بسم اللہ الرحمن الرحیم
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ.
(الاحزاب، 33 : 32)
’’اے ازواجِ پیغمبر! تم عورتوں میں سے کسی ایک کی بھی مِثل نہیں ہو‘‘
ان بلند ہمت اور عالی حوصلہ خواتین کا اہم اور بے مثل اعزاز یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں انھیں چھ مقامات پر ’’ازواج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے معزز لقب سے نوازا ہے۔
’ازواج‘ زوج کی جمع ہے۔ عربی میں یہ لفظ ہم شکل، ہم مرتبہ اور مشابہہ چیز کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس لفظ کے استعمال سے ثابت ہوا کہ خدائے علیم و خبیر کی نگاہ میں اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویاں اپنے فکر و نظر، اخلاق، اعمال اور سیرت و کردار میں اپنے شوہر نامدار کے ساتھ یک گونہ مماثلت و مشابہت رکھتی ہیں۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر ایمان با للہ، توکل علی اللہ، اخلاص و للہیت، تسلیم و رضا، ایثار و وفا، صبر و قناعت، بے لوثی و بے غرضی، ہمدردی و خیر خواہی، جود و کرم، محبت و مودت اور عفو و کرم جیسے اخلاق فاضلہ کے بلند ترین مقام پر فائز ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے اعمال و افعال اور اخلاق و کردار بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے انوار کی ضیاء پاشی سے منور اور تابندہ ہیں۔ قرآن مجید نے اس مقدس رشتے کی فطری و لازمی خصوصیات اس طرح بیان کی ہیں : ۔
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ.
(الروم، 30 : 21)
’’اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بے شک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں‘‘۔
یہاں پر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جن انبیاء علیہم السلام کی بیویاں ان کی ہم عقیدہ اور ہم مسلک نہیں تھیں قرآن مجید نے ان کے لئے ’ازواج‘ کی بجائے ’امراۃ‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جبکہ فخر موجودات حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں کو سورہ احزاب میں چار جگہ اور سورہ تحریم میں دو جگہ ’ازواج‘ کے معزز لقب سے نوازا گیا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عائلی اور نجی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے اور قیامت تک کے لئے سر چشمہ ہدایت و رہنمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مبا رکہ میں گیارہ نکاح فرمائے اور ہر زوجہ تقوٰی، پرہیزگاری، پا کیزگی، طہارت، توکل اور استقامت میں اپنی مثال آپ تھی۔ اسلام نے مسلمانوں کے لئے نکاح کی حد چار عورتوں تک متعین کی مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے یہ تعداد متعین نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے حکم فرمایا :
’’اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم نے آپ کے لئے آپ کی بیویاں جن کو آپ مہر دے چکے ہیں، حلال کر دی ہیں اور وہ عورتیں بھی جو آپ کی ملک میں ہیں جن کو اللہ نے آپ کو (کفار سے بطور مال غنیمت کے) دلوایا ہے اور آپ کے چچا کی بیٹیاں، اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں، اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں جنھوں نے آپ کے ساتھ وطن چھوڑا اور کوئی مومنہ عورت اپنے آپ کو پیغمبر کے حوالے کر دے بشرطیکہ نبی اسے نکاح میں لانا چاہیں۔ (یہ سب آ پ کے لئے حلال ہیں) لیکن یہ (آخری رعایت) خاص آپ کے لئے ہے سب مسلمانوں کے لئے نہیں ہے۔ (باقی جن کا ذکر ہوا وہ سب مسلمانوں کے لئے حلال ہیں)۔ یقینا ہم کو (وہ احکام) معلوم ہیں جو ہم نے ان (عام مسلمانوں) پر ان کی بیویوں اور با ندیوں کے متعلق مقرر کر دیے ہیں تاکہ (ان مخصوص سہولتوں کے باعث تبلیغ کی راہیں کشادہ رہیں اور زیادہ سے زیادہ عورتیں ازواج مطہرات سے دین حاصل کر سکیں اور) آپ پر کوئی تنگی (وا قع) نہ ہو اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ (اور اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے لئے خصوصی طور پر یہ بھی اجازت ہے کہ) ان (بیویوں) میں سے آپ جس کو چاہیں اپنے سے علیحدہ رکھیں اور جس کو چاہیں اپنے پاس رکھیں‘‘۔
(الاحزاب : 50۔ 52)
آقا ئے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چار سے زائد شادیوں کی اجازت تھی اور یہ کسی نفسانی خواہش کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اس میں کئی حکمتیں پوشیدہ تھیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی جوانی میں ایک چالیس سالہ بیوہ عورت سے شادی کی اور پورے پچیس سال ان کے ساتھ نہایت خوشگوار خانگی زندگی بسر کی۔ ان کے انتقال کے بعد پھر جس خاتون کو شرف زوجیت بخشا وہ پچاس سالہ بیوہ تھیں۔ یکم ہجری کو حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس حرم مقدس میں داخل ہوئیں۔ 3 ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک 53 برس تھی، جوانی ڈھل چکی تھی اور کبر سنی کے طبعی آثار رونما ہونا شروع ہو گئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شادیوں کا سلسلہ شروع کر دیا اور 7 ہجری کے آخر تک 9 خواتین سے نکاح فرمایا۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ان تمام شادیوں کی توثیق فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان شادیوں کے سلسلے میں ہدایات بھی دیں۔
1۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں پر ایک وقت میں چار سے زائد عورتیں نکاح میں رکھنے پر جو پابندی عائد کی، اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس سے مستثنٰی قرار دیا۔
(الاحزاب : 50)
2۔ ایک سے زیادہ بیویوں کی صورت میں ان کے درمیان عدل و مساوات قائم رکھنے کا جو حکم مسلمانوں کو دیا، اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سے یہ پابندی ہٹا لی۔
(الاحزاب : 51)
3۔ قرآن مجید نے ہر شوہر کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے مگر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ہدایت فرمائی کہ اپنی بیویوں میں سے کسی کو طلاق دے کر اپنے سے جدا نہ کریں۔
(الاحزاب : 52)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ شادیاں عام مسلمانوں کی شادیوں کی طرح نہ تھیں بلکہ ان کے پیچھے کئی حکمتیں پوشیدہ تھیں جن میں سے چند ایک کا ذیل میں تذکرہ کیا جا رہا ہے۔
غلبہ دینِ مبین
اللہ رب العزت کی جانب سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باطل، طاغوتی اور جاہلیت پر مبنی پرانے اور فرسودہ نظام کو ختم کر کے اسلامی نظام حیات کو قائم کرنا تھا اور دین کو غلبہ عطا کرنا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوت و تبلیغ، تعلیم و تربیت وغیرہ کے ذریعے کام کیا مگر اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے سر انجام دینے کے لئے جاہلی نظام کے سرداروں اور علمبرداروں سے جنگ اور تصادم ضروری تھا لہذا مختلف قبائل کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے اور رشتہ داری قائم کرنے کے لئے نکاح فرمائے تاکہ سابقہ تعلقات کو بہتر کیا جا سکے اور عداوتوں اور رنجشوں کو ختم کیا جا سکے۔ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تو جہاں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ تعلقات مزید مستحکم ہوئے وہیں قبیلہ بنی تمیم سے رشتہ داری قائم ہوئی۔ قریش میں اس قبیلے کو اتنی اہمیت تھی کہ خون بہا کے مقدمات کے فیصلوں کا کام انھی کے سپرد تھا۔ حضرت سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح نے جہاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو مزید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب کر دیا وہیں قبیلہ عدی کے ساتھ بھی رشتہ داری قائم ہوئی جنکے پاس سفارتی ذمہ داریاں تھیں۔ اسی طرح حضرت سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا تعلق اس خاندان سے تھا جس سے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جیسے فوجی جرنیل تھے۔ حضرت سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ابو سفیان کی بیٹی تھیں۔ ان سے نکاح کے بعد وہ کبھی بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مد مقابل نہیں آئے بلکہ مدینے میں صلح کی کوششیں کرتے رہے۔ حضرت سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا قبیلہ بنی مصطلق کی سردار کی بیٹی تھیں۔ یہ قبیلہ قذاقوں اور اسلام سے دشمنی رکھنے والا تھا لہذا نکاح کے بعد یہ لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا جو یہودی قبیلے کے سردار کی صاحبزادی تھیں سے نکاح فرمایا اور یہودیوں کی طرف سے مخالفت و مزاحمت کی بھڑکتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کر دیا۔ حضرت سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا تو نجد کا علاقہ اسلامی ریاست اور اس کا سر براہ اسلام کا حامی، مددگار اور خیر خواہ بن گیا۔
رسوم و رواج کی اصلاح
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ نکاح غیر فطری رسوم کو توڑنے اور ان کے متعلق صدیوں سے تراشیدہ تصورات کو ختم کرنے کے لئے فرمائے مثلا عرب میں منہ بولے بھائی کی بیٹی کو حقیقی بھتیجی سمجھا جاتا تھا اور اس سے شادی نا پسندیدہ اور ناجائز تصور کی جاتی تھی۔ لہذا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لئے پیغام نکاح بھیجا تو اس تصور اور خیال کی اصلاح فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’بے شک ابو بکر رضی اللہ عنہ میرے دینی بھائی ہیں لیکن ان کی بیٹی سے میری شادی جائز ہے۔‘‘ لہذا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا اور اس تصور کو ختم فرما دیا۔
تعلیم و تر بیت کا انتظام
اللہ رب العزت نے جو ذمہ داریاں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سونپیں ان میں سے ایک تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے صرف مردوں کو تعلیم و تربیت کے نور سے منور کرنا کافی نہ تھا بلکہ خواتین پر بھی کام ضروری تھا اور بہت سے مسائل ایسے تھے جن کو حل کرنے اور خواتین کو آگاہ کرنے کے لئے براہ راست مجلس کرنا ممکن نہ تھا لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف صلاحیتوں، مختلف قابلیتوں اور مختلف عمروں کی عورتوں سے نکاح کئے تاکہ خود براہ راست ان کو تعلیم وتربیت کے زیور سے آراستہ کر کے اپنے اس عظیم کام میں مدد کے لئے تیار کریں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی طبیعت اور مزاج کے لحاظ سے کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ شرمیلے اور باحیا تھے لہذا خواتین بھی براہ راست بعض مسائل پوچھنے سے گھبراتی تھیں لہذا خواتین ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے استفسار کرتیں اور وہ یہ تمام مسائل آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کر کے جوابات حاصل کر لیتیں اور یوں خواتین کے لئے بھی بہترین انداز میں تعلیم و تر بیت کا انتظام ہو جاتا۔
پیکر رحمت و شفقت
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے دین کی خاطر بے پناہ مصائب جھیلنے والی اور اس کی راہ میں ایثار و قربانی کا عدیم المثال مظاہرہ کرنے والی خواتین کو ان کی بے بسی اور بے کسی کے عالم میں سہارا دیا۔ حضرت سیدہ سودہ اسلام کے ابتدائی دور میں اس سے وا بستہ ہوئیں اور ہجرت کی سختیاں برداشت کیں۔ پچاس برس کی عمر میں بیوہ ہوئیں۔ اس عمر میں ناممکن تھا کہ کوئی انھیں اپنی رفاقت میں لیتا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان رحمت تھی کہ انھیں اپنے نکاح میں لے لیا۔
اسی طرح حضرت سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا جوانی میں ہی بیوہ ہو گئیں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں اور وہ اپنی بیٹی کے لئے نہایت پریشان رہتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں حوصلہ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے نکاح میں لے لیا۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا، سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہا بنت خزیمہ نے بھی اسلام کی خاطر نامساعد حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اسلام کی خاطر بے مثال قربانیاں پیش کیں۔ آپ نے ازراہ شفقت حوصلہ افزائی کے لئے ان سے نکاح فرما کر ان کی قربانیوں کی قدر بھی فرمائی اور نیا حو صلہ اور ولولہ بھی عطا فرمایا۔
عورتوں کا معاشرتی اور سماجی تحفظ
حضور نبی محتشم رضی اللہ عنہا کی تمام ازواج میں سے صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کنواری تھیں۔ باقی سب بیوہ اور مطلقہ تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان سے نکاح کی وجہ ان کو معاشرے میں اہم مقام دینا تھا کیونکہ بیوہ اور مطلقہ عورتوں کا معاشرے میں کوئی مقام نہیں تھا لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عمل کے ذریعے مسلمانوں کو عورتوں، یتیموں اور بیوگان کے مقام کا تحفظ فراہم کرنے کا شعور عطا فرمایا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی نے اپنی کتاب سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جلد ششم میں تحریر فرمایا ہے کہ تعدد ازدواج سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مدعائے اعلٰی انبیاء سابقین کی سنت پر عمل کرنے کے علاوہ معاشرتی اور دینی ضروریات بھی تھیں۔ تعدد ازدواج کی وجہ سے تعلیمی و تبلیغی فوائد امت کو حاصل ہوئے اور جو احکام امت تک پہنچے اسکی جزئیات اس قدر کثیر ہیں کہ ان کا شمار مشکل ہے۔
٭٭٭٭٭