اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات (Complete Code of life) ہے۔ انسانی زندگی کے جملہ پہلوؤں کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ انسانی معاشرے میں ہر انسان کا کردار اور انفرادی و اجتماعی دونوں سطح پر مسلم ہے۔ ایمانیات، عبادات اور معاملات میں اسلام نے بڑی تفصیل سے احکامات و ہدایات دی ہیں۔ اگر ہم آج اپنے روزمرہ کے معاملات کا بغور جائزہ لیں تو یہ بات ناقابل تردید ہوگی کہ ہمارے جملہ معاملات کا بیشتر حصہ دینی تعلیمات سے کوسوں دور ہے۔ ہم انفرادی یا اجتماعی سطح پر رحمانی راستے سے ہٹ کر شیطانی راہ پر گامزن ہیں۔ جس کی ایک بڑی دلیل ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگیوں سے صبر، برداشت اور تحمل و بردباری کا رفتہ رفتہ ختم یا کم ہونا ہے۔ عدم برداشت ہماری عادت ثانیہ بن چکی ہے۔ اس کی بڑی وجہ دین اسلام سے دوری ہے۔ حالانکہ دین اسلام نے جس قدر صبر، برداشت اور تحمل کی ہدایت اور تلقین کی اس کی مثال دیگر مذاہب میں نہیں ملتی۔ ذیل میں چند آیات بینات اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں صبر، برداشت اور تحمل کی ضرورت و اہمیت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
اللہ رب العزت نے سورہ آل عمران کی آخری آیت میں ارشاد فرمایا:
يٰـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا قف وَاتَّقُوا اﷲَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.
’’اے ایمان والو! صبر کرو اور ثابت قدمی میں (دشمن سے بھی) زیادہ محنت کرو اور (جہاد کے لیے) خوب مستعد رہو، اور (ہمیشہ) اللہ کا تقویٰ قائم رکھو تاکہ تم کامیاب ہو سکو‘‘۔
(آل عمران، 3: 200)
مندرجہ بالا آیت میں اللہ رب العزت نے چار باتوں کی تلقین فرمائی:
- صبر
- مصابرہ
- رباط
- تقویٰ
صبر کا معنی ہے نیک اعمال کرنے اور برے اعمال سے باز رہنے پر اپنے نفس کو پابند رکھنا۔ مصابرہ کا معنی ہے مصابرة الاعداء یعنی دشمن کے پے درپے حملوں کے سامنے فولاد بن کر کھڑے رہنا اور رباط کا معنی ہے:
الرباط حمل النفس علی النية الحسنة والجسم علی فعل الطاعة ومن اعظمه ارتباط الخيل فی سبيل الله و ارتباط النفس علی الصلوة.
یعنی رباط کہتے ہیں نفس کو نیت حسنہ پر آمادہ رکھنا اورجسم کو عبادت پر کاربند رکھنا۔ اس کا اعلیٰ مقام یہ ہے کہ انسان جہاد فی سبیل اللہ کے لئے کمربستہ رہے اور گھوڑا تیار رکھے اور نفس کو نماز کا خوگر بنائے۔
اور تقویٰ کا لغت میں تو یہ معنی ہے جعل النفس فی وفاية مما يخاف یعنی نفس کو ہر ایسی چیز سے محفوظ کرنا جس سے ضرر کا اندیشہ ہو۔ عرف شرع میں تقویٰ کہتے ہیں۔ ہر گناہ سے اپنے آپ کو بچانا۔
(تفسير ضياء القراان از پير محمد کرم شاه الازهري)
علاوہ ازیں اللہ جل شانہ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر صبر اور برداشت کی اہمیت اور افادیت بیان فرمائی ہے۔
صبر کرنے والوں کا اجر
چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایک مقام پر صبر کرنے والوں کے لئے اجر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اِنَّمَا يُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِحِسَابٍ.
(الزمر، 39: 10)
’’بلاشبہ صبر کرنے والوں کو اُن کا اجر بے حساب انداز سے پورا کیا جائے گا‘‘۔
مندرجہ بالا آیت مقدسہ کے تحت حضرت صدرالافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی لکھتے ہیں:
’’حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہر نیکی کرنے والے کی نیکیوں کا وزن کیا جائے گا سوائے صبر کرنے والوں کے کہ انہیں بے اندازہ اور بے حساب دیا جائے گا اور یہ بھی مروی ہے کہ اصحاب مصیبت و بلا حاضر کئے جائیں گے نہ ان کے لئے میزان قائم کی جائے گی نہ ان کے لئے دفتر کھولے جائیں گے۔ ان پر اجرو ثواب کی بے حساب بارش ہوگی۔ یہاں تک کہ دنیا میں عافیت کی زندگی بسر کرنے والے انہیں دیکھ کر آرزو کریں گے کہ کاش وہ اہل مصیبت میں سے ہوتے او ران کے جسم قینچیوں سے کاٹے گئے ہوتے کہ آج یہ صبر کا اجر پاتے‘‘۔
’’صبر‘‘ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے
اس سلسلے میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
وَلِمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُورِ.
(الشوریٰ، 42: 43)
’’اور یقینا جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے تو بے شک یہ بلند ہمت کاموں میں سے ہے‘‘۔
حضرت ضیاء الامت پیر محمد کرم شاہ الازہری اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
لفظ عزم کی تحقیق کرتے ہوئے علماء لغت نے لکھا ہے:
قال الليث ماعقد عليه قلبک من امر انک فاعله.
’’ایسے کام پر جس کو تو کرنے والا ہے تیرے دل کاپختہ ارادہ کرنا عزم کہلاتا ہے (لسان العرب)‘‘۔
علامہ جوہری لکھتے ہیں:
عزمت علی کذا اذا اردت فعله وقطعت عليه.
جب تو کسی کام کا قطعی ارادہ کرلے تو عرب کہتے ہیں۔ عزمت علی کذا۔ (الصحاح) آیت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے علامہ اسماعیل حقی لکھتے ہیں کہ صبر اور مغفرت ان امور میں سے ہیں جنہیں بندہ کو اپنے نفس کے اوپر واجب کرنا چاہئے کیونکہ یہ امور اللہ تعالیٰ کے نزدیک محمود اور پسندیدہ ہیں۔
ای من معزمات الامور ای مما يحب العزم عليه من الامور بايجاب العبد علی نفسه لکونه من الامور المحمودة عند الله تعالیٰ. (روح البيان)
اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ ط اِنَّ اﷲَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَo
(البقرة، 2: 153)
’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقینا اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے‘‘۔
حضرت مولانا حافظ صلاح الدین یوسف اپنی تفسیر احسن البیان میں رقمطراز ہیں:
’’انسان کی دو ہی حالتیں ہوتی ہیں: آرام و راحت (نعمت) یا تکلیف و پریشانی۔ نعمت میں شکر الہٰی کی تلقین اور تکلیف میں صبر اور اللہ سے استعانت کی تاکید ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اسے خوشی پہنچتی ہے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے۔ دونوں ہی حالتیں اس کے لئے خیر ہیں‘‘۔
(صحيح مسلم، کتاب الزهد والرقائق. حديث نمبر2999)
صبر کی دو قسمیں ہیں: ایک محرمات اور معاصی کے ترک اور اس سے بچنے پر اور لذتوں کے قربان اور عارضی فائدوں کے نقصان پر صبر۔ دوسرا احکام الہٰیہ کے بجا لانے میں جو مشقتیں اور تکلیفیں آئیں انہیں صبر و ضبط سے برداشت کرنا۔ بعض لوگوں نے اس کو اس طرح سے تعبیر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ باتوں پر عمل کرنا، چاہے وہ نفس وبدن پر ہی گراں ہوں اور اللہ کی ناپسندیدہ باتوں سے بچنا، چاہے خواہشات و لذات اس کو اس کی طرف کتنا ہی کھنچیں‘‘۔
(ابن کثير)
’’صبر‘‘ سے بہتر کسی کو کوئی شے نہیں عطا کی گئی
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انصار کے کچھ آدمیوں نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا تو آپ نے انہیں عطا فرمایا پھر انہوں نے سوال کیا تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر انہیں عطا فرمایا حتی کہ آپ کے پاس جو مال تھا ختم ہوگیا۔ جب آپ نے اپنا سارا مال اپنے ہاتھ سے خرچ کردیا تو انہیں فرمایا:
مايکن من خير فلن ادخره عنکم ومن يستعفف يعفه الله ومن يستغن يغنه الله ومن يتصبر يصبره الله وما اعطی احد عطاء خيرا و اوسع من الصبر.
’’میرے پاس جو مال آتا ہے اسے میں تم سے روک کر نہیں رکھتا لیکن جو سوال کرنے سے گریز کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو بچا لیتا ہے جو استغناء سے کام لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو غنی کردیتا ہے اور جو صبر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے صبر کی دولت عطا فرماتا ہے صبر سے بہتر کسی شخص کو کوئی شے نہیں عطا کی گئی‘‘۔ (متفق علیہ)
’’صبر‘‘ کے بدلے جنت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
يقول الله تعالیٰ: مالعبدی المومن عندی جزآء اذا قبضت صفيه من اهل الدنيا ثم احتسبه الا الجنة.
(صحيح بخاری)
’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جب میں اپنے کسی مومن بندے سے اہل دنیا میں سے اس کا عزیز لے لیتا ہوں اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو اس کے لئے سوائے جنت کے میرے پاس کوئی اجر نہیں ہے‘‘۔
مصائب کی برداشت کے بدلے گناہوں کی معافی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مايزال البلاء بالمومن والمومنة فی نفسه وولده وماله حتی يلقی الله تعالیٰ وما عليه خطيئة.
(جامع ترمذی)
’’مومن مرد اور مومن عورت پر جان، مال اور اولاد کی مصیبتیں نازل ہوتی رہتی ہیں۔ یہاں تک کہ جب وہ اللہ کے حضور پیش ہوگا تو اس کے نامہ اعمال میں کوئی گناہ نہیں ہوگا‘‘۔
’’صبرو تحمل‘‘ ذریعہ شرف ملاقات مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم
ابو یحییٰ اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انصار میں سے ایک شخص نے کہا: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! جس طرح آپ نے فلاں فلاں کو عامل بنایا ہے کیا اسی طرح آپ مجھے بھی عامل نہیں بنائیں گے؟ تو آپ نے فرمایا:
انکم ستلقونی بعدی اثرة فاصبروا حتی تلقونی علی الحوض.
’’تم میرے بعد ترجیحات دیکھو گے (یعنی حق دار کو حق سے محروم کیا جائے گا) پس ایسے میں تم صبر کرو حتی کہ حوض (کوثر) پر تم مجھ سے ملو‘‘۔
(صحيح بخاری و صحيح مسلم)
’’صبر و تحمل اور برداشت‘‘ شیوہ پیغمبری
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا: جب حنین کا معرکہ پیش آیا تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مال غنیمت کی تقسیم میں کچھ لوگوں کو ترجیح دی۔ حضرت اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کو سو اونٹ عطا فرمائے اور حضرت عینیہ بن حصن کو بھی اتنا ہی مال عطا فرمایا۔ آپ نے عرب کے معزز لوگوں کو مال عطا فرمایا اور انہیں تقسیم میں ترجیح دی تو ایک آدمی نے کہا: خدا کی قسم! یہ ایسی تقسیم ہے جس میں عدل نہیں کیا گیا اور اس تقسیم سے خداوند کریم کی رضا کا قصد نہیں کیا گیا۔ میں نے کہا: خدا کی قسم! میں یہ بات حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کروں گا۔ میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو وہ بات بتائی جو اس آدمی نے کہی تھی تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ متغیر ہوکر سرخ ہوگیا۔ پھر آپ نے فرمایا:
فمن تعدل اذا لم يعدل الله ورسوله ثم قال يرحم الله موسی قد او ذی باکثر من هذا فصبر.
’’اگر اللہ اور اس کا رسول عدل نہیں کریں گے تو پھر کون عدل کرے گا؟ پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے ان کو اس سے زیادہ تکلیف دی گئی اور انہوں نے صبر کیا۔ میں نے (اپنے جی میں) کہا: آئندہ ایسی بات حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض نہیں کروں گا‘‘۔
(بخاری و مسلم)