لوڈشیڈنگ کی اذیت ناک صورتحال نے پاکستانیوں کا جینا عذاب کر رکھا ہے، اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ بے روزگاری نے نوجوانوں کو بے مقصدیت کی طرف دھکیل دیا، ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی اور ان گنت مسائل میں گھرے پاکستانی ’’آزاد‘‘ ملک میں رہتے ہوئے غلاموں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ملک کی خودمختاری پر کئی سوال اٹھ رہے ہیں، ادارے ایک دوسرے کے احترام سے عاری ہوتے جا رہے ہیں، ریاست پاکستان کا وقار آئے روز مقتدر طبقوں کی محاذ آرائی کے باعث تختہ مشق بنا ہوتا ہے مگر اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ’’بڑوں‘‘ کے مسائل کچھ اور ہیں۔ وزیراعظم 80 لاکھ روپے کے تین کوٹ خرید رہے ہیں اور فیملی کی لاکھوں پاؤنڈ کی شاپنگ اس کے علاوہ ہے، اس لئے انہیں درج بالا معاملات سے کوئی سروکار نہیں۔ پارٹی اور ذاتی مفادات کا دفاع ان کی پہلی اور آخری ترجیح ہے، عوام اورملک جائے بھاڑ میں۔ ان حالات میں عوام کو ایوانِ اقتدار میں بیٹھنے والوں کی غالب اکثریت کی نفسیات اور عوام دشمن اقدامات کے حوالے سے باخبر ہو کر اپنی ذمہ داریوں کو پہچاننا ہو گا کیونکہ یہ مقتدر طبقے کا عوام کو بے وقوف بنانے کا اہم ٹول ہے۔ نورا کشتی عروج پر پہنچے گی ایک دوسرے کے خلاف بازاری زبان تک استعمال ہو گی اور الیکشن کے نام پر قوم کو بے وقوف بنانے کا ڈرامہ ایک بار پھر دہرایا جائے گا۔ عوام تھوڑی دیر کے لئے اس طرف توجہ دیں کہ چند خاندانوں کو اقتدار کے ایوانوں میں بھیجنے کے جرم میں کیا وہ پھر شریک ہوں گے؟ کروڑوں روپے سے ایک ایک حلقے کا الیکشن بنانے کے لئے وہی چہرے مختلف پارٹیوں کا ماسک پہن کر ان کے پاس آئیں گے، برادری ازم، غنڈہ گردی اور دیگر منفی ہتھکنڈوں سے بیلٹ بکس بھرے جائیں گے اور عوام کے حقوق سے 5 سال تک مذاق کرنے والے آئندہ اتنے ہی عرصے کے لئے یہ حق دوبارہ حاصل کر لیں گے۔ اب یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ اپنے ساتھ ماضی میں ہونے والے سلوک کے تسلسل کو ہی جاری رہنے دیں اور جمہوریت کے نام پر چند خاندانوں کی سیاسی آمریت کو قبول کر لیں یا پھر عوامی حقوق سے کھیلنے والوں کو وہ سبق دیں کہ وہ دوبارہ ان کی تقدیر کے فیصلوں پر اپنا حق جتانے کے اختیار سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو جائیں۔ مگر یہ اتنا آسان نہیں ہو گا اس کے لئے عوام اجتماعی شعور پر پڑے قفل کو عزم و ہمت سے توڑ دیں اور اپنی سوچ کا ارتکاز اس طرف کریں کہ ملک و قوم کا اصل دشمن کون ہے؟ موجودہ انتخابی نظام جمہوریت کے نام پر وہ کینسر ہے جس نے ملک کو ترقی اور عوام کو خوشحالی کی نعمت سے محروم کر رکھا ہے۔ آج تبدیلی کا نعرہ تو لگ رہا ہے مگر موجودہ انتخابی نظام کے تحت ہونے والے الیکشن کوئی تبدیلی نہ لا سکیں گے اور تبدیلی کی بات کرنے والے اور ان سے امید لگانے والے انتخابی نتائج کے بعد مایوس ہوں گے۔
عوام کو موجودہ انتخابی نظام کی خرابیوں کو شعور کے محدب عدسے سے دیکھنا ہو گا تاکہ ان کو اس نظام کے وائرس صحیح طور پر دکھائی دے سکیں اس کے بعد نظام میں تبدیلی کے لئے موثر اور منظم جدوجہد کرنا ہو گی۔ ایک ایک دروازے تک نظام کی تبدیلی کا پیغام لے کر پہنچنا ہو گا اور موجودہ انتخابی نظام کے خلاف عوامی نفرت کو اس سطح تک لے جانا ہو گا کہ انتخابی اصلاحات ممکن ہو سکیں۔ انتخابی اصلاحات کے بغیر جمہوریت کا حقیقی روح کے ساتھ بحال ہونا ناممکن ہے البتہ جمہوریت کے نام پر عوام اور ملک دشمنی کا تماشا ضرور جاری رہے گا۔
اس وقت ملک میں حقیقی جمہوریت کے قیام کے لئے صرف ایک ہی آواز ہے جو عوام کو موجودہ نظام کے تحت الیکشن میں جانے سے روک رہی ہے۔ تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے ورکرز ملک بھر میں بیداری شعور کا ایجنڈا لے کر گھر گھر جا رہے ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پوری شد و مد کے ساتھ حقیقی جمہوریت کے قیام کے لئے قوم کو انتہائی تفصیل کے ساتھ موجودہ نظام کی تمام تر خرابیوں کی جزئیات تک سے آگاہ کر چکے ہیں۔ اب تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیداری شعور کے پیغام کو ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلا دیں اور کوئی گھر ایسا نہ بچے جہاں حقیقی تبدیلی کا مکمل لائحہ عمل نہ پہنچا ہو۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری 4 نومبر کو وطن واپس تشریف لا رہے ہیں، اللہ کرے ان کی مبارک آمد اس ملک کے باسیوں کے لئے حقیقی تبدیلی کی بنیاد ثابت ہو مگر اس کے لئے تحریک کے کارکنوں کو دن رات ایک کر کے اس قوم کے ایک ایک فرد کو اس کی ذمہ داری کا شعور بھی دینا ہو گا اور نظام کی تبدیلی کی منظم جدوجہد میں شامل کر کے حقیقی تبدیلی کی راہ بھی ہموار کرنا ہو گی اور اپنے قائد کا ایسا استقبال کرنا ہو گا کہ چشم فلک نے ایسا نظارہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہ دیکھا ہو۔