شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا شہر اعتکاف 2015ء میں خصوصی خطاب
اللہ رب العزت نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر166 میں پھر فرمایا:
وَمَآ اَصَابَکُمْ يَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ فَبِاِذْنِ اﷲِ وَلِيَعْلَمَ الْمُوْمِنِيْنَ.
(آل عمران: 166)
’’اور اُس دن جو تکلیف تمہیں پہنچی جب دونوں لشکر باہم مقابل ہوگئے تھے، سو وہ اللہ کے حکم (ہی) سے تھی اور یہ اس لیے کہ اللہ ایمان والوں کی پہچان کرا دے‘‘۔
اللہ پاک کس طرح بار بار اس بات کو لوگوں میں راسخ کرتا ہے تاکہ کوئی کمی نہ رہ جائے۔ یاد کرو جس دن تمہیں تکلیف پہنچی تھی۔ یہ بار بار آرہا ہے کہ ’’اس دن جو تکلیف پہنچی تھی‘‘۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو اس پریشانی سے نکالنا چاہتا ہے کہ بار بار اس طرح ذکر کروں کہ پریشانی نکل جائے اور سمجھو کہ تم جیتے ہو اور فتح یاب ہو اور تمہی غالب ہو۔ اس لئے پھر فرمایا کہ یاد کرو جس دن دو گروہ اور دو لشکر آپس میں لڑے تھے اور گتھم گتھا ہوئے تھے۔ تمہیں جو اس دن تکلیف پہنچی تھی اس پر کبھی پریشان نہ ہوا کرو۔ کیوں باری تعالیٰ؟ تکلیف جو پہنچی توپریشان تو ہونا ہے۔ فرمایا: ’’فباذن اللہ‘‘ چونکہ اللہ کا امر یہی تھا اور وہ تکلیف اللہ کے اذن سے پہنچی تھی۔ کیا تم اللہ کے اذن کو ٹالنے والے ہو؟ ہے کوئی جو اللہ اذن کو منسوخ کرسکے۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا امام حسین رضی اللہ عنہ سرکٹوا کر نیزے پر چڑھتے؟ کبھی سوچا کہ جو ذات کٹے ہوئے سر کو جو نیزے پر ہے اور جس کی کرامت کا عالم یہ ہے کہ نیزے پہ کٹا سر قرآن کی تلاوت کررہا ہے۔ اگر وہ چاہتا میں کٹوں ہی نہ تو کوئی کاٹ سکتا تھا اور شہید کرسکتا۔ نہیں تھا۔ لیکن اس کی شان ہے۔
ادھر وہی سر تلوار سے کٹ رہا ہے اور اپنے آپ کو شہید ہونے سے بچاتا نہیں۔ وہی سر کٹ کے نیزے پر چڑھ کر قرآن سناتا ہے۔ یہ اللہ کی شانیں ہیں۔ مومن اللہ کی ہر شان میں کہتے ہیں ’’سبحان اللہ‘‘! یعنی مولا تیرے ہر کام میں حکمت ہے اور تیرے ہر کام میں بہتری ہے۔ بس یہ ایمان ہے یہ سبق سمجھانا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اس دن جب گتھم گتھا ہوگئے تھے دو لشکر یاد ہے نا جو تمہیں تکلیف پہنچی تھی‘‘۔ باری تعالیٰ یاد ہے۔ فرمایا: مت غم زدہ ہونا۔ فباذن اللہ۔ وہ اللہ کا اذن تھا۔ اللہ کے اذن پر غم زدہ نہیں ہوتے۔ لہذا ایک تو اللہ کا اذن تھا دوسری یہ کہ اس لئے نقصان پہنچایا تاکہ پرکھا جائے کہ مومن کون ہے یعنی اس سے اللہ اصل مومنوں کی پہچان کرانا چاہتا تھا۔
اس لئے اگلی آیت میں فرمایا: ’’ ويعلم الذين نافقوا ‘‘ پھر وہ بتانا چاہتا ہے کہ یہ مومن ہیں یہ منافق ہیں جو مدمقابل کھڑے ہیں وہ مومن ہیں اور جو چھوڑ کے بھاگ گئے ہیں اور فرار ہوگئے ہیں اور بعد میں طعنہ زنی کرتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں فرمایا: وہ منافق ہیں۔ اس لئے وہ کہتا ہے کہ منافقوں والی سوچ کی طرف نہ جانا۔ اللہ پاک چاہتا ہے کہ ایسی صورتحال بنے کہ انہیں باتیں کرنے کا موقع ملے اور وہ پہچانے جائیں۔ اور اگر مسلمان جیت کے آجاتے اور غزوہ احد میں نقصان نہ ہوتا اور شہادتیں نہ ہوتیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم زخمی نہ ہوتے تو کوئی باتیں کرتا اور نہ طعنہ دیتا۔ پھر انہوں نے بھی آخر میں نعرہ لگانے، مال غنیمت سمیٹنے، جھنڈے اٹھانے اور اچھل کود کرنے آجانا تھا اور لشکر میں شامل ہوجانا تھا اور پتہ نہیں چلنا تھا کہ صف اول کے لڑنے والے کون ہیں؟
یہ اللہ کی تدبیر تھی کہ منافق ننگے ہوں اور مومن نکھر کر سامنے آجائیں۔ فرمایا: منافق وہ لوگ تھے جب ان سے کہا گیا آئو اللہ کی راہ میں باطل کے خلاف جنگ کرو اور اگر فرنٹ پر نہیں جاسکتے۔ پیچھے رہنا چاہتے ہو تب بھی دشمن کے حملے کا دفاع کرو۔ یہ قرآن کی بولی ہے ایسے لگتا ہے کہ آج ہی اترا ہے۔ آیت نمبر167 میں فرمایا
’’جب ان کو یہ بات کہی گئی تو جواب میں بولے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کہنے لگے کہ یہ رسول تمہیں غلط طرف لے جارہا ہے۔ یہ کوئی جنگ ہی نہیں یہ مکہ والوں کا اور مدینہ والوں کا مقابلہ ہی نہیں کیونکہ وہ کئی گنا زیادہ ہیں‘‘۔
اسی طرح جب آقا علیہ السلام احد میں گئے تو ایک گھوڑا تھا جبکہ وہ سینکڑوں گھوڑوں کے ساتھ آئے تھے۔ ان کا تین ہزار کا لشکر تھا اور وہ سب مسلح تھے اور ان کے پاس سینکڑوں گھوڑے تھے جبکہ ادھر بے سرو سامانی تھی اور عدد بھی کم تھا۔ آقا علیہ السلام بارگاہ الہٰی میں عرض کرتے: باری تعالیٰ فرشتے بھیج۔ لہذا فرشتے بدر میں تو آئے تھے مگر یہ بھی طے ہے کہ فرشتے احد میں بھی آئے تھے۔ بدر میں لڑنے کے لئے آئے تھے کیونکہ آقا علیہ السلام نے عرض کردیا تھا کہ باری تعالیٰ یہ ہی پونجی ہے۔ اگر یہ لٹ گئی تو پھر تیری عبادت نہیں ہوگی۔ اس کی شان بھی دیکھیں کتنا بے نیاز ہے جواب میں یہ نہیں کہا محبوب کیا کہہ رہے ہو؟ میں اپنی عبادت کروانے کے لئے ان کا محتاج ہوں؟ رب کسی کا محتاج نہیں۔ اس نے بھی اپنے محبوب کی محبت کی لاج رکھی اور فرمایا:
فرشتو! میرے محبوب کہہ رہے ہیں اگر یہ شکست کھا گئے میری عبادت ہی نہیں ہوگی۔ فرشتوں نے عرض کیا باری تعالیٰ ہم تو کھڑے ہیں حکم فرمایا: اب کیا کرنا ہے؟ فرمایا تلواریں لو اور لڑو لہذا غزوہ بدر میں فرشتے لڑے تھے۔ کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پوچھتے تھے آقا! یہ بات سمجھ میں نہیں آئی میں فلاں کافر سے لڑرہا تھا۔ میں نے تلوار چلائی تلوار میری ابھی ہوا میں تھی کہ کافر کی گردن پہلے کٹ گئی اور تلوار سے ٹکرائی نہیں تو پھر گردن کیسے کٹ گئی؟ آقا علیہ السلام مسکرا پڑے اور فرمایا: ان کو فرشتے مار رہے تھے۔
کئی نادان سمجھتے ہیں کہ آقا علیہ السلام (نعوذ باللہ) ہمارے جیسے تھے حالانکہ کسی بندے کی جرات ہے کہ ایسی باتیں اللہ سے کرسکے کہ اگر تو چاہتا ہے کہ تیری عبادت نہ ہو تو پھر شکست کا فیصلہ کرو ورنہ ان کو شکست نہ ہونے دینا۔ کیونکہ وہاں بھی غزوہ احد جیسی حالت آگئی تھی حتی کہ غزوہ حنین میں آقا علیہ السلام کو خود کنکریاں اٹھا کر مارنا پڑیں جس سے کفار منتشر ہوگئے۔ لہذا یہاں یہ فرمایا جارہا ہے کہ ان منافقوں نے کہا یہ کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ تہارا نقصان ہی نقصان ہونا ہے۔ لہذا تم مارے جائو گے اور کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ اگر جنگ ہوتی تو ہم ضرور جاتے۔ یہ کوئی جنگ اور مقابلے کا ماحول دکھائی نہیں دیتا یا اسے اللہ کی راہ میں جنگ جانتے کہ حق و باطل کا معرکہ ہے تو ہم ضرور تمہاری پیروی کرتے تو ہم بھی جنگ میں تمہارے ساتھ جاتے۔ یہ کوئی جنگ نہیں ہے۔ ان کی نسبت قرآن کہتا ہے کہ ایسی باتیں کرنے والے مومنوں کا حوصلہ پست کرنے کے لئے ایسا کہتے تھے۔
اَلَّذِيْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِهِمْ وَقَعَدُوْا لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْا.
(آل عمران: 168)
’’(یہ) وہی لوگ ہیں جنہوں نے باوجود اس کے کہ خود (گھروں میں) بیٹھے رہے اپنے بھائیوں کی نسبت کہا کہ اگر وہ ہمارا کہا مانتے تو نہ مارے جاتے‘‘۔
یہ وہی لوگ ہیں جو خود گھروں میں بیٹھے رہے اور باہر نہیں نکلے وہ کہتے کہ اگر ہماری بات مان لیتے اور گھروں میں بیٹھ جاتے اور ہمارے ساتھ اور حضور علیہ السلام کے ساتھ لشکر میں نہ جاتے تو اس طرح نہ مارے جاتے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید بھی ہوئے تھے۔ ان کے اعضاء مبارکہ کاٹ دیئے گئے۔ ان کے سینے چیر دیئے گئے، کلیجے چبائے گئے۔ وحشیانہ عمل کئے گئے۔ یہ سب کچھ ان کی آنکھوں کے سامنے ہورہا تھا۔ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا یہ کیا ہوگیا۔ ان کو موقع ملا اور کہتے تھے اگر ہماری بات مان لیتے تو یہ سب کچھ اس طرح نہ ہوتا اور نہ مارے جاتے۔ یہ بات کہہ کر اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
قُلْ فَادْرَئُوْا عَنْ اَنْفُسِکُمُ الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ.
(آل عمران:168)
’’فرما دیں: تم اپنے آپ کو موت سے بچا لینا، اگر تم سچے ہو‘‘۔
اے میرے محبوب اور اے ایمان والو! ان منافقوں کو جو ایسی باتیں کرتے ہیں جواب دو اچھا اگر تم اتنا ہی موت سے بچانے والے ہو جب تمہاری موت کا وقت آئے تو خود کو بچاکر دیکھنا۔ لہذا ہر بات میں یقین پختہ کیا جارہا ہے کہ جب تمہاری موت کا وقت آئے تو گھروں میں بیٹھ جانا دیکھتے ہیں کیسے موت نہیں آتی؟ پھر خود کو بچا کے دکھانا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ منافقوں کی سوچوں کو رد کرتا ہے۔ کبھی کافروں کے طعنوں کو رد کرتا ہے کبھی عوام کی بزدلی اور ان کی وسوسہ اندازی کو رد کرتا ہے۔ ایڈریس کرتا ہے پھر مومنوں کی طرف آتا ہے اور مومنوں کو ایڈریس کرتا ہے۔ طرح طرح سے حوصلے دیتا ہے۔ اگلی آیت 169 میں فرمایا:
وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اﷲِ اَمْوَاتًا.
(آل عمران: 169)
’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں انہیں ہرگز مردہ خیال (بھی) نہ کرنا‘‘۔
پہلے فرمایا تھا کہ جو اللہ کی راہ میں شہید ہوگئے انہیں مردہ نہ کہو۔ اب یہاں فرمایا: مردہ گمان بھی نہ کرنا بلکہ وہ زندہ ہیں اللہ کی بارگاہ سے انہیں رزق ملتا ہے۔ یعنی وہ اپنی حیات جاودانی کی نعمتوں پر خوش ہیں اور شاداں ہیں اور فرحاں ہیں۔ پھر آیت نمبر172 میں فرمایا:
اَلَّذِيْنَ اسْتَجَا بُوْا ﷲِ وَالرَّسُوْلِ مِنْم بَعْدِمَآ اَصَا بَهُمُ الْقَرْحُط لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوْا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِيْمٌ
(آل عمران: 182)
’’جن لوگوں نے زخم کھا چکنے کے بعد بھی اللہ اور رسول (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر لبیک کہا، اُن میں جو صاحبانِ اِحسان ہیں اور پرہیزگار ہیں، ان کے لیے بڑا اَجر ہے‘‘۔
یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حال یہ تھا کہ زخم خوردہ ہوکر احد سے واپس پلٹے، گھروں میں آئے، شام کو رات کے وقت پہنچے، مرہم پٹی کررہے ہیں اور مٹی سے زخموں پر راکھ رکھ کر خون بند کررہے ہیں۔ جسم چور چور ہیں۔ اس حال میں ابھی بیٹھے ہیں، نڈھال ہیں۔ آقا علیہ السلام نے صحابہ کو بھیجا کہ آواز دو خبر ملی ہے کہ کفار کا لشکر پھر دوبارہ تازہ دم فوجوں کو لے کر مدینہ پر دوبارہ حملہ کرنے کے لئے آرہا ہے اور فلاں جگہ تک پہنچ چکا ہے۔ لہذا دوبارہ مقابلے کے لئے گھروں سے نکل آئو۔ جب یہ خبر ملی قرآن مجید کہتا ہے:
اَلَّذِيْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَـکُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ يْمَانًا ق صل وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اﷲُ وَنِعْمَ الْوَکِيْلُ.
(آل عمران: 183)
’’(یہ) وہ لوگ (ہیں) جن سے لوگوں نے کہا کہ مخالف لوگ تمہارے مقابلے کے لیے (بڑی کثرت سے) جمع ہو چکے ہیں سو ان سے ڈرو تو (اس بات نے) ان کے ایمان کو اور بڑھا دیا اور وہ کہنے لگے: ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ کیا اچھا کارساز ہے‘‘۔
آقا علیہ السلام نے جھنڈا اٹھایا اور صحابہ کرام نے وہیں مرہم پٹی چھوڑ دی، خون بہتے رہے۔ زخم رستے رہے، خون میں لت پت، تھکے ہارے اور نڈھال، زخموں سے چور چور اسی حال میں تازہ دم ہوکر اپنے زخموں کو بھول گئے اور یارسول اللہ لبیک! کہتے ہوئے لشکر لے کر آقا علیہ السلام کے ساتھ پھر چل پڑے۔ جب وہاں پہنچے تو ان کو خبر ملی کہ کفار واپس جاچکے ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہوگیا تھا کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، تازہ دم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لے کر آرہے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ ہم نے ان کو نڈھال کردیا ہے۔ اب وہ کئی دن بستروں پر پڑے رہیں گے۔ لہذا اس موقع سے فائدہ اٹھا کر نئی فوجیں لے کر حملہ کرلیں لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لشکر پہنچ گیا ہے تو وہ واپس پلٹ گئے۔
آقا علیہ السلام نے ان کا انتظار کیا جس کے بعد جب واپس تشریف لارہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس وقت فرمایا: محبوب یہ جو عوام بھاگ گئے تھے اور منتشر ہوگئے تھے۔ آپ کو زخم آئے تھے اور بعض کی بزدلی پر آپ کا دل دکھی ہوا تھا یا کئی لوگ گھاٹی چھوڑ کر آگئے تھے اس وجہ سے کہ شاید جنگ ختم ہوگئی ہے اور وہ مال غنیمت حاصل کریں جن کی وجہ سے کفار نے دوبارہ حملہ کیا اور بھگدڑ مچی، افراتفری ہوئی اور آپ کو دکھ ہوا تھا۔ محبوب: دیکھو اگر ایسا کچھ ہوگیا مگر دوسری طرف وفادار تو اتنے ہیں جانثار تو اتنے ہیں کہ ایک رات بھی نہیں گزری، مرہم پٹی بھی نہیں کی ابھی خون بہہ رہے ہیں، زخم تازہ ہیں، کپڑے بھی نہیں بدلے مگر جب آپ نے بلایا تلواریں اٹھا کر پھر چل پڑے۔ لہذا محبوب چلو کوئی بات نہیں معاف کریں تو آقا علیہ السلام نے اور اللہ تعالیٰ نے معاف فرمادیا۔
اب آیت نمبر182 میں فرمایا گیا:
اَلَّذِيْنَ اسْتَجَا بُوْا ﷲِ وَالرَّسُوْلِ مِنْم بَعْدِمَآ اَصَابَهُمُ.
(آل عمران: 182)
’’جن لوگوں نے زخم کھا چکنے کے بعد بھی اللہ اور رسول (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر لبیک کہا‘‘۔
یعنی جن لوگوں نے زخم خوردہ اور خون میں لت پت ہوجانے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر پھر لبیک کہا اور جہاد کے لئے نکل پڑے۔ ان میں سے جو یہ صاحبان احسان اور پرہیزگار ہیں ان کے لئے بڑا اجر ہے اور ان کا ایمان بڑھ گیا۔ اللہ پاک اس طرح آزمائش سے نکال کر ایمان کو پختہ کرتا ہے کیونکہ یقین آگیا تھا۔ کہنے لگے:
قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهَ وَنِعْمَ الْوَکِيْل.
(آل عمران:183)
’’وہ کہنے لگے: ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ کیا اچھا کارساز ہے‘‘۔
یعنی وہ جتنے بھی جمع ہوکے آگئے پرواہ نہیں ہمیں اللہ کافی ہے۔ پھر کیا ہوا:
فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اﷲِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوْءٌ لا وَّاتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اﷲِط وَاﷲُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِيْمٍ.
’’پھر وہ (مسلمان) اللہ کے انعام اور فضل کے ساتھ واپس پلٹے انہیں کوئی گزند نہ پہنچی اور انہوں نے رضائے الٰہی کی پیروی کی، اور اللہ بڑے فضل والا ہے‘‘۔
(آل عمران: 184)
پھر ارشاد فرمایا:
اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّيْطٰنُ يُخَوِّفُ اَوْلِيَآءَهُ ص فَـلَا تَخَافُوْ هُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُّوْمِنِيْنَ.
’’بے شک یہ (مخبر) شیطان ہی ہے جو (تمہیں) اپنے دوستوں سے دھمکاتا ہے، پس ان سے مت ڈرا کرو اور مجھ ہی سے ڈرا کرو اگر تم مومن ہو‘‘۔
(آل عمران: 184)
یعنی آقا علیہ السلام کے غلاموں کو سمجھایا اور بتایا کہ بعض اوقات وسوسہ پھیلایا جاتا ہے اور خوف پھیلایا جاتا ہے ایسا مخبر شیطان ہے جو ایسی خبریں پھیلاتا ہے اور اللہ کے دوستوں اور وفاداروں کو دھمکاتا ہے تاکہ وہ ڈر جائیں فرمایا: خبردار! ان سے نہ ڈرنا۔ اور ان کی باتوں میں کبھی نہ آنا اور مجھ سے ڈرو۔ اگر تم سچے ایمان والے ہو۔
حالات کے زیرو بم سے آقا علیہ السلام جب اپنے غلاموں کو پریشان دیکھتے تو وہ پریشان ہوتے تھے (خود تو پریشانی سے ماوراء تھے) مگر غلاموں کو پریشان اور تکلیف میں دیکھ کر، ان کی حالت زار کو دیکھ کر آقا بھی دکھی ہوتے اور جب کفار حضور علیہ السلام کی نبوت و رسالت، قرآن، ایمان اور اسلام کا مذاق اڑاتے، تکذیب کرتے تو تب بھی دل دکھی ہوتا۔ اللہ تعالیٰ حضور علیہ السلام سے پیار کی بات کرتا ہے:
فَاِنْ کَذَّبُوْکَ فَقَدْ کُذِّبَ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ جَآءُ وْا بِالْبَيِّنٰتِ وَالزُّبُرِ وَالْکِتٰبِ الْمُنِيْرِ
(آل عمران:184)
’’پھر بھی اگر آپ کو جھٹلائیں تو (محبوب آپ رنجیدہ خاطر نہ ہوں) آپ سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کو جھٹلایا گیا جو واضح نشانیاں (یعنی معجزات) اور صحیفے اور روشن کتاب لے کر آئے تھے‘‘۔
یعنی میرے محبوب آپ بھی دکھی نہ ہوں اگر یہ بدبخت آپ کو جھٹلاتے ہیں اور طعنے دیتے ہیں تو کوئی بات نہیں۔ ہم نے پہلے جتنے رسول بھیجے یہ ان کو بھی جھٹلاتے تھے۔ ان کو طعنے دیتے تھے۔ وہ بھی بڑی بڑی نشانیاں معجزات لے کر آئے تھے۔ صحیفے لے کر آئے تھے۔ روشن کتاب لے کر آئے تھے مگر ان بدبختوں کا کام جھٹلانا ہے پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یہ تمہیں جو منافق لوگ کہتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو مروا دیا نہیں بلکہ وہ شہید ہوگئے اور انہیں بتادو ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘۔ ہر شخص نے موت کا مزہ چکھنا ہے۔ بس فرق یہ ہے کس کو کیسی موت آتی ہے۔ بزدلی کی موت آتی ہے یا جواں مردی کی موت آتی ہے۔ موت تو ہر ایک کو آنی ہے تو پھر ڈر کس چیز کا؟ پھر فرمایا: اے مسلمانو! تم کو تمہاری جانوں میں اور تمہارے مالوں میں ضرور آزمایا جائے گا۔ یعنی بھٹی میں تپایا جائے گا۔ مشکل میں ڈالا جائے گا، بڑی تکلیفوں اور مصیبتوں میں پکایا جائے گا۔ (کبھی مال میں، کبھی دولت میں کبھی جان میں) اور یہ بات بھی یاد رکھو یہ جو کافر و مشرک ہیں یہ طعنے بھی ضرور دیں گے۔
وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَکُوْا اَذًی کَثِيْرًا.
(آل عمران: 186)
’’اور تمہیں بہر صورت ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور ان لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سے اذیت ناک (طعنے) سننے ہوں گے‘‘۔
اللہ تعالیٰ مالک ہے اس نے نظام ایسا بنایا ہے اور فرمایا ہے کہ وہ اذیت بھی دیں گے۔ تکلیف دہ طعنے سننے پڑیں گے۔ اب قرآن حکیم کی ان آیات پر غور کیا جائے تو اس میں ہمارے لئے بھی رہنمائی کا سامان موجود ہے کہ اگر کوئی کہے کہ کیا ملا؟ تمہارا انقلاب تو نہیں آیا۔ کیا لینے گئے شہادتیں ہوگئیں۔ یہ کیا تم کہتے تھے ہم پلٹ کر نہیں آئیں گے۔ یہ ساری باتیں درست مگر یہی باتیں یہودی کرتے تھے جیسے اللہ پاک نے کہا کہ یہودی بھی طعنے دیں گے اور مشرکین، منکرین، کفار جو دین کے دشمن ہیں وہ سب باتیں کریں گے جو تمہیں سننی پڑیں گی یعنی یہ باتیں تم ضرور بالضرور سنو گے۔ اس سے اذیت ہوگی، دکھ ہوگا، پریشانی ہوگی مگر ان احمقوں اور بیوقوفوں کی باتوں پر پریشان نہیں ہونا اور اگر تم صبر کے ساتھ قائم رہے اور توکل کو نہ چھوڑا جو بڑی ہمت کا کام ہے تو فتحیابی تمہاری ہوگی۔ اللہ پاک تمہاری فتح اور عظمت کا کام اس کو قرار دیتا ہے۔
لہذا بنیادی پیغام قرآن مجید کا یہ ہے کہ مومن کا کام یقین پیدا رکھنا ہے۔ مومن کا یقین متزلزل نہیں ہوتا۔ وہ توکل پر رہتا ہے۔ صبر کا پہاڑ بنا رہتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کی فتح کبھی اس سے دور نہیں ہوتی بلکہ فتح اس کے قدم چومتی ہے۔ اہل حق کو سفر میں مشکلات، آزمائشیں اور مصائب آتے ہیں۔ اس میں دشمنوں، نادانوں اور عوام کے طعنے بھی آتے ہیں جو سننے پڑیں گے۔ اذیت اور دکھ بھی ہوگا مگر ملال نہیں لانا۔ وہ اپنا کرم کرتے ہیں تم اپنا کام کرتے رہو اور اللہ کے کام کو بھی اپنے ہاتھ میں نہیں لینا۔ اللہ اپنا کام کرے گا تم اپنا کام کرو گے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حق کی عظمت اور حق کی فتح یابی کے لئے چنا ہے پس اپنے اندر ایمان و یقین کی پختگی پیدا کرو۔ عبادت کی کثرت کرو اور اللہ پاک سے تعلق جوڑو۔ اپنے اخلاق کو سنوارو اور اللہ پاک پر یقین اور توکل مزید پختہ کرو اس طرح کہ آپ کے ایمان اور اخلاق میں یقین کی خوشبو آئے۔ آپ کی زندگی نمونہ ہو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پیروی کا۔ اہل بیت اطہار اور ائمہ کی پیروی کا۔ ان شاءاللہ تعالیٰ یہ تحریک حق کی تحریک ہے۔ یہ مشن حق کا مشن ہے۔ یہ جدوجہد حق کی جدوجہد ہے۔ آپ اہل حق ہیں اور اہل حق کو غلبہ مل کر رہے گا۔ ان شاء اللہ انقلاب آئے گا اور آپ پہلے بھی فتح یاب ہوئے اور فتحیاب رہے اور فتحیاب ہوں گے۔ دنیا کی کوئی طاقت آپ کو شکست نہیں دے سکتی۔