اسلامی سال کا ساتواں مہینہ رجب المرجب ہے۔ رجب ترجیب سے ماخوذ ہے جس کے معنی تعظیم کے ہیں۔ اس نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اہل عرب اس مہینہ کی تعظیم کرتے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنا مہینہ قرار دیا تھا۔ اس تعظیم اور ادب واحترام کی وجہ سے اس کا نام رجب رکھا گیا۔ قرآن حکیم نے ’’منہا اربعۃ حرم‘‘ فرما کر جن چار مہینوں کو حرمت و عظمت والے مہینے قرار دیا ہے ان میں سے ایک رجب المرجب بھی ہے جبکہ بقیہ تین ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم الحرام ہیں۔ ان مہینوں میں عبادت کرنے کا ثواب دیگر مہینوں کی بنسبت زیادہ ہوتا ہے جبکہ گناہ کرنے پر عذاب بھی دیگر مہینوں کی بنسبت زیادہ ہوتا ہے۔ ان مہینوں میں قتل و غارت، لڑائی جھگڑے اور مخاصمت و مخالفت کو حرام گردانا گیا ہے اور فسق و فجور سے پرہیز کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل عرب دور جاہلیت میں بھی ان مہینوں کے شروع ہوتے ہی اپنی تلواریں اپنے نیام میں ڈال لیتے تھے اور جانی دشمن بھی قریب سے گزرتا تو بدلہ نہیں لیتے تھے۔ ان مہینوں میں ماہ رجب کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس ماہ کی یکم تاریخ کو سیدنا نوح علیہ السلام کشتی پر سوار ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ساتھیوں سمیت خونی طوفان سے نجات عطا فرمائی تھی جبکہ قوم نوح اس میں غرق ہو گئی تھی۔ اسی ماہ کی اٹھارہ تاریخ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بعثت مبارکہ کا اعلان فرمایا تھا اور اسی ماہ کی 27 تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج کی دولت سے سرفراز فرمایا تھا۔
یوں تو رحمۃ للعلمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان گنت، بے شمار اور کثیر النوع معجزات عطا فرمائے گئے مگر ان میں سب سے جامع اور کامل ترین معجزہ معراج عطا فرمایا گیا جو تمام انبیاء کرام و رسل عظام کو عطا کئے گئے معجزات سے بھی بڑا معجزہ ہے۔ جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات جامع الصفات اور جامع الکمالات ہے کہ جملہ انبیاء و رسل علیہم السلام کے فضائل و کمالات حبیب خدا کی ذات میں جمع کر دیئے گئے ہیں۔
حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
اس طرح معجزہ معراج مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنے اندر بہت سے معجزات کا حامل ہے۔ اس عظیم معجزہ معراج مصطفی کے جملہ پہلوؤں کو احاطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں کیونکہ اس کا ہر پہلو از خود معجزہ ہے۔ زیر نظر مختصر مضمون اس عظیم معجزہ کے ایک عظیم پہلو جو سفر معراج سے کرہ ارضی کی طرف واپسی پر مشتمل ہے اور جسے سفر معراج کی بھی معراج قرار دیا گیا ہے پر مشتمل ہے مگر اس کا بھی احاطہ ممکن نہیں کیونکہ یہ عظیم پہلو بھی کئی مراحل پر مشتمل ہے جس میں سے ایک اہم مرحلہ بیت الحرام سے بیت المقدس تک کا سفر ہے۔ چونکہ اپنی حیات مبارکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سفر مبارک اختیار نہیں کیا تھا اور اہل قریش اس سے بخوبی واقف تھے۔ لہذا کفار و مشرکین نے نعوذ باللہ سفر معراج کو جھٹلانے کے لئے سفر معراج سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی کے متعلق سوالات کئے۔ جن کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جوابات مرحمت فرمائے۔ انہی سوالات و جوابات کو قرآن و حدیث کی روشنی میں تحریر کیا جا رہا ہے۔
اللہ رب العزت نے سورہ النجم میں ارشاد فرمایا :
وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰی.
(النجم، 53 : 1)
’’قسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب وہ (چشم زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترے‘‘۔
اس آیت مقدسہ سے معلوم ہوا کہ حقیقت میں لامکاں کی حدوں کو عبور کرنا کمال مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، طاقت پرواز مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور معجزہ معراج مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے مگر ان کمالات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کمال اور سفر معراج مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج کرہ ارضی کی طرف دوبارہ واپسی ہے جس کی قسم کھا کر باری تعالیٰ ارشاد فرما رہا ہے کہ پرتوِ نور الہیٰ اور جلوہ حسن الہٰی کا کمال یہ ہے کہ وہ دوبارہ نیچے اترا۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی لئے کیا خوب کہا تھا :
تو معنی والنجم نہ سمجھا تو عجب کیا
ہے تیرا مدوجزر ابھی چاند کا محتاج
چونکہ سفر معراج، رفعت و بلندی، عشق و محبت اور شان و عظمت کا سفر تھا۔ اسی طرح سفر معراج سے کرہ ارضی کی طرف واپسی بھی اس سے کہیں بڑھ کر اس کی غمازی کرتی ہے۔ واپسی پر بھی بذریعہ براق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس مکہ میں تشریف لائے۔ واپسی کے دوران چھٹے آسمان پر حبیب اللہ کی جب کلیم اللہ سے ملاقات ہوئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دریافت کیا یا رسول اللہ! اللہ رب العزت کی بارگاہ سے اپنی امت کے لئے کیا تحفہ لائے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی امت کے لئے یومیہ پچاس نمازیں عطا فرمائی ہیں۔ جس پر کلیم اللہ علیہ السلام نے فرمایا مجھے میری امت کی نسبت تجربہ حاصل ہوا ہے لہذا آپ بارگاہ الہٰی میں دوبارہ حاضر ہو کر نمازوں میں تخفیف کی درخواست کریں کیونکہ آپ کی امت یہ بوجھ نہیں اٹھا سکے گی۔ چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مشورے کے مطابق بارگاہ خداوندی میں دوبارہ حاضر خدمت ہوئے اور نمازوں میں کمی کی درخواست پیش کی۔ درخواست کو شرف قبولیت حاصل ہوئی اور پانچ نمازیں کم کر دی گئیں۔ طویل حدیث کے مطابق جو حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ حضرت کلیم اللہ علیہ السلام نے 9 مرتبہ نمازوں میں کمی کروانے کا مشورہ دیا اور حضرت حبیب اللہ علیہ السلام نے 9 مرتبہ نمازوں میں تخفیف کی درخواست بارگاہ خداوندی میں پیش کی اور بارگاہ الہٰی سے ہر مرتبہ پانچ نمازیں کم ہوتی رہیں اور جب پانچ نمازیں باقی رہ گئیں تو عرش کے مہمان نے اس تحفہ کو قبول فرمایا تو عرش الہٰی سے آواز آئی اے میرے محبوب! نمازیں تو میں نے پانچ کر دی ہیں لیکن ان نمازوں کے ادا کرنے کا ثواب تیری امت کو پچاس کے برابر دوں گا۔
اس واقعہ پر مخالفین اسلام کی طرف سے اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم ہوتا کہ پانچ نمازیں باقی رہ جائیں گی تو پہلے ہی پانچ لے کر آتے۔ 9 مرتبہ آمدو رفت کی ضرورت نہ پڑتی۔ یہ اعتراض ہرگز قابل توجہ نہیں بلکہ جہالت اور تعصب پر مبنی ہے اور دوسرے لفظوں میں علم الہٰی پر طعن ہے۔ کیونکہ نعوذ باللہ اگر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم نہیں تھا تو علم الہٰی میں تو تھا پھر اللہ تعالیٰ نے خود پہلی مرتبہ ہی پانچ نمازیں کیوں نہ عطا فرما دیں؟ حقیقت یہ ہے اگر تعصب اور بغض کی عینک اتار کر عشق و محبت کی عینک سے اس کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے پچاس نمازیں مرحمت فرمانا بھی امر الہٰی تھا اور پھر کم کر کے پانچ کر دینا بھی منشاء ایزدی تھا جس کی کئی حکمتوں میں سے ایک حکمت حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کی دعا ہے جو انہوں نے کوہ طور پر بارگاہ ایزدی سے شرف ہمکلامی عطا ہونے پر مانگی تھی اور عرض کیا تھا :
رَبِّ اَرِنِیْ.
(الاعراف، 7 : 143)
’’مولا مجھے اپنا جلوہ حسن عطا فرما‘‘۔
بارگاہ الہٰی سے جواب ملا :
لَنْ تَرَانِیْ.
(الاعراف، 7 : 143)
’’اے موسیٰ! تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتا‘‘۔
قاعدہ ہے کہ اللہ کے برگزیدہ پیغمبر کی دعا رد نہیں ہوتی مگر موخر ضرور ہو جاتی ہے اور کسی حکمت کے تحت اسے محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ حضرت کلیم اللہ علیہ السلام نے دیدار الہٰی کی درخواست ایک روایت کے مطابق 9 مرتبہ کی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا معراج مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک موخر کر دی گئی اور جب اللہ رب العزت نے اسے قبولیت کا شرف بخشنا چاہا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چھٹے آسمان پر کھڑا کر دیا اور حکم فرمایا کہ آج میرا مہمان خصوصی اور محبوب خاص(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری تجلیات کا مظہر اتم بن کر یہاں جلوہ افروز ہو گا لہذا تم اس ذات میں موجزن میرے حسن کے جلوؤں کو دیکھتے جانا اور میرے حسن کے پر تو سے اپنی آنکھوں کی پیاس بجھاتے جانا۔ چونکہ تم نے 9 بار دیدار کی تمنا کی تھی لہذا پہلے میں اپنے محبوب (علیہ الصلوۃ والسلام) کو پچاس نمازوں کا تحفہ عطا کروں گا مگر تم محبوب کی امت کی خاطر جن کی تکلیف اس محبوب کو گوارا نہیں نمازوں میں تخفیف کا مشورہ دیتے جانا۔ میرا محبوب میری بارگاہ میں حاضری دیتا جائے گا اور میں پانچ پانچ نمازیں کم کرتا جاؤں گا۔ تمہاری دید کی تمنا پوری کرتا جاؤں گا۔ اس طرح جب پانچ نمازیں باقی رہ جائیں گی تو اس کا ثواب پچاس کے برابر رکھوں گا۔ جو امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بخشش و مغفرت کا باعث ہونگی اور یہی معراج مصطفی کا عظیم تحفہ ہو گا جو عرش کا مہمان فرش والوں کے لئے لے کر جائے گا۔
سفر معراج کے بیان کی حقانیت پر سب سے پہلے ابوجہل نے اعتراض کیا کیونکہ اس عظیم معجزے سے کفر کے ایوانوں میں زلزلہ برپا ہو گیا تھا اور کفار پیغمبر خدا کے جانثار ساتھیوں کو بھی متزلزل کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ ابوجہل نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر معراج کا سارا ماجرا سنایا جو اس نے سنا تھا لیکن جب جانثار مصطفی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ یہ دعویٰ کس نے کیا ہے؟ جب یہ بتایا کہ ابوجہل نے تمہارے محبوب کو اللہ رب العزت نے شرف دیدار سے نوازا ہے تو عاشق صادق پکار اٹھا کہ ہم نے تو اس سے بھی بڑی حقیقت یعنی رب تعالیٰ کو بھی بن دیکھے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے سن کر مان لیا تھا لہذا ہمارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ دعویٰ سفر معراج بھی سوفیصد درست ہے اور میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔ کافروں کے سردار کو نہایت ہزیمت اور شرمساری کا سامنا کرنا پڑا۔ اس طرح کفر کی سازش ناکام ہوئی اور اسی صبح کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو محبوب کبریاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ’’صدیق اکبر‘‘ کا لقب عطا فرمایا گیا۔
(تفسیر ابن کثیر)
اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں سفر معراج کے پہلے مرحلے کا ذکر سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں کرتے ہوئے فرمایا :
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ.
(بنی اسرائيل، 17 : 1)
’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔
(عرفان القرآن)
سفر معراج سے واپسی پر اور اس آیت کریمہ کے نزول کے بعد کفار نے پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس سفر معراج کو جھٹلانے کے لئے ایک اور بہت بڑا حملہ کرنے کی ناپاک جسارت کی کیونکہ ان کے پاس دلیل یہ تھی کہ مسلمانوں کے نبی نے اس سے قبل کبھی بھی بیت المقدس کی طرف سفر نہیں فرمایا لہذا وہ ہمارے سوالات کے جوابات نہیں دے پائیں گے اور ہم انہیں نعوذ باللہ جھوٹا ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر جو ذات کبریاء اسی آیت مقدسہ میں فرما رہی ہے کہ اے محبوب! یہ سفر معراج میں نے تمہیں کروایا ہے اور میں ہر نقص اور کمزوری سے پاک ہوں تو پھر وہ اپنے محبوب کو دشمنوں کے سوالات کے درست اور حقیقت پر مبنی جوابات دینے سے کیسے قاصر رکھ سکتی ہے؟
یہی وجہ ہے عرش و فرش اور کعبہ و بیت المقدس کے مالک نے بیت المقدس کو اٹھا کر اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کر دیا چنانچہ بیت المقدس کے درو دیوار، دروازوں، چھتوں، کھڑکیوں اور فاصلوں کے بارے میں جو جو سوالات کفار مکہ کرتے جاتے محبوب خدا ان کے ہر سوال کا جواب دیکھ کر ارشاد فرماتے جاتے۔ بالآخر کفار اپنی اس ناپاک سازش میں بھی ناکام ہوئے۔ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی اور مسند احمد بن حنبل کی صحیح حدیث مبارکہ جو حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں وہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
لما کذبنی قريش قمت فی الحجر فجلی الله لی بيت المقدس، فطفقت اخبرهم عن آياته وانا انظر اليه.
(صحيح بخاری، 2 : 684، کتاب التفسير، رقم : 4433)
’’جب قریش نے میری (معراج کی) تکذیب کی اس وقت میں حجر اسود کے پاس تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس میری نظروں کے سامنے ظاہر کر دیا اور میں اسے دیکھ دیکھ کر اس میں موجود تمام نشانیاں اہل قریش کو بتانے لگا‘‘۔
اہل قریش کے کچھ قافلے بھی تجارت کی غرض سے بیت المقدس کے راستوں کی طرف گئے ہوئے تھے جن کے بارے میں سوال کرنے پر صاحب ’’قاب قوسین او ادنیٰ‘‘ نے فرمایا کہ میں نے تمہارا پہلا قافلہ مقام ’’روحا‘‘ پر دیکھا تھا جس کی قیادت فلاں قبیلے کا سردار کر رہا تھا۔ اس قافلے کا ایک اونٹ گم ہو گیا تھا جس کی وہ تلاش میں گئے ہوئے تھے۔ مجھے جب پیاس لگی تو اس قافلے کے ایک اونٹ کے پیالے میں موجود پانی کو میں نے پیا تو اس وقت ایک شخص اونٹ کو تلاش کر کے واپس آیا تو میں نے اسے جاتے ہوئے سلام کیا۔ قافلے کے ایک فرد نے میری آواز سن کر کہا کہ یہ تو محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز معلوم ہوتی ہے لہذا جب قافلے والے واپس لوٹ آئیں تو ان سے دریافت کر لیا جائے کہ یہ واقعہ رونما ہوا تھا یا نہیں۔
صاحب اسریٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارا دوسرا قافلہ مجھے مقام ’’ذی فجا‘‘ پر ملا جس کی کیفیت یہ تھی کہ ایک اونٹ پر دو دوست سوار تھے۔ جب میری سواری ان کے قریب سے گزری تو اس کی تیز رفتاری کی وجہ سے ان کا اونٹ بدک کر بھاگ کھڑا ہوا اور وہ دونوں دوست اس اونٹ سے نیچے گر گئے جس کی وجہ سے ان میں سے ایک کا ہاتھ ٹوٹ گیا۔ جب یہ قافلہ واپس پہنچے گا تو تمہیں یہ نشانی نظر آ جائے گی۔
صاحب سدرۃ المنتہٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارا تیسرا قافلہ مجھے مقام ’’تلوین‘‘ پر ملا۔ اس کی علامت یہ تھی کہ اس کے آگے ایک بھورے رنگ کا اونٹ چل رہا تھا جس پر دو بوریاں ایک سفید دھاری دار اور دوسری سیاہ دھاری دار لدی ہوئی تھیں، جب وہ قافلہ واپس پہنچے تو ان کو دیکھ لینا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قافلوں کی ان واضح نشانیوں کی نشاندہی کے بعد اہل قریش کے استفسار پر یہ بھی پتا دیا کہ وہ قافلے کب تک مکہ میں وارد ہونگے۔ فرمایا : پہلا قافلہ کل سورج کے طلوع ہونے سے قبل، دوسرا قافلہ سورج کے نصف النہار کے وقت جبکہ تیسرا قافلہ غروب آفتاب سے قبل پہنچ جائے گا۔
(المواہب اللدنیۃ، 2 : 40)
قافلوں کی اس ٹائمنگ نے کافروں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ کفار نے اس سے بھی ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور تینوں اوقات میں اونچی پہاڑی پر بیٹھ کر اس امر کا جائزہ لینا شروع کیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے بتائے گئے اوقات میں معمولی کمی بیشی پر وہ نعوذ باللہ پیغمبر خدا کو جھوٹا ثابت کریں گے۔ دوسری طرف عشاق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی دیوانہ وار دوسری اونچی پہاڑی پر پہنچ چکے تھے تاکہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کا عَلم لہرا کر کافروں کے معبودان باطلہ کو بے نقاب کر دیں۔ احقاق حق اور ابطال باطل کا عجیب منظر تھا مگر اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق ’’ان الباطل کان ذھوقا‘‘ کا منظر کائنات نے دیکھا کہ جب سورج طلوع ہونے کا وقت آیا تو ایک کافر نے نشاندہی کرتے ہوئے اونچی آواز میں کہا کہ وہ دیکھو سورج طلوع ہو گیا۔ اسی لمحہ ایک عاشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز گونجی وہ دیکھو قافلہ بھی آ رہا ہے۔ قافلہ دیکھ کر کفار کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ مکے کے صادق و امین نے آج پھر اپنی صداقت کا لوہا منوا لیا تھا۔ اسی طرح سورج نصف النہار پر تھا اسی وقت قافلہ بھی نمودار ہوا اور اس بار بھی قریش مکہ کو نہایت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور اسے جادو کا کرشمہ قرار دینے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ تیسرے قافلے نے سورج غروب ہونے سے تھوڑی دیر قبل پہنچنا تھا مگر راستے میں اسے رکنا پڑ گیا جس کی وجہ سے رفتار میں کمی واقع ہوئی اور شاید وہ غروب آفتاب کے بعد پہنچتا مگر اس خالق کائنات کو جس نے سورج کو بھی پیدا کیا ہے کب گوارا تھا کہ اس کے محبوب کی طرف کوئی انگشت اعتراض بلند کرے اور کسی قسم کے جھوٹ کی نسبت کرے۔ اس خالق ارض و سماء نے زمین کو سمٹنے کا حکم دیا جیسے پلک جھپکنے میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے غلام آصف بن برخیا نے ملکہ سبا بلقیس کا تخت حاضر کر دیا تھا جن کے لئے اللہ رب العزت نے اس زمین کو سمیٹ دیا تھا۔ آج وہی زمین محبوب خدا کی خاطر پھر سمیٹ دی گئی اور زمین بھی اپنے مقدر پر اس خدمتِ پیغمبر آخرالزماں کے باعث فخر کر رہی ہو گی۔ سورج کو حکم ہوا وہیں رک جا۔ یہ وہی سورج ہے جسے محبوب خدا نے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی قضا نماز کو ادا نماز میں تبدیل کرنے پر دوبارہ واپس پلٹا دیا تھا کیونکہ ان کی نماز ادب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں قضا ہوئی تھی۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا :
نمازیں جو قضا ہوں پھر ادا ہوں
نگاہوں کی قضائیں کب ادا ہوں
یہ وہی سورج تھا جس سے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچپن میں انگلی کے اشارے سے کھیلا کرتے تھے۔ آج خالق آفتاب و ماہتاب نے صداقت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے لئے اسے وہیں روک دیا کہ جب تک قافلہ نہ پہنچ جائے غروب ہونے کی اجازت نہیں۔ چنانچہ سورج افق کے کناروں پر ہی رکا رہا۔ حتی کہ قافلہ نمودار ہونے لگا۔ ادھر کفار مکہ میں سے کسی کی آواز بلند ہوتی ہے کہ سورج غروب ہونے کے قریب ہے قافلہ نظر نہیں آرہا۔ یہ جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی عاشقان مصطفی میں سے دوسری آواز بلند ہوتی ہے۔ وہ دیکھو قافلہ پہنچ چکا ہے۔
(الشفاء، 1 : 284)
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ’’سوائے اللہ کے کوئی سچا خدا نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں‘‘
اس واقعہ سے حق کا بول بالا ہوا اور کفر کا منہ کالا ہوا۔ مگر جن دلوں پر مہر لگ چکی ہو اور کفر کے تالے لگے ہوں پھر وہ دن کی روشنی میں بھی اس زندہ حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود یقین اور ایمان کی دولت سے محروم رہتے ہیں۔ یہی حال ان کفار کا تھا جو اس عظیم معجزہ کو روز روشن کی طرح عیاں دیکھ کر بھی ایمان کی حلاوت اور چاشنی سے محروم رہے۔ سفر معراج کی معراج یہ ہے کہ او ادنیٰ کے مقام بے مثال اور قرب خداوندی کی انتہاء جس کا تصور بھی ممکن نہیں پر فائز ہونے کے باوجود حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کی خاطر منشاء ایزدی سے کرہ ارضی کی طرف واپس تشریف لائے جس نے اس معجزہ کو از اول تا آخر تمام معجزوں کا بھی معجزہ بنا دیا اور اب سائنس قیامت تک جتنی بھی ترقی کرتی جائے گی وہ واقعہ معراج کی بھی تصدیق کرتی چلی جائے گی۔
ادھر سے کون گزرا تھا کہ اب تک
دیار کہکشاں میں روشنی ہے
٭٭٭٭٭