اللہ رب العزت نے زمین و آسمان کے مابین جو کچھ بھی تخلیق کیا وہ ایک مقرر شدہ پیمانے کے تحت اپنی جگہ پر موجود اور حرکت میں ہے اور اللہ نے ہر چیز ایک خاص مقصد اور منفعت کے لئے تخلیق کی ہے، زمین و آسمان کا نظام ہو، نظام شمسی کی حیرت انگیزی ہو، ستاروں کے جھرمٹ اور کہکشائیں ہوں، چاند اور سایوں کا بڑھنا گھٹنا ہو، گردش لیل و نہار ہو، زمین، پہاڑ، غار، اثمار و شجر، ذرائع نقل و حمل، زمین کے توازن اور اعتدال، پتھروں کی سختی، پہاڑوں کی سفیدی سرخی، معدنیات، دریا، سمندر، پانی، رخ بدلتی ہوائیں، نباتات، جمادات، حیوانات، پھل دار درخت نیز جو کچھ بھی ہے اس کی تخلیق کا سب سے زیادہ فائدہ انسان اٹھاتا ہے، اسلام میں صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے، صفائی سے مراد ظاہری طہارت ہی نہیں بلکہ گردونواح کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنا بھی ایمان کی نشانیاں ہیں، انسان جب اللہ کے مقرر کردہ پیمانوں اور حدود و قیود سے تجاوز کرتا ہے یا اس کی حدود کو توڑتا ہے اور قانون فطرت کے منافی چلتا ہے تو اس کی گرفت بھی ہوتی ہے، گرفت کا ایک وقت مقرر ہے جسے یوم الحشر کہا جاتا ہے، اس دن ہرانسان اپنے حقوق و فرائض، افعال و اعمال اور جملہ معاملات زندگی کے ضمن میں جواب دہ ہو گا اور اس دن پورا پورا حساب ہو گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس دنیا میں بھی اسے قانون فطرت کے خلاف جانے پر ایک سزا ملتی ہے، مثال کے طور پر جو شخص اپنے ظاہری جسم کو صاف نہیں رکھتا تو اسے بیماریاں گھیر لیتی ہیں، وہ کسی نہ کسی مرض کی شکل میں اس کی قیمت چکاتا ہے اور یہ اس دنیا میں اس کی ایک سزا ہے، اسی طرح جب ہم اپنے گردونواح کے ماحول کو آلودہ کرتے ہیں تو اس کے مضمرات کا بھی ہمیں ہی سامنا کرنا پڑتا ہے، جب ہم اپنے گلی، محلے کو گندہ کرتے ہیں تو اس ماحو ل میں ہم ہی سانس لیتے ہیں، جب ہم صاف پانی کو آلودہ کرتے ہیں تو اس پانی کو ہم اپنی خوراک کا حصہ بنا کر اپنے جسم کے اندر لے جاتے ہیں، ان بےاعتدالیوں کے انفرادی اور اجتماعی سطح پر مضمرات ہوتے ہیں جس کا سامنا ہمیں کسی نہ کسی شکل میں روز مرہ کی زندگی میں کرنا پڑتا ہے، جیسے جیسے آلودگی کا سکیل بڑھتا ہے، ویسے ویسے انسانی زندگی کیلئے خطرات میں شدت آتی ہے، آج کل ہم سموگ کی زد پر ہیں، یہ ایک نئی ماحولیاتی بیماری ہے جس کے تخلیق کار ہم خود اور ہمارے رویے ہیں، ہم درختوں کو کاٹ رہے ہیں، پہاڑوں کو کھوکھلا کررہے ہیں، پانی کو ضائع اور گدلا کررہے ہیں، زمینوں کو ناہموار اور بنجر کرتے چلے جارہے ہیں، ہم نے ماحول اور اپنی فضاء کو اس قدر آلودہ کر دیا ہے کہ زمین کا درجہ حرارت دن بدن بڑھ رہا ہے جسے گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے، رواں ماہ ایک رپورٹ نشر ہوئی کہ پاکستان بالعموم اور لاہور بالخصوص آلودہ ترین شہر کا درجہ حاصل کر چکا ہے، یہ ایک لمحہ فکریہ ہے، ایک ایسی قوم جو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ عشق کرتی ہے، ان کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ایک ایک حرف کو دنیا اور آخرت کی نجات کا ذریعہ سمجھتی ہے وہ قوم صفائی کے معاملے میں اتنی بے پروا ہو سکتی ہے یہ بات ناقابل فہم ہے، تاحال پاکستان کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کی زد میں ہے، ہم نے دیکھا کہ قومی اور بین الاقوامی ہیلتھ ایکسپرٹس نے کووِڈ 19کا علاج صفائی بتایا ہے کہ اپنے ہاتھوں، چہرے، ناک، منہ کو صاف ستھرا رکھیں جبکہ یہی ہدایت ہماری نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 14 سو سال قبل فرمائی تھی، ہم اپنے گھر، گلی اور محلے کی صفائی سے کتراتے ہیں، ہماری گاڑیاں دھواں چھوڑتی ہیں، فضاء کو آلودہ کرتی ہیں مگر ہم اسے کوئی قباحت اور جرم نہیں سمجھتے، ہماری صنعتیں دن رات غلاظت اور آلائشوں کی پیداوار دے رہی ہیں مگر ہم بین الاقوامی حفاظتی سٹینڈرز کو نظر انداز کرتے چلے جارہے ہیں، ہم نے صاف ستھری زمین کو بیماریاں کی آماجگاہ بنا دیا ہے جس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ ہمارے گلیشیئر درجہ حرات اور آلودگی بڑھ جانے کی وجہ سے تیزی سے پگھل رہے ہیں اور ہم پانی جیسے خزانے سے تیزی سے محروم ہوتے جارہے ہیں اور اگر اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی اسی طرح ناشکری کی جاتی رہی اور انہیں ضائع کیا جاتا رہا تو ایک دن اس خطے سے زندگی ناپید ہو جائیگی۔ ماحولیاتی آلودگی سے بچنے اور زندگی کی صحت مند بقاء کے لئے ہمیں درخت لگانے اور ان کی حفاظت کرنا ہو گی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ جس کے پاس زمین ہو، اسے اس میں کاشتکاری کرنی چاہیے، اگر وہ اس میں خود کاشت نہ کرسکتا ہو، تو وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو دے دے، تاکہ وہ اس میں کاشت کرسکے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی ترغیب کے نتیجے میں صحابہ کرامؓ درخت لگانے کا اہتمام کرتے تھے۔