اقبال شاعر مشرق ہے ، اقبال فلسفی شاعر ہے ، اقبال شاعر قرآن ہے ، اقبال مفکر پاکستان ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ خطابات ہیں جو اقبال کے چاہنے والوں نے ان کو دئیے ہیں۔ کسی نے اقبال کی شاعری میں فلسفے کو پایا تو اْس نے فلسفی شاعر کا خطاب دیا۔ کسی نے آ پ کے اشعار میں قرآن عظیم الشان کی آیات کی تفسیر پائی تو اْس نے اقبال کو شاعر قرآن کے عظیم خطاب سے نوازا۔ کسی اور کو آپ کے خطبات میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ ریاست کا تصور نظر آیا تو اْس نے آپ کو مفکر پاکستان کہا۔ علامہ کو خود ہی اپنی اہمیت کا اور اپنی شاعری کا تا ابد زندہ رہنے کا احساس تھا۔ آپ جانتے تھے کہ اگر نطشے ، گوئٹے ، ملٹن اور شیکسپیئر مغرب کے نمائندہ تھے اور ان کو مغرب میں ایک بلند مقام حاصل تھا تو وہی رتبہ علامہ اقبال کو مشرق میں ملا تھا۔ اگر مغرب میں کوئی نطشے اور شیکسپیئر کو پرستش کی حد تک چاہتا تھا تو مشرق میں ایسے لوگ تھے اور ہیں جو اقبال کا بہت احترام کرتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اقبال نے اپنے آپ کو’’شاعرِ مشرق‘‘ گردانا:
تہذیبِ نوی کارگہ شیشہ گراں ہے!
آدابِ جنوں شاعرِ مشرق کو سکھا دو
بلا شبہ اقبال کی شاعری کے پرتو اتنے ہمہ جہت ہیں کہ ہر پڑھنے والے کو اس میں بسا اوقات اپنے افتاد طبع کے طفیل ، کوئی نہ کوئی پہلو ایسا نظرآ جاتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ حضرت علامہ نے فلاں بات پر سب سے زیادہ زور دیا ہے اور پھر اْس سے رہا نہیں جاتا بلکہ وہ ان کو ایک نئے خطاب سے نوازا جاتا ہے۔ اقبال کی شاعری کا ایک رْخ یہ ہے کہ وہ عزت کے ساتھ جینے ، اپنے حقوق کو دوسروں کے ہاتھوں غصب ہو نے سے بچانے اور دنیا کی رہبری کا حق ادا کرنے کے لیے ایمان کے ساتھ ساتھ بے پناہ مادی ، مالی اور حربی طاقت کاحصول لازمی قرار دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ دنیا میں قوموں کو زندہ رہنے کے لیے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر قوت کا حصول ازبس ضروری بلکہ ناگزیر ہے۔ محض فلسفہ اور بحث و تکرار سے کام نہیں چلتا:
میرے لیے ہے فقط زور حیدری کافی!
تیرے نصیب فلاطوں کی تیزی ادراک
میری نظر میں یہی ہے جمال زیبائی!
کہ سر بسجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک
نہ جلال تو حسن و جمال بے تاثیر
ترا نفس اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک!
اس طرح کی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جنہیں حضرت اقبال طاقت کے حصول کی وکالت کرتے ہیں۔
لیکن یہاں پر راقم اقبال کی شاعری بلکہ فلسفہ کے جس پہلو کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہے اْس پر شاید بہت کم لکھا گیاہے۔ وہ ہے نظام ہست بود میں انسانی عظمت اور اْس کا مقام۔ بدقسمتی سے ہمارے عام لوگ بالعموم اور علماء حضرات بالخصوص انسان کو کبھی نطفہ غلیظ کی پیداوار قرار دیتے ہیں تو کبھی اس کو گندگی کے ڈھیر سے تعبیر کرتے ہیں تو کبھی اس کو کائنات میں ایک حقیر کیڑے سے زیادہ بلند حیثیت دینے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ یہ سب کچھ اْس ہستی کے بارے میں کہا جاتا ہے جسے اللہ نے اپنے کمال قدرت سے مٹی سے بنایا ہے اور پھر اْس کے قالب میں ’’اپنی ‘‘ روح پھونک کر کارخانہ قدرت میں سب سے خوبصورت اور سب سے عظیم الشان ہستی کا اضافہ کیا۔ پھر اْس کو سب کچھ سے نوازا جن پر خود اللہ کو ناز ہے۔ مثلاً اللہ سراپا علم ہے۔ اْس نے انسان کو ، اور یاد رہے صرف انسان کو ، علم کی دولت سے مالامال فرمایا۔ اللہ سراپا حسن ہے اوراْس نے انسان کو خوبصورت ترین سانچے میں ڈھالا۔ اللہ سجدہ کے لائق ہے اور اْس نے انسان کو مسجود ملائک بنایا۔ اللہ خالق ہے۔ اْس نے انسان کو ایجاد کی خوبی سے سرفرار فرمایا۔ کیا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو محروم رکھا ہو۔ اس دنیا کو اور جوکچھ اس میں ہے کو انسان کی خاطر پیدا فرمایا اور خود انسان کو اپنے لیے:
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے
پھر انسان کو اللہ نے اپنا خلیفہ نامزد کرکے بلند ترین مقام پر فائز کیا۔ ایک اوسط درجے کا قاری بھی اس حقیقت سے آشنا ہے کہ خلیفہ کا کام اپنے پیرو مرشد کے سبھی افعال کو سرانجام دینا ہوتا ہے جو اْس کا مرشد اْس سے دور کہیں اور بیٹھا سر انجام دے رہا ہوتا ہے۔ اقبال انسان کے اس مقام سے بخوبی واقف ہے۔ اپنی نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ میں اقبال اسی حقیقت سے پردہ اْٹھاتا ہے:
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں ، کار کشا ، کار ساز
خاکی و نوری نہاد بندہ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی ، اس کا دل ِ بے نیاز
انسان کی خوبصورتی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’بے شک ہم نے انسان کو نہایت خوبصورت سانچے میں ڈھالا‘‘۔ انسان کا خوبصورت سراپا بھی اْس کے عظیم ہونے پردا ل ہے۔ اقبال اپنی کتاب ’’بالِ جبریل‘‘ کی نظم ’’فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں‘‘ میں فرشتوں کے اْس رشک کا بہت حسین پیرائے میں ذکر کرتے ہوئے ان کی زبان میں انسان سے مخاطب ہے:
سنا ہے خاک سے تیری نمود ہے ، لیکن
تری سرشت میں ہے کوکبی و مہتابی!
جمال اپنا اگر خواب میں بھی تو دیکھے
ہزار ہوش سے خوشتر تری شکر خوابی
دنیا کے تقریباً تمام الہامی مذاہب کے پیروکار اس بات پر متفق ہیں کہ جب آدم علیہ السلام کو جنت سے بے دخل کرکے زمین پر اتارا گیا تو وہ بہت رنجیدہ اور پژمردہ ہوا تھا۔ اوراْس نے بہت آہ و بکا کی تھی۔ لیکن اقبال کی نظر فلک رسا اور حیران کن بلندی تخیل کچھ اور ہی دیکھ رہی ہے۔ اْنہیں آدم کی اس افتاد میں اْس کی شہنشاہیت اور لامحدود خود مختاری نظرآرہی ہے۔ اقبال کی ولولہ انگیز نظم ’’روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘‘ میں دنیا کی روح انسان سے مخاطب ہے:
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل، یہ گھٹائیں
یہ گنبد افلاک ، یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ ، یہ صحرا ، یہ سمندر ، یہ ہوائیں
تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ!
سمجھے گا زمانہ تیری آنکھوں کے اشارے!
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے!
ناپید تیرے بحرِ تخیل کے کنارے!
پہنچیں گے فلک تک تیری آہوں کے شرارے
تعمیرِ خودی کر ، اثرِ آہِ رسا دیکھ!
اقبا ل انسان کی خودی اوراس خودی کی تعمیر و پرورش کی بدولت انسان عظمت کی جو بلندیاں حاصل کرتا ہے اْن سے بخوبی آگاہ بھی ہے اور اْن کا قائل بھی۔ آپ انسان کو خودی اور جہد مسلسل کے توسط سے اس دنیا کواپنے لیے جنت نظیر بنانے کی تعلیم دیتے ہوئے اسی نظم میں انسان سے مخاطب ہے:
خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے ایک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
جنت تیری پنہاں ہے تیرے خونِ جگر میں
اے پیکرِ گل کوششِ پیہم کی جزا دیکھ!
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ انسان کا پیوند مٹی سے ہے اورمٹی ہی میں اْسے اْترنا ہے۔ اسلام اور عیسائیت ہر دو مذاہب کے پیشوا انسان کو اسی نسبت سے عاجزی وانکساری اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ سیاسی رہنما وطن سے محبت اور اپنی مٹی سے وفاداری برتنے کی تبلیغ کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔ اقبال اس حقیقت سے انکاری نہیں ہے لیکن اْن کے پاس اس کے برعکس یہ دلیل ہے کہ مانا کہ انسان کا خمیر مٹی سے اْٹھایا گیا ہے لیکن اس کا جوہر ، اس کی روح جو خداوند عظیم سے اْس کو ملی ہے ، وہ اْس کو ایسی عظیم ہستی میں تبدیل کرتی ہے جس کا تعلق مٹی سے ہونے کے باوجود خدائی صفات سے متصف کرتی ہے۔ اگر وہ اپنی اس عظمت کا ادراک کرے ، باالفاظ ِ دیگر وہ اپنی خودی کی پرورش کرے تو عجب نہ ہوگا کہ وہ زمان و مکان کی قیود کو توڑ کر حدود پھلانگ کر امر بن جائے:
خاکی ہے مگر اس کے انداز ہیں افلاکی
رومی ہے نہ شامی ہے کاشی، نہ سمرقندی
سکھلائی فرشتوں کو آدم کی تڑپ اْس نے
آدم کو سکھاتا ہے آدابِ خداوندی
اس موضوع کو تھوڑے سے مختلف الفاظ میں بیان کرتے ہوئے اقبال اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ یہ مسلّم ہے کہ انسان کی تخلیق مٹی سے کی گئی ہے لیکن اللہ نے اْس کو ایسے عظیم جوہر عطا کیے ہیں جن کی بناء پر اْس کا تعلق زمین سے کم اورسماوی چیزوں سے زیادہ ہے۔
فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی!
خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند
اقبال فرماتے ہیں کہ انسان کا مقام ستاروں ، سیاروں ، چاند اور سورج سے کہیں اعلیٰ و ارفع ہے۔ انسان ایک زندہ حقیقت ہے جسے قدرت نے لازوال و لامتناہی خوبیوں سے مالامال کیا ہے۔ زمین سے نسبت رکھنے کے باوجود وہ کارہائے نمایاں سرانجام دے رہا ہے کہ عقل حیران اور خرد پریشان ہے۔ ایک انسان جو زندہ جاوید ہستی ہے اور جو اتنا عظیم کہ ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے قطعاً ستاروں کی گردش کا تابع ہو ہی نہیں سکتا:
ستارہ کیا میری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں
اور:
تیرے مقام کو انجم شناس کیا جانے
کہ خاک زندہ ہے تو تابع ستارہ نہیں
اسی دلیل کو تھوڑا آگے بڑھاتے ہوئے اقبال اپنی مشہور نظم ’’ساقی نامہ ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ انسان کے اندر آگ کی مانند روح اور اس روح کے طفیل جوشیلے جذبے کا تعلق آب و گل سے عبارت اس کرّہ سے ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ دنیا اگر دنیا ہے تو اس کی اہمیت اس بناء پہ ہے کہ یہ انسان جیسی عظیم ہستی کا مسکن ہے اور انسان کو اس حقیقت کا ادارک کرنا چاہیے۔ سنگ و خشت کی یہ دنیا اْس کے پائوں کی زنجیر نہیں بننی چاہیے بلکہ انسان کو چاہئے کہ وہ اس کو ٹھوکرمار کر لافانی و لازوال بلندیوں کی جانب پرواز کرے:
تری آگ اس خاکداں سے نہیں
جہاں تجھ سے ہے ، تو جہاں سے نہیں
بڑھے جا یہ کوہِ گراں توڑ کر
طلسمِ زمان و مکاں توڑ کر!
اقبال سمجھتا ہے کہ بالآخر جب انسان اپنی شناخت پالیتا ہے اور وہ اپنے اندر خدا کی ودیعت کردہ ملکوتی صفات سے روشناس ہوجاتا ہے تو اْس کا مسکن یہ دنیا ہونے کے باجود اس کا رشتہ ناطہ اس سے کٹ جاتا ہے اور وہ روحانی طور پر اتنا پاکیزہ اور ذہنی لحاظ سے اتنا بلند آہنگ رتبہ حاصل کرلیتا ہے کہ وہ اپنی خودی کی بدولت خدا تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ تب مکان و لامکان میں فاصلے مٹ جاتے ہیں اور اْسے احساس ہونے لگتا ہے کہ:
اگر یک سرِ موئے برترپرم
فروغ تجلی بسو زد پرم
اور:
تو اے اسیر مکاں! لامکاں سے دور نہیں
وہ جلوہ گاہ ترے خاکداں سے دور نہیں
پھر وہ چاند ، سورج ، ستاروں اور سیاروں کو پیچھے چھوڑ کر اْن سے کہیں آگے نکل جاتا ہے:
فضا تری مہ و پرویں سے ہے ذرا آگے!
قدم اْٹھا یہ مقام آسماں سے دور نہیں
اس مقام پر پہنچنے کے بعد خالق اور مخلوق کے درمیان نہ صرف تمام پرد ے ہٹ جاتے ہیں بلکہ یہی انسان جس کو ناسمجھ لوگ تقدیر کی زنجیروں میں جکڑا ہوا سمجھتے ہیں بذات خود اللہ تعالیٰ کی تقدیر بن جاتا ہے۔ وہ حقیقی معنوں میں ’’ید اللہ‘‘ بن جاتا ہے اور یہ دنیا و مافیہا اس کے تصرف میں آجاتے ہیں اور اْس میں وہ طاقت آجاتی ہے کہ کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اْس کا تابع فرمان بن جاتا ہے اور اس کی آنکھوں کے اشارے پر چلتا ہے:
لوح بھی تو قلم بھی تو ، تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حَباب!
عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوعِِ آفتاب!
اقبال کا انسان جو پہلے بھی ملائک کا ہمرکاب تھا اپنی جائے سکونت تبدیل کرنے اور آسمان کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں میں جاگزیں ہونے کے باوجود اپنی عظمت سے ہاتھ نہیں دھو بیٹھا بلکہ اْسی طرح ان کی ہمسری بلکہ برتری برت رہا ہے۔ خطہ ہائے زمین اْس کو پابند اور اْس عظمت سے محروم نہیں کرسکتے جو روز اوّل سے اس کو میسر ہے:
ہمسایہ جبریلِ امیں بندہ خاکی ہے
اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشاں
اور تو اور اقبال، جبرئیل علیہ السلام کو بھی اپنا ہمسر نہیں گردانتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ جبریل کو اور کچھ سکھایا ہی نہیں گیا سوائے تسبیح و مناجات کے اور نہ اس کو آدم کی طرح نفس و خواہش ، جاہ و جلال کی بھوک ، جنس و شہوت اور لالچ و حرص میں مبتلا کیا گیا ہے۔ جبرئیل علیہ السلام کی اصلی عظمت تو تب ہوتی اگر اس کو انسان کی طرح ان آزمائشوں میں ڈالا جاتا اور وہ پھر بھی اپنا سارا وقت ذکر و تسبیحات میں گزارتا۔ اقبال جبرائیل علیہ السلام سے مخاطب ہے :
نہ کر تقلید اے جبریل میرے جذب و مستی کی
تن آساں عرشیوں کو ذکر و تسبیح و طواف اولیٰ
اب رہ جاتا ہے یہ سوال کہ آیا سانس کھینچنے والا ہر آدمی اْس اعلیٰ معیار پر پورا اترتا ہے اور وہ عظمت کی اْن بلندیوں کا دعویٰ کرنے کا حقدار ہے جن کے بارے میں اقبال کبھی اْس کو ہمسایہ جبریل علیہ السلام امیں ٹھہراتا ہے تو کبھی اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اْس کا مقام ماہ و ستارہ سے بھی آگے ہے۔ کبھی اْس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ :
وہ بحر ہے آدمی کہ جس کا
ہر قطرہ ہے بحرِ بے کرانہ
تو کبھی اْس کو لوح و قلم اور کبھی اللہ کا ہاتھ قرار دیتے ہیں۔ بنی نوع انسان پر ایک اجمالی نظر ڈالنے سے اس سوال کا جواب ہمیں نفی میں ملتا ہے۔ وہ انسان جس کا مقام انتہائی ارفع ہے ابھی تک پوری استعداد و استطاعت کے مطابق نتائج دینے میں کامیاب نہیں ہوا۔ وہ مسلسل تگ و دو میں ہے کہ اللہ نے اس کو جن خوبیوں سے نوازا ہے اْن سب کو بروئے کار لا کر اپنے آ پ کو حقیقی معنوں میں خدا کا خلیفہ ثابت کرے :
مہ و ستارہ سے آگے مقام ہے جس کا!
وہ مشت خاک ابھی آوارگانِ راہ میں ہے!
آئیے ذرا غور کریں کہ اقبال کی نظر میں وہ کونسے عوامل اور اعمال ہیںجن کو اختیار کرنے سے انسان ’’ہمسایہ جبریلِ امین ‘ ‘ اور اللہ کا ہاتھ بن جاتا ہے۔ شاعر کی نظر میں انسان کا مقام سوائے اللہ کے ہر چیز سے بلند ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان کوزمینی زندگی بہت مختصر عطا کی گئی ہے۔ اس مختصر زندگی میں وہ عملِ پیہم کے ذریعے آگے ہی آگے بڑھتا جارہا ہے۔ اقبال انسان کو یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ اللہ نے انسان کے لیے جو اعلیٰ ترین معیار اور بلند ترین مقام پسند فرمایا ہے وہاں اللہ تک پہنچنے کے لیے سعی مسلسل کی ضرورت ہے اور انسان کو چاہیے کہ وہ مہد سے لحد تک اس مقام تک پہنچنے کے لیے انتھک جدوجہد اور سفر کرتا رہے:
ہر ایک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں
رہی یہ بات کہ انسان کو اس مشکل اور پْر خار سفر کے دوران کیا سامان کرنا چاہیے اور کیا زادِ راہ اپنے پاس رکھنا چاہیے تاکہ وہ اس بلند مقام تک رسائی حاصل کر سکے جو خداوند تعالیٰ نے اس کے لیے مقرر کیا ہے۔ اقبال کی نظر میں اولین شرط یہ ہے کہ آدمی کو سب سے پہلے اپنے آپ کو پہچاننا چاہیے کہ وہ کون ہے ، کیا ہے ، اْس کا مقصد ِ تخلیق کیا ہے ، وہ کیا مقاصد ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو زمین پر بھیجا ، کائنات میں اس کا مقام کیا ہے اور خدا کی دیگر مخلوقات کے ساتھ اس کی نسبت کیا بنتی ہے۔ ان تمام تفاصیل کا اجمالی نام ’’خودی‘‘ ہے۔ا گر انسان اس خودی کی پرورش کر سکا تو خاک و خون کا یہ چھوٹا سا جاندار جسے عرف عام میں انسان کہتے ہیں ایک ایسے لافانی شعلے کی حیثیت حاصل کر لے گا جو اپنے اردگرد باطل کی تمام خس و خاشاک کو جلا کر راکھ کر دینے کی صلاحیت کا متحمل ہوگا اور خود کندن بن کر لازوال ہو جائے گا:
خودی کی پرورش و تربیت پہ ہے موقوف
کہ مشت ِ خاک میں پیدا ہو آتشِ ہمہ سوز!
اقبال ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اگر انسان واقعی قیمتی بننا چاہتا ہے اور بلند مقام پر فائز ہونے کی آرزو رکھتا ہے تو اْس کو اپنی خودی کی حفاظت کرنی ہوگی ورنہ ا س کا مقام بھی دوسرے جانداروں سے مختلف نہیں ہوگا:
گراں بہا ہے تو حفظِ خودی سے ہے، ورنہ
گہر میں آبِ گہر کے سوا کچھ اور نہیں
عظیم بننے اور خدا کے متعین کردہ مقام پر متمکن ہونے کے لیے اقبال ہمیں ایک اور گْر سے روشناس کراتا ہے۔ وہ ہے گریہ نیم شبی اوراپنے خالق ، مقصد تخلیق کائنات، مقصدِ زیست اور ان تمام چیزوں کے ساتھ اپنے تعلق و نسبت کے بارے میں عمیق غور و فکر۔ اگر انسان یہ سب کرسکا اور پھر حاصل کردہ افکار کی روشنی میں سفر حیات پر چل پڑا تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اْس مقام پر کمند نہ ڈال سکے جو اْس کے لیے متعین شدہ ہے۔ دھیرے دھیرے یہی خاک سے عبارت انسان وہ رفعت حاصل کر لے گا کہ بلند آسمان کے بلند ستارے زمین کے بظاہر پست انسان کی بلند پروازی سے خائف ہو جائیں گے:
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ ماہِ کامل نہ بن جائے
لیکن یہ تب ممکن ہوگا اگر:
واقف ہو اگر لذتِ بیداری شب سے
اونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاکِ پْراسرار!
آغوش میں اس کی وہ تجلی ہے کہ جس میں
کھو جائیں گے افلاک کے سب ثابت و سیار!
حاصل ِ کلام یہ کہ اگر انسان اپنی خودی کی حفاظت و پرورش کر سکا ، اپنی زندگی کو جہد مسلسل سے تعبیر کرسکا ، اپنے اندر عقابی روح بیدار کر سکا جو ہمیشہ بلند پروازی پر اْکساتی ہے اور اپنے آپ کو شب بیداری کی لذت سے آشنا کر سکا تو وہ ایک انسانِ کامل کا روپ دھار لے گا اور اْس کی فکر و نظر میں وہ وسعت اور گہرائی آ جائے گی کہ مستور کا ئنات میں تمام پردے اْس کے لیے اْٹھ جائیں گے اور زمین و آسمان ، چاند اور سورج ، پہاڑ و دریا الغرض کہ فطرت بذات خود اس کی چمک دمک سے خیرہ و مسحور ہو جائے گی۔ اقبال انسان سے مخاطب ہے:
دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
افلاک منور ہوں تیرے نورِ سحر سے
خورشید کرے کسبِ ضیاء ترے شرر سے
ظاہر تری تقدیر ہو سیمائے قمر سے
دریا متلاطم ہوں تری موجِ گرہ سے
شرمندہ ہو فطرت تیرے اعجازِ ہنر سے
اقبا ل کی نظر میں انسان وہ عظیم ہستی ہے جسے اللہ نے کائنات کی ظاہر و باطن تمام چیزوں کی خلافت و قیادت کے لیے پیدا کیا۔ نظام ہستی میں انسان کا وجود ایک لپکتے اور تابناک شعلے کی مانند ہے جو باقی مخلوقات کی قید میں آہی نہیں سکتا۔ خداوند قدوس نے اسی شعلے کے مصداق آزاد پیدا کیااور یہی وجہ ہے کہ وہ آزادی کا دلدادہ اور غلامی سے متنفر ہے۔ علاوہ ازیں یہ کائنات و مافیہا اللہ نے انسان کے تصرف کے لیے پیدا کیے ہیں۔ انسان کو ان چیزوں سے اعلیٰ اور افضل تخلیق کیا اور اْسے ان تمام چیزوں کارہبر بنا کر بھیجا۔ لیکن اقبال حیران ہے کہ انسان اپنی پوری استعداد کے مطابق حقِ رہبری ادا کرنے سے قاصر کیوں ہے اور وہ ان چیزوں کا غلام کیوں بنا جو اْس کے غلام ہونے چاہیے تھے۔ اقبال انسان سے فرماتا ہے :
تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار
کیا شعلہ بھی ہوتا ہے غلامِ خس و خاشاک؟
مہر و مہ و انجم نہیں محکوم تیرے کیوں؟
کیوں تیری نگاہوں سے لرزتے نہیں افلاک؟
انسان کی تمام ترعظمت اور دوسری تمام مخلوقات پر اْس کی فضیلت بیان کرنے اور اْ س کی ہمہ جہت صفات و اشگاف الفاظ میں آشکارا کرنے کے باوجود اقبال کو شکوہ ہے کہ دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو انسان کو حقیر سمجھتے ہیں۔ انسان کو زمین پر بھیجنے کے الٰہی منصوبے کی اکثر لوگ غلط توضیح کرتے ہوئے آدمی کو پیدائشی گناہگار اور پتہ نہیں کیا کیا سمجھتے ہیں۔ ان کم فہم لوگوں سے اقبال گلہ کرنے کے انداز میں فرماتے ہیں کہ انہوں نے تمام اسرار و رموز سے پردے ہٹادئیے اگر پھر بھی آپ کو انسان کی عظمت سمجھ میں نہیں آتی تو یہ تیری نظر کا فتوراور لاعلاج مرض ہے:
میں نے توکیا پردہ اسرار کو بھی چاک
دیرینہ ہے تیرا مرضِ کور نگاہی