علم کی طلب سوال سے ظاہر ہوتی ہے۔ علم کا سوال کرنا، مزید علم جاننے کی خواہش کا اظہار کرنا ہے، خود سوال طلب علم کی نشانی ہے۔ لہذا طالب علم کو اپنی طلبِ علم کا سوال، اہل علم سے کرتے رہنا چاہیے یہی فروغ علم کا ذریعہ ہے۔ علم کا سوال، علم کے نئے حقائق کو منکشف کرتا ہے۔ سوال علم کی گہرائیوں کو کھولتا ہے۔ سوال علم کی نئی جہتوں کو متعارف کرانے کا سبب بنتا ہے۔ سوال تلاش کو بڑھاتا ہے اور علم کو پھیلاتا ہے۔ اس لئے طالب علموں کو سوال کرنے کی ترغیب یوں دی گئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَسْئَلُوْٓا اَهْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ.
(النحل، 16: 43)
’’سو تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو‘‘۔
طالب علم کا کسی بھی علم کو جاننا یہ ہے کہ وہ اس علم کا ماضی بھی جانے، اس علم کا حال بھی جانے اور اس علم کا مستقبل بھی جانے۔ اس علم کی ابتداء بھی جانے اور اس علم کی تاریخ ارتقاء بھی جانے اور اس علم کی موجودہ اہمیت کو بھی سمجھے اور اس علم کی مستقبل میں ضرورت پر بھی نظر کرے۔ اس علم کی ساری جہتیں اور اس علم کی ساری نوعیتیں اور اس علم کی ساری صورتیں، اس کے ذہن میں ہوں۔ تب اس کا، اس علم کو جاننا کار آمد ہوگا۔ تب اس علم کو حاصل کرنا مفید اور اس علم کو پانا، اس کے لئے نفع مند ہوگا۔ اس لئے ’’ایدیہم‘‘ کا جاننا حال و مستقبل کا جاننا ہے اور ’’خلفہم‘‘ کا جاننا، ماضی کا جاننا ہے۔ ارشاد فرمایا:
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ.
(البقره، 2: 255)
’’جو کچھ مخلوقات کے سامنے (ہو رہا ہے یا ہو چکا) ہے اور جو کچھ ان کے بعد (ہونے والا) ہے (وہ) سب جانتا ہے‘‘۔
انسان کا جاننا یہ ہے کہ وہ سب کچھ جان جائے۔ کوئی چیز اس کے جاننے سے رہ نہ جائے، وہ جاننے کی خواہش میں امیر ہو، غریب نہ ہو اور جاننے کی خواہش جس قدر زیادہ ہوگی اسی قدر جاننے کے عمل کی رغبت ہوگی۔ جاننے کی خواہش قلیل ہوگی تو عمل بھی قلیل ہوگا۔ جاننے کی خواہش ضعیف ہوگی تو عمل بھی تھوڑا ہوگا اور نہ ہونے کے برابر ہوگا۔
وہ طالب علم کبھی سچا طالب علم نہیں بن سکتا جو جاننے کی خواہش تو رکھے مگر جاننے کے لئے کبھی بھی کتاب سے، اپنا رشتہ مضبوط نہ رکھے۔ وہ صرف جاننے کی خواہش کو تو ابھارے مگر کتاب کو کبھی بھی نہ اٹھائے، کتاب علم دیتی ہے فقط خواہش پر امید رکھتی ہے۔ علم کی منزل، فقط خواہشوں سے نہیں بلکہ عملی کاوشوں سے ملتی ہے۔ علم میں رسوخ تمنا و آرزو سے نہیں بلکہ عمل کے تسلسل سے پیدا ہوتا ہے۔ فقط خواہش بالآخر انسان کو ان پڑھ ہی رکھتی ہے۔ اس لئے سورہ بقرہ میں ارشاد فرمایا:
وَمِنْهُمْ اُمِّيُّوْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ الْکِتٰبَ الِآ اَمََانِيَ.
(البقره، 2: 78)
’’اور ان (یہود) میں سے (بعض) ان پڑھ (بھی) ہیں جنہیں (سوائے سنی سنائی جھوٹی امیدوں کے) کتاب (کے معنی و مفہوم) کا کوئی علم ہی نہیں ‘‘۔
وہ کتاب کو صرف محض زبانی پڑھ لیتے ہیں۔ وہ کتاب کو اپنی من گھڑت باتوں کی تسکین کے لئے بے سمجھے میں پڑھ لیتے ہیں اور اس میں غور و فکر نہیں کرتے۔ کتاب اور طالب علم کا آپس میں گہرا تعلق ہے، کتاب اور طالب علم کا باہم ایک ایسا رشتہ ہے جس رشتے اور ناطے کو، جس قدر مضبوط کیا جائے گا اسی قدر طالب علم کے اندر علم کی قوت اور علم کی طاقت پیدا ہوگی۔ طالب علم اور کتاب کے ربط سے علم کی پختگی آئے گی۔ کتاب، طالب علم میں علم کو ایک زندہ حقیقت بناتی ہے۔ کتاب سے لاتعلقی علم سے لاتعلقی ہے حتی کہ علم سے بے خبری ہے۔ کتاب سے تعلق علم سے تعلق ہے۔ کتاب سے دور ہونا علم سے دور ہونا ہے۔ اس لئے سورہ بقرہ میں ارشاد فرمایا:
نَبَذَ فَرِيْقٌ مِّنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ کِتٰبَ اﷲِ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ کَاَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ.
(البقره، 2: 101)
’’ایک گروہ نے اللہ کی (اسی) کتاب (تورات) کو پسِ پشت پھینک دیا، گویا وہ (اس کو) جانتے ہی نہیں (حالاں کہ اسی تورات نے انہیں نبی آخرالزماں حضرت محمد a کی تشریف آوری کی خبر دی تھی)‘‘۔
لہذا کتاب کو نہ سمجھنا، کتاب میں غورو فکر نہ کرنا، کتاب کو علم کا ذریعہ نہ سمجھنا، کتاب سے تعلق کو مضبوط نہ کرنا، کتاب سے کمزور ناطہ رکھنا ہی انسان کو لایعلمون تک پہنچاتا ہے۔ کتاب سے تعلق توڑ کر، انسان علم سے تعلق توڑ لیتا ہے۔ کتاب سے جڑنا، علم سے جڑنا ہے اور علم سے وابستہ ہونا ہے۔ یہ تو متعلم کا حال ہے دوسری طرف معلم کا حال یہ ہے اور معلم وہ ہوتا ہے جو سب کچھ جانتا ہو۔ استاد و معلم وہی ہے کہ جو کچھ وہ جانتا ہو طالب علم ابھی نہ جانتا ہو۔ معلم اپنے متعلم سے بڑھ کر جانتا ہے۔ اس لئے فرمایا:
فَعَلِمَ مَالَمْ تَعْلَمُوْا.
(الفتح، 48: 27)
’’پس وہ جانتا تھا جو تم نہیں جانتے تھے‘‘۔
معلم کو چاہئے کہ وہ اپنے علم کو بڑھاتا رہے اور اپنے علم میں اضافہ کرتا رہے، اپنے علم کو ترقی دیتا رہے، اپنے علم کو تنزلی کی طرف نہ جانے دے اور اپنے علم کو ہمیشہ ترقی اور ارتقاء کی طرف گامزن رکھے۔ یوں معلم وہ ہے جو اپنے طلباء کو وہ سکھائے جو وہ نہ جانتے ہوں۔ اس لئے سورۃ البقرہ میں ارشاد فرمایا:
وَيُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ.
(البقره، 2: 151)
’’اور تمہیں وہ (اسرارِ معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے‘‘۔
جس چیز کو طلباء نہ جانتے ہوں وہ سکھانا معلمیت ہے۔ جس چیز سے طلباء بے خبر ہوں اس سے ان کو باخبر کرنا، معلمیت ہے۔ جس چیز کا طلباء کو علم نہ ہو اور اس کا علم دینا معلمیت ہے۔ ان پڑھ کو تعلیم یافتہ بنانا، معلمیت ہے۔ اپنے طلباء کو علم عصر سمجھانا اور سکھانا، معلمیت ہے۔ طلباء میں حصول علم کی تڑپ اور جذبہ او رجستجو پیدا کرنا معلمیت ہے۔ طلباء کو جاہل سے عالم بنانا معلمیت ہے۔ طلباء کو ایسا سکھانا کہ زمانہ ان کے سیکھنے کی، ان کے پڑھنے کی، ان کے جاننے کی گواہی دے ایسا پڑھانا اور ایسا سکھانا معلمیت ہے۔ معلم بے نام کو نامدار بناتا ہے معلم بے علم کو باعلم اور باعمل بناتا ہے۔ معلم بے حیثیت کو باحیثیت اور بارعب بناتا ہے۔ معلم انسان کی صلاحیت کو تراشتا ہے اور اس کی قابلیت کو زمانے سے منواتا ہے اور طالب علم کو ایک حقیقت بناکر معاشرے سے تسلیم کراتا ہے۔ ایسا علم سیکھو کہ انسان اپنے علم کی بنیاد پر دوسروں سے متجاوز نظر آئے۔ یہی علم، خود جاننے اور نہ جاننے والوں میں فرق قائم کرتا ہے۔ جسے قرآن یوں بیان کرتا ہے:
قُلْ هَلْ يَسْتَوِی الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ.
(الزمر، 39:9)
’’فرما دیجیے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں۔ ‘‘
(جاری ہے)