شارح بخاری عینی عصر شیخ الحدیث حضرت علامہ محمد معراج الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کے چہلم کی تقریب جو مورخہ 18 مئی 2017ء کو مرکزی سیکرٹریٹ تحریک منہاج القرآن میں زیر صدارت جگر گوشہ شیخ الاسلام مدظلہ العالی چیئرمین سپریم کونسل محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی زیر صدارت منعقد ہوئی میں یہ مقالہ بعنوان ’’شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کا ذوق نفاست و لطافت‘‘ ان کے شاگرد رشید علامہ صاحبزادہ محمد حسین آزاد الازہری (ایم فل منہاج یونیورسٹی) نے پڑھ کر سنایا۔ جسے قارئین کے استفادہ کے لئے من و عن شائع کیا جارہا ہے۔ (ادارہ دختران اسلام)
دیکھے تُو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
افلاک منور ہوں تیرے نورِ سحر سے
خورشید کرے کسبِ ضیاء تیرے شرر سے
ظاہر تری تقدیر ہو سیمائے قمر سے
دریا متلاطم ہوں تری موجِ گرہ سے
شرمندہ ہو فطرت تیرے اعجازِ ہنر سے
مخزنِ علم و عرفاں، پیکر خلوص و وفا، صاحبِ جود و سخا، عاشقِ مصطفی، صوفی باصفا، عابدِ بے ریا، عالم ربانی، عارف نورانی استاذ العلمائ، استاذ الاساتذہ، شارح بخاری، عینی عصر، شیخ الحدیث والتفسیر حضرت علامہ محمد معراج الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم علمی و روحانی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ جہاں آپ سے فیض یافتہ شاگرد اور منہاجینز ملکِ پاکستان اور بیرونِ ملک کونے کونے میں موجود ہیں وہیں آپ کے بے شمار متوسلین اور محبین بھی پوری دنیا میں موجود ہیں جو آپ سے بالواسطہ یا بلاواسطہ فیض حاصل کررہے ہیں۔ آپ اپنی ہستی میں کائنات اور اسم بامسمٰی تھے جن سے ایک عالم متمتع ہورہا ہے۔
آپ کی حیات مبارکہ کے کئی پہلو اور گوشے ہیں جو ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں مگر بطور ادنیٰ شاگرد میں آپ کی زندگی مبارکہ کے جس ایک گوشہ کو مختصراً ضبطِ تحریر میں لارہا ہوں وہ ہے آپ کا ’’ذوقِ نفاست و لطافت‘‘۔
ان کی عادات میں تھی بہت نفاست
جس کے اسیر ہوئے صاحبانِ طہارت
قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نفاست و لطافت، زندگی اور عمل کی روح ہے۔ قرآن حکیم نے اسے صبغۃ اللہ یعنی ربانی رنگ قرار دیا ہے اور اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحت کہ ’’اللہ جمیل و یحب الجمال‘‘ نفاست پسند انسان اللہ تعالیٰ کا محبوب قرار پاتا ہے اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ’’الطہور شطر الایمان‘‘ کے تحت تو اِسے ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔
ہمارے قائد و شیخ و مربی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی جو خود نفاست و طہارت کا پیکر ہیں کی تعلیمات کا خلاصہ بھی یہ ہے کہ ’’انسان کی ذات ہر قسم کی کدورت، نفرت، رذالت اور بغض و حسد سے پاک اور منزہ ہو اور ہر قسم کی لطافت و نظافت اور حسن و جمال سے آراستہ و پیراستہ ہو‘‘۔
جب ہم استاذی المکرم شیخ الحدیث حضرت علامہ محمد معراج الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کی حیات مبارکہ کو دیکھتے ہیں تو آپ کی ذات، فطرت، جبلت اور خلقت میں لطافت و نفاست اور جمالیات کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ آپ کی طبیعت نہایت لطیف اور قلب حسین تھا۔ آپ کی روح عظیم الشان جمالیات کی حامل تھی۔ آپ نہ صرف ایک کامل مدرس، ایک فقیہ، ایک محدث، ایک مفسر، ایک عالم باعمل، ایک حافظ اور قاری قرآن ہونے کی بناء پر ذوقِ جمالیات سے مزین تھے بلکہ ایک مصنف اور قلمکار ہونے کی بناء پر بھی فنی اور ادبی لطافت و نفاست سے آراستہ تھے۔ جہاں آپ کے دہن مبارک سے فصاحت و بلاغت کے موتی نکلتے تھے جن کی چمک دمک آنکھوں کو خیرہ کردیتی تھی وہیں آپ کی کسی بھی تصنیف کو اٹھا کر دیکھیں تو وہ فکری و نظری اور ادبی جمالیات اور نفاست پسندی کا شاہکار نظر آتی ہے اور جہاں آپ کا ہر خطاب آپ کے ذوق جمالیت کا مرقع نظر آتا تھا وہاں آپ کے اندازِ تدریس کا حسنِ ترتیب ابتداء سے آخر تک فکری ذوقِ جمالیات کا آئینہ دار نظر آتا تھا بلکہ اس میں ادب کی چاشنی اور زبان کی فصاحت و بلاغت، متنوع طرز استدلال، برموقع و محل اشعار کا استعمال، تشبیہات، استعارات، اشارات و کنایات، امثال و واقعات آپ کے ادبی ذوق نفاست کی بھرپور عکاسی کرتے تھے۔
ان کے افکار میں تھی مومنانہ فراست
جس کے خوگر ہوئے صاحبانِ بصارت
ان کی تدریس تھی مملو فصاحت و بلاغت
جس کے رسیا ہوئے وارثان نبوت و رسالت
آپ کے رہن سہن، اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، کھانے پینے حتی کہ لباس میں بھی نفاست پائی جاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ظاہری و باطنی حسن وجمال سے بھی نوازا تھا۔ آپ جب مسند علم پر جلوہ افروز ہوتے اور علم حدیث کے موتی بکھیرتے تو آپ کی باطنی طہارت کے کمال کے علاوہ آپ کے نفیس و لطیف لباس سے بھی خوشبوئوں کے حلّے پھوٹتے تھے جس سے اردگرد کا ماحول منزہ و مطہر ہوجاتا۔ اسی نورانی، عرفانی، روحانی اور پاکیزہ ماحول کا اثر ہے کہ آج ربع صدی گزرنے کے باوجود وہ ناقابل فراموش ہے اور قلم اس ماحول کی تاثیر کو لکھنے پر مجبور ہے تو پھر اس ہستی کی اپنی نفاست و لطافت اور طہارت و پاکیزگی کا عالم کیا ہوگا جن کی وجہ سے آج اس ماحول کی یاد تازہ ہورہی ہے۔ بقول شاعر:
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارہ
حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ نے پوری زندگی جس ذوقِ نفاست سے قرآن حکیم کی تلاوت کی اور روزانہ فجر کی نماز کے بعد ایک پارہ کی تلاوت بالجہر ترتیل اور خوش الحانی سے کرتے جس سے فضا بھی منور و معطر ہوجاتی اور پھر نماز تراویح میں ہر سال اس طرح روانی اور نفاست سے قرآن پڑھتے کہ مقتدی حضرات اس کے سحر میں ڈوب جاتے وہ نظارہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔
اپنی ہستی سے بھی آخر ہوگیا بے گانہ میں
ان سے جب جاکر ہوئی حاصل شناسائی مجھے
عطا ہوئی ہے تجھے روز و شب کی بے تابی
خبر نہیں کہ تو خاکی ہے یا کہ سیمابی
حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی کی علمی و روحانی اور نفیس و لطیف شخصیت سے بہت متاثر تھے اور دیگر علماء و فضلاء اور قائدین تحریک کے ساتھ ان کے دروس میں صفِ اول میں بیٹھ کر جب علمی و ادبی اور روحانی نکات کے گوہر پارے نچھاور ہوتے تو بھرپور داد دیتے ہوئے واہ واہ کی صدائیں بلند کرتے نظر آتے۔ یہ بھی آپ کا سماعت کا نفیس اور لطیف ذوق تھا جس سے آپ مزین و آراستہ تھے اور پھر حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ عمر بھر اپنے طلباء و طالبات کو مصطفوی انقلاب کے عظیم مشن کا جو پیغام دیتے رہے اس کا خلاصہ اشعار کی زبان میں کچھ یوں پیش کروں گا۔
نسل نو خیز تجھے اپنی بقا کی خاطر
شیخ الاسلام کے افکار میں ڈھلنا ہوگا
شیخ کامل نے جو جلائی ہے شمع تحریک
اس پر پروانوں کی صورت ہمیں جلنا ہوگا
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ جنت الفردوس میں بھی آپ کے اس اعلیٰ و ارفع ذوق کے صدقے آپ کو اس سے کہیں زیادہ مطہر اور منزہ ماحول میں قدرو منزلت کے ساتھ رکھے اور ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چل کر نفاست و پاکیزگی کا دامن تھامنے کی توفیق عطا فرمائے۔