گویا قرآن اس آیت کریمہ کے ذریعے دعوی کرتا ہے کہ قرآن کی ہدایت سب سے زیادہ مضبوط ہدایت ہے۔ قرآن کی راہنمائی ہی سب سے زیادہ مستحکم راہنمائی ہے۔ قرآن کی رہبری ہی سب ہی اقوام رہبری ہے۔ قرآن دنیا کی ساری کتابوں کے تناظر میں خواہ وہ الہامی ہوں یا غیر الہامی ہوں اعلیٰ ترین ہدایت کا حامل ہے۔ اس کی ہدایت کی پیروی میں اہل ایمان کی نجات ہے۔ اس کی ہدایت اختیار کرنے میں اہل ایمان کی کامیابی و کامرانی ہے۔ اس کی ہدایت کو اپنانے میں اہل ایمان کی دنیا و آخرت کی فوزو فلاح ہے۔ قرآن کی ہدایت کی اطاعت ہی انسان کی ساری کامیابیوں کا نقطہ آغاز ہے۔
قرآنی ہدایت کی صداقت پر داخلی دلیل
قرآن اپنے اس دعویٰ پر جہاں خارجی دلائل دیتا ہے وہاں داخلی دلائل و براہین بھی دیتا ہے۔ قرآن کی صداقت و حقانیت کی داخلی شہادت کے تناظر میں ارشاد فرمایا گیا:
اَوَلَمْ يَکْفِهِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَيْکَ الْکِتٰـبَ يُتْلٰی عَلَيْهِمْ ط اِنَّ فِيْ ذٰلِکَ لَرَحْمَةً وَّذِکْرٰی لِقَوْمٍ يُوْمِنُوْنَ.
(العنکبوت: 51)
’’کیا ان کے لیے یہ (نشانی)کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر (وہ) کتاب نازل فرمائی ہے جو ان پر پڑھی جاتی ہے (یا ہمیشہ پڑھی جاتی رہے گی)، بے شک اس (کتاب) میں رحمت اور نصیحت ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں‘‘۔
اس آیت کریمہ میں قرآن خود کو ایک چیلنج کے طور دنیا کے سامنے پیش کررہا ہے۔ وہ لوگ جو نقاد ہیں اور معترض طبیعت کے حامل ہیں، ان کو پکار پکار کر یہ دعوت دے رہا ہے اگر تمہیں قرآن کی صداقت اور حقانیت پر کوئی دلیل مطلوب ہے تو یہ قرآن خود ہی اپنی صداقت پر سب سے بڑی دلیل ہے۔ تمہیں مختلف اعتبارات سے اس کی ہدایت کا جائزہ لو اور دیکھو اس کی دلیل کا کوئی پہلو اور گوشہ ہے جس پر تم انگشت اعتراض بلند کرسکو۔ اس کی عظمت و کمال اور حسن و جمال کے کسی پہلو کو عیب دار کرسکو۔ یقینا تم اس کو ہر نقص و عیب سے منزہ پاؤ گے۔ اپنی حتمیت و قطعیت میں اس سے غیر مشکوک پاؤ گے۔
انسان کی نجات قرآنی ہدایت میں ہے
جب تم قرآن کو اس طرح دیکھ لو اور پالو تو پھر اس کی صداقت و حقانیت پر ایمان لے آؤ اور اس قرآن کی تعلیمات کو اپنے قول و فعل اور کردار کی دنیا میں اختیار کرلو۔ اپنے کردار پر قرآن کا رنگ چڑھا لو اور اسے کتاب ہدایت سمجھتے ہوئے اس سے روزانہ ہدایت اخذ کرو۔ قرآن کی ہدایت کو اپنی شخصیت بناؤ اور قرآن کی نصیحت کو اپنی اصلاح بنالو۔ قرآن کے خلق کو اپنی عادت بناؤ۔ قرآن کے نور کو اپنے کردار کی روشنی بناؤ، قرآن سے اکتساب فیض کو اپنا وطیرہ حیات بناؤ، قرآن کے علم کو اپنا علم بناؤ، قرآن کی رہبری کو اپنا دستور حیات بناؤ۔ ارے قرآن مسلمان سے جدا نہیں اور مسلمان قرآن سے جدا نہیں، مسلمان کی پہچان قرآن سے ہے، قرآن کی پہچان مسلمان کے کردار سے ہے۔
قرآن بے مثل کتاب ہدایت ہے
قرآن اپنے پڑھنے والوں کو ان کے ذہن کے مطابق اپنے اندر اپنی صداقت کی مختلف دلیلیں فراہم کرتا ہے، قرآن اپنے ہر قاری کا خیال کرتا ہے، اس کی عقل و فہم کو دیکھتا ہے، اس کی طبیعت کے اختیار پر نظر کرتا ہے، اس کو ذہنی استعداد کو سامنے رکھتا ہے اور اس کے سوچ کے میلانات کو دیکھتا ہے، قرآن کا کوئی ایسا قاری جو یہ سوچتا ہے دنیا میں کتابیں تو بے شمار ہیں۔ ہر کتاب اپنا جداگانہ تعارف رکھتی ہے اور ہر کتاب اپنی خصوصی افادیت رکھتی ہے اور اپنے کچھ خصوصی امتیازات رکھتی ہے۔ وہ اپنے من میں یہ خواہش کرتا ہے کہ کاش قرآن ایسی کتاب ہوتی جس کی مثل دنیا کی کوئی کتاب نہ ہوتی۔ جس جیسی دنیا میں کوئی اور کتاب نہ ہوتی۔ یہ کتاب اپنی مثال آپ ہوتی۔ اس کتاب کی کوئی مثل نہ ہوتی اور یہ بے مثل اور بے مثال کتاب ہوتی اور وہ اس کی کوئی نظیر اس دنیا میں نہ پاتا تو قرآن اپنے اس قاری کے لئے اس کی سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے بے مثال ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰی اَنْ يَاتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا.
(بنی اسرائيل: 88)
’’فرما دیجیے: اگر تمام انسان اور جنّات اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ اس قرآن کے مثل (کوئی دوسرا کلام بنا) لائیں گے تو (بھی) وہ اس کی مثل نہیں لا سکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مدد گار بن جائیں‘‘۔
قرآن اس کتاب کے بے مثل ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کہ یہ ساری کی ساری کتاب بے مثل ہے، بے مثال ہے، اس کی کوئی نظیر نہیں، اس کی کوئی مثال نہیں۔ اس طرح بے مثل ہے کہ پورا قرآن تو کجا اس قرآن جیسے کوئی دس مجلے بھی نہیں بناسکتا۔ اس قرآن جیسی کوئی دس آیات اور سورہ بھی نہیں لاسکتا۔ اگرچہ اس قرآن کے سارے مخالفین جمع ہوجائیں اور اس کا انکار کرنے والے سارے کے سارے اکٹھے ہوجائیں سارے مل کر اپنی ساری صلاحیتوں کو جمع کرکے اور اپنی ساری قابلیتوں کو جمع کرکے اپنی زبان دانی کی ساری اہلیتوں کو جمع کرکے اس قرآن کے مقابل آجائیں اور اس قرآن جیسی دس سورتیں بھی نہیں لاسکتے۔
مخالفین و معترضین کو قرآن کا چیلنج
جب قرآن کے مخالفین اور معترضین نے اعتراض کیا کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ہی قرآن کو (معاذاللہ) گھڑ لیا ہے یا اپنے کلام کو ہی قرآن قرار دے دیا ہے۔ اس لئے اس طرح کلام کہنا اور لکھنا ہمارے لئے مشکل نہیں ہے۔ ہم بھی زبان دان ہیں، عربی زبان پر ہمیں بھی عبور حاصل ہے۔ ہم بھی عرب کے معاشرے میں پروان چڑھے ہیں۔ ہم میں بڑے بڑے نامور شعراء ہیں، بڑے بڑے ادیب ہیں اور بڑے بڑے قادر الکلام خطیب ہیں اور بڑے بڑے سحرالبیان ہیں۔ جن کی شہرت ہی عربی زبان ہے۔ عربی زبان کے شہسوار ہیں اور اس زبان کے بڑے ہی نامدار ہیں اس لئے اس جیسا قرآن لانا، اس طرح کی زبان کا بیان کرنا ہمارے لئے چنداں مشکل نہیں ہیں۔ انہوں نے قرآن اورصاحب قرآن کی مخالفت کرتے ہوئے جب یہ افتراء پردازی شروع کی، قرآن کے کلام معجز ہونے کا انکار کیا اور قرآن کے بے مثل ہونے کو تسلیم نہ کیا، قرآن پر انگشت اعتراض بلند کی تو باری تعالیٰ نے قرآن کے بے مثل ہونے اور بے مثال ہونے اور عدم نظیر ہونے پر ان مخالفین اور معترضین کو پہلا چیلنج یہ دیا۔
اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰهُ ط قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيٰتٍ.
(هود: 13)
’’کیا کفار یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اس (قرآن) کو خود گھڑ لیا ہے، فرما دیجیے: تم (بھی) اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں لے آؤ ‘‘۔
قرآن سب مخالفین کی بے بسی
قرآن کے اس پہلے چیلنج کا جواب مخالفین اور معترضین نہ دے سکے۔ اس چیلنج میں انہیں یہ کہا گیا کہ تمہیں پورے قرآن کی مثل لانے کا ہم نہیں کہتے پورے قرآن میں سے کوئی سی دس سورتیں ہی اس جیسی بناکر لے آؤ۔ اگر تم اس قرآن کو کلام اللہ نہیں مانتے بلکہ اس قرآن کو کسی انسان کا کلام جانتے ہو تو تم سارے کے سارے عربی دان انسان وکان بعضہم لبعض ظہیرا اکٹھے ہوجاؤ اور جو تم سے دور بیں پوری دنیا میں اور پورے عرب میں جہاں بھی بکھرے ہوئے ہیں۔ عرب و عجم کے جس بھی خطے میں بستے ہیں۔ ان کو جمع کرلو ان سب کو بلالو۔
وَادْعُوْآ شُهَدَآئَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اﷲِ.
(البقرة، 2:23)
’’اللہ کے سوا اپنے تمام حمایتیوں کو بلالو ان سب کو پہلا چیلنج ہے‘‘۔
فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيٰتٍ.
(هود: 13)
’’تم اس طرح کی دس گھڑی ہوئی سورتیں ہی لے آؤ‘‘۔
اس طرح تم قرآن بے مثل ہونے کے دعویٰ کو محض اللہ غلط ثابت کرسکو، قرآن کے کلام اللہ ہونے کا انکار کرسکو۔ لیکن وہ سارے کے سارے مخالفین اور معترضین ایسا نہ کرسکے۔
کل عالم عرب کو قرآن کا چیلنج
اب قرآن نے ان کو دوسرا چیلنج دیا۔ اگر تم قرآن جیسی دس سورتیں نہیں لاسکتے تو تم کو دوسرا چیلنج اس سے کم کرتے ہوئے یہ دیا جاتا ہے۔ ہاں تم سارے کے سارے بھی مل جاؤ۔ کل عالم عرب مل جائے۔ کل عربی کے عالم، فاضل، شعراء اور ادیب مل جائیں۔ اس قرآن جیسی ایک ہی سورت لے آؤ۔ سورہ البقرہ میں ارشاد فرمایا:
وَاِنْ کُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهِ وَادْعُوْآ شُهَدَآئَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اﷲِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ.
(البقرة، 2: 23)
’’اور اگر تم اس (کلام) کے بارے میں شک میں مبتلا ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ، اور (اس کام کے لیے بے شک) اللہ کے سوا اپنے (سب) حمائتیوں کو بلا لو اگر تم (اپنے شک اور انکار میں) سچے ہو‘‘۔
قرآن اپنے مثل کتاب ہونے پر یہ دوسرا چیلنج دے رہا ہے۔ مخالفین قرآن اور معترضین قرآن اس چیلنج کو بھی پورا نہ کرسکے۔ اس پر باری تعالیٰ نے ان پر واضح کردیا ہے کہ قیامت تک تم کبھی اس چیلنج کو بھی پورا نہ کرسکو گے اور تم قیامت تک کبھی بھی اس قرآن کی مثل نہیں لاسکو گے۔
قرآن بے مثل ذات کا کلام ہے
اس لئے یہ اس ذات کا کلام ہے جو ’’لیس کمثلہ شئی‘‘ کی شان والا ہے اور وہ ذات جس کو کوئی مثیل نہیں ہے۔ نہ اس کی ذات جیسا کوئی ہے اور نہ اس کی صفات جیسی کوئی صفات رکھتا ہے۔ وہ اپنی ذات میں بھی بے مثل ہے اور وہ اپنی صفات میں بھی بے مثل ہے۔ اس لئے کہ اس کا کلام بھی بے مثل ہے اور اس بناء پر وہ ہر ہر جہت سے لاشریک ہے۔
قرآن ساری دنیا کے لئے چیلنج ہے
اس لئے جب وہ قرآن کے چیلنج کے مطابق نہ دس سورتیں اور نہ ہی ایک سورت لاسکے تو قرآن نے اس کے بعد ان کے لئے واضح کردیا۔ سورہ البقرہ میں ارشاد فرمایا:
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِيْ وَقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَهُ ج اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِيْنَ.
(البقرة، 2: 24)
’’پھر اگر تم ایسا نہ کر سکو اور ہرگز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی (یعنی کافر) اور پتھر (یعنی ان کے بت) ہیں، جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے‘‘۔
قرآن نے اپنے مخالفین کو کئے گئے چیلنج کا جواب خود دے دیا ہے۔ فرمایا تمہاری موجودہ حالت سے لے کر قیامت تک قرآن کے اس چیلنج کا جواب نہ دے سکے گا۔ اس لئے ان الفاظ کے ساتھ جواب دیا۔
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْاo
تم ہر گز ہرگز اس قرآن جیسا کلام نہ لاسکو گے۔ تم قرآن کے بے مثل ہونے کو چیلنج نہ کرسکو گے۔ تم اس قرآن کی نظیر نہ لاسکو گے، تم اس قرآن جیسا کلام نہ لاسکو گے۔
بے مثل قرآن سے ایک قاری قرآن کی محبت
اب وہ قاری قرآن جو قرآن کو بے مثل دیکھنا چاہتا ہے جو قرآن کو بے مثال پانا چاہتا ہے اور جو قرآن کو عدم النظیر تصور کرنا چاہتا ہے وہ قرآن کے ان چیلنجز پر جھوم جاتا ہے۔ مخالفین قرآن کی طرف سے آج تک ان چیلنجز کا جواب نہ پاکر قرآن سے اس کی محبت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ وہ اپنی زندگی کے جملہ معاملات میں اس بے مثل کتاب کو اپنے پیش نظر رکھتا ہے۔ وہ قرآن کو ہدایت میں بے مثل مانتا ہے۔ وہ قرآن کو نصیحت میں بے مثال جانتا ہے۔ وہ قرآن کو اللہ کی رضا و خوشنودی کے حصول میں ایک نسخہ کیمیا مانتا ہے۔ وہ قرآن کے عدم النظیر ہونے کو اپنی زندگی کی معراج جانتا ہے۔ قرآن کا یہی تعارف اس کو قرآن سے مضبوط تعلق فراہم کرتا ہے۔