کاسمیٹک سرجری کی جدید صورتیں اور ان کا شر عی حکم

ما ریہ اعوان

ابتدائیہ:

انسان کا جسم اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور ممکن حد تک اس کی حفاظت انسان کا فریضہ ہے حفاظت میں بیماریوں کا علاج بھی شامل ہے۔ بیماری وہ بھی ہے جس سے انسان کے جسم کا کو ئی ضروری فعل متا ثر ہو جائے یا کسی عضو کی منفعت ختم کر دی جا ئے اور یہ بھی بیماری میں داخل ہے کہ انسان دیکھنے میں کسی خاص وجہ سے بدہیت نظر آئے، اس دوسری قسم کے علاج کی طرف بھی ہمیشہ سے لوگ توجہ دیتے آئے ہیں۔ کیونکہ اس سیاگرچہ انسان کو کوئی جسمانی تکلیف نہیں ہو تی۔ لیکن اس سے جو ذہنی تکلیف پہنچتی ہے وہ جسمانی تکلیف سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ لیکن آج علاج کی ایک نئی صورتپلاسٹک سرجری کی دریافت ہو ئی ہے جس میں مریض کے جسم ہی سے کو ئی حصہ لے کر اس کے دوسرے حصہ کو درست کیا جا تا ہے۔ اور اس اب یہ بہت زیادہ مقبول ہو رہی ہے۔

کاسمیٹک سرجری کا معنیٰ ومفہوم:

مجموعة العملیات التی تتعلق بالشکل ، والتی یکون الغرض منها علاج عیوب طبیعیة أو مکتسبة فی ظاهر الجسم البشری.

ایسی سرجری جس کا مقصد قدرتی نقائص کا علاج کرنا ہے یا انسانی جسم کی ظاہری شکل کو مزیدبہتر بنانا ہے

وعرّفت الجراحة التجمیلیة بانها: جراحة تجری لتحسین منظر جزء من أجزاء الجسم الظاهرة ، أو وظیفته إذا طرأ علیه نقص أو تلف أو تشوه.

"کاسمیٹک سرجری کے زریعے جسم کے کسی نظر آنے والے حصے کی ظاہری شکل کو بہتر بنانے کے لئے سرجری ، یا اس کی افعال میں پائے جانے والے عیب کو دور کر نا "

ڈاکٹر الہام بنت عبد اللہ باجنید کے نزدیک:

جراحة تجری لتحسین منظر جزء من اجزاء الجسم الظاھرة و وظیفة اذا ما طراً علیه نقص او تلف او تشوه.

وہ آپریشن جو جسم کے ظاہری اجزاء میں سے کسی جز یا اس کے فعل کو خوشنما بنا نے کے لئے اس وقت ہو تا ہے ، جب اس میں کو ئی عیب ، تلف یا بگاڑ پیدا ہو جائے

فطری طور پر ہر شخص کی یہ خواہش ہو تی ہے کہ خوبصورت نظر آئے دیکھنے میں اور اچھا لگے اس کا چہرہ خوبصورت معلوم ہو اس کے اعضا ء چست دیکھائی دیں اور ان پر درازی عمر کے اثرات بھی عیا ں نہ ہوں، اس کے لیے طب کی ایک شاخ جس میں جسم انسانی کے کسی عضو کی ہیئت یا فعل کو درست کر نے کیلئے ایک خا ص طرح کی کاسمیٹک سرجری کروائی جا تی ہے کاسمیٹک سرجری عصر حا ضر کے اس مسئلے پر مکمل تفصیل نہیں ملتی لیکن اس مسئلے سے متعلق اصول کی نشاندہی ضرور کی گئی ہے کاسمیٹک سرجری کی کئی صورتیں ہیں اب ہم ان کا شر عی حکم دیکھتے ہیں کہ کس صورت میں شریعت اسلامیہ میں سرجری کروانا جا ئزہے اور کس صورت میں جائز نہیں ہے۔

پیدا ئشی عیوب کی وجہ سے سر جری:

بسا اوقات انسان میں پیدا ئشی طور پر ایسا عیب پا یا جاتا ہے جس سے انسان کی بدصورتی نمایاں ہوتی ہے مثلاً دانت یا تالو کا کٹا ہوا ہونا یا ہاتھوں یا پاؤں میں زائد انگلیوں کا ہونا یا منہ میں دانت زیا دہ ہو یا کوئی دانت لمبا ہو یا اس طرح کو ئی عیب تو اس بدہیتی کو درست کر نے کے بارے میں اسلام کا مؤقف کیا ہے۔

شریعت اسلامیہ کے اسرار و علل احکام میں غور کرنے سے معلوم ہوتے ہیں کہ اللہ تعالی نے کسی انسان کو جس طرح بھی پیدا کیا ہو اس کے لئے اپنے اعضاء میں کو ئی کمی یا تبدیلی کرنا جا ئز نہیں ہے۔ جس شخص کے بدن میں کو ئی انگلی یا کوئی دوسرا عضو زائد ہو اس کے لئے اسے کاٹنا یا علیحدہ کر نا بظاہر درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تغیر ہے۔

ابو جعفر طبری کا مؤ قف:

لا یجو ز للمراة تغییر شیء من خلقتھا التی خلقھا اللہ علیھا بزیادة او نقص، التماس الحسن لا للزوج ولا لغیرہ کمن تکون مقرونة الحاجبین فتزیل ما بینھما تو ھم البلج او عکمہ و من تکون لھا سن زائدة فتقلعھا او طو یلة فتقطع منھا... فکل ذلک داخل فی النھی و ھو من تغییر خلق اللہ.

عورت کے لئے جا ئز نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جس خلقت پر پیدا کیا ہے اس میں کو ئی کمی بیشی کرے، مثلاً اس کا کو ئی دانت زائد ہو تو اسے اکھاڑ دے یا لمبا ہو تو اسے کاٹ دے یہ کام ممنوع ہیں، ان کا شمار اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی میں ہو تا ہے "

اسکے عدم جواز کا حکم اس وقت ہے اگر انسان کا ارادہ صرف ظاہری حسن کا ہو اور ان عیوب کا ختم کرنا صرف دکھلاوے کے لئے ہو تاکہ انسان اچھا لگے تو اس صورت میں بظا ہر یہ کا م درست نہیں۔ ہاں اگر روزمرہ کے کام کا ج میں رکاوٹ کا باعث ہو جس کی وجہ سے پریشانی کا سامنا ہو جیسے زائد لمبے دانت کی وجہ سے کھانے میں دشواری ہوتی ہو یا زائد انگلی سے کو ئی جسمانی اذیت لا حق ہوتی ہو تو ان کے نزدیک انگلی کو کٹوانا اور دانت کو نکلوانا جا ئز ہوگا۔

عیوب کو دور کرنے کی اجازت احادیث مبارکہ میں بھی دی گئی ہے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ:

قال عرفجہ بن اسعد قال: اصیب انفی یوم الکلاب فی الجاھیلة فاتخذت انفا من ورق فانتن علی فامونی رسول؟ ان اتخذ انفا من ذھب.

حضرت عرفجہ بن اسعد فر ماتے ہیں: جا ہلی دور میں جنگ کلاب میں میری ناک ضائع ہوگئی تھی میں نے چاندی کی ناک لگا لی تھی تو اس میں بدبو پیدا ہو گئی تھی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے سونے کی ناک لگوانے کا حکم دیا تھا"

اس حدیث مبا رکہ سے واضح ہو تا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سونے کی ناک لگوانے کا حکم یا اجازت اس لئے دی تھی تاکہ بدنمائی کو دور کیا جائے کیونکہ بدبو تو زخم پر دوائی لگانے سے بھی دور کی جا سکتی تھی اور یہ حکم بھی صرف ناک کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اس مقصد کے تحت کئی اور بھی اس طرح کی سرجری کروائی جا سکتی ہے۔

"حضرت قتادہ بیان کر تے ہیں کہ: احد کے موقع پر میں اپنے چہرے کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے کے سامنے کر کے تیروں کو روک رہا تھا کہ ایک تیر مجھے ایسے لگا کہ جس سے میری آنکھ حلقے سے باہر نکل گئی میں نے اسے ہا تھ میں لیا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ میں ایک عورت سے محبت کرتا ہوں مجھے ڈر لگتا ہے کہ اب وہ مجھے نہ پسند کرے گی۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا اگر تم صبر کرلو تو تمہیں جنت ملے گی اور ا گر چاہو تو میں اللہ سے دعا کر تا ہوں، تمھاری آنکھ لوٹ آئے گی۔ حضرت قتادہ نے عرض کیا کہ جنت بہترین بدلہ ہے لیکن اگر وہ خا تون دیکھے گی تو مجھے بھینگا کہے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری آنکھ کو اس جگہ پر لو ٹا دیا اور میرے لئے جنت کی دعا بھی کی۔ "

ان تمام روایات فقہیہ سے عیب کو دور کرنے کے لئے سرجری کی اجازت معلوم ہو رہی ہے اور یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ اگر ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ بندے کی جان جاسکتی ہو تو اس صورت ایسی چیزیں بھی استعمال کی جا سکتی ہیں جو عام حالات میں جا ئز نہیں ہو تی۔

غیر خلقی عیوب کو دور کر نے کے لئے کی جا نے والی سرجری کا حکم:

بعض اوقا ت ایسا بھی ہو تا ہے کہ بد صورتی پیدائشی نہیں ہوتی بلکہ کسی حا دثہ کی وجہ سے ظا ہر ہوئی ہو، جیسے کسی ایکسدنٹ کی وجہ سے کسی کی ناک یا کان کٹ گئی ہو یا تیزاب پھینکنے کی وجہ سے کسی کی جلد جھلس گئی ہو، کسی لڑائی میں جسم کا کو ئی اعضاء کٹ گیا یا کو ئی ایسی صورت پیش آئی ہو کہ آدمی کے جسم پر ظا ہر ہونے والا عیب پیدائشی نہ تھا بلکہ حادثاتی وجہ سے ظا ہر ہوا ہو۔ اس طرح کے تمام عیوب بیماری میں شمار ہوتے ہیں اسمیں کسی بھی قسم کا کو ئی شک و شبہ نہیں اس کے لئے علاج کی اجازت ہوگی۔

اس کا ثبوت ہمیں احا دیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی ملتا ہے بخاری کی حدیث مبارکہ ہے ایک دفعہ غزوہ خندک کے موقع پر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو ایک تیر لگا تھا جس سے حضرت سعد بن معاذ کی بازو زخمی ہوگئی تھی تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لئے مسجد بنو ی میں خیمہ لگوایا اور ان کے علاج و معالجہ میں کسی بھی قسم کی کسر نہیں اٹھا ر کھی تھی۔

اسطرح حضرت را فع بن مالک کو غزوہ بدر میں تیر لگا تھا جس سے ان کی آنکھ زخمی ہوگئی تھی تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت رافع کی آنکھ میں اپنا لعاب دہن لگایا تھا اور ان کے لئے دعا کی حضرت رافع خود فرماتے ہیں لعاب دہن کی برکت سے میری آنکھ میں ذرا بھی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔

ان تمام د لائل سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ اگر انسانی جسم میں ایسی تبدیلی ظاہر ہوجائے جس کی وجہ سے انسان ظاہری طور پر بد نما نظر آئے یعنی انسان کی شکل و صورت میں کو ئی عیب آجائے اور نیت اچھی ہو کو ئی ایسا فعل بھی سرزد نہ ہو جو کہ خلا ف شریعت ہو تو پھر اس عیب کو انسانی جسم سے دور کیا جاسکتا ہے۔ کیو نکہ شر یعت اسلامیہ ایک عام اصول حرج کو دور کر نے اور انسانی ضرورت کی رعایت کرنے کا بھی ہے جس طرح اللہ تعا لی نے قرآن مجید میں ارشاد فر مایا ہے:

وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ.

اور اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔

شریعت اسلامیہ کا بھی یہ ہی مزاج ہے کہ اگر کو ئی حرج ہے تو اسکو دور کیا جائے۔ قرآن مجید اور حدیث کے احکام اور شریعت اسلامیہ کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے فقہاء کرام نے ایک فقہی قاعدہ مقرر کیا ہے "الضرورات تبیح المحظورات" کہ ضرورت کے وقت ناجائز چیزیں بھی مباح ہوجاتی ہیں۔

بعض اوقات ایسا بھی ہو تا ہے کہ انسان بہت مو ٹا ہو جا تا ہے اور مو ٹا پے کی وجہ بہت سی بیما ریا ں لا حق ہوتی ہیں۔

کیو نکہ جب موٹاپا حد اعتدال سے بڑھ جا تا وہ انسان کے لئے بہت نقصان کا باعث بنتا ہے جیسے پیٹ اور کولہوں پر بہت زیادہ چربی کی تہیں آجائے تو اب اسطرح کا آپریشن کروانے والو ں کی نیت کے اعتبار سے ہوگا اگر اس کی نیت علاج کی ہوگی تو جائز ہوگا اور اگر اس نے اپنے آپ کو محض خو بصورت بنانے کے لئے ایسا آپریشن کروایا تویہ جائز نہیں ہوگا۔ جیسے حضو ر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انما الاعمال بالنیات کے اعمال کا دارو مدار نیتو ں پر ہوگا۔

بڑھاپے کے آثار کو ختم کروانے کے لئے سرجر ی کا حکم:

انسان اپنی زندگی کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے اور بچہ جب پیدا ہو تا ہے تو اپنا بہت کمزور جسم لے کر پیدا ہوتا ہے پھر اس بچے کی پرورش کے نتیجے اس کے اعضاء کا حجم بڑھتا ہے اور پھر اس میں طا قت اور چستی پیدا ہوتی ہے یہاں تک کے وہ جب جوان ہو تا ہے تو ہر پہلو سے مکمل ہوجاتے ہیں اور جوان ہو کر کر خوب طاقت ور اور با رعب پرکشش روپ دھار لیتا ہے۔ پھر قانون فطر ت کے مطا بق اس میں انحطاط شروع ہوجاتا ہے آہستہ آہستہ اس کی طاقت کم ہونا شروع ہوجا تی ہے اور یہا ں تک کے بڑھاپے میں وہ کمزوری اور بے بسی کی اس حالت کو پہنچ جاتا ہے جس سے اپنے بچپن میں دوچار تھا یہ تو ایک فطر ی فعل ہے جا ہر انسان نے دوچار ہونا ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں ان مرا حل حیات کا تذکرہ آیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

هُوَ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ یُخْرِجُکُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّکُمْ ثُمَّ لِتَکُونُوا شُیُوخًا وَمِنکُم مَّن یُتَوَفَّی مِن قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُّسَمًّی وَلَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ.

"وہی ہے جس نے تمہاری (کیمیائی حیات کی ابتدائی) پیدائش مٹی سے کی پھر (حیاتیاتی ابتداء ) ایک نطفہ (یعنی ایک خلیہ) سے، پھر رحم مادر میں معلّق وجود سے، پھر (بالآخر) وہی تمہیں بچہ بنا کر نکالتا ہے پھر (تمہیں نشو و نما دیتا ہے) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ۔ پھر (تمہیں عمر کی مہلت دیتا ہے) تاکہ تم بوڑھے ہو جاؤ اور تم میں سے کوئی (بڑھاپے سے) پہلے ہی وفات پا جاتا ہے اور (یہ سب کچھ اس لئے کیاجاتا ہے) تاکہ تم (اپنی اپنی) مقررّہ میعاد تک پہنچ جاؤ اور اِس لئے (بھی) کہ تم سمجھ سکو"

عمر ڈھلنے کے ساتھ انسانی جسم میں پیدا ہو نے والی جو تبدیلیاں ظا ہر ہوتی ہیں وہ فطری ہوتی ہیں اب اگر انسان ان فطر ی تبدیلیو ں کو روکنے کے لئے اقدامات کرے گا تو وہ پھر فطرت سے بغا وت کرنا مراد ہوگا۔ اور یہ اللہ کی تخلیق میں تبدیلی ہے جس کو شیطا نی تحریک کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کی بنا پر اکثر خواتین کا بڑھاپے کی وجہ سے چہرے اور ہاتھوں پر ظا ہر ہونے والی جھریوں کو دور کرنے کے لئے سرجریز کروانا اس اسلام اس کی قسم کی سرجریز کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ اگر کو ئی مرد یا عورت کے بوڑھے ہو نے کی و جہ سے فطری طور پر سر کے بال سفید ہوجائیں تو ان کا ان سفید بالوں کا خالص سفید رنگ کرنا درست نہیں ہوگا کیو نکہ اسلام اس کی اجا زت نہیں دیتا۔

اس کے با رے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فر مان ہے:

یکون قوم فی آخر الزمان یخضون با لسواد کحوامل الحمام لا یریحون رائحة الجنة.

"آخری زمانے میں ایک ایسی قوم آئے گی جو کبوتر کے گھونسلوں کی طرح سیاہ خضاب لگائے گی، وہ جنت کی خو شبو بھی نہیں سونگھ سکے گے"

کیو نکہ اس سے تدلیس واقع ہوتی ہے اور اسلام میں دھو کہ دہی کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کسی لڑکی یا لڑکے کے بال بیما ری کی وجہ سے سفید ہوگئے ہو حالانکہ عمر طبعی کے لحاظ سے ان بالوں کو ابھی پکنا نہیں چاہیے تھا تو ان کیلئے خضاب کے استعمال کی اجازت ہوگی کیو نکہ شریعت اسلامیہ کا مقصد تو تلبیس سے روکنا ہے اور یہاں اگر وہ خضاب استعمال کریں گے تو ان کا مقصد کم عمری ظاہر کرنا نہیں ہوگا بلکہ ان کو دیکھ کر جو کبر سنی کی غلط فہمی پیدا ہو تی ہے وہ تو اسے دور کر تا۔

فطری جسمانی اعضا ء کو تبدیل کرنے کیلئے سرجری:

اللہ تعا لی ٰ نے ہر انسان کو ایک ہیئت پر پیدا نہیں کیا ہے بلکہ ہر فرد کی ساخت، رنگ اعضاء ایک دوسرے سے مختلف ہیں کسی کو کالا بنایا ہے تو کسی کو موٹا بنایا ہے تو کسی کو کمزور بنایا ہے کسی کی ناک اونچی ہے تو کسی کی پچکی ہوئی ہے کسی کا سینہ کشا دہ ہے تو کسی کا تنگ ہے عموماً یہ معمولی فرق اعضاء کے دیئے گئے امور سے بالکل خارج نہیں ہوتے اور ان کو عام قانون فطرت کے خلا ف بھی تصور نہیں کیا جاتا لیکن ان میں سے بعض ہیئتوں کو پسندیدہ خیال کیا جاتا ہے اور انہیں خو بصورتی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور بعض ہیئتوں کو نا پسند کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے آج کے دور میں سرجریز کا دور آگیا ہے اور ان تکنیک سے فا ئدہ اٹھانے والوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے جس نے آج ایک بہت زیادہ منافع بخش کاروبار کی حیثیت اختیار کر لی ہے اور جو فرد جس طرح کی شکل و صورت کو پسند کرتا ہے اس طرح کی سرجریز کے ذریعے بآسانی کروا لیتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کیا اسلام اجازت دیتا ہے یا اس طرح کی سرجریز کی کو ئی گنجا ئش ہے۔

انسا نی جسم اللہ تعا لیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک امانت ہے اور اس امانت کی حفا ظت کرنا ضروری ہے۔ اور اس کے بارے میں باز پرس بھی اسی طرح ہوگی جس طرح باقی قوانین شریعت کی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کے اعضاء کو بیش بہا امور سرانجام کرنے کا حکم دیا ہے جسطرح اللہ تعالیٰ نے آنکھ، ناک، کان، دل و دماغ و غیرہ کا تذکرہ کیا کے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کر دہ نعمتیں ہیں جس پر اب انسان کو اللہ تعا لیٰ کا شکر ادا کر ے اور شکرا نے میں اللہ تعا لیٰ کی عبادت کو بجا لا ئے اور اللہ کی ناشکری نہ کر کے شرک میں مبتلا نہ ہو کیو نکہ قیامت کے دن ان سب سے الگ الگ با ز پرس ہوگی۔ ارشاد با ری تعا لیٰ ہے:

وَلاَ تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُولَـئِکَ کَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً.

اور (اے انسان!) تو اس بات کی پیروی نہ کر جس کا تجھے (صحیح) علم نہیں، بیشک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہوگی

اس آیت مبا رکہ سے یہ بات وا ضح ہو تی ہے انسان اپنے جسم کا مالک نہیں کہ جس طرح چاہے اس میں تغییر کرے بلکہ کہ ان کو صرف ان کے نہیں مفئوضہ کاموں میں استعمال کرنے کا اختیا ر دیا گیا ہے اس جسم کو اللہ تعالیٰ کے اوامر میں لگانا ضروری ہے اور اس کے مناہی سے بچاتے ان امور کی انجام دہی ضروری ہے جس کے لئے یہ جسم انسان کو ملا ہے اس سے یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ انسانی جسم میں خالق کی مر ضی کے مطابق لباس و پو شاک پہنانا جس طر ح درست نہیں ایسے ہی اس بدن کے اعضاء و اطراف میں اپنی من مانی کر کے ہبہ کرنا، ترمیم و تبدل کرنا یا پھر دوسرے امور سر زد ہونا وغیرہ تغییر لخلق اللہ میں شامل ہیں اس لئے شر عی نقطہ نظر سے اسے جا ئز قرار نہیں دیا جا سکتا۔

کم سن اور خوبصورت و حسین نظر آ نے کے لئے سر جری:

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اس کو حسن وجمال کے بہترین سانچے میں ڈھالا ہے اور صورتوں میں سے اچھی صورتیں عطاکی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے وصورکم فأحسن صورکم.

زیبائش وآرائش انسان کی فطرت میں داخل ہے اور فطری طورپربھی چاہتا ہے کہ وہ صحت مندرہے اسے کوئی بیماری لاحق نہ ہو اس کے اعضاے بدن ٹھیک طریقہ سے کام کرتے رہیں ان کے افعال میں کوئی نقص وخلل واقع نہ ہو ظاہری طو رپر بھی ان میں کوئی عیب دکھائی نہ دے او راس کی شخصیت پرکشش اور جاذب نظر معلوم ہو یہی وجہ ہے کہ اگر کسی سبب سے اس کے کسی عضو میں بد ہیئتی پیدا ہوجاے تو اس کے ازالے کی کوشش کرتا ہے اور اگر وہ عضو اپنا مفئوضہ کام کرنا بند کردے یا اس میں کمی آجاے تو شریعت نے بھی انسان کی اس فطرت کی رعایت کرتے ہوے اپنے حدود میں رہتے ہوے زیب وزینیت کی اجازت ہی نہیں بلکہ اس کی ترغیب دی ہے جیسا کے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یا بنی آدم خذو زینتکم عند کل مسجد.

اے اولا دآدم ہر نماز کے وقت لباس وغیرہ سے اپنے کو آراستہ کرلیا کرو

حضو ر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احا دیث پاک سے بھی ہمیں زیب و زینت کا ثبوت ملتا ہے کہ کو ن سی زینت اختیار کی جائے اور کس طرح کی زینت سے بچا جائے۔

اسی طرح یہ حدیث ہے:

إن اللّٰہ جمیل ویحب الجمال

بیشک اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔

شریعت اسلامیہ نے جس خو بصورتی کو اختیار کرنے کی اجازت دی ہے تو اس کے کچھ حدودو قیود کا بھی خیال رکھا ہے کہ خوبصورتی میں اضافہ کے لئے خارجی تدابیر کو تو اختیار کرنے کی گنجائش تو ہے لیکن اس سے یہ مراد بالکل نہیں ہوگا جسم کے اعضاء میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کرانا جائز ہوگا بلکہ ممنوع ہوگا۔

اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کو ئی ایسا شخص دیکھتے کہ جس کے بال بکھرے ہوئے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فر ماتے:

" کیا یہ شخص کو ئی ایسی چیز نہیں پا تا جس سے اپنے بالوں کو درست کر لے اسی طر ح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بار میلے کپڑوں میں ایک شخص کو دیکھا تو فرمایا"کیا اسے کو ئی چیز نہیں ملتی جس سے یہ اپنے کپڑے دھو لے"

مگر یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ ایسی خوب صورتی اختیار کرنے کی تدابیر کو شریعت نے اپنے مقرر حدود کا پا بند بنایا ہے کہ حسن و جمال میں اضافہ کے لئے خا رجی تدابیر کو اختیار کر نے کی گنجائش تو ہوسکتی ہے لیکن اس سے یہ ہر گز نہیں کہ بدن کے اعضاء میں کوئی ایسی تبدیلی کروانا جائز ہوگا۔ اگر سرجری کامقصد حسن وجمال میں اضافہ ہو جیسے عمر کے زیادہ ہونے کی وجہ سے چہرے پر پیدا ہوے جھریوں کو دورکرنا، ناک بڑا کرنا یا چھوٹاکرنا، یا ہونٹ کو پتلا یا موٹا کرنا، معمولی جسمانی کمی یابیشی کرنا خوبصورت نظر آنے کے لیے جس کے کسی حصہ کو بڑا یا چھوٹا کرنا تاکہ کم عمر کا دکھائی دے، سامنے کے دانتو ں کے درمیان فصل کرنا، گودنا اور گودوانا وغیرہ تاکہ وہ عام میعاری حسن وجمال کے مطابق ہوجاے جس میں تغیر لخلق اللہ لازم آتی ہو تو یہ جائز نہیں ہوگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے کئی چیزوں سے صراحتا منع فرمایا ہے جو اس زمانے میں عربوں کے درمیان حسن وجمال میں اضافہ کے لیے مروج تھی۔

چنانچہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

لعن الله الواشمات والمتوشومات والمتنمصات والمتفنجات للحسن المغیرات خلق الله.

اللہ تعالیٰ نے گودنے والی ، گودوانے والی بھوؤں کابال نکالنے والی اور دانتوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے والی پرلعنت بھیجی ہے اگر یہ چیزیں حسن میں اضافہ کی خاطر ہوں۔

قرآن مجید میں آیت مبارکہ موجود ہے:

وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاکُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا.

اور جو کچھ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو

حدیث پا ک میں" المتفنجات "کا لفظ آیا ہے اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جو اپنے دانتوں کو تراش کر ان کے درمیان فاصلہ پیدا کرتی ہیں۔ یہ کام زیادہ عمر والی خواتین کرواتی تھی تاکہ وہ کم عمر دکھائی دیں اور ان کے دانت خوبصورت لگیں دانتوں کے درمیان فاصلہ جو معمولی سا ہو تا ہے وہ فطری طور پر چھو ٹی بچیوں میں ہو تا ہے جب عورت بو ڑھی ہوجاتی ہے وہ اس کے دانتو ں کے درمیان وہ فا صلہ باقی نہیں رہتا اور اگر وہ یہ کو شش کر تی ہے کہ ان کے دانتوں کے درمیان فاصلہ کم ہوجائے اور وہ کم عمر نظر آئے۔

حدیث سے واضح ہے کہ وہ خواتین جو اپنے سامنے کے دانت خوبصورتی کے لئے علیحدہ کرواتی ہیں وہ گنہگار ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کام حرام ہے، اور لفظ "خوبصورتی کے لئے" علت کے طور پر ہے کیونکہ یہ وصف مفہم (re صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم soned description) ہے۔ ایک خاتون جو خوبصورتی کی خاطر اپنے دانتوں کے بیچ جگہ بنوائے وہ گنہگار ہے، جس کا مطلب ہے کہ اگر یہ خوبصورتی کے لئے نہیں بلکہ علاج کے غرض سے ہے تو یہ جائز ہے۔ لسان العرب میں بیان کیا گیا ہے: "'الفلج' کا مطلب، پیدائشی طور پر سامنے اور اطراف کے دانتوں کا الگ الگ ہوناہے، لیکن اگر یہ مصنوعی طور پر یعنی خود سے کیا جائے تو اسے 'التفلیج' کہتے ہیں۔ اور 'رجل الفلج' کے معنی ایک ایسے مرد کے ہیں کہ جس کے دانت الگ الگ ہوں، اور 'امرأۃ فلجاء ' کے معنی ایک ایسی عورت کے ہیں کہ جس کے دانت الگ الگ ہوں"۔

لہٰذا، "المتفلجۃ"کے معنی ایک ایسی عورت کے ہیں کہ جو اپنے دانتوں کو رگڑواتی ہے تاکہ دانت چھوٹے ہوجائیں اور ان کے درمیان فاصلہ کم ہوجائے، دانت خوبصورت لگیں اور وہ ایک نوجوان لڑکی کی طرح نظر آنے لگے، یعنی دانتوں میں کوئی خرابی نہ ہو کہ جس کے لئے علاج کی ضرورت ہے بلکہ ظاہری شکل اور خوبصورتی کے لئے دانتوں کو بنوانا، تو اس کی اجازت نہیں ہے۔ اس حدیث کے مطابق جس میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے ایسی عورتوں پر جس نے اپنے دانتوں کو خوبصورتی کے لئے جدا کروایا ہو، یعنی وہ مصنوعی خوبصورتی کی خاطر یہ کرتی ہوں۔ تو یہ "خوبصورتی" شرعی وجہ (علت)ہے اس ممانعت میں، لہٰذ اگر یہ موجود نہیں ہو، یعنی اگر یہ خوبصورتی کے لئے نہیں ہو، تو جائز ہے، یعنی علاج کے غرض سے۔

النووی کے تزدیک المتفنجات کی شرح:

" المتفنجات 'فا' اور 'جیم' کے ساتھ ، جس سے مرادمفنجات الاسنان ہے یعنی سامنے اور اطراف کے دانت کو کاٹنا، لفظ 'الفلج' جس کے معنی سامنے اور اطراف کے دانتوں کے درمیان فاصلہ ہے، بزرگ خواتین نوجوان لگنے اور اپنے دانتوں کی خوبصورتی کو ظاہر کرنے کے لئے یہ فاصلہ عملِ جراحت کے ذریعے کرواتی ہیں، کیونکہ دانتوں کے درمیان یہ خوشگوار فاصلہ نوجوانی میں لڑکیوں میں ہوتا ہے۔ پس ان کے بیان کے مطابق المتفنجات سے مراد خوبصورتی ہے کہ وہ خوبصورتی کی خاطر یہ کرواتی ہیں اور اس سے پتا چلتا ہے کہ اگر یہ خوبصورتی کے لئے کیا جائے تو یہ حرام ہے۔ لیکن اگر علاج کے غرض سے ضرورت ہو یا دانتوں میں خرابی کی وجہ سے یا اسی طرح کچھ، تو یہ جائز ہے، اور اللہ سب سے بہتر جانتا ہے"۔

اب اسی طر ح حدیث شریف میں" المتفنجات للحسن " اب حسن کو مشروط کر دیا ہے اگر اس کا مقصد محض حسن کو دو بالا کر نا ہو گا یہ جا ئز نہیں ہو گا اور اگر اس کا مقصد علاج و معالجہ ہو گا تو اس کی شریعت اسلامیہ میں گنجا ئش ہے۔

اس طرح آج کل ایک نیا فیشن آگیا ہے آنکھوں کی خوبصورتی کے لئے مصنو عی پلکیں جن کو اصلی پلکو ں کے ساتھ لگایا جاتاہے اس سے بال زیادہ گھنے اور سیاہ محسوس ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس میں تدلیس پائی جاتی ہے جس کی اسلام میں قطعاً اجازت نہیں۔ اسطرح انسانی بدن میں عمر کے بڑھنے کی وجہ ست جو عیو ب ظاہر ہو اس کو چھپانا دھوکہ کے ضمن میں آتا ہے اور یہ اللہ تعا لیٰ کی بنائی ہوئی تخلیق میں تغییر ہوگی۔

جسم کے ایک جز کی دوسری جگہ منتقلی کی سرجری:

آج فیشن کی دنیا میں ایک نئی تکنیک سرجری کی رائج ہوئی ہے کہ انسانی جسم کے ایک جز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹرانسفر کیا جا تا ہے یا تو وہ جز ایک فر د کا ایک جگہ سے لے کر دوسر ی جگہ منتقل کیا جاتا ہے یا تو وہ دوسر ی کا انسان کا ہو تا ہے جو کہ کسی اور شخص کے جسم میں لگایا جاتا ہے یا تو وہ کسی جا نور کا کو ئی جز لے کر انسان کے جسم میں لگا دیا جاتا ہے تاکہ جسم کی خو بصورتی کو دوبالا کیا جا سکے اور بعض اوقات انسان اپنی بیما ری کے لئے ایسا کر تا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا انسان جسم کو خو بصورت بنا نے کے لئے یا علاج و معالجہ کے لئے ایسا کر وا سکتا ہے کس حد تک اسکی شر یعت میں گنجا ئش ہے اللہ تعا لیٰ جن چیزوں کو انسانیت کے لئے حرام یا ممنوع قرار دیا یقینا ً وہ انسان کے لئے تقصان دہ ہو نگے اگر چہ وہ انسانوں کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے اور وہ نقصان بعض اوقات انسانی جسم سے متعلق ہو تا ہے کبھی وہ انسانی روح سے متعلق ہوتا ہے اور کبھی دونوں کے متعلق ہو تا ہے۔ شریعت اسلامیہ نے انسان کے علاج و معالجہ کے لئے بہت سی سہولیات دی ہیں اور مریض کے لئے عبادات میں تخفیف فر ما دی ہے۔ اب یہ انسان پہ ہوگا کہ وہ ان سہولیات کو کس حیثیت سے لیتا ہے۔ اس کے بارے میں دو رائیں ہیں ایک یہ کے جواز اور ایک عدم جواز کی ہے۔

عدم جواز کے دلا ئل:

عدم جواز کی پہلی دلیل یہ ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور بدنِ انسانی انتہائی محترم ہے، کیوں کہ اس بدن کی تخلیق رب تعالیٰ نے خود فرمائی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا۔

اسی طرح بدنِ انسانی کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ.

اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی

ان آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسانی جسم رب تعالیٰ کے ہاں انتہائی قابلِ عظمت اور مقدس ہے۔ چنانچہ انسانی جسم کے بالوں کا شرعی حکم بھی یہی ہے کہ ان بالوں کو دفن کردیا جائے تاکہ جسم انسانی سے جڑے ان بالوں کو تحقیر سے بچایا جاسکے۔ اسی طرح جسمِ انسانی کی تقدیس اور حفاظت کے لیے جسم کی بے جا خراش تراش سے بھی منع کردیا گیا، بلکہ اسے حرام قرار دے دیا گیا۔

دوسری دلیل یہ ہے کہ انسان اپنے اعضاء کا مالک نہیں ہے، یہ اعضاء انسان کی ملکیت نہیں ہیں تو انہیں نہ تو فروخت کرنے کا اختیار ہے اور نہ ہی کسی کو ہدیہ دینے کی اجازت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی انسان کو اجازت نہیں کہ وہ بغیر عذر کے اپنے اعضاء کاٹ دے، یا خود تصرف کرتے ہوئے خودکشی کرلے، اسی لیے خودکشی کو حرام موت کہا گیا ہے۔

فرمان رسو ل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:

من قتل نفسه بشیء فی الدنیا عذاب به یوم القیامة.

"جس شخص نے دنیا میں اپنے آ پ کو جس چیز سے قتل کیا اسی چیز سے اسے قیامت کے دن عذاب ہو گا "

اس حدیث سے یہ واضح ہو تا ہے کہ انسان اپنے جسم کا مالک نہیں ہے تو اس نے کیوں کر اپنے جسم پر تصرف کیا۔

جواز کے دلا ئل:

جس طرح انسانی جسم اہمیت کا حامل ہے اسی طرح انسانی جسم و جان کی حفاظت کے لیے ہر ممکن راستہ اختیار کرنا نہ صرف مباح ہے بلکہ بسا اوقات واجب اور ضروری ہوجاتا ہے۔ جب انسانی جان و جسم کو خطرہ لاحق ہو تو اس کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔

اور فقہ کا قا عدہ یہ ہے کہ"الضروات تبیح المحظورات " ضرورت کے تحت ممنو ع بھی مباح ہوجاتا ہے اور" المشقۃ تجلب التیسیر مشقت " آسانیاں لاتی ہے اور جہاں پر مشقت ہوگی وہاں پر شریعت اسلامیہ آسانیاں پیدا کردیتی ہے۔

اگر کسی بھی جز کی منتقلی کا مقصد زینت مطلوب ہوگی تو شریعت اسلامیہ کی رو سے جائز نہیں ہوگا اگر اس کا مطلوب علاج و معالجہ ہو اور گمان بھی غا لب ہو کہ اس کے بغیر صحت یا بی ممکن نہیں ہے تو اور ڈاکٹرز نے بھی آخری یہ ہی فیصلہ کیا ہو تو پھر اس کی شر یعت اسلامیہ میں گنجا ئش ہوگی۔ وہ بھی بقدر علاج ہوگی جیسے اللہ تعالی نے اضطراری حا لت میں مردار کھا نے کا حکم دیا ہے تو وہ بھی جان بچانے کی حد تک ہے کہ اتنا کھا نا جا ئز ہو گا کہ جان بچ جا ئے پیٹ بھر کر کھا نا کا حکم نہیں ہے۔

سب سے آخری اور اہم بات یہ ہے کہ اگر اس طرح کی سرجریز کی اجازت بھی دے دی جائے تو جسمِ انسانی کی حقارت اور اہانت کا جو دروازہ کھلے گا اس کے نتائج انتہائی بھیانک ہوں گے۔ مالدار اپنے عزیز واقارب کی جان بچانے کی خاطر غریبوں کے اعضاء کی بولیاں لگائیں گے اور وہ غریب جو پہلے ہی کسمپرسی کا شکار ہے اور بڑی مشکل سے اپنے کنبے کی کفالت کرتا ہے، وہ مجبوری کے وقت اپنے اعضاء کی بولی لگائے گا۔ اس پر مستزاد انسانیت کے وہ سوداگر جو کسی بھی روپ میں ہوں، انسانی زندگی کے ساتھ کھلواڑ شروع کردیں گے۔ اور کبھی نہ بند ہونے والا انسانی تباہی کا یہ دروازہ کھل جائے گا۔

شناخت چھپانے کے لئے سرجری:

انسان جو افعال سر انجام دیتا ہے وہ دو طر ح کے ہو تے ہیں ایک یہ جن میں نیت سے کو ئی فر ق نہیں پڑتا وہ اچھی ہو یا بر ی ہو اس پر مواخذہ ہو گا جیسے نماز ، روزہ ، زکوۃ، زنا، جھوٹ وغیرہ اور اسطرح دوسرا فعل یہ ہے کہ اگر اسکے کرنے میں نیت اچھی ہوگی کسی منفعت کا حصول ہو تو جائز ہوگا اور اگر بلا ضرورت ہو تو وہ جائز نہیں ہوگا۔

اسطرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی بھی جا نو ر کو آگ سے تکلیف دینے سے منع فرمایا ہے اور اگر اسکا مقصد نشان یا علامت لگانا ہو تو پھر آپ نے اس کی اجا زت دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وسم کے ذریعے خو د بھی نشان لگایا حالانکہ یہ بھی ایک طرح کا اذیت پہچانا ہی ہے لیکن صرف نیت کے فرق سے حکم میں فرق واقع ہوگیا۔ دراصل اسکی وجہ یہ ہوتی ہے نیت کے بدلنے سے نہی کی علت معدوم ہوجاتی ہے۔

اسطرح اگر کو ئی مجرم اپنی پہچان چھپانے کے لئے سرجری کروا تا یا بعض اوقات کو ئی انسان کسی مظالم سے تنگ ہو کر سر جری وہ چا ہتا یہ ہو کہ وہ کسی بھی طر ح وہ ان کی گرفت میں نہ آئے تو اس میں بلا کسی جا ئز وجہ کہ اس میں تغییر خلق اللہ ہو تی ہے اور دھوکہ تدلیس اور تزویر جیسی ممانعت کی تمام علتیں پا ئی جا تی ہے اور یہ علت بھی پا ئی جا ری ہو تی ہے کہ وہ قا نو نی تقا ضو ں کو پورا کر نے فرار ہو رہا ہو تا ہے اور اگر اس کے اس عمل کا مقصد اور نیت ہی یہ ہو کہ وہ ان حکام کے سامنے ہے کر ان سے چھپا رہے تو ظا ہر ی بات ہے یہ تدلیس (دھوکہ ) ہو گا اور اگر وہ کسی دوسر ے فرد کی شکل کو سرجریز کے ذریعے پیش کر رہا ہے تو تزویر ہوگی۔

شریعت اسلامیہ کی تعلیمات سے یہ ہی واضح ہوتا ہے کہ اس میں دھوکہ جھوٹ اور مکروفریب کو نا پسند کیا جاتا ہے اور ان سے بچنے کی تا کید کی گئی ہے اور اسلام کا مزاج بھی یہ ہے کہ کو ئی فر داسی طرح دکھائی دے جس طر ح وہ حقیقت میں ہے۔

ایک عورت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور عرض گزار ہو ئی یا رسول اللہ میری ایک سوکن ہے کیا میرے اوپر گناہ ہوگا اگر میں اس سامنے یہ اظہار کروں کے میر ے شوہر نے مجھے فلاں فلاں چیزیں دی ہیں حالانکہ حقیقت میں اس نے وہ چیزیں نہ دی ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

المتشبع بمالم یعط کلابس ثوبی زور.

جسے کوئی چیز حا صل نہ ہو اور وہ اس کے حا صل ہو نے کا اظہار کر وہ اس شخص کی طر ح ہے جو جھو ٹ و فریب کے کپڑے پہنے ہو ئے ہو۔

شریعت اسلامیہ اس بات کی تلقین کر تی ہے کہ مصا ئب آلام آئیں تو وہ انھیں خندہ پیشانی سے بر داشت کرے۔ اس پر وہ ثواب کا مستحق ہوگا لیکن جو انسان کے لئے قابل برداشت نہیں ہوتے شر یعت اسلامیہ نے ان میں رخصت دی ہے۔

شریعت اسلامیہ اس بات کی بھی اجازت دیتی ہے ظلم سے بچنے کیلئے وہ شخص راہ فرار اختیار کر سکتا ہے اور کہیں جا کر چھپ بھی سکتا ہے جیسے صلح حدیبیہ کے بعد پر حضرت ابو بصیر اور دیگر متعدد مکہ کے مسلمانوں نے اہل مکہ کی گرفت سے بچنے کے لئے ایک مقام پر پنا ہ لی تھی۔

لیکن اس کام کیلئے شریعت اسلامیہ سرجریز کی اجازت قطعاً نہیں دیتی کیو نکہ اس میں دھو کہ اور فریب ہے اور اس کے ساتھ اللہ تعا لیٰ کی بنا ئی ہو ئی تخلیق میں تبدیلی ہے جو کہ جا ئز نہیں ہے۔

حاصل کلام

اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کے تمام معاملات کے لئے خواہ وہ انفرادی نوعیت کے ہوں یا ان کا تعلق معاشرے، جماعت اور امور مملکت سے ہوں سب کے لئے بھر پور رہنمائی کا سامان موجود ہے خود سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ایسے اصول و کلیات کی واضح نشاندہی کر دی ہے جن کی روشنی میں اہل علم و فضل نئے پیش آنے والے مسائل کا حل تلا ش کرتے رہیں گے۔ بعض جزوی مسائل کی نوعیت بھی ایسی ہو تی ہے کہ ان کو نظیر اور مثال بنا کر ان سے ملتے جلتے مسائل اور جزئیات کا حکم معلوم کیا جاتا۔ دین اسلام کا ایک یہ امتیاز یہ ہے کہ اس میں قیامت تک آنے والے مسائل کا حل اور رہنمائی موجود ہے۔ لہذا ان جدید سائنسی ایجادات و انکشافات سے اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے فائدہ حاصل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اسلامی قوانین ایسے بے لچک نہیں کہ اگر کوئی امر ممنوع کردیا ہے تو کو ئی صورت اس کے جا ئز ہونے نہیں رہ جا تی اگرچہ اس سے انفرادی و اجتماعی نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ بلکہ اسلامی قوانین اضطراری حالت میں حرام سے انتفاع کی بھی اجازت دیتے ہیں اور یہ اصول وقواعد متعین کیے جاتے ہیں کہ کو ن سے حالات اضطرار کے ہیں۔ اور کتنی مقدار میں اور کو نسی صورتوں میں ہم ان سے فائدہ حا صل کر سکتے ہیں۔ کاسمیٹک سرجری خواہ خوبصورتی کے لئے ہو یا دیگر مقاصد کے لئے، جاسوسی کے لئے ہو یا جرم کے لئے، یا جسم انسانی میں موجود کسی نقص اور عیب یا کمی کو دور کرنے کے لئے ہویا فطری عیب کو ختم کرنے اور زائل کرنے کے لئے کاسمیٹک سرجری جائز ہے، اسی طرح اچانک پیدا ہونے اور رونما ہونے والے کسی بھی عیب کے ازالہ کے لئے پلاسٹک سرجری درست ہوگی، اس سلسلہ میں متعدد احادیث سے بھی روشنی ملتی ہے ، جن میں سونے کی ناک بنوانے، یا سونے کے دانت بنوانے کا ذکر موجود ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالی نے انسان کو چونکہ احسن تقویم یعنی بہترین حالت پر پیدا کیا ہے اس لئے اس جسم پر کسی بھی طرح کے پیدا ہونے والے عیب کا ازالہ کرنا درست ہوگا۔ ہندوستان میں ایسے حادثات اکثر ہوتے ہیں کہ نوجوان لڑکیوں پر ایسڈ پھینک دیئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا چہرہ ، ان کی آنکھیں سب خراب ہوجاتی ہیں اور وہ بہت ہی بدشکل بن جاتی ہیں، ظاہر ہے ایسی صورت میں اگر پلاسٹک سرجری سے ان کی فطری حالت میں قدرے بہتری آجاتی ہے تو اس میں یقینا کوئی حرج نہیں بلکہ یہ مطلوب ہے، جسمانی تکلیف کے ازالہ کے لئے اور مظلوم کا ظالم سے بچنے کے لئے پلاسٹک سرجری کرانا جائز ہوگا، کاسمیٹک سرجری اپنے اصل کے اعتبار سے ایک جائز عمل ہے اس لئے یعنی اگر مقصد علاج اور ضرر کا دور کرنا ہو تو درست ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تغییر اور تبدیلی جس صورت میں ہو وہاں یہ ناجائز ہے خواتین کے لئے زائد بالوں کا ہٹانا اور کریموں وغیرہ سے رنگ گورا کر نا تو جائز ہے اور اسطر ح پیدائشی طور پر جو عیب ہو جس کی وجہ سے تکلیف ہو تی ہو تو اس صورت میں ان اعضاء کی تبدیلی کروانا درست ہوسکتی ہے اگر اپنی مرضی سے جسم کے اعضاء میں تبدیلی کروائی جائے جس کا مقصد محض خوبصورتی اور حسن ہو وہ جا ئز نہیں ہے کیونکہ وہ دھوکہ اور تلبیس ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا اور جسم میں ایسی ناروا تبدیلی کروانا کفران نعمت اور ناشکری کے زمرے میں آتا ہے جو کہ جا ئز نہیں ہے۔