہ اپنے فوائد (بھی) پائیں اور (قربانی کے) مقررہ دنوں کے اندر اللہ نے جو مویشی چوپائے ان کو بخشے ہیں ان پر (ذبح کے وقت) اللہ کے نام کا ذکر بھی کریں، پس تم اس میں سے خود (بھی) کھاؤ اور خستہ حال محتاج کو (بھی) کھلاؤ‘‘۔
(الحج، 22: 28)
اس آیت کریمہ میں بھی قربانی ہی کا ذکر ہے۔
وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللهِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ م بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ.
’’اور ہم نے ہر امت کے لیے ایک قربانی مقرر کر دی ہے تاکہ وہ ان مویشی چوپایوں پر جو اللہ نے انہیں عنایت فرمائے ہیں ‘‘۔
(الحج، 22: 34)
حدیث مبارکہ میں قربانی کا بیان:
عن عائشة ؓ قالت: قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم ما عمل ابن آدم من عمل یوم النحر احب الی الله من ابراق الدم وانه اتی یوم القیامة بقرو انا و اشعار ها وظلا فیها وان الدم لیقع من الله بمکان قبل ان یقع باالارض فطیبوا بها نفسا.
(محمد عیسیٰ ترمذی، جامع ترمذی، ص: 14936)
’’حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ابن آدم (انسان) نے قربانی کے دن کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو اللہ کے نزدیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے زیادہ پسندیدہ ہو اور قیامت کے دن وہ ذبح کیا ہوا جانور اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوجاتا ہے۔ لہذا تم اس کی وجہ سے (قربانی کرکے) اپنے دلوں کو خوش کرو‘‘۔
عن زید بن ارقمؓ قال: قال اصحاب رسول الله: یارسول الله! ما هذه الاضاحی؟ قال: سنۃ ابیکم ابراهیم علیه السلام، قالوا: فما لنا فیها یارسول الله؟ قال: بکل شعرۃ حسنۃ، قالوا: قال اوف؟ یارسول الله! قال: بکل شعره من الصوف حسنۃ.
(امام ولی الله۔۔۔۔۔۔ ص: 29)
’’حضرت زید بن ارقم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ یارسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے فرمایا: تمہارے باب ابراہیمؑ کا طریقہ (یعنی ان کی سنت) ہے صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ پھر اس میں ہمارے لیے کیا (اجرو ثواب ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی، انہوں نے عرض کیا کہ دنبہ وغیرہ اگر حج کریں تو ان کی) اون (میں کیا ثواب ہے؟) فرمایا کہ اون کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی‘‘۔
عن ابن عباسؓ قال: قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم فی یوم الضحیٰ ماعمل آدمی فی هذا الیوم افضل من دم لراق بالا ان یکون رحما توصل.
(حافظ ابن حجر عسقلانی الترغیب والترهیب، 2: 773)
’’حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عیدالاضحی کے دن ارشاد فرمایا آج کے دن کسی آدمی نے خون بہانے سے زیادہ افضل عمل نہیں کیا اگر کسی رشتہ دار کے ساتھ حسن سلوک اس سے بڑھ کر ہو تو ہو‘‘۔
عن علیؓ ان رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم قال: فاطمه قومی فاشهدی اضحیتک فان لک باول قطره تقطر من دمھا مغفره لکل ذنب ما له یجاء بلعمها ودمھا توضع فی فیرانک سبعین منعفا قال ابو سعید: یارسول الله هذا الا محمد خاصۃ فانهم اهل لما خصوبه من الخیر وللمسلمین عامة لا محمد خاصة وللمسلمین عامة.
(الترغیب والترهیب، 2: 277-278)
’’حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ سے فرمایا اے فاطمہ! اٹھو اور اپنی قربانی کے پاس (ذبح کے وقت) موجود رہو۔ اس لیے کہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی تمہارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے۔ ہر قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے گوشت اور خون کے ساتھ لایا جائے گا اور تمہارے ترازو میں ستر گنا (زیادہ) کرکے رکھا جائے گا۔ حضرت ابو سعید خدریؓ نے عرض کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! یہ فضیلت خاندان نبوت کے ساتھ خاص ہے جو کسی بھی خیر کے ساتھ مخصوص ہونے کے حقدار ہیں یا تمام مسلمانوں کے لیے ہے؟ فرمایا یہ فضیلت آل محمد کے لیے خصوصاً ہے اور عموماً تمام مسلمانوں کے لیے بھی ہے‘‘۔
عن علیؓ عن النبی صلی الله علیه وآله وسلم قال: یا ایھا الناس اضحوا واحتسبوا بدمائھا فان الدم وان وقع فی الارض فانه یقع فی حرز الله عزوجل.
(الترغیب والترهیب، 2، 277-278)
’’حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! تم قربانی کرو اور ان قربانیوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے اجرو ثواب کی امید رکھو۔ اس لیے کہ (ان کا) خون اگرچہ زمین پر گرتا ہے لیکن وہ اللہ کے حفظ و امان میں چلا جاتا ہے‘‘۔
عن ابن عباسؓ قال: قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم ما انفقت الورق فی شی حب الی الله من نحر ینحر فی یوم عید.
(الترغیب والترهیب، 2: 277-278)
’’حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چاندی (یا کوئی بھی مال) کسی ایسی چیز میں خرچ نہیں کیا گیا جو اللہ کے نزدیک اس اونٹ سے پسندیدہ ہو جو عید کے دن ذبح کیا گیا ہو‘‘۔
عن ابی هریرةؓ قال: قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم من وجد سعة لان یضحیٰ فلم یضح فلا یحضر معلانا.
(الترغیب والترهیب)
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص قربانی کی گنجائش رکھتا ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے‘‘۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں دس سال قیام کے دوران ہر سال قربانی دی اور صحابہ کرام علیہم اجمعین کو بھی قربانی کرنے کا حکم دیا اور اس کے احکام سکھائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر سو اونٹ قربان فرمائے جن میں سے تریسٹھ خود اپنے دست مبارک سے راہ خدا ذبح فرمائے۔
وجوب قربانی کے احکام و شرائط:
قربانی کے چند احکام درج ذیل ہیں:
قربانی کرنے والا مسلمان، عاقل، بالغ مرد یا عورت، مقیم ہو یا مسافر اتنا مال دار ہو کہ زکوٰۃ اور صدقہ فطر کرتا ہو یعنی ہر صاحب نصاب میاں، بیوی پر الگ الگ قربانی واجب ہے۔ یاد رہے کہ زکوٰۃ کی طرح قربانی کے لیے بھی نصاب کا سال بھر تک باقی قائم رہنا شرط نہیں قربانی قدرت ممکنہ پر واجب ہے۔ خواہ قربانی کرنے والا کہیں بھی رہتا ہو۔ قربانی کے جانور صحت مند، تندرست ہونا ضروری ہے۔ اونٹ پانچ برس کا بھینس دو برس کی، بکرا ایک برس کی بھیڑ چھ چھ ماہ کی بھی ہوسکتی ہے بشرط یہ کہ وہ فربہی کے سبب سال بھر کی معلوم ہوتی ہو ورنہ سال بھر کی ہونی چاہئے۔ اس سے کم عمر جانور کی قربانی نہیں ہوسکتی۔
قربانی کے گوشت کی تقسیم:
قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کیا جائے ایک حصہ اپنے کے لیے، دوسرا دوست احباب کے لیے اور تیسرا حصہ فقہ اور مساکین کے لیے قربانی کا گوشت اندازہ سے نہیں بلکہ وزن سے تقسیم کرنا بہتر ہے۔ قربانی کے جانور کو بائیں پہلو قبلہ رخ لٹا کر ذبح کرنا چاہئے۔
قربانی کا فلسفہ:
عیدالاضحی پہ کی جانے والی قربانی ہمیں درس دیتی ہے کہ ہر مسلمان کی خوشی و مسرت عیش و عشرت، امن و سکون، اضطراب و پریشانی اور محبت و نفرت سب رضائے الہٰی کے تابع ہونی چاہئے۔ مسلمان کا جینا، مرنا اس کی نماز اور روزے سب اللہ کے لیے ہو۔ اس سے مقصود رضائے الہٰی کا حصول ہونا چاہیے۔ بلاشبہ قربانی کا مقصد اللہ کی رضا جوئی ہے لیکن امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام پچھلی امتوں پر قربانی کے حوالے سے اس پر سبقت لے گئی کہ یہ کام ہمارے دین کے کاموں میں شمار کیا گیا ہے۔ مسلمان کی روح قربانی سے پاکیزگی حاصل کرتی ہے۔
آیات و احادیث کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ جس طرح قربانی کا مقصد جانور قربان کرکے گوشت کی تقسیم ہے۔ اسی طرح قربانی کی اصل روح اور فلسفے کا حصول بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حقیقی پرستار اور سچا عابد وہی ہے جو اپنی خلاف شرع قوتوں، ناجائز آرزوؤں اور تمناؤں اور نفس امارہ کی، خواہشات کو رضائے الہٰی کے حصول اور اطاعت الہٰی میں ذبح کر ڈالے۔ قربانی کی اصل روح یہی ہے اور اس کا مقصد دل کو بیدار کرنا اور جذبہ محبت کو پروان چڑھانا ہے۔
ظاہراً قربانی ایک جانور کو اللہ کی راہ میں قربان کرکے اس کے گوشت کی تقسیم؎ ہے لیکن در حقیقت یہ سبق دیتی ہے۔ مال و دولت دنیا کو احکام الہٰی کی بجا آوری میں استعمال کیا جائے اس سلسلے میں پیش آمدہ مصائب و تکالیف کو برداشت کیا جائے تاکہ نفس غفلت کی موت سے بچ سکے۔ سچا مسلمان وہی ہے جو اپنی اطاعت کی گردن اپنے خالق حقیقی کے سامنے جھکا دے اور اپنا نفس ذبح کر ڈالے، ریا کاری اور دکھاوے سے بچے۔ فرمان الہٰی کے مطابق اللہ تعالیٰ کو قربانی کا گوشت یا خون نہیں پہنچتا بلکہ اسے تو صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ قربانی کے فلسفے کی روح کو سمجھ کر اس پر صحیح معنوں میں عمل پیرا ہوا جائے۔ (آمین)