شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

اب آخری بات غور سے سن لیں اس ملک میں اسلام کے نعرے بہت لگائے جاتے ہیں۔ دوسروں کو کافر بنانا، کمزوروں کو قتل کرنا، فتویٰ بازی کرنا اس کا نام اسلام نہیں ہے۔ اسلام امن، اعتدال، محبت، مودت، رواداری، برداشت اور انسانی حقوق کا دین ہے۔ اسلامی معاشرہ کیا ہوتا ہے تاجدارِ کائنات کی سیرت سے سیکھئے اور اگر ہم اپنے معاشرے کو اسلامی معاشرہ بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ہمیں سیرت مصطفی پر عمل کرنا ہوگا۔

بخاری شریف کی حدیث ہے جو حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ جب پہلی وحی نازل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اقدس سے اس کی کیفیت سن کر ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرابت داروں کے ساتھ احسان کا سلوک کرتے ہیں۔ آپ غریبوں، یتیموں، بیواؤں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ آپ محروم اور بے سہارا لوگوں کی حاجت روائی کرتے ہیں۔ آپ بڑی سخاوت کے ساتھ مہمان نوازی کرتے ہیں۔ آپ دکھی اور پریشان حال انسانیت کی مدد کرتے ہیں‘‘۔ ( یہ ہے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسلام) اس حدیث میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا نقشہ بیان کیا ہے۔ لہذا لوگو! اگر ہم اپنے طرز عمل اور اپنے معاشرے کو اسلامی بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں سیرتِ مصطفی کی راہ پر اپنے معاشرے کو ڈالنا ہو گا۔

نبوت کے چھٹے سال 615ء میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حبشہ بھیجا اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو وفد کا قائد مقرر کیا۔ وہاں پہنچ کر حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے ساتھ ڈائیلاگ ہوا۔ نجاشی نے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے پوچھا جن کو تم رسول مانتے ہو ان کی تعلیم کیا ہے؟ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہا نے جواب میں فرمایا کہ ہم غیر مہذب قوم تھے۔ مردار کھاتے تھے بے حیائی اور غیر اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرتے تھے۔ قرابت داروں اور ہمسایوں اور کمزوروں کے حقوق کھا جاتے تھے۔ اتنے غیر مہذب تھے کہ ہمارے معاشرے کا طاقتور غریب پر ظلم کرتا تھا۔ ان حالات میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیجا انہوں نے ہمیں تعلیم و تربیت سے نوازا تو ہم بدل گئے۔ جو اسلام انہوں نے ہمیں سکھایا اُس میں یہ پہلا حکم تھا کہ سچ بولو، امانتوں کو ادا کرو، خیانت نہ کرو، قرابت داروں کے جائز حق ادا کرو، پڑوسیوں کے حق ادا کرو، خون ریزی کو بند کرو، جرائم کا خاتمہ کرو، اخلاقی بے حیائی کا خاتمہ کرو، غلط بیانی اور جھوٹ مت بولو، یتیموں اور بے سہارا لوگوں کے مالی حقوق کی حفاظت کرو، عورتوں کی عفت کی حفاظت اور عزت کرو، عورتوں کو معاشرے میں بلند اور عزت والا مقام عطا کرو۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں یہ تعلیم دی اور بربریت سے نکال ہمیں انسانی اقدار کے ساتھ مالا مال کر دیا۔ اب جس معاشرے میں دور جاہلیت کے رسوم و رواج اب بھی زندہ ہوں اُس معاشرے کو اسلامی معاشرہ کہا جا سکتا ہے؟

پھر آقا علیہ السلام نے 621ء میں یثرب سے آئے ہوئے وفد سے بیعت لی جو بیعت عقبیٰ اولیٰ کہلاتی ہے۔ جن سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھوں میں ہاتھ لے کے عقبیٰ کے مقام پر بیعت لے رہے تھے۔ توحید اور نفی شرک پر بیعت کے بعد پھر ان سے وعدہ لیا چوری نہ کرنا، بدکاری نہ کرنا، نومولود بچیوں کو دفن نہ کرنا، بچوں کو قتل نہ کرنا، کسی پر جھوٹا بہتان نہ لگانا، کسی کی غیبت اور چغلی نہ کرنا، ہمیشہ سچائی اور انصاف کا ساتھ دینا۔ یہ آقا علیہ السلام کا اسلام اور نظام اخلاق ہے۔ جس پر آقا علیہ السلام نے اپنے معاشرے کو قائم کیا۔ اب میں آپ سے حضور کی عزت کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا یہ قدریں ہمارے معاشرے میں ہیں؟ ہم کس منہ سے اپنے معاشرے کو اسلامی معاشرہ کہتے ہیں۔ نہ ہم جمہوری رہے نہ اسلامی رہے اور نہ انسانی رہے۔ کس نے ہمیں اس مقام پر پہنچایا ہے؟ اس بدبخت نظام نے۔

حجۃ الودع کے موقع پر سوا لاکھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے خطاب فرمایا جس میں اسلامک نیشن آرڈر دیتے ہوئے فرمایا :

’’لوگو! تمہاری جان و مال اور عزت و آبرو کی حرمت شہر مکہ کی حرمت کے برابر ہے اور تمام انسانوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرنے کا نام اسلام ہے‘‘۔ پھر فرمایا : سرخ و سفید سب انسان برابر ہیں۔ خواتین کے حقوق مردوں کے برابر ہیں۔ پھر فرمایا : یتیم کے حقوق کی حفاظت کرنا، تین بار فرمایا خواتین کے حقوق کی حفاظت کرنا، عورتوں کے حقوق کے بارے میں اﷲ سے ڈرنا، خواتین کو عزت دینا۔ پھر فرمایا : کمزوروں، مزدوروں، محنت کشوں کو معاشرہ میں عزت کا مقام دینا، والدین، بھائیوں اور قرابت داروں کے حقوق ادا کرنا۔ ظلم اور ناانصافی کا خاتمہ کرنا۔ امانت و دیانت کا دامن تھامنا اور ہر قسم کی خیانت اور کرپشن کو ختم کرنا۔

یہ خطبہ حجۃ الوداع کے مین پوائنٹس تھے۔ ان پر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی معاشرہ قائم کیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ میں اسلامی ریاست بنائی۔ جب آئین لکھا تو اُس میں غیر مسلم اقلیتوں کے بارے میں فرمایا :

’’یہود اپنے مذہب میں آزاد ہوں گے اور مسلمان اپنے مذہب میں آزاد ہوں گے‘‘۔

آقا علیہ السلام نے فرمایا : ’’یہ شہر مدینہ امن کا شہر ہو گا۔ کوئی کسی کا خون نہیں بہا سکتا‘‘۔ اب جس معاشرے میں یہ تمام حقوق میسر ہوں تو پھر وہ معاشرہ صحیح معنوں میں اسلامی معاشرہ ہے اگر یہ حقوق میسر نہیں تو پھر وہ نہ جمہوری ہے نہ اسلامی اور نہ انسانی ہے۔ اب پاکستان کے اُنیس کروڑ عوام، پاکستان کے قومی ادارے، سیاسی جماعتیں، کارکن، اہل ِ فکر و نظر سن لیں کہ مرض کی تشخیص ہو گئی ہے کہ ہمارا دشمن کوئی فرد نہیں کوئی جماعت نہیں بلکہ ہمارا دشمن یہ نظام ہے جو اس نظام میں داخل ہو گا وہ نیک ارادے بھی رکھے گا تو جکڑا جائے گا اور کچھ بھی Deliver نہیں کر سکے گا کیونکہ اس کی محتاجی ہے۔ ایک طرف آپ دیکھ رہے ہیں کہ لوگ تبدیلی کا نام لے کر آ رہے ہیں مگر سارے پرانے چہرے دوبارہ مختلف جماعتوں میں شامل ہو رہے ہیں کیونکہ یہ ان کی مجبوری ہے۔ ان کے بغیر الیکشن نہیں لڑا جا سکتا۔ ان کے بغیر سیٹیں جیتیں نہیں جا سکتیں۔ یہاں چہرے بدلتے ہیں نظام نہیں بدلتے۔

میں قوم کو جو راستہ دکھا رہا ہوں، گنبد خضریٰ کی عزت کی قسم! اسی راستے میں تمہاری سلامتی ہے۔ لہذا ایک قومی حکومت قائم کی جائے اور وہ قومی حکومت ایماندار، دیانت دار اور قابل طبقے کے نمائندوں پر مشتمل ہو۔ اُسے ایک وقت ملے تاکہ اس نظام کی خرابیوں کی اصلاح کر سکے۔ اور اس نظام انتخاب کو ایسا نظام انتخاب بنا سکے جس میں غریب کا پڑھا لکھا بچہ بھی الیکشن لڑ سکے گا۔ پی ایچ ڈی، انجینئر، ڈاکٹر اور عام شخص بھی الیکشن لڑ سکے گا، جس میں پانچ کروڑ سے بیس کروڑ تک سرمایہ بین کر دیا جائے گا۔ پاکستان کا ائین آج بھی کہتا ہے کہ تین لاکھ سے پانچ لاکھ تک خرچ کرنے کی اجازت ہے۔ ہم نے آئین کے چہرے پر تھپڑ مارا ہے۔ آج کون شخص ہے جو تین لاکھ پر الیکشن لڑ رہا ہے۔ کیا الیکن کمیشن اور الیکشن کروانے والے اندھے، بہرے، گونگے ہیں۔ انہیں معلوم نہیں پانچ کروڑ، دس کروڑ، پندرہ کروڑ، بیس کروڑ لگ رہے ہیں۔ آج تک کوئی نااہل ہوا۔ یہ سمجھوتہ ہے جھوٹ پر اور سارا دھوکہ ہے۔ صرف تین تا پانچ لاکھ کے ساتھ الیکشن لڑا جائے جس میں بڑے بڑے جلسے نہ ہوں، ریلیاں نہ ہوں، الیکشن کا میلہ نہ ہو۔ الیکشن کیمپ نہ لگے۔ پولنگ اسٹیشن پر کسی کو دنگا فساد کی اجازت نہ ہو۔

ووٹروں کو لانے کے لئے نہ بسوں کی اجازت ہو اور نہ گاڑیوں کی۔ نہ واپس لے جانے کے لئے گھروں کے قریب ہر محلے میں پولنگ اسٹیشن ہو، بلکہ صرف منشور کا پرچار کیا جائے۔ طاقتور تھانے پر مؤثر نہ ہو۔ ہر شخص اپنے منشور اور پالیسی سے ووٹ مانگے۔ لوگوں پر ووٹ دینے کی سخت پابندی ہو۔ جو ووٹ نہ دے اس کو چھ مہینے قید کی سزا دی جائے۔ لوگ اپنی مرضی سے ووٹ ڈالیں کوئی بکریوں کی طرح ہانک کر نہ لیجائے۔ برادریوں کے اجتماع نہ ہوں، سو بندوں سے زیادہ Gathering کی اجازت نہ ہو۔ سو سے دو سو تک آخری حد ہے جس کے بندے دو سو سے بڑھ جائیں، جو اسلحہ دکھائے، بڑا جلسہ کرے، بڑے بڑے ہولڈنگ اور بینرز لگائے وہ Disqualify ہو جائے۔ آئین کو نافذ کر کے آئین کے مطابق الیکشن کروائے جائیں۔ ایسی تبدیلی لائی جائے کہ معیارِ تعلیم کو پچانوے فیصد تک لے جایا جائے۔ خواندگی اور صحت کی سہولتیں پوری قوم کو مہیا کی جائیں۔ مستحکم ادارے بنائے جائیں، شفاف پالیسیاں بنائی جائیں اور تمام سیاسی بھرتیاں ختم کر دی جائیں۔ غیر جانب دار اور ایماندار افراد بھرتی ہوں۔ قانون مؤثر ہو، فوری انصاف فراہم کیا جائے۔ موبائل عدالتیں ہوں جہاں قانون کی خلاف ورزی ہو وہاں صرف 3 دن کے اندر فیصلہ کیا جائے۔ انصاف سستا ہو، لوگوں کے اثر و رسوخ کا خاتمہ کیا جائے۔ خواتین 56 فیصد ہیں ان کے کردار کو بڑھایا جائے اور مؤثر کیا جائے۔ انتہا پسندی کو ختم کیا جائے، غیر جمہوری ماحول کو ختم کیا جائے۔ نظامِ انتخاب کے ہر مرحلے کو کرپشن اور سرمائے سے پاک کر کے جمہوری اصولوں کے مطابق اس کو نافذ کیا جائے۔ جو قومی حکومت بنے وہ آئین پاکستان کے تحت ایک نیا قانون وضع کرے جس میں عدلیہ، پارلیمنٹ، انتظامیہ اور فوج بیٹھ کر آئین کے تحت اپنے جمہوری حقوق کا تعین کریں اور مداخلت کی حدود ازسر نو حقیقت پسندانہ طریقے سے متعین کریں۔ یہ کام موجودہ سیاسی جماعتیں نہیں کر سکتیں۔ چونکہ ان کے مفادات ہیں، یہ لوگ اتنی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتے۔ اس پولیٹیکل اور ڈیموکریٹک سرجری کے لئے سرجن چاہئیں۔ کیونکہ اس جمہوری انتخابی نظام کو کینسر ہو چکا ہے۔ جس کا علاج سپریم کورٹ کے ذریعے کیا جائے، سپریم کورٹ کی اتھارٹی کو سپریم قرار دیتا ہوں۔

جو قومی حکومت بنے وہ غیر جانبدار ہو اور اُس میں ایک شخص بھی ایسا نہ ہو جس نے اگلا الیکشن لڑنا ہو۔ اس کے سیاسی مفادات اُس میں شامل نہ ہوں۔ وہ سرجن بالکل بے نیاز ہو اور صرف تھوڑے سے تھوڑے عرصے کے اندر سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق نظام کو بدلے اور پھر نئے بدلے ہوئے سیاسی اور انتخابی نظام کے تحت آئینی اور قانونی اصلاحات کے تحت وہ ملک میں الیکشن کروائے اور اچھی قیادت قوم کو دے اس کا اپنا مفاد نہ ہو اور وہ خود شریک اقتدار نہ ہو۔ الیکشن کروا کے قوم کو سلام کر کے گاڑی کو صحیح لائن پر چڑھا کر واپس چلا جائے۔ ایک ایسا سرجن چاہئے جو ایماندار ہو اور ملک کی پولیٹیکل سرجری کرے۔

یہ راستہ سپریم کورٹ کے سواء کوئی نہیں کھول سکتا۔ تب پاکستان میں باہر سے investment آئے گی۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستانی لوگ پاکستان کو باہر کی دولت سے بھر دیں گے۔ اگر اُنہیں اعتبار ہو کہ یہاں کرپشن نہیں ہے۔ قانون آسان ہو گئے ہیں۔ عدالت کا فیصلہ جلد ملتا ہے یہاں بم نہیں چلتے۔ دہشت گردی نہیں ہوتی۔ لہذا اس کے لئے دہشت گردوں سے پاکستان کی زمین کو پاک کرنا ہو گا اور بیرونی مداخلت سے بھی پاک کرنا ہو گا۔ ہمیں صرف غیرت مند، باعمل، باہوش پڑھی لکھی قیادت کی ضرورت ہے جو ملک کو گرداب سے نکال کر صحیح راہ پر چڑھا دے۔ اس طرح ہماری آزادی ہمارے آئین ہماری خود مختاری کی حفاظت ہو گی اور ہماری قوم اپنے قومی، جمہوری اور سیاسی فیصلے کرنے میں آزاد ہو گی اور دوسری طاقتیں اس پر اثر انداز نہیں ہوں گی۔ لہذا باکردار لوگوں کی کریم نکالی جائے اور اُس پر مشتمل قومی حکومت قائم کی جائے اور دس نکات پر مشتمل دس نکاتی فارمولا جو میں نے بتایا ہے اسے وہ نافذ کرے۔ نظام انتخاب کو بدلے۔ آئینی و قانونی ضمانت دے اور الیکشن کروانے والے جتنے ادارے ہیں ان کو غیر سیاسی بنا دے تاکہ ہر ایک کو عدل و انصاف ملے۔ اور صحیح معنوں میں ڈیموکریسی ہو۔ اﷲ رب العزت اس راستے کے ذریعے اس قوم کو گرداب سے نکالے۔

آخر پر میں تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے جملہ کارکنان اور خواتین و حضرات اور ان لاکھوں لوگوں کا جو آج اس ریلی میں شریک ہوئے ان کو مبارک باد دیتا ہوں اور انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ سب اور پوری قوم کا جنہوں نے اطمینان سے میرا فارمولا سنا۔ میں نے ایک فکر دی ہے، میرا اﷲ گواہ ہے رب ذوالجلال کی عزت کی قسم کسی کا اشارہ نہیں، میرا کسی سے رابطہ نہیں اور میں کسی کے اشاروں پر چلنے والا آدمی نہیں۔ میرے ساتھ میرے ضمیر کی آواز ہے۔ میں پیغمبرانہ سنت پر عمل کرتے ہوئے قوم کو جگانا چاہتا ہوں اور ان کو دکھانا چاہتا ہوں کہ اگر ملک کو بچانا ہے تو راستہ صرف یہ ہے۔ میری یہ بات یاد رکھ لیں قوم کا الیکشن کے بعد وہی حال اور انجام ہو گا جو پہلے ہوتا آیا ہے۔ قوم کو اس نظام انتخاب کے ذریعے مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ بعض لوگوں کو میں نے سنا کہ قادری صاحب دوبارہ سیاست میں آنے کے لئے سرگرم ہیں۔ میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میرے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں اور نہ میں سرگرم ہو رہا ہوں بلکہ سرگرم تو دور کی بات ہے میں گرم بھی نہیں ہو رہا۔ میں سیاست کے لئے نہیں آ رہا اور نہ حصہ لے رہا ہوں بلکہ میں تو اس نظامِ انتخاب کو ڈھونگ اور ڈرامہ سمجھتا ہوں۔ ملک اور عوام کا دشمن سمجھتا ہوں۔ میں اس میں کیوں شامل ہوں گا؟ میں نے اس سے ہٹ کر اس ملک کی بقا اور جمہوریت کی حقیقی بحالی کے لئے یہ راستہ دکھایا ہے اور فقط رہنمائی کی ہے۔ آپ اس راستے کو قبول کر لیں آپ کی مرضی۔ قبول نہ کریں آپ کی مرضی۔ میرا فرض ادا ہو گیا اس سے زیادہ مجھے کوئی سروکار نہیں۔ میرے پاس امت مسلمہ کی رہنمائی کے لئے ریسرچ کا کام، قرآن و سنت کا کام، اسلام کے چہرے کو دہشت گردی کے دھبوں سے پاک کرنے کا کام اور شرق سے غرب تک اسلام اور پاکستان کا پیغام دنیا تک پہنچانے کا کام، تصنیف و تالیف کا کام اور تجدیدِ دین کا کام بہت زیادہ ہے۔ میں لالچ سے پاک ہوں میں نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ اﷲ آپ کو سلامت رکھے۔ پاکستان کو آباد رکھے۔ اس کی سا لمیت اور خود مختاری کی حفاظت کرے اور پاکستان کے عوام کے چہروں پر اﷲ تعالیٰ خوشحالی کی مسکراہٹ لائے۔ والسلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ۔

٭٭٭٭٭