سلوک و تصوّف کے متعلّم یا مُرید کی اقسام، اعمال اور اوصاف
کسی کام کو بہتر طور پر سر انجام دینے کے لیے کام کے مقصد (aim, object) سے کما حقہ‘ آگاہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔ کام کی صحیح سمجھ (comprehension) اس کا علم (knowledge) اُس کی حکمت (wisdom) کام کی غرض و غایت (purpose) کام کرنے کا طریقہ کار (procedure) جذبہ (enthusiasm,desire) یقین (confidence)، کام کرتے وقت یکسوئی (concentration) مہارت (skill) اور تجربہ (expertise) بہتر کام کرنے کے لازمی تقاضے ہوتے ہیں۔ اسلامی زندگی کا سب سے اہم ترین کام ایک صحیح العقیدہ مسلمان کے لیے اپنے خالق و مالک پر کامل ایمان (strong belief) ہوتا ہے۔ ایمان کے مطابق عمل کرنے کو اسلام اور اسلام سے متعلق اعمال کو حسین بنانے کے کام کو احسان کہتے ہیں۔ سلوک و تصوف کے متعلم یا مرید کی زندگی کا سب سے اہم کام’’دین سیکھنا اور اس پر عمل کرنا‘‘ ہوتا ہے۔ دین تین اعمال (practices) ایمان، اسلام اور احسان سے تشکیل پاتا ہے۔ یہ تینوں اعمال جتنے زیادہ مضبوط، صاف ستھرے اور خوبصورت ہوں گے، اُن پر عمل کرنے والا شخص طریقت اور تصوف کا اتنا ہی زیادہ اچھا متعلم اور مرید ہو گا۔ ایمان، اسلام اور احسان کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ہم معلم کائنات ہادی و مرشِد اعظم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ علم و حکمت میں حاضر ہو کر ایک مشہور و معروف حدیث شریف سے استفادہ کرتے ہیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘سے مروی ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ’’حدیث جبریل علیہ السلام‘‘ کے نام سے مشہور ہے اُس میں نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مُعلِّم کی حیثیت سے، ایمان، اسلام اور احسان کی تشریح فرمائی ہے۔ حضرت جبریل علیہ السلام نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور ایک متعلِّم یا مرید کی صورت میں حاضر ہُوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے دو زانوں ہو کر بیٹھ گئے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین بھی معلم کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلقہ درس میں حاضر تھے۔ حاضرین مجلس کے لیے حضرت جبریل علیہ السلام اجنبی تھے۔ آپ علیہ السلام کے کپڑے بہت سفید اور سر کے بال گرد سے پاک تھے۔ بدن پر آثارِ سفر بھی نمایاں نہ تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کسی نے بھی اس اجنبی نووارد کو نہیں پہچانا۔ حد درجہ ادب و احترام بجا لینے کے بعد نووارد طالب علم نے رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایمان، اسلام، احسان اور قیامت کے بارے میں چار سوالات الگ الگ پیش کئے اور ان کے جواب مرحمت فرمانے کی درخواست کی۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایمان کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ تو اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں اور رسولوں پر اور قیامت کے دِن پر ایمان لائے اور تقدیر کے خیر اور تقدیر کے شَر پر بھی ایمان لائے، پیارے نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کے بارے میں فرمایا کہ تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دے اور تسلیم کر لے کہ محمّد اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور رمضان کے روزے رکھے اور طاقت ہو تو بیت اللہ شریف کا حج کرے، اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اور احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرے گویا اُسے دیکھ رہا ہے۔ اگر یہ شان تجھے حاصل نہ ہو تو یہ تصور کرے کہ وُہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ نووارد طالبِ علم ہر ایک سوال کا جواب سننے کے بعد عرض کرتا تھا۔ ’’ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا‘‘ اس کے بعد اجنبی متعلم نے ایک اور سوال کیا ’’ اچھا اب قیامت کی خبر دیجئے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’اس کے بارے میں جس سے سوال کیا جا رہا ہے، وُہ سائل سے زیادہ جاننے والا نہیں ہے‘‘اس نے کہا’’ اگر یہ بات ہے تو اس کی نشانیاں ہی بتا دیجئے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا’’ اس کی پہلی نشانی یہ ہے کہ کنیز اپنی مالکہ کو جنم دے، دوسری یہ کہ تو برہنہ پا، عریاں بدن، مفلس و قلاش چرواہوں کو دیکھے کہ عمارات پر فخر کرنے لگے ہیں‘‘۔ پھر وُہ چلا گیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ‘ فرماتے ہیں۔ میں کچھ دیر رکا رہا۔ پھر مجھ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا’’ اے عمر! کیا تم جانتے ہو کہ وُہ سائل کون تھا‘‘؟ میں نے عرض کی’’ اللہ پاک اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں‘‘آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’ وُہ جبریل امین علیہ السلام تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے کے لیے آئے تھے۔ ‘‘دین سیکھنا اور اسوہ حسنہ کی روشنی میں اس پر عمل کرنا سلوک و تصوف کے طالب علم یا مرید کی زندگی کا سب سے اہم فریضہ ہوتا ہے۔
حدیث جبریل علیہ السلام کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کی اَحدّیت ووحدانیتِ ذات، خالقیّت اور معبودیت، اس کے رسولوں، اس کی نازل کردہ کتابوں، اُس کے فرشتوں، روزِ قیامت اور تقدیر خیر و شَر پر ایمان لانے والا شخص مومن ہوتا ہے۔ ایمان مومن کا نظریہ، خیال اور عقیدہ ہوتا ہے جس کو دنیا پر ظاہر کرنے کے لیے زبانی اقرار اور قلبی تصدیق کی شہادت ’’ اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِيْقٌ بِالْقَلْب‘‘ کے ساتھ ساتھ مومن کا جسمانی عمل (physical performance) لازم ہوتا ہے۔ اس جسمانی عمل، فعل اورسلوک کے مظاہرے کو اسلام کہتے ہیں۔ اسلام کے ارکان پر عمل کرنے والا مسلمان ہوتا ہے۔ جس طرح ایک ترکھان کرسی میز بنا کر اپنے ترکھان ہونے کا مظاہرہ کرتا ہے یا میڈیکل کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد طب کا ایک طالبعلم کسی ہسپتال میں مریضوں کا علاج کر کے عملی طور پر اپنے معالج ہونے کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ اسی طرح ایک مومن کے لیے بھی عقیدہ اور نظریہ کے اظہار کے لیے اپنے قول و عمل سے اسلام کی راہ پر چلنے کا ثبوت فراہم کرنا لازم ہوتا ہے۔ ایمان مؤمن کے قلب و ذہن کے اندر پوشیدہ ایک خیال، نظریہ اور عقیدہ ہوتا ہے۔ جو نظر نہیں آتا۔ اس عقیدہ کو دنیا پر ظاہر کرنے کے لیے جو خاص اعمال سَر انجام دیئے جاتے ہیں۔ دین میں ان کو ارکان اسلام یا فرائض پنجگانہ کہتے ہیں۔ حدیث جبریل کے مطابق یہ خاص اعمال و افعال؛ شہادت باللہ و بالرسول، نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج کے فرائض ہیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے صریح احکام کے تحت ایک مسلمان کے لیے ادا کرنے لازم ہوتے ہیں۔ ایمان کا عقیدہ رکھنے والا مؤمن اور فرائض کو عملی طور پر ادا کرنے والا مسلم یا مسلمان کہلاتا ہے۔ مسلمان کے ظاہری اعمال دنیا کو نظر آتے ہیں۔ عمل کرنے والاشخص اپنے ظاہری اعمال و افعال سے اپنے عقیدے کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے اعمال دیکھ کر دنیا اس کو مسلمان سمجھتی ہے۔ ایک مومن دین کے فرائض، واجبات اور سنن کو اپنے سلوک، عمل اور روّیہ سے اگر دنیا پر پوری طرح ظاہر نہ کرے۔ تو دنیا اس کو مسلمان سمجھنے سے قاصر رہتی ہے۔ مسلمان ہونے کا ثبوت دین کے ارکان پر پابندی سے عمل کرنے سے دیا جاتا ہے۔ ایمان بالغیب اور عملی اسلام دونوں مِل کر دین قائم کرتے ہیں۔ ایمان بالغیب دین کی عمارت کی بنیاد ہوتی ہے جو نظر نہیں آتی۔ جیسے ایک عمارت کی بنیاد زمین کے اندر پوشیدہ ہوتی ہے اور نظر نہیں آتی لیکن زمین کے اندر پوشیدہ اسی بنیاد پر عمارت بنائی جاتی ہے۔ بنیاد نہ ہو تو عمارت کی تعمیر نہیں ہو سکتی اور اگر بنیاد کمزور ہو تو عمارت کے گرنے کا احتمال ہوتا ہے۔ اسی طرح ایمان مؤمن کے قلب و ذہن کے اندر پوشیدہ بنیاد ہوتی ہے۔ جبکہ اسلام سب کو نظر آنے والی عمارت کے مانند ہوتا ہے۔ دین کے استحکام اور سلامتی کے لیے ایمان اور اسلام دونوں کی مضبوطی لازم و ملزوم ہوتی ہے۔ ایمان کی مضبوطی عقیدہ کی پختگی، صدق اور اخلاص سے ہوتی ہے اور اس کے استحکام کا انحصار مومن کے حسن عمل یعنی عمل احسان کی پاکیزگی پر ہوتا ہے۔
حدیث جبریل علیہ السلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ السلام نے دین کے تیسرے اہم پہلو’’ احسان‘‘ کی جو جامع تشریح عطا فرمائی۔ اُس کے مطابق ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وُہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو دیکھ کر اُس کی عبادت کرے اور زندگی کے جملہ اعمال اللہ کو دیکھ دیکھ کر سر انجام دے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے وجود بالغیب پر اس کا ایمان اور ایقان ایسا راسخ ہو کہ اُسے ہر طرف اللہ ہی اللہ نظر آئے۔ ایمان کی یہ حالت ’’ مشاہدہ‘‘ کی ہوتی ہے یعنی مسلمان اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفات اور قدرتوں کو دیکھ کر اس کے احکامات کو بجا لانے کی کوشش کرے۔ لیکن اگر وُہ اللہ جل شانہ‘ کو ہر وقت اس طرح دیکھنے کی قدرت نہ رکھتا ہو، تو اُس کے قلب و ذہن میں اللہ جل جلالہ‘ کے حاضر و ناظر ہونے کا تصّور ایسا پختہ ہو کہ وُہ پورے یقین سے یہ محسوس کرے کہ اللہ جل شانہ اس کی ہر سوچ سے واقف اور اس کی ہر حرکت اور عمل کو دیکھ رہا ہے۔ لہذا خالق و مالک کا اس کو ہر وقت دیکھتے رہنے کی حالت میں اس کی ہر حرکت اور زندگی کا ہر عمل کتنا پاک اور صاف ہونا چاہیے۔ مسلمان کی یہ سوچ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے ’’ اخلاص‘‘ کو ظاہر کرتی ہے۔ ہر عمل، کام یا سلوک کرتے وقت اللہ جل شانہ‘ کا مسلمان کی نگاہ شوق کے سامنے موجود ہونا اور اس کے ذہن میں اللہ جل شانہ‘ کے ہمہ وقت حاضر و ناظر ہونے کے تصوّر کو ’’احسان‘‘ کہتے ہیں۔ اس کو سلوک و تصوف، طریقت، معرفت اور حقیقت بھی کہا جاتا ہے۔ ’’مشاہدہ‘‘ اور’’اخلاص‘‘مومن کی زندگی کی دو کیفیات ہیں۔ جو بندہ اپنے قلب و ذہن میں ذات حق کے موجود ہونے کے تصوّر کو ہمہ وقت راسخ رکھے۔ اپنے سوچ و عمل کو ہمہ وقت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نگاہ کے سامنے موجود پائے اور اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے اپنے ہر عمل کو برائی سے پاک اور صاف رکھے۔ تو وُہ شخص حقیقی مومن، کامِل مسلمان، صوفی اور محسِن ہوتا ہے۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس کیفیت کے تحت سب کے سب صحابہ رضی اللہ عنہا حقیقی مومن اور کامِل مسلمان تھے انہوں نے تصفیہ اخلاق اور تزکیہ نفس کی تعلیم اور عملی تربیت براہ راست ہادی و مرشِد اعظم نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ عالیہ سے حاصل کی اور حضور علیہ التحیتہ والثنا کی نگاہ فیض رساں کی تاثیر سے احسان کی جملہ کیفیّات اور خصوصیات سے ایسے سرفراز ہو گئے تھے کہ یہ ان کی فطرۃ ثانیہ بن چکا تھا اور وُہ فطرتی طور پر سب کے سب صوفی اور محسِن بن چکے تھے۔ عہد رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نے تعلیماتِ نبوی کے تسلسل کو برقرار رکھا اور ان کی عملی تعلیم و تربیت اور نگاہ کی تاثیر سے کیفیّاتِ احسان کی خصوصیات تابعین اور تبع تابعین کو منتقل ہوتی رہیں۔ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عہد رسالت اور اس سے متصل دو زمانوں یعنی تابعین اور تبع تابعین کے زمانوں کو بعد میں آنے والے زمانوں سے افضل قرار دیا ہے۔ نبی ہر دوسِرا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نورانی وجود کی خاصیت اور خالصیت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارکہ کا صدق اور اخلاص صحابہ کرام رضی اللہ عنہا اور ان کے بعد تابعین اور تبع تابعین میں ان صاحبانِ معرفت تک درجہ بدرجہ منتقل ہوتا رہا جو اس کے متلاشی اور طالب تھے۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود پاک کی صدیقیت اور خالصیت کی خوشبو جس کو مَس کرتی، اُس کو صدق و اخلاص کا پیکر بنا دیتی تھی۔
جمالِ ہمنشین دَر من اثر کرد
وگرنہ من ہمہ خاکم کہ ہستم
عہد رسالت مآب میں تعلیم اور صحبت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے مسلمانوں میں تزکیہ نفس ا ور تصفیہ باطن اس کمال اور مرتبہ احسان تک پہنچ گیا تھا کہ وہ ان کی فطرت بن گیا تھا۔ اللہ اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کی تعمیل اور تکمیل کا جذبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہا کے ہر عمل سے جھلکتا تھا۔ مثلاً جب ایک مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کسی کی غیبت کرتے دیکھتا تو بلا توقف ہر طرح کی مصلحت سے بالاتر ہو کر غیبت کرنے والے کو اُسی وقت سختی سے روکتا۔ اس کو تنبیہ کرتا اور جس کی غیبت ہو رہی ہوتی اس کا دفاع کرتا اور جس جگہ غیبت اور چغل خوری ہو رہی ہوتی، اس جگہ سے اٹھ کر چلا جاتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہا کو تلقین کرتے وقت غیبت کرنے، سننے، غمازی اور چغل خوری سے سخت پرہیز کی ہدایت فرماتے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہا صدقِ دل اور خلوص نیت سے محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت پر عمل کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم اور تربیت’’احسان‘‘ کی ایک خوبصورت صورت تھی جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہا کی فطرۃ ثانیہ بن گئی تھی۔ ہر قسم کے رذائل اخلاق سے بچنا اور اَخلاقِ حسنہ اختیار کرنا فعلِ احسان کے زمرہ میں آتا ہے اور یہی زندگی کا وہ حقیقی حسن ہے، جس کی دُعا ہر مسلمان اپنی نماز کے آخر میں اللہ تعالیٰ سے کرتا ہے : ۔
’’ اَللّٰهُمَّ رَبَّنَا اٰتِنَا فیِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّار‘‘
’’ اے ہمارے رب! ہمیں اس دنیا میں بھی بھلائی، نیکی اور دوسروں کے ساتھ احسان کرنے کی توفیق عطا فرما اور آخرت میں تو ہمارے ساتھ بھلائی اور نیکی کر اور ہم پر احسان فرما اور ہمیں ( اس دنیائے ارضی اور آخرت کی) آگ کے عذاب سے بچا‘‘
مخلوق خدا کو مصیبت میں مبتلا کرنا اور ان پر ظلم کرنا دنیائے ارضی کی وہ آگ ہے جو انسان اپنے ہاتھوں خود اپنے لیے لگاتا ہے لیکن بد قسمتی سے دنیا میں اپنے ہاتھوں لگائی یہ آگ اُس کو نظر نہیں آتی۔ قیامت کے دن جزا اور سزا کے فیصلے کے بعد ملنے والی آگ کا عذاب دنیائے ارضی والی آگ کا عکس اور شاخسانہ ہو گا۔
ایمان کا عقیدہ رکھنے والوں کی مختلف اقسام ہیں۔ وُہ لوگ جو زبان سے کہتے ہیں کہ وُہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن ان کے ظاہری اعمال سے اللہ کی بندگی کا اظہار نہیں ہوتا اور وُہ ارکانِ اسلام کی پابندی نہیں کرتے۔ بفحوائے قرانی ایمان ان کے قلب کے اندر نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ صرف ان کی زبان پر ہوتا ہے۔ وہ رسمی طور پر نام کے مومن ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار ایسے لوگ اپنی بے عملی پر ندامت کا اظہار بھی کرتے ہیں اور اپنے آپ کو بے عمل مسلمان بھی کہہ جاتے ہیں۔ لیکن اس طرح اظہار ندامت کے باوجودبھی یہ لوگ عملی اسلام سے دور رہتے ہیں۔ ان کے علاوہ نام کے ایسے مسلمان بھی ہوتے ہیں کہ جن کا تعلق بندگی اپنے خالق عزّوجلّ سے اس قدرکٹ گیاہوتا ہے کہ ان کے ذہن میں اللہ تعالیٰ، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دین کے احکامات پر عمل کرنے کا خیال تک نہیں آتا۔ وُہ اپنے نفس اور دنیاوی لذّات میں اس بری طرح گرفتار ہوتے ہیں کہ دین کے حوالے سے ان کے دل پتھر بلکہ ان سے بھی زیادہ سخت ہو گئے ہوتے ہیں۔ اللہ جل مجدہ‘ اور رسول اللہ کی اطاعت سے یکسر رُو گردانی کرتے ہیں اور ہر وقت نفس کے مرغوبات اور خواہشات کو پورا کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ سورہ آل عمران کی چودھویں (14) آیہ کریمہ میں ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’ لوگوں کے لیے ان کی خواہشات کو آراستہ کر دیا گیا ہے۔ (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوُئے خزانے اور نشان زدہ گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں) اور یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے پاس بہتر ٹھکانہ ہے۔ ‘‘ نفس کی خواہشات، نام نہاد عزت، شہرت اور منصب کی چاہت میں جو لوگ ایسے ڈوب جاتے ہیں۔ کہ ان کو دینی اور روحانی دنیا سے کچھ تعلق ہی نہیں ہوتا۔ اور وُہ کلیتاً اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ سے کٹ گئے ہوتے ہیں۔ سو ایسے لوگوں کے ذہن میں تو اپنے اصلاحِ احوال کے بارے میں کسی قسم کا احساس سرے سے ہوتا ہی نہیں ہے اور نہ ہی ان کو دین کی طرف پلٹنے کی کوئی فکر یا خواہش ہوتی ہے۔ وُہ دنیاوی لذّات میں گم ہوتے ہیں اور دنیا ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ اس قسم کے لوگوں کے ذہنوں میں قبر اور حشر کا کوئی تصور بھی نہیں ہوتا ہے اور نہ بعد از مرگ کسی پوچھ گچھ کی فکر۔ ان کو نہ اپنے دینی ضعف پر ندامت ہوتی ہے اور نہ ہی وہ اس پر تاسف کا اظہار کرتے ہیں بلکہ ان میں بعض تو الٹا دین کی تکذیب کرتے ہیں۔ دین سے رغبت رکھنے والے لوگوں سے کھلم کھلا نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور موقع ملنے پران کی تضحیک سے بھی باز نہیں آتے۔ آج کے دور میں اس طرح کے دین بیزار لوگ ماڈرن سوسائٹی میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ خاص کر ماڈرن خاندانوں کے نوجواں لڑکے لڑکیاں شدت سے اس روحانی بیماری کا شکار ہیں۔ جدید عصری علوم پڑھے بعض آزاد خیال مسلمان اور اللہ سے دُور بعض دہریہ اور خود ساختہ مفکر و دانشور بھی اپنی آزاد خیالی اور جدیدیت پسندی کا اظہار دین کی مخالفت سے کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ دین سے اچھی طرح واقف نہ ہونے کی وجہ سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے بعض اہلکار نادانستگی میں اور مغربی دنیا کی دولت سے کام کرنے والی این جی اوز کی بعض آزاد منش خواتین دانستہ طور پر دین مخالف افکار و نظریات کی پرچار میں پیش پیش ہوتی ہیں اور نئی نسل کو گمراہ کرتی ہیں۔
اللہ پر ایمان رکھنے والوں کی ایک قسم ان لوگوں کی ہوتی ہے۔ جو احکام دین، ارکان اسلام اورعقائد و عبادات سے پوری طرح آگہی نہیں رکھتے۔ جس کی وجہ سے ان کے ذہن پر ایک انجانا بوجھ ہوتا ہے اور وہ روحانی طور پر ندامت اور شرمساری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ایسے افراد نماز پڑھتے ہیں، روزہ، زکوٰۃ اور حج کے فرائض ادا کر تے ہیں، خیرات، نذر نیاز اور صدقات بھی دیتے رہتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے احکامات اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات کواچھی طرح سمجھ کر یکسوئی سے ان پر عمل پیرا ہونے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ اس کیفیت میں مبتلا لوگوں کی خواہش ہوتی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ان کے دینی احوال کی اصلاح ہو جائے۔ چنانچہ وہ کسی ایسے عالم، شیخ، پیر یا مُرشِد کی تلاش کرتے ہیں جو مناسب تعلیم و تربیت سے ان کے احوال کی اصلاح کرے اور وہ صراط مستقیم پر گامزن ہو جائیں۔ ایسے لوگ اپنی تلاش میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں جب ان کو کسی نیک، صالح اور کامل رہبر و مربی کی صحبت میسر آ جاتی ہے۔ وہ راہ راست پر آ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو دینداری، تقویٰ اور پرہیز گاری عطا فرما کر سکون قلب سے نواز دیتا ہے۔ لیکن ان میں بعض وُہ لوگ بھی ہوتے ہیں کہ جو شیخ کامل کی صحیح پہچان اور معرفت سے ناواقف ہونے کی بنا پر دھوکا کھا جاتے ہیں اور ایسے نام نہاد، جعلی، خود ساختہ پیروں اور گدی نشینوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جن کو شریعت اور طریقت کا صحیح علم ہوتا ہے اور نہ ہی وُہ کسی طور مسلمانوں کی اصلاح احوال کے لیے فکر مند ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی کا مقصد پیسہ کمانا ہوتا ہے۔ وہ دونوں ہاتھوں سے ان پڑھ اور جاہل مریدوں کو لوٹتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ میراث میں ملی گدیوں اور سجادوں کو ’’مسندِ رشد و ہدایت‘‘ کہتے ہیں لیکن ان جہلاء کو اتنا بھی علم نہیں ہوتا کہ رشد و ہدایت کا تعلق کسی گدی، سجادہ، مسند یا بیٹھک سے نہیں ہوتا بلکہ وُہ تو مرشِد کامل اور شیخ طریقت کی ذاتِ بابرکات ہوتی ہے جو رشد و ہدایت، تعلیم و تلقین اور لوگوں کی تربیت کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔ درگاہوں اور خانقاہوں پر قابض ایسے خود ساختہ اور نام نہاد پیر خوف خدا سے عاری ہوتے ہیں اور بڑی دیدہ دلیری اور بے خوفی سے عوام الناس کو اپنے دامِ تزویر میں پھنسا کر گمراہی اور جہالت میں مبتلا کرتے ہیں۔ دین سے ناواقف اس طرح کے لوگ شریعت اور طریقت سے بے پرواہ اپنی محفلوں میں اکثر غیر شرعی حرکات کرتے ہیں، ان کے دیکھا دیکھی مرید بھی اسی طرح کے غیر شرعی حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ ان پڑھ خود ساختہ پیر جھوٹے من گھڑت واقعات اور قصے کہانیاں سنا کر اپنے زیر اثر لوگوں کو راہ حق سے بھٹکاتے ہیں۔ چنانچہ ایسے دھوکہ باز لوگوں کے چکر میں پھنسنے کے بعد دین پر عمل کرنے کی خواہش رکھنے والے معصوم لوگ بھی نادانستگی میں راہ حق سے بھٹک جاتے ہیں اور ساری عمر دین سے ملنے والی ہدایت اورحقیقی طمانیت قلب سے محروم رہتے ہیں۔
ایسے گمراہ لوگ قیامت کے دن اپنے حکمرانوں، سرداروں اور جھوٹے پیروں سے جومکالمہ کریں گے۔ سورہ ابراہیم کی اکیسویں آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا ہے : ۔
’’اور (روز محشر) اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے سب (چھوٹے بڑے) حاضر ہوں گے۔ تو (ضعیف العقیدہ) کمزور لوگ (طاقتور اور پیروی کرانے والے) متکبروں سے کہیں گے : ہم تو (عمر بھر) تمہارے تابع (پیروکار) رہے تو کیا تُم اللہ جلَّ جلالہ‘ کے عذاب سے ہمیں کسی قدر بچا سکتے ہو؟ (آج اس مصیبت میں کچھ تو ہمارے کام آؤ) وہ ( مغرور اور متکبر خود ساختہ شیوخ اپنی پیروی کرنے والوں اور پیچھے لگنے والے غریبوں سے) کہیں گے : (ہم خود گمراہ تھے، ہم نے اللہ کی ہدایت کو قبول نہیں کیا) اگر اللہ ہمیں ہدایت کرتا تو ہم تمہیں بھی ضرور ہدایت کی راہ دکھاتے (ہم خود بھی گمراہ تھے سو تمہیں بھی گمراہ کرتے رہے) ہم پر برابر ہے خواہ (آج) ہم آہ و زاری کریں یا صبر، ہمارے لیے کوئی راہ فرار نہیں۔‘‘
مومنین میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو ارکان اسلام کی پابندی کرتے ہیں لیکن ایمان کی روحانی حلاوت اور شیرینی سے پوری طرح لطف اندوز نہ ہونے کے غم میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ لوگ دین کی حلاوتوں سے پوری طرح مستفید ہونے کے لیے کسی ایسے باعمل عالم دین، رہبر شریعت اور کامل پیرِ طریقت کی صحبت اور معیت کی تلاش میں رہتے ہیں کہ جو ان کو شریعت کی اتباع اور طریقت کی راہ پر ڈال کر حقیقت کی اس چاشنی سے واقف کرا سکے کہ جس سے ان کے قلب و ذہن میں ایسا روحانی انقلاب بپا ہو جائے جو ان کے اندر دین کی وہ حقیقی روح تازہ کر سکے کہ جس سے ان کی فطرت بالفعل پوری طرح اللہ کی رضا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کی راہ پرڈھل جائے اور تصفیہ اخلاق سے ان کی زندگی کا ہر عمل ایسا حسین ہو جائے کہ ان کا مولا جل شانہ ‘ان سے خوش ہو جائے۔ اس نیت اور ارادہ سیکسی عالم، شیخ، مرشد یا پیر سے استفادہ کے متمنّی افراد حقیقی مُرید، متعلِّمین تصوّف اور سالکین راہ طریقت ہوتے ہیں۔
ارادت کے لحاظ سے مریدوں کی مختلف اقسام ہوتی ہیں۔ بعض ایسے مُرید ہوتے ہیں جو اتفاقی طور پر اپنے خاندان کے افراد یا کسی دوست کے کہنے یا اپنی کسی ذاتی یا دُنیوی منفعت کی غرض سے یا کسی دینی یا روحانی مقصد کے بغیر کسی پیر صاحب سے اوراد و وظائف حاصل کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ذہن میں استقامتِ دین یا روحانی ترقی کے حوالے سے کوئی خاص تصوّر یا احساسِ سُود و زیاں نہیں ہوتا بلکہ محض دنیاداری کے لیے وُہ کسی پیر کے مُرید بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگ شریعت اور طریقت کے حقیقی مقاصد اور تقاضوں سے بے خبر ہوتے ہیں۔ خوش قسمتی سے ان کو اگر کسی شیخ کامل کی صحبت اور تربیت میسر آ جائے تو حُسنِ صحبت اور کمالِ تربیت سے ان کی اخلاقی اصلاح بھی ہو جاتی ہے اور ان کی روحانی اور دینی زندگی بھی سنور جاتی ہے۔ لیکن شومئے قسمت سے اگر یہ کسی خود ساختہ جعلی پیر یا تعویذ گنڈے والے عامل کے ہاتھ لگ جائیں تو ان کی ساری زندگی بد عقیدگی، دین سے دوری اور بے عملی کی نذر ہو جاتی ہے۔ دنیا میں آج کل اس طرح کے مریدوں کی بھرمار ہے۔ دوسری قسم کے مُرید وُہ ہوتے ہیں جو ارکان اسلام پر پابندی سے عمل پیرا ہونے کی غرض سے کسی پیر، مُرشد یا شیخ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ شیخ کے ہاں ان کو ایسا روحانی ماحول نصیب ہو کہ جس کے اندررہ کر وہ ارکان اسلام کی پابندی کریں اور مرشد کی تلقین اور وعظ و نصیحت سے بہرہ ور ہوں۔ مستقبل میں اس طرح کے مریدوں کی خوش قسمتی یا بد قسمتی کا انحصار حقیقی یا نقلی پیروں کی دستیابی پر ہوتا ہے۔ صاحب شریعت و طریقت پیر مل جائے تو قسمت سنور جاتی ہے اور اگر کسی نقلی پیر سے پالا پڑ جائے تووُہ ان کے لیے ساری زندگی کا روگ بن جاتا ہے اور مُرید کو ایمان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ تیسری قسم ان عُباد اور زُہاد مریدوں کی ہوتی ہے جو شیخ کی ملاقات سے پہلے ہی مناسب دینی تعلیم سے بہرہ یاب اور آداب مریدی سے واقف ہوتے ہیں۔ صوم و صلوٰۃ کی پابندی اور حلال و حرام میں تمیز کرتے ہیں۔ زاہد، متقی اور پرہیزگار ہونے کے باوصف ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی فطرت بالفعل actual nature) (کی خواہشات اور روحانی کمزوریوں کی مزید اصلاح اور ان کو کلیتاً فطرۃ بالقوۃ (potential nature) کے تابع کرنے اور مکمل طور پر واصل باللہ ہونے کے لیے کسی مرد کامل کی صحبت میں داخل ہوں اور شیخ کامل کی تعلیم اور تربیت سے فیضیاب ہو کر ان خاص روحانی کیفیات اور احوال کے عامل ہوں کہ جس میں ڈوب کر ان کو وُہ منزل نصیب ہو جائے کہ جہاں ان کے جسمانی اور روحانی اعمال کامل طور پر اللہ کی رضا کے مطابق ہو جائیں اور وُہ اللہ اور اُس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضی اور منکرات کے خدشات اور خطرات سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائیں۔ ان لوگوں کو ایک ہی فکر رہتی ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ ناراض نہ ہو جائے۔ اطاعت اور محبت الہی ان کی نس نس میں رچی بسی ہوتی ہے۔ یہ لوگ زندگی کی حقیقت کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ یہ امر قابل توجہ ہے کہ رسمی اور اتفاقی قسم کے مریدوں کے لیے سلوک و تصّوف کے خانقاہی اسباق الگ، عُباد اور زُہاد کے لیے الگ، حقیقت کے متلاشی صاحبان علم و فضل اور عرفاء کے لیے الگ ہوتے ہیں، عرفاء کا قول ہے کہ ’’کَلَّمَهُمُ النَّاسَ عَلیٰ بِقَدْرِ عُقُوْلِهِمْ‘‘ (لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق بات کریں) تا کہ ہر شخص اپنی وسعتِ فکر کے مطابق بات کو سمجھ کر مستفید ہو۔ طبقات العباد کے مختلف افراد اپنے حالات کے مطابق شیخ کامل کی صحبت، تعلیم اور تربیت سے کس طرح مستفیض ہوتے ہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ مناسب موقع پر ہم دروس سلوک و تصوف میں اس پر گفتگو کرنے کی سعادت حاصل کریں گے۔ (جاری ہے)