اولیائے کرام نے محبت، سلامتی اور احترام انسانیت کے جو چراغ صدیوں پہلے جلائے ان کی لو پوری دنیا سمیت ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کے سینوں میں بھی روشن دکھائی دیتی ہے۔ اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے پاکستان کے 19 کروڑ عوام پر 64 سال کی ’’آزادی‘‘ بیت گئی جبکہ ہندوستان میں آباد کروڑوں مسلمان اس نعمت سے محرومی کے باوجود بھی اسلاف کی اعلیٰ قدروں کے امین نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں فوجی اور سول حکمرانوں کی ہوس اقتدار نے آج بظاہر آزاد مسلمانوں کو اعلیٰ خصائل سے محروم کر کے غلاموں کا طرز زندگی دے دیا ہے تو ہندوستان میں بسنے والے حالات کے جبر کے باوجود باطنی اوصاف سے مزین ہیں۔ 64 سال کا سفر یہ حقیقت آشکار کر گیا کہ آزاد خطہ زمین بھی اس وقت تک وہاں کے باسیوں کو آزادی کی حقیقی نعمت سے سرفراز نہیں کر سکتا جب تک انہیں مخلص، باکردار اور باصلاحیت لیڈر شپ کا تسلسل نہ ملے۔
ہندوستان میں بسنے والے غیور مسلمانوں نے اپنے حسنِ عمل سے مندرجہ بالا تجزیہ پر مجبور کر دیا، انہوں نے عالم اسلام کے بطل جلیل اور عظیم فکری و انقلابی رہنما شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے تقریباً ایک ماہ کے دعوتی تنظیمی دورے کے دوران محبت، عقیدت، عشق اور وارفتگی کے جو موتی نچھاور کئے وہ انڈیا میں ایک ایسی تاریخ رقم کر گئے جن سے اکتساب شعور کر کے خصوصاً جنوبی ایشیا کی مُسلم نسلیں اسلاف کے آداب کے باب میں ہمیشہ رہنمائی لیتی رہیں گی۔ شیخ الاسلام نے نیو دہلی سے شروع اور ختم ہونے والے تقریباً ایک ماہ کے دورے کے دوران وہاں کی مختلف ریاستوں کا دورہ کیا اور دین مبین کا محبت، سلامتی اور امن کا پیغام جو ساری انسانیت کے لئے ہے عام کیا۔ بھارتی شہر حیدر آباد کی تاریخ کے سب سے بڑے اجتماع میں شریک ڈیڑھ ملین سے زائد مسلمانوں نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر ہونے والے شیخ الاسلام کے خطاب کو دارالسلام کے وسیع و عریض گراؤنڈ میں سنا۔ گراؤنڈ سے ملحقہ سڑکیں بھی تاحد نظر انسانی سروں سے بھری تھیں اور کثیر المنزلہ عمارات کی چھتوں اور بالکونیوں میں بھی ہزاروں مرد و خواتین اور بچے گھنٹوں خطاب کو سننے میں محو تھے۔ خطاب کے آخری حصے میں لاکھوں مسلمانوں کا پنڈال بلا مبالغہ متلاطم سمندر کا منظر پیش کر رہا تھا۔ عشاق کا جذبہ اور ان کا سٹیج کی طرف بے ساختہ لپک کر شیخ الاسلام کو چھونے کی آرزو نے جو منظر دکھایا وہ بپھرے سمندر کی موجوں جیسا تھا۔ شیخ الاسلام نے بھی آخری جملوں میں ان کے جذبہ عشق کو یوں بیان فرمایا کہ ’’دکن والو آپ کی یہ محبت مجھے ہمیشہ یاد رہے گی آپ کے عشق و محبت کو دیکھ کر اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی یاد آتی ہے‘‘۔ چھ ٹی وی چینلز جن میں Nish ٹی وی، MQ ٹی وی، Four ٹی وی، CCN ٹی وی، ای ٹی وی اردو اور اردو ٹی وی شامل ہیں، نے خطاب کو براہ راست دکھایا۔ تمام ٹی وی چینلز کو پورے بھارت سے حیران کن فیڈ بیک آئی اور ان تمام ٹی وی چینلز کی آفیشل رپورٹ کے مطابق دارالسلام کا خطاب مجموعی طور پر 80 لاکھ گھروں میں موجود کروڑوں افراد نے براہ راست سنا۔ بھارتی گجرات کے شہر کرجن میں بھی شیخ الاسلام کو سننے کے لئے انسانوں کا سیلاب امڈ آیا، انتہا پسندوں کی طرف سے ملنے ولی قتل کی دھمکیوں کے باوجود شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شیڈول کے مطابق خطاب کیا۔ گجرات حکومت کی طرف سے انہیں سٹیٹ گیسٹ کا پروٹوکول اور Z+ سیکورٹی دی اور حفاظت پر 300 کمانڈوز اور پولیس اہلکار تعینات کئے۔ دہلی، گجرات، کچھ، حیدر آباد، بنگلور اور ممبئی میں ہر جگہ ڈیڑھ سے دو ملین مسلمان ہر جگہ شیخ الاسلام کے لئے دیدہ دل فرشِ راہ کئے ہوئے تھے۔ ٹی وی چینلز نے ہر اجتماع کو بریکنگ نیوز اور ہیڈ لائنز میں چلایا اور درجن بھر ٹی وی چینلز نے ہر اجتماع کو خصوصی رپورٹس کے ساتھ براہ راست نشر کر کے ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کو موجودہ صدی کے اس عظیم مجدد کو سننے کا موقع فراہم کیا جس کی فکر آنے والی صدیوں میں امت مسلمہ کے اربوں انسانوں کے لئے مشعل راہ ہو گی۔ پوری دنیا میں موجود تحریک منہاج القرآن کے وابستگان مسلمانان ہند کو سلام پیش کرتے ہیں۔ کیونکہ وہاں کے باغیرت مسلمانوں نے پورے ہندوستان میں ہر جگہ شیخ الاسلام کے استقبال ان ڈور، آؤٹ ڈور اجتماعات کی تیاریاں، سیکورٹی کے انتظامات، محبت اور عقیدت سے لبریز خوبصورت ترین سٹیج بنا کر پوری دنیا میں موجود تحریک منہاج القرآن کی تنظیمات کو قائد سے محبت کا اچھوتا انداز سکھا دیا۔ تجدید دین کی خدمت کے لئے زندگی کا ایک ایک لمحہ وقف کرنے والے ارفع و اعلیٰ قائد سے ہر ورکر کا تعلق یقینا محبت و عشق کی حدوں سے ماورا ہونا چاہئے۔ کرہ ارض پر تحریک منہاج القرآن کے وابستگان، عہدیداران اور کارکنان کروڑ دفعہ مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہیں شیخ الاسلام جیسے قائد کی صحبت میسر ہے اور مجدد وقت کی محبت ان کے دلوں کا مسکن ہے۔
بھارتی اخبارات نے شیخ الاسلام کو امن کا فرشتہ، امن کا سفیر اور ماڈریٹ اور حقیقی ویژن رکھنے والا دنیا کا وہ عظیم سکالر لکھا جسے اللہ کے سوا کرہ ارضی پر کسی کا خوف نہیں۔ انہوں نے لکھا کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایسے سکالر ہیں جو اسلام کے پیغام محبت سے دین کی دعوت پھیلا رہے ہیں۔ جو مذاہب کے درمیان مناظرہ نہیں مکالمہ پر یقین رکھتے ہیں اور مذاہب کے مشترکات پر دنیا کے امن پسندوں کو مل کر دہشت گردی کے خاتمے کیلئے متحرک ہونے کی ترغیب دیتے ہیں‘‘۔
ہندوستان کے دورے میں جہاں محبت، عقیدت، عشق، ادب و تکریم، وارفتگی اور فرزانگی کے بے نظیر رویے دیکھنے کو ملے وہاں تنگ نظری اور جہالت کے نالوں میں بھٹکنے والے مٹھی بھر مینڈکوں کی ٹرٹر بھی سنائی دیتی رہی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بے سمت کر کے فکری جمود دینے والے دو مکاتیب فکر نے پوری دنیا میں اس خطے سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ ایک مکتبہ فکر ایسا ہے جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ کے نام پر دین کی دعوت کو ایسے انداز میں پھیلایا کہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے محبت کے چشموں سے پیاس بجھانے کا اعلیٰ عمل جس کا براہ راست تعلق ایمان سے ہے کو خشک کرنے کی کوشش کی اور دین کو اسلام کے بنیادی اراکین کی بجا آوری تک محدود کر کے ’’عمل‘‘ پر سارا زور لگا دیا۔ (یہ وہی ہیں جن کے پیروکار آج شرک اور شخصیت پرستی کا رونا روتے نہیں تھکتے)۔ ایمان پر ہونے والے اس حملے کے سد باب کیلئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، محدثین، مجتہدین اور اولیائے کرام کے نقش قدم پر چلنے والے مجدد دین و ملت حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخی کام کیا اور عقیدہ حق کے دفاع کا حق ادا کر دیا مگر بدقسمتی سے مسلک اہلسنت والجماعت کے لئے کی جانے والی ان عظیم کاوشوں کو تسلسل دینے اور ان کے تحقیقی کام کو مزید آگے بڑھانے کی بجائے ان کے پیروکاروں کی اکثریت نے الا ماشاء اللہ رد عمل میں یہ راستہ بھلا دیا اور مکالمے کی بجائے مناظرانہ روش اپنا کر خود کو بریلویت کے ٹائیٹل تک محدود کر لیا، یہ سوچے بغیر کہ اس شناخت سے وہ محدودیت کی سازش کا شکار ہو جائیں گے۔ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے قبل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تک سینکڑوں ایسی ہستیاں گزریں جنہوں نے ہر دور میں عقیدہ صحیحہ پر ہونے والے حملوں کا سدباب کر کے تجدید و احیائے دین کی خدمت کا عظیم فریضہ انجام دیا مگر کسی ایک ہستی نے بھی مسلک اہلسنت والجماعت کو اپنی ذات یا علاقے سے منسوب نہ کیا اور نہ ہی ایسا عمل حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا رہا۔
شیخ الاسلام کے حالیہ دورہ ہندوستان کے دوران شر پسندوں نے دورے سے قبل اور آغاز پر ہی فتنہ و شرپسندی کا الاؤ روشن کر دیا تھا اور زہریلے پراپیگنڈے کے ذریعے پورے ہندوستان میں دورے کے دوران بھی کہرام مچائے رکھا۔ سات سات فٹ کے پوسٹروں سے در و دیوار بھر دیئے بینرز لگوائے اشتہارات چھپوائے اور حضور شیخ الاسلام کے عقیدے کے حوالے سے ہیجانی انداز میں بے سرو پا الزامات لگائے۔ شیخ الاسلام نے قلی قطب شاہ سٹیڈیم حیدرآباد میں درس حدیث کے دوران ان سارے اشکالات کا انتہائی مدلل انداز میں منہ توڑ جواب دیا اور برملا فرما دیا کہ ’’اہلسنت والجماعت کے عظیم عقیدے سے وابستہ کان کھول کر سن لیں کہ ’’بریلویت‘‘ کوئی مسلک نہیں ہے اور نہ ہی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پوری زندگی میں کبھی خود کو بریلوی لکھا وہ حنفی قادری لکھتے تھے بریلوی اور رضوی نہیں لکھتے تھے۔ سواد اعظم کا اصل عنوان اہل سنت والجماعت ہی ہے اور یہی پندرہ سو سال سے عقیدہ صحیحہ کا نام رہا ہے‘‘۔
انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش سے باہر کی اسلامی دنیا میں تو کوئی بریلوی لفظ سے واقف نہیں، تو پھر یہ تحقیق کے سنہری رویوں سے نابلد ان تین ملکوں سے باہر آباد مسلمانوں کو کیا بنائیں گے؟ تحریک منہاج القرآن کے بانی قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی پورے انڈیا میں جس سطح پر پذیرائی ہوئی اسے دیکھ کر جمود کا شکار جہلا جو خود کو عالم، مفسر اور مفکر کہلوانے سے بھی نہیں چوکتے، بوکھلا اٹھے اور اس خاص ذہنی کیفیت میں ایسی حرکتیں کرتے رہے جن پر کف افسوس ہی ملا جا سکتا ہے۔ ممبئی کی ہائیکورٹ میں شیخ الاسلام کے لئے ہونے والے اجتماع کو روکنے کیلئے شرپسندوں کی طرف سے دائر کی گئی رٹ کو عدالت نے خارج کر کے انہیں اوقات یاد دلا دی۔ تنگ نظروں کی پر زور مخالفت حیدر آباد، بنگلور اور ممبئی سمیت ہر جگہ شیخ الاسلام کے متوالوں کی تعداد میں لاکھوں کا اضافہ کرتی گئی۔ علم والا اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے اس کا عملی نظارہ پورے دورہ ہندوستان میں ملتا رہا۔
دلوں کو سلامتی اور امن دینے کے مشن پر مامور شیخ الاسلام مخالفتوں، مزاحمتوں، دھمکیوں اور ان پر عمل درآمد کے اقدامات کے باوجود دہلی سے شروع کرنے والے تاریخی دورے کے اختتام پر جب ممبئی پہنچے تو ان کے خطاب کے دوران مائیک کے آہنی راڈ پر ان سے ڈیڑھ فٹ کے فاصلے پر بیٹھے (مکمل دودھیا رنگ کے) کبوتر نے 40 منٹ تک آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر جمیل سن کر پوری دنیا میں براہ راست دیکھنے والے کروڑوں مسلمانوں کو پیغام دیا کہ ’’میں سفیر انسانیت اور امن و سلامتی کے اس عظیم رجل کو سننے کے لئے ایک عرصہ سے بے تاب تھا، ان کی قربت میں بیٹھنے کا شرف حاصل کر کے سب کو یہ پیغام دیتا ہوں کہ شیخ الاسلام کے وجود مسعود سے سینوں کو امن اور سلامتی ملتی ہے، ان کی گفتار صدیوں کی نفرتوں کا زنگ اتار دیتی ہے‘‘۔ ایک ماہ تک حسد کی آگ میں جل کر مخالفتوں کا زہر پھنکارنے والوں کو ممبئی کے کبوتر نے جو بتا دیا اے کاش! وہ اسے سمجھ پائیں اور عالم اسلام کی نابغہ روزگار ہستی جو صدیوں کی دعاؤں کا حاصل ہے، کے دست و بازو بن کر اپنے مقدر پر نازاں ہو سکیں۔ بات علوم کی ہو اور ہندوستان کا ذکر نہ آئے۔ اہل ہندوستان کا عمومی رویہ کسی کو ماننے کے حوالے سے اہل عرب سے کم نہیں ہے مگر دورے کے دوران بڑے بڑے اہل علم مشائخ علماء اور مختلف شعبوں کے ماہرین حضور شیخ الاسلام کے ہاتھ چومنے کو بے تاب نظر آئے اور ان کے جذبات اسی طرح تھے جیسے کسی پیاسے کو عرصے بعد میٹھے اور ٹھنڈے چشمے تک رسائی ملی ہو۔ وہ ایک ایک لمحے کی قربت کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے رہے اور حضور شیخ الاسلام کو ملتجی نظروں سے دیکھتے رہے کہ ہمیں اپنے فیض کی خیرات عطا فرماتے جایئے۔
شیخ الاسلام کا دورہ ہندوستان پوری دنیا میں مشن کے فروغ اور دین مبین کی حقیقی فکر کے فروغ میں ایک سنگ میل ثابت ہو گا اور اس کے اثرات سے پورے عالم میں موجود امن پسندوں کو متحرک ہونے کا شعور ملے گا اور یہی شعور پوری دنیا سے تنگ نظری اور انتہا پسندی کی راہ پر چلنے والوں کو بھی ایک روز درست منزل پر لے جائے گا۔ کاش یہ شعور شیخ الاسلام کے ہم وطنوں کو بھی جلد حاصل ہو جائے اور وہ آزاد خطے میں غلامانہ طرز عمل سے تائب ہو کر تحریک منہاج القرآن کی بیداری شعور مہم میں شامل ہو کر معاشرے میں حقیقی تبدیلی کے لئے شیخ الاسلام کا دست و بازو بن جائیں اور 19 کروڑ کے مقدر پر قابض فرعونوں کے لئے ارض وطن ایسی تنگ ہو کہ وہ دوبارہ یہاں آنے کی جرات نہ کر سکیں۔