اجلے، سفید کپڑوں میں ملبوس نہایت سیاہ بالوں والے شخص کو مجلس میں دیکھ کر سبھی متعجب ہوئے۔ اگر وہ آس پاس کے علاقوں کا مکین ہوتا تو یقینا صحابہ کرام رضی اللہ عنہا اسے پہچان لیتے مگر ایسا نہیں تھا۔ ممکن ہے کہ وہ کسی دور دراز علاقے سے سفر کی صعوبت برداشت کرتا ہوا حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے شوق میں کشاں کشاں چلا آیا ہو، مگر دوسری طرف اس کے جسم اور لباس پر سفر کے آثار بھی نہ تھے۔ بہرحال مجلس میں آتے ہی وہ اجنبی معلم کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک مؤدب شاگرد کی طرح بیٹھ جاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دین کے بارے کچھ سوالات پوچھتا ہے۔ اب صحابہ کرام رضی اللہ عنہا تو ہمہ وقت ایسے لمحات کے منتظر رہتے تھے کہ کوئی شخص آئے جو بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دین کے متعلق پوچھے اور ہم اس کا فہم حاصل کریں۔ البتہ از راہِ ادب خود سوالات کرنے سے گریز کرتے تھے۔ یہ ان کا طرزِ ادب اور طریقہ تعلیم تھا۔ ایک سوال جس کی نوعیت دوسرے سوالوں سے مختلف تھی اس اجنبی نے پوچھا ’’ماالاحسان‘‘احسان کیا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : الاحسان ان تعبداللہ کانک تراھ فان لم تکن تراہ فانہ یراک۔ احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اللہ کو دیکھ رہا ہے، پس اگر تو اللہ کو نہیں دیکھ رہا تو اللہ تو تجھے دیکھ رہا ہے۔ (صحیح بخاری 1 : 12) بعد ازاں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ جبرائیل امین علیہ السلام تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے‘‘۔
ایمان کا درجہ احسان، کمال دین ہے جسے سکھانے کیلئے جبرائیل امین بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضرہوئے۔ احسان دراصل اخلاص فی العمل کا ہی اعلیٰ و ارفع درجہ ہے جو تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن کے بغیر حاصل نہیں ہوتا جبکہ تصوف روحانی منازل طے کرنے کی سبیل ہے تاکہ انسانی روح من کی آلائشوں اور کمزوریوں سے پاک ہوکر اس زیست میں بھی حسنِ مطلق کے جلوئوں میں محو ہوجائے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم یہ کیفیت ضرور رہے کہ بندہ مالک کُل کی نظر میں رہے۔
زیرنظر کتاب ’’حقیقت تصوف ‘‘ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی انقلاب آفرین تصنیف ہے جس میں آپ نے تصوف، اسلامی معاشرے میں اس کی اہمیت اور مقام، دینی، معاشرتی، سائنسی اور دیگر حوالوں سے اس کی ضرورت اور آج کے پرفتن دور میں اسلام کے روحانی نظام کی ضرورت کو نہایت مدلل انداز میں بیان کیاہے نیز تصوف پر اٹھنے والے اعتراضات کا جواب دے کر اس علم کو اپنے حقیقی مقاصد کے آئینے میں دکھایا ہے۔ بقول ڈاکٹر علی اکبر قادری الازہری فطری ہٹ دھرمی اور تعصب کا علاج تو کسی کے پاس بھی نہیں لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ تصوف پر بے بنیاد اعتراض کرنے والوں کی تشفی کیلئے اس وقت اس سے بڑھ کر کوئی کتاب اتنی ثقہ اور مدلل نہیں۔
کتاب ہذا کل چھ ابواب پر مشتمل ہے جبکہ ابتداء میں بہت شرح و بسط کے ساتھ مقدمہ درج ہے جو کہ تین فصول پر مشتمل ہے۔ پہلی فصل’’اسلامی معاشرے میں تصوف کا مقام و مرتبہ ‘‘ کے مو ضوع پر ہے۔ شیخ الاسلام نے تصوف کی ابتداء اور ارتقاء کے حوالے سے چار مراحل کا ذکر کیا ہے اور اسے دور ماقبل تنقید سے موسوم کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ اسلامی معاشرے کے ہر دور میں تصوف کو اپنے مقاصد و نتائج کے اعتبار سے ہمیشہ سے ایک اہم مقام حاصل رہا ہے۔ عہدرسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تصوف کا وہ ابتدائی اور نوخیز دور تھا جس میں زہدو ورع اور تقویٰ کا رنگ غالب تھا۔ دوسری اور تیسری صدی ہجری میں جب اخلاص فی العمل کا زوال شروع ہوا اور محض فقہیت پر اصرار کیا جانے لگا تو یہ عہد تصوف اپنی دوسری ارتقائی منزل میں داخل ہوا۔ یہاں اہل حق نے اخلاص فی العمل کی خاطر مجاہدۃ النفس اور ریاضت کے ذریعے تعلق باللہ مستحکم کیا۔ تصوف کے حوالے سے تیسرا ارتقائی مرحلہ چوتھی اور پانچویں صدی ہجری پر مشتمل ہے جہاں اہل حق میں سے عوام حسب سابق شرعی اور اوامر و نواہی پر مکتفی رہے اور خواص نے باطنی کیفیت کو اپنا مطمح نظر بنا لیا لیکن خواص الخواص اعمال و احوال سے گزرکر مقام جذب تک پہنچے۔ تصوف کی نظری تشکیل اور حقائق تصوف پر بحث چھٹی اور ساتویں صدی ہجری میں شروع ہوئی جب بڑے بڑے صوفیائے کرام اور علمائے کرام نے علم و حکمت کی ادق زباں میں اس تصور کو دلائل و براہین کے ساتھ ثابت کیا۔ اس طرح معارف تصوف عوام تک پہنچنے اور ہر شخص تصوف کا کلمہ پڑھنے لگا۔ انہی مراحل پر شاہ ولی اللہ نے اپنی تصنیف ’’ ہمعات‘‘ میں تفصیل سے بحث کی ہے۔
شیخ الاسلام کے نزدیک ’’ علم تصوف‘‘ دور تنقید میں اس وقت داخل ہوا جب جاہل عوام میں صوفیانہ نسبت کو حتمی امر قطعی کا درجہ دے دیا گیا۔ اس دور میں علم تصوف میں اصلاح، برصغیر پاک و ہند میں حضرت مجدد الف ثانی، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی اور حضرت شاہ ولی اللہ نے کی۔ انہوں نے عوام کے قلوب و اذہان میں تمسک بالکتاب اللہ کی اہمیت اجاگر کی۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ صوفیانہ واردات حق ہیں اور ان کا انکار محال ہے۔ مگر ان کی حیثیت باطنی کیفیات اور روحانی ادراکات کی سی ہے۔ تصوف کی اسی اہمیت و افادیت کے پیش نظر مستشرقین نے اسے مرکز اتہام بنایا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اسلام کا اخلاق مذہب و تصوف عیسائیت سے مستعار ہے۔ تصوف کو سب سے زیادہ ہندو زعماء نے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اس کی اصل ان کی نسبت ہے۔ شومئی قسمت کہ بعض مسلم زعماء کے اذہان بھی اس متعصبانہ پروپیگنڈے سے مسموم ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ حالانکہ تصوف کی نسبت یہ نقطہ نظر محض سطحی مطالعہ سے پیدا ہوا تھا۔ اگر اسلام میں تصوف کے آغاز و ارتقاء کی تاریخ اسلامی معاشرے میں اس کی ضرورت و احتیاج اور اس کے مقاصد و نتائج پر ان کی گہری نظر ہوتی تو ان کے ذہن میں یہ تردد و التباس پیدا نہ ہوتا۔
فصل دوم میں شیخ الاسلام نے اسلامی، معاشرتی، سماجی اور عمرانی و فکری پہلوؤں کی روشنی میں اسلامی معاشرے کی خصوصیات بیان کر کے تصوف کی احتیاج اور نوعیت کو بیان کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ اسلامی معاشرہ اجتماعی طور پر اپنے افراد سے تزکیہ نفس کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ معاشرہ اخلاقی جدوجہدکرنے والے روحانی الذہن افراد پر مشتمل ہو۔ کیونکہ تصوف اسی تزکیہ کا دوسرا نام ہے اس لئے یہ دعویٰ مبنی برحق ہے کہ اسلامی معاشرہ اپنے وجود، بقا اور ترقی کیلئے تصوف کا محتاج ہے۔
فصل سوم میںدین اسلام میں تصوف کی حیثیت اور شریعت و طریقت کے مابین ربط اور پھر مقاصد طریقت پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ دین اسلام کے دو پہلو ہیں۔ ایک معیاری دین، یہ علمی سطح پر غلبہ اسلام کی جدوجہد کا نام ہے۔ دوسرا معمول بہ دین، یہ شریعت و طریقت پر مشتمل دین کی ظاہری و باطنی تعلیمات کا نام ہے۔ اگر شریعت و طریقت میں سے کسی ایک کا فقدان ہو تو معمول بہ دین نامکمل و ناتمام رہتا ہے۔ شریعت کا تعلق ان احکام اور انفرادی و اجتماعی امور سے ہے جن کی بنا پر فرد اور جماعت کی خارجی زندگی کی تشکیل ہوتی ہے۔ یہ عبادات و معاملات دو انواع پر منقسم ہیں جبکہ طریقت کا تعلق ان روحانی لذات اور معنوی کیفیات سے ہے جو طاعت و نیکی کے نتیجے میں انسان کے دل پر مرتب ہوتی ہیں۔ اسے ہی عام زبان میں ’’تصوف‘‘ کہا جاتا ہے۔ شریعت و طریقت اپنی اپنی ذات میں مستقل ہونے کے باوجود باہم لازم و ملزوم ہیں بلکہ کمال شریعت ہی کا نام طریقت ہے۔ امام مالک بن انس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں : جس نے علم فقہ حاصل کیا اور تصوف سے بے بہرہ رہا، پس وہ فاسق ہوا اور جس نے تصوف کو اپنایا مگر فقہ کو نظرانداز کر دیا وہ زندیق ہوا اور جس نے دونوں کو جمع کیا پس اس نے حق کو پالیا۔ (مرقاۃ المفاتیح، 1 : 256) ربط بین الشریعت و الطریقت بیان کر کے شیخ الاسلام نے طریقت کے مقاصدیعنی تزکیہ نفس، تصفیہ قلب اور معرفت ربّانی کو قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں نہایت مدلل انداز میں بیان کیا ہے۔
پہلا باب تصوف کے معنیٰ و مفہوم پر مشتمل ہے۔ اس میں مکمل تفصیل کے ساتھ تصوف کی لغوی تحقیق کی گئی ہے یہاں ‘‘ تصوف‘‘کے مادہ ہائے اشتقاق کے بارے میں چھ اقوال نقل کئے گئے ہیں۔ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : التصوف صفاء السرمن کدورۃ المخالفۃ (کشف المحجوب) یعنی باطن کو مخالفتِ حق کی کدورت اور سیاہی سے پاک و صاف کر دینے کا نام تصوف ہے۔ لغوی اعتبار سے تصوف کے جتنے بھی معانی و مطالب بیان کئے گئے ہیں ان سب میں ایک بات مشترک یہ ہے کہ تصوف اللہ رب العزت سے بے لوث اور بے غرض دوستی اور محبت کا نام ہے۔ اس راہ کے سالک کا قلب تعلق باللہ میں ہمہ نوع و اخروی منفعتوں، مصلحتوں اور ہر قسم کے اندیشہ و خطر سے کلیتاً بیگانہ ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں اخلاص فی السنۃ والعمل کا جذبہ ظاہر و باطن میں راسخ ہوجاتاہے۔
الصفاء سے اگر تصوف کا مادہ لیا جائے تو اس سے مراد صوفی وہ شخص ہے جس نے اپنے قلب و باطن کو گناہوں کی آلودگیوں سے پاک اور نفس کو رذائل اخلاق کی تاریکیوں سے منزہ کر لیا ہو اور اس کے آئینہ دل پر معصیت کی پرچھائیاں بھی باقی نہ رہی ہوں۔
الصفو :
اس مادے کے اعتبار سے تصوف سے مراد تعلق باللہ میں کمال درجہ اخلاص اور غایت درجہ صدق و بے نفسی ہے اور صوفی سے مراد وہ شخص ہے جس نے دنیا و آخرت کے اجر و جزا سے بے نیاز ہو کر محبوب حقیقی سے بے لوث محبت اور دوستی کا رشتہ استوار کر لیا ہو اور جس کی تمام تر مساعی اور مجاہدہ و مشقت کا محرک صرف اور صرف جذبہ رضائے الٰہی ہو۔
الصوف :
اگر تصوف کو صوف سے مانا جائے تو لغوی اعتبار سے تصوف کا معنیٰ اونی لباس پہننا اور صوفی سے مراد اونی لباس پہننے والا ہو گا۔ اونی کھردرا لباس دنیوی لذتوں اور جسمانی راحتوں سے کنارہ کشی کی علامت ہے اور اللہ کی بارگاہ میں غایت درجہ تواضع و انکساری، خشوع و خضوع، عجز و نیازمندی اور تذلل کی دلیل ہے۔ اونی لباس پہننا سنت انبیاء ہے جو خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ثابت ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غلام کی دعوت قبول فرما لیتے، خچر پر سواری فرما لیتے اور صوف زیب تن فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ ’’ صوف‘‘ وہی لباس تھا جسے تابعین و تبع تابعین کے دور میں نیک نہاد بندگان حق نے سنت انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ رضی اللہ عنہا کی پیری میں ازراہ عجز و تواضع اور انکسار و تذلل اپنایا اور اسی لباس کی نسبت سے انہیں صوفیاء کہا جانے لگا۔
صفہ :
تصوف کو اگر صفہ سے مشتق مانا جائے تو شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر علماء مؤرخین کے مطابق اس کا رشتہ اصحاب صفہ رضی اللہ عنہا سے جا ملتا ہے جو مربیّ کائنات رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براہ راست تربیت یافتہ جماعت تھی۔
الصف :
تصوف کو اگر الصف سے مشتق قرار دیا جائے تو تصوف کی راہ کے سالک وہ صوفیاء اور سعادت نصیب نفوس مراد ہوں گے جن کے دل بارگاہ ایزدی میں صف اول میں حاضر ہیں۔
یہ بات انتہائی قابلِ غور ہے کہ آج تصوف، طریقت اور سلوک کے نام پر بڑا دجل و فریب اور مکاری ہو رہی ہے جس نے بزرگوں کے طریقوں اور طریقت و روحانیت کو بدنام کر دیا ہے جس کے نتیجے میں نوجوان نسل اور پڑھا لکھا جدید تعلیم یافتہ طبقہ صوفیاء بزرگوں اور کاملین کے طریقہ زیست کی طرف جانے کو تیار نہیں ہوتے وہ سمجھتے ہیں کہ اس پورے سلسلے میں دھوکہ و فریب ہے۔ اس لئے اس حقیقت کو واضح کر دینا ضروری ہے کہ جہاں شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اتباع و اطاعت نہ ہو گی وہاں ولایت کا وجود ناممکن ہو گا۔ لہٰذا اس کتاب میں آپ نے تفصیل سے ولایت کی پہچان کرائی ہے تاکہ حق کے متلاشی حقیقت تصوف سے آگاہ ہوکر طریقت و روحانیت کی حقیقتوں سے بہرہ ور ہو سکیں۔
باب دوم
تصوف کی اصطلاح کا پس منظر اور رواج کے موضوع پر ہے جس میں شیخ الاسلام مدظلہ فرماتے ہیں کہ چونکہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دور صحابہ رضی اللہ عنہا میں تصوف کی اصطلاح کا باقاعدہ وجود نہیں ملتا۔ اس لئے عصر حاضر کے بعض علمی حلقوں میں تصوف کے بارے میں ایک عام مغالطہ یہ پایا جاتا ہے کہ تصوف بنیادی طور پر عجم سے درآمد شدہ فلسفہ روحانیت ہے اور تصوف کو بدعت خیال کرتے ہیں۔ موصوف نے اس سلسلے میں نہایت مدلل بحث کی ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ علمی طور پر تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ تفسیر، حدیث اور فقہ سے متعلق ہزاروں اصطلاحات جو فی زمانہ مروج اور مستعمل ہیں اور جنہیں ہر دور کے اہل علم اور صاحبان فکر و نظر بلاتکلف استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں وہ اکثر و پیشتر دور مابعد نبوت کی پیداوار ہیں۔ ان اصطلاحات کی ترتیب و تدوین دوسری اور تیسری صدی ہجری سے شروع ہو کر چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں پایہ تکمیل کو پہنچی اور یہ پھر اصطلاح کی حیثیت تو محض عنوان کی سی ہوتی ہے۔ بعینہ ’’تصوف‘‘ جس کا خمیر علوم قرآن اور سنت نبوی سے اٹھا ہے اس کا تعلق ضابطہ زندگی کی حیثیت سے عہد رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عہد صحابہ رضی اللہ عنہا سے استوار ہے۔ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہا ، تابعین اور تبع تابعین کے واقعات کا حوالہ دے کر بتایا کہ ان کے ہاں ’’تصوف ‘‘ اور ’’صوفی ‘‘کے معانی و مفہوم متداول تھے۔ جن میں حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ شیخ ابوالہاشم صوفی رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہاں تک کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت گاہِ مصطفوی سے فیض یافتہ اصحاب صفّہ بھی تاریخی تناظر میں بعد ازاں صوفی کہلانے لگے۔ جس کا ذکر شیخ احمد رفاعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب البرہان المرید میں کیا ہے۔ اس سلسلے میں حضر ت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی کشف المحجوب میں نقل کردہ حدیث یوں ہے کہ :
من سمع صوت اهل تصوف تلايومن ملی دعائه کتب عندالله من الغافلين(کشف المحجوب : 31)
جس نے اہل تصوف کی بات پر کان نہ دھرا اس کا شمار اللہ کے نزدیک غافلوں میں ہو گیا۔
اس حدیث سے دو حقیقتیں آشکار ہوتی ہیں اول یہ کہ تصوف کا لفظ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول مبارکہ سے ثابت ہے۔ دوم یہ کہ اہل تصوف کی راہ تقوی اور پرہیزگاری کی راہ ہے اور اس راہ سے منحرف ہونا غفلت اور بدبختی کی دلیل ہے۔
باب سوم
مطالعہ تصوف کی علمی اور دینی ضرورت کے موضوع پر ہے جس میں شیخ الاسلام مدظلہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ مطالعہ تصوف، فہم تصوف اور تعلیمات تصوف پر عمل کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ آیا تعلیمات تصوف کو سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہونا دین اسلام پر کاملاً عامل ہونے کیلئے ضروری ہے۔ اس فلسفہ کو اپنائے بغیر ایک کامل مسلمان کی سی زندگی نہیں گزاری جاسکتی؟اس حوالے سے آپ نے تصوف کی ضرورت و اہمیت کو تین جہات سے آج کے معاشرے کے لئے ثابت کیا ہے۔ علمی و دینی نقطہ نظر سے اگر بنظرغائر دیکھا جائے تو دین کے تین بڑے شعبے نظرآتے ہیں۔ علم العقائد، علم الاحکام، علم الاخلاص۔ آپ نے نہایت مدلل انداز میں تینوں شعبوں کو بیان کیا اور کہا ہے کہ ان تینوں شعبوں کا باہمی ربط و تعلق اتنا فطری اور مضبوط ہے کہ اس میں رخنے ڈالنے سے دین کا تصور ناقص ہوجاتا ہے۔
چوتھا باب
مطالعہ تصوف کی عملی و اخلاقی ضرورت کے موضوع پر ہے۔ جس میں شیخ الاسلام مدظلہ نے یہ بات واضح فرمائی ہے کہ اسلام کا مقصد ہی روئے زمین پر ایک صالح اور مثالی معاشرہ قائم کرنا ہے۔ شعور اور لاشعور کی باہمی جنگ ازل سے قائم ہے جبکہ انسان کی عملی زندگی میں اللہ رب العزت نے دو قوتیں فطرت بالقوۃ (لاشعور) اور فطرت بالفعل (شعور) ودیعت کی ہیں۔ شعور کی قوتیں انسان کو بدی کی طرف کھینچتی ہیں جبکہ لاشعور کے تقاضے نیکی کی طرف لے جاتے ہیں۔ ایک اچھے معاشرے اور اچھی فکر کا تقاضا ہے کہ شعور کو لاشعور کے تابع کیا جائے تاکہ انسان کی شخصیت صالحیت اور تقویٰ کے سانچے میں ڈھل جائے۔ مگر یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ایسا کرنے کیلئے نفس کی اصلاح لازمی ہے کیونکہ ان النفس لامارۃ بالسوئ۔ یہی تزکیہ نفس کا وہ کام تھا جسے اللہ رب العزت نے فرائض نبوی میں شامل کر لیا۔ گویا انسان اس قابل ہوجائے ان تعبد اللہ کانک تراہ یعنی حدیث جبریل کا مصداق بن جائے۔ یہاں آپ نے تزکیہ نفس کے سات مراحل کا ذکر کیا۔ نفس امارہ، نفس لوامہ، نفس ملہمہ، نفس مطمئنہ، نفس راضیہ، نفس مرضیہ، نفس کاملہ کا تعین جو کہ تمام مراحل اسلام کے روحانی نظام سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے علم و معرفت کا سامان ہیں۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں جب انسان تزکیہ نفس کے ذریعے تمام مراحل طے کر کے لاشعور کی نیکی کو غالب اور شعور کی بدی کو مغلوب کرلیتا ہے تو وہ بظاہر عام انسانوں کی طرح ہی نظرآتا ہے لیکن اس کی حقیقت عام انسانوں سے مختلف اور نہایت ارفع و اعلیٰ ہوتی ہے۔
پانچواں باب
’’مطالعہ تصوف کی اعتقادی اور سائنسی ضرورت‘‘ پر مشتمل ہے۔ ہماری مذہبی و دینی زندگی میں اعتقاد، علم اور عمل اگر باہم سازگاہوں تو ایسی زندگی متوازن کہلائے جانے کے لائق ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ان تینوں اساسات میں اختلاف پایا جاتا ہے جس سے ہماری دینی زندگی متزلزل ہو کر رہ گئی ہے۔ شیخ الاسلام نے واضح کیا ہے کہ اسلام کے اندر باقاعدہ ایسا نظام موجود ہے جو عقائد و ایمانیات کے محسوس نتائج سامنے لاتا ہے اور یہ نظام روحانی تجربات و مشاہدات پر مبنی تصوف ہے۔ اس نظام و عمل کے تجربہ کار ماہر اور سائنس دان ’’صوفیائے عظام‘‘ کہلاتے ہیں اور صرف تصوف ہی مذہبی واردات کی وہ صورت ہے جو تعلیمات اسلامی اور کیفیات ایمان کا عملی و روحانی تجربہ ہے۔ یہی باطنی مشاہدہ کا وہ نظام ہے کہ ایمان بالغیب جب اس کے تدریجی مرحلوں سے گزرتا ہے تو ایقان میں بدل جاتا ہے۔ تصوف ایمان کے مطالب کا سلسلہ ہے جس سے عقائد کی کیفیات کا باطنی مشاہدہ ہوتا ہے اور تصوف ہی وہ علم ہے جو عقیدہ اور ایمان کی عملی تصدیق کرتا ہے۔
مندرجہ بالا تفصیلی تعارف کے بعد جب یہ حقیقت عیاں ہو گئی کہ تصوف اسلامی معاشرے کیلئے کوئی نئی چیز نہیں بلکہ یہ ایک اسلامی معاشرے کی ضرورت ہے تو شیخ الاسلام نے آخری باب ’’تصوف کے بنیادی مقاصد پر تحریر کیا ہے۔ یہاں انہوں نے تصوف کے مقاصد بتاتے ہوئے تصوف کے بارے معاشرے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں اور اعتراضات کا جائزہ لیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ تصوف ایک ایسا جامع، ہمہ گیر تصور حیات ہے جو اپنے مقاصد کے اعتبار سے معراج حیات ہے۔ اپنے مقاصد کے اعتبار سے تصوف کو چھ مراحل میں تقسیم کیا ہے۔ یعنی اگر یہ چھ مقاصد متحقق ہو جائیں تو تصوف کی راہ میں سالک کی پوری جدوجہد اپنی تکمیل اور کمال کو پہنچ جاتی ہے۔
پہلا مرحلہ
’’تزکیہ نفس‘‘ ہے کہ سالک اپنے من کو تمام الائشوں اور کدورتوں سے پاک کر دے۔ تزکیہ نفس کا نقطہ آغاز یہ ہے کہ انسان دوسروں کو خود سے بہتر متصور کرے۔ جو انسان ہر وقت اپنی ذات کے حصار میں مقید اور اپنی ہستی اور خود پرستی کا شیدا ہو تو اسے تصوف کی گرد بھی نصیب نہیں ہو سکے گی۔ اس حقیقت کو سمجھنے کیلئے موصوف نے بزرگان دین اور صوفیائے کرام کے تزکیہ نفس کے طرز کو بطور مثال بیان فرمایا ہے۔
دوسرا مرحلہ
’’صفائے قلب‘‘ ہے۔ جب نفس انسانی گناہ کی آلائشوں اور رذائل اخلاق سے پاک ہو جاتا ہے تو انسان کے قلب و باطن پر اس طہارت کے اثرات مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ صفائے قلب، قرآن و سنت کی بنیادی تعلیم ہے۔ حدیث شریف میں واضح الفاظ ہیں کہ بے شک جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر وہ صحیح ہوجائے تو سارا جسم صحیح ہو جاتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا وجود خراب ہو جاتا ہے۔ خبردار آگاہ رہو وہ دل ہے (صحیح بخاری1 : 13) ایک حدیث میں یہ بھی بیان ہے کہ ’’بے شک دل زنگ آلود ہو جاتے ہیں جس طرح لوہے کو زنگ لگ جاتا ہے۔ لہٰذا تم اس کے زنگ کو اللہ کے ذکر سے دور کرو‘‘
تیسرا مرحلہ
’’اطاعت حق‘‘ ہے جس کے متحقق ہونے کا الٰہی اصول ہے۔ ’’من يطع الرسول فقد اطاع الله‘‘ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے منقول ہے کہ انہوں نے پوری زندگی خربوزہ کاٹ کر نہ کھایا۔ کسی نے وجہ دریافت کی تو فرمایا میں کوشش کے باوجود آج تک معلوم نہ کر سکا کہ میرے آق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خربوزہ کس طرح کاٹ کر کھایا اور مجھے ڈر تھا کہ کہیں الٹی سمت سے کاٹ کر نہ کھالوں۔ صوفیائے کرام کا اس حد تک اطاعت پر قائم رہنا انہیں استقامت کی منزل تک پہنچا دیتا ہے۔ جہاں کرامت کی ضرورت نہیں۔ صوفیاء کا قول ہے ’’الاستقامة فوق الکرامة‘‘ تعلیمات و مقاصد تصوف کے دوسرے مرحلے میں پہلا مقصد محبت الٰہی ہے۔ والذين امنواشد حبا لله (البقرة، 2 : 160) یعنی ’’جو لوگ ایمان والے ہیں وہ اللہ سے شدید ترین محبت کرنے والے ہیں‘‘۔ دوسرا مرحلہ رضائے الٰہی ہے۔ محبت الٰہی کا نقطہ کمال یہ ہے کہ انسان اللہ کی رضا پر راضی ہوجاتا ہے۔ رضائے الٰہی کا تحقق تصوف کا پانچواں مقصد ہے۔ ’’ ورضوان من اللہ اکبر (التوبہ)‘‘ مقام رضا، دراصل وہ کیفیت عظمیٰ ہے۔ محبوب، محب کو جس حال میں بھی رکھے خوش رہے۔ اسے تکلیف بھی ہو تو وہ راحت کا سامان بن جائے، جب بندہ مرحلہ رضا کو طے کر لیتا ہے تو یہاں مرحلہ ’’معرفت الٰہی‘‘ آتا ہے۔ تو یہاں حجابات مرتفع ہونے لگتے ہیں۔ ذات الہٰی کی معرفت نصیب ہوتی ہے۔
کتاب کا تعارف تو قارئین کرام مختصر طور پر پڑھ ہی چکے ہیں مگر اس میں موجود علمی و روحانی لطائف کا حَظ تو مکمل کتاب پڑھنے سے ہی مل سکتا ہے۔ آج کے دور میں تصوف کے حوالے سے جس قدر غلط فہمیاں جنم لے چکی ہیں، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، نباض ملت نے ایک ایک کرکے سب کا مدلل اور مبسوط جواب دیا ہے۔ آج کے مادیت زدہ مذہبی ذہن میں جو جو اشکالات پیدا ہو سکتے ہیں، شیخ الاسلام نے انہیں بھانپتے ہوئے انکا براہ راست قرآن و حدیث کی روشنی میں تدارک کیا ہے اور جہاں ضرورت پڑی جدید علمی، روحانی اور سائنسی حوالوں سے علم تصوف پر دلائل دیئے ہیں۔ تصوف کوملت اسلامیہ کے جید بزرگان دین اور صوفیائے کرام کے اقوال و احوال سے بھی مزّین کیا ہے۔
تصوف کے حوالے سے یہ طریقہ تحریر اور انداز بیان جو براہ راست قرآن و حدیث پر مبنی ہے، ہمیں آج کے دور میں خال خال نظر آتا ہے۔ مگر شیخ الاسلام کا اوائل دور سے بھی یہ طرہ امتیاز رہا ہے۔ خاص طور پر طویل مقدمہ پر مبنی تمہیدی بحث جو کہ آج سے تقریباً 40 سال قبل آپ نے زمانہ طالب علمی میں کی، وہ آپ کے علمی ذوق اور روحانی دلچسپی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے اور ایک مجدد کی نگاہ بصیرت کا مشاہدہ بھی ۔۔۔ بقول اقبال
حادثہ وہ جو ابھی پردہ افلاک میں ہے
عکس اس کا میرے آئینہ ادراک میں ہے
٭٭٭٭٭