انسان کی شہری اور اجتماعی زندگی کے لیے تہذیب ایک لازمی چیز ہے کیونکہ عالمِ وجود میں آنے والے بچے کو پروان چڑھنے کے لیے ماں کی گود ضروری ہے، نیز اس کی نشونما کے لیے خاندان، معاشرہ اور تعلیم گاہ بھی ضروری ہے،اجتماعی زندگی انسان کی فطرت ہے اور تہذیب اس کی اساس ہے، سویلائزیشن (تہذیب) کو خواہ لفظی اعتبار سے دیکھیں یا تاریخی اعتبار سے اس کا مطالعہ کریں، ہر حوالے سے اس کا تعلق سماجی اور اجتماعی زندگی سے جڑا ہوا نظر آئے گا، عربی زبان میں اس کے لیے مدنیت، حضارت اور ثقافت جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں اور انگریزی میں بھی Civic, City, Civil, یہ سب Civilization کے مصدر کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔
تہذیب کیا ہے؟
یہ ایک ایسا گہوارہ ہے،جس میں انسانیت پروان چڑھتی ہے، انسان کا تشخص قائم ہوتا ہے، اس کے لیے ترقی کی راہیں کھلتی ہیں اور اس کو اپنا کر زندگی کے ہر موڑ پر انسان کامیاب وکامران ہوتا ہے۔ انسانوں کے درمیان خیالات، اقدار، ادارے، تعلقات یہ تہذیب کا نتیجہ ہیں۔
ثقافت اور تہذیب:
ثقافت (کلچر) اور تہذیب (سویلائزیشن) کی اصطلاحیں عمرانیات (سوشیالوجی)، تاریخ اور فلسفے کے مباحث میں استعمال ہوتی ہیں؛ عقیدے، اقدار اور اصولِ حیات کی بنیادی قدریں، جو کسی انسانی گروہ کی مشترک اساس ہوں اور جن کی بنیاد پر کسی قوم یا جماعت کو معاشرے میں ایک شناخت حاصل ہو، وہ کلچر کہلاتا ہے؛ لیکن واضح رہے کہ کلچر عقیدہ، فکر، عادات اور اخلاق واطوار کے ساتھ ساتھ سیاسی، اجتماعی اور معاشرتی ادارے بین الاقوامی میدانوں میں بھی اپنے آثار چھوڑتے ہیں، جس کے نتیجے میں مختلف علوم وفنون وقوع پذیر ہوتے ہیں، آرٹ کی مختلف شکلیں معرضِ ظہور میں آتی ہیں، فن تعمیر کے گوناگوں شاہ کار انسانی نگاہوں کو خیرہ کیے دیتے ہیں، معاشی ادارے تشکیل پاتے اور سیاسی نظام بنتے ہیں؛ اسی مجموعی تشخص کو تہذیب، حضارت اور سویلائزیشن کا نام دیا جاتا ہے۔
تہذیب کے عناصرِ ترکیبی:
کسی بھی تہذیب کے بنیادی طور پر چار عناصر ہوتے ہیں: (1) اقتصادی ذرائع (2) سیاسی نظام (3) اخلاقی اقدار وروایات (4) مختلف علوم وفنون پر گہری نظر، نیز جس طرح کسی بھی تہذیب کے آگے بڑھنے اور ترقی کے منازل طے کرنے کے متعدد عوامل ہوتے ہیں: کچھ جغرافیائی، کچھ اقتصادی اور کچھ نفسیاتی جیسے: مذہب، زبان اور اصول تعلیم وتربیت، ہیں، جو اس کی بقا اور ترقی کی راہوں میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
تہذیبِ انسانی کی تاریخ کا دائرہ کار:
انسانی تہذیب کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنا خود انسان ہے۔ کسی بھی تہذیب کا تعلق کسی خاص خطہ ارضی یا کسی خاص نسلِ انسانی سے نہیں ہوتا؛ بلکہ وہ دنیا کی تمام نسلوں کو محیط ہوتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ظہور پزیر ہونے والی ہر قوم تہذیب وتمدن کے باب میں کچھ نہ کچھ صفحات رقم کرتی ہے، گو بعض تہذیبیں اپنی ٹھوس بنیادوں کی بناء پر دیگر تہذیبوں سے ممتاز ہوجاتی ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ ہر وہ تہذیب جس کا پیغام عالم گیر ہو،جس کا خمیر انسانیت نوازی پر اٹھا ہو، جس کی ہدایات وتوجیہات اخلاقی قدروں کی پاسداری کرنے والی ہوں اور جس کے اصول وضوابط حقیقت پسندی پر مبنی ہوں؛ تاریخ میں ایسی تہذیب کو بقائے دوام حاصل ہوتا ہے، اور ہر زمانے میں اسے قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔
اسلامی تہذیب کی خصوصیات:
یوں تو اسلامی تہذیب اپنے ہزارہا خوبیوں اور خصوصیات کو سموئے ہوئے ہے؛ مگریہاں صرف اس کی اہم اور بنیادی خصوصیات کو سپردِ قرطاس کریں گے:
پہلی خصوصیت
اسلامی تہذیب کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی اساس کامل وحدانیت پر ہے، یہی ایک ایسی تہذیب ہے، جو یہ تصور پیش کرتی ہے کہ کائنات کی ایک ایک شئی صرف ایک ذات کی خلق کردہ ہے،اسی کے لیے عبادت اور پرستش ہے اور اسی سے اپنی حاجات وضروریات بیان کرنا چاہیے (ایاک نعبد وایاک نستعین) وہی عزت عطا کرتا ہے اور اسی کے ہاتھ میں کسی کو بھی ذلیل وخوار کردینا ہے، (وتعز من تشاء وتذل من تشاء) وہی دیتا ہے اور وہی محروم بھی رکھتا ہے اور زمین کی بے کراں وسعتوں اور آسمان کی بے پایاں بلندیوں پر جو کچھ ہے سب اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ (وہو علی کل شیء قدیر)
دوسری خصوصیت:
اسلامی تہذیب کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اہداف اور پیغامات تمام کے تمام تر آفاقی ہیں۔ قرآن کریم نے تمام عالم کے انسانوں کو حق، بھلائی اور خلقی شرافت وکرامت کی بنیاد پر ایک کنبہ قرار دیا، جس میں ان تمام قبائل واقوام کے عمدہ جواہر کو ایک لڑی میں پرودیا جنھوں نے مذہب اسلام قبول کیا، پھر اس کی اشاعت و ترویج میں کوشاں رہے، یہی وجہ ہے کہ دیگر تمام تہذیبیں کسی ایک نسل پرناز کرتی ہیں، مگر تہذیبِ اسلامی میں وہ تمام افراد مایۂ افتخار ہیں، جنھوں نے اس کی عظمت کو بلند کیا؛ چنانچہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے طریقے اسلامی تہذیب نے پورے عالم کو انسانی فکر سلیم کے عمدہ نتائج سے ہمکنار کیا۔
تیسری خصوصیت:
اسلامی تہذیب کی تیسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اعلیٰ اخلاقی قدروں کو اپنے زندگی کی سرگرمیوں میں اولیت کا مقام عطا کیا اور ان قدروں سے کبھی بھی خالی نہ رہی؛ چناںچہ علم وحکمت، قوانین شرعیہ، جنگ، مصالحت، اقتصادیات اور خاندانی نظام، ہر ایک میں ان کی قانوناً بھی رعایت کی گئی اور عملاً بھی اوراس معاملے میں بھی اسلامی تہذیب کا پلڑا تمام جدید وقدیم تہذیبوں پر بھاری نظر آتا ہے؛ کیوں کہ اس میدان میں ہماری تہذیب نے قابل فخر کارنامے چھوڑے ہیں اور وہ دیگر تمام تہذیبوں سے انسانیت نوازی میں سبقت لے گئی ہے۔
چوتھی خصوصیت:
ہماری تہذیب کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے سچے اصولوں پر مبنی علم کو خوش آمدید کہا اور پکے مبادیات پر مبنی عقائد کو اپنی توجہ کا مرکز قرار دیا؛ چناںچہ عقل وقلب دونوں اس کے مخاطب ہیں اور یہ بھی تہذیبِ اسلام کی ایسی خصوصیت ہے جس میں پوری انسانی تاریخ میں اس کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا، اس کے باعثِ افتخار ہونے کا راز یہ ہے کہ اسی کے ذریعہ سے اسلامی تہذیب نے ایسا نظام حکومت قائم کیا جو حق وانصاف پر مبنی ہو اور دین وعقیدے کی پختگی جس کا محور ہو۔
پانچویں خصوصیت:
ہماری تہذیب کی ایک اور اہم ترین خصوصیت اس کی کشادہ ظرفی اور انتہاء سے زیادہ پائی جاتی ہے، جو مذہب کی بنیاد پر قائم کسی بھی تہذیب میں ناپید ہے۔ خیر یہ تو کسی ایک شخص کی بات ہے ؛ مگر ہماری تو پوری تہذیب کی بنیاد ہی مذہب اور اس کے وضع کردہ اصولوں پر ہے؛ لیکن یہ ایک ناقابل انکار سچائی ہے کہ تاریخ میں سب سے زیادہ انصاف، رحم وکرم اور انسانیت کی علمبردار صرف اور صرف اسلامی تہذیب ہے۔