سوال: کیا خواتین بالوں کا عطیہ دے سکتی ہیں؟
جواب: جن خواتین کے بال بیماری کی وجہ گِر جاتے ہیں، ان کے لیے اصلی بالوں سے بنی وگز استعمال کرنا جائز ہے۔ اسی طرح وہ خواتین جن کے بالوں کی لمبائی زیادہ ہو وہ مشروط طور پر ایک مخصوص لمبائی کا عطیہ دے سکتی ہیں۔ بالوں کا عطیہ کرنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ بال اتنے چھوٹے نہ کیے جائیں کہ مَردوں سے مشابہت پیدا ہوجائے، اور دوسری شرط ہے کہ بال مخصوص ضرورت مند عورت کو دیے جائیں، بیچنا منع ہے۔ یہ عطیہ باامرِ مجبوری جائز ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ حدیث مبارکہ میں وگ لگانے والوں پر لعنت کی گئی۔ یہ ان خواتین و حضرات کے بارے میں ہے جو بال ہونے کے باوجود بغیر کسی وجہ کے وگز لگانے کو عادت بنا لیتے ہیں۔ اس کا سبب غیرمعمولی فیشن کی حوصلہ شکنی ہے، تاکہ فضول خرچیوں کا راستہ بند ہو اور معاشرے اعتدال پسندی کی طرف بڑھے۔
سوال نمبر: اپنے جسم کا خون کسی اجنبی کو عطیہ کرنا جائز ہوگا یا نہیں؟
جواب: خون کسی اجنبی کو عطیہ کرنا جائز ہے۔ اس سلسلے میں چند امور کی وضاحت درج ذیل ہے:
سب سے پہلے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ خون صرف اس شخص کو دیا جائے، جومرض یا زخمی ہونے کی وجہ سے موت وحیات کی کشمکش میں ہو، اور اسے خون کی ایسی ضرورت ہو کہ اگر خون نہ دیا جائے تو موت کا اندیشہ ہو۔
ایسے شخص کو خون دینے کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
قَدْ فَصَّلَ لَکُم مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ إِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَیْهِ.
حالانکہ اللہ تعالی نے ان سب جانوروں کی تفصیل بیان کردی ہے جن کو تم پر حرام کیا ہے، مگر وہ بھی جب تم کوسخت ضرورت پڑ جائے توحلال ہے۔
(الانعام: 119)
اس آیتِ مبارکہ سے پتہ چلا کہ بوقتِ ضرورت حرام غذا کا استعمال کرنا بھی جائز ہے۔ کسی ایسے مریض یا زخمی کو خون دینا جس کی شفایابی انتقالِ خون سے ہی ممکن ہو، حقیقت میں غذا دینے جیسا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں خون عطیہ کرنا جائز ہے ۔
دوسری قابلِ غور بات یہ ہے کہ جس سے خون منتقل کیا جا رہا ہے، یعنی جو شخص خون عطیہ کر رہا ہے، اس کو کوئی ظاہری ضرر اور نقصان تو نہیں ہو رہا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
عن ابن عباس قال رسول الله ﷺ لا ضرر ولا ضرار فی الاسلام.
(احمد بن حنبل، المسند، رقم حدیث: 2921)
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اسلام میں نہ نقصان (اٹھانا) درست ہے اور نہ نقصان پہنچانا جائز ہے ۔
خون عطیہ کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا بھی لازم ہے کہ انتقال خون کی تجویز کسی ماہر ڈاکٹر کی ہو۔ کسی عطائی یا نیم حکیم کی نہ ہو۔
اگر درج بالا امور کو دھیان میں رکھ کر خون عطیہ کیا جائے، تو یہ نہ صرف جائز بلکہ باعثِ ثواب بھی ہے۔
سوال نمبر: کیا لڑکی اپنی عزت بچانے کے لیے خودکشی کر سکتی ہے؟
جواب: خودکشی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ فعل حرام ہے اور اِس کا مرتکب اللہ تعالیٰ کا نافرمان اور جہنمی ہے۔ زندگی اور موت کا مالکِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ جس طرح کسی دوسرے شخص کو موت کے گھاٹ اتارنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے، اُسی طرح اپنی زندگی کو ختم کرنا یا اسے بلاوجہ تلف کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں ناپسندیدہ فعل ہے۔ ارشا ربانی ہے:
وَلاَ تُلْقُواْ بِأَیْدِیکُمْ إِلَی التَّهْلُکَۃِ وَأَحْسِنُوَاْ إِنَّ اللّهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ.
اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور صاحبانِ اِحسان بنو، بے شک اللہ اِحسان والوں سے محبت فرماتا ہے۔
(البقرۃ، 2: 195)
امام بغوی نے سورۃ النساء کی آیت نمبر 30 کی تفسیر کے ذیل میں سورۃ البقرۃ کی مذکورہ آیت نمبر 195 بیان کرکے لکھا ہے:
وقیل: أراد به قتل المسلم نفسه.
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد کسی مسلمان کا خودکشی کرنا ہے۔
(بغوی، معالم التنزیل، 1: 418)
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ.
(النساء، 4: 29)
اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو
امام فخر الدین رازی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
(وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ) یدل علی النهی عن قتل غیره وعن قتل نفسه بالباطل.
(اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو) یہ آیت مبارکہ کسی شخص کو ناحق قتل کرنے اور خودکشی کرنے کی ممانعت پر دلیل شرعی کا حکم رکھتی ہے۔
(رازی، التفسیر الکبیر، 10: 57)
درج بالا آیات اور ان کی تفاسیر سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں خودکشی قطعاً حرام ہے۔ اس لیے اگر کسی لڑکی پر خدا نخواستہ حملہ ہو اور اسے عزت کے لٹنے کا ڈر ہو تو لڑکی اپنی بساط کے مطابق مزاحمت کرے، نہ کہ اپنی جان لے۔ کیوں کہ دورانِ جہاد بھی خودکشی کرنے والا جہنمی ہے، جس پر حدیثِ مبارکہ گواہ ہے۔ کسی غزوہ کے دوران میں مسلمانوں میں سے ایک شخص نے خوب بہادری سے جنگ کی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس کی شجاعت اور ہمت کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علمِ نبوت سے انہیں آگاہ فرما دیا کہ وہ شخص دوزخی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ سن کر بہت حیران ہوئے۔ بالآخر جب اس شخص نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خود کشی کرلی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ خود کشی کرنے والا چاہے بظاہر کتنا ہی جری و بہادر اور مجاہد فی سبیل اللہ کیوں نہ ہو، وہ ہرگز جنتی نہیں ہو سکتا۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
إِلْتَقَی النَّبِیُّ ﷺ وَالْمُشْرِکُونَ فِی بَعْضِ مَغَازِیهِ، فَاقْتَتَلُوا، فَمَالَ کُلُّ قَوْمٍ إِلَی عَسْکَرِهِمْ، وَفِی الْمُسْلِمِینَ رَجُلٌ لَا یَدَعُ مِنَ الْمُشْرِکِینَ شَاذَّةً وَلَا فَاذَّةً إِلَّا اتَّبَعَهَا، فَضَرَبَهَا بِسَیْفِهِ، فَقِیلَ: یَا رَسُولَ اللهِ، مَا أَجْزَأَ أَحَدٌ، مَا أَجْزَأَ فُلَانٌ. فَقَالَ ﷺ: إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ. فَقَالُوا: أَیُّنَا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّۃِ إِنْ کَانَ هَذَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ. فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: لَأَتَّبِعَنَّهُ، فَإِذَا أَسْرَعَ، وَأَبْطَأَ، کُنْتُ مَعَهُ حَتَّی جُرِحَ، فَاسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ، فَوَضَعَ نِصَابَ سَیْفِهِ بِالْأَرْضِ وَذُبَابَهُ بَیْنَ ثَدْیَیْهِ، ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَیْهِ، فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَجَاءَ الرَّجُلُ إِلَی النَّبِیِّ ﷺ: فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّکَ رَسُولُ اللهِ، فَقَالَ: وَمَا ذَاکَ فَأَخْبَرَهُ. فَقَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّۃِ فِیمَا یَبْدُو لِلنَّاسِ، وَإِنَّهُ لَمِنْ أَهْلِ النَّارِ وَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فِیمَا یَبْدُو لِلنَّاسِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّۃِ.
ایک غزوہ (غزوہ خیبر) میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مشرکین کا آمنا سامنا ہوا اور فریقین میں خوب لڑائی ہوئی، پھر (شام کے وقت) ہر فریق اپنے لشکر کی جانب واپس لوٹ گیا۔ پس مسلمانوں میں ایک ایسا آدمی بھی تھا جو کسی اِکا دُکا مشرک کو زندہ نہ چھوڑتا بلکہ پیچھا کرکے اسے تلوار کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! آج جتنا کام فلاں نے دکھایا ہے اتنا اور کسی سے نہیں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ تو جہنمی ہے۔ پس لوگ کہنے لگے کہ اگر وہ جہنمی ہے تو ہم میں سے جنتی کون ہوگا! مسلمانوں میں سے ایک آدمی کہنے لگا: میں صورتِ حال کا جائزہ لینے کی غرض سے اس کے ساتھ رہوں گا خواہ یہ تیز چلے یا آہستہ۔ یہاں تک کہ وہ آدمی زخمی ہوگیا، پس اس نے مرنے میں جلدی کی یعنی اپنی تلوار کا دستہ زمین پر رکھا اور نوک اپنے سینے کے درمیان میں رکھ کر خود کو اس پر گرا لیا اور یوں اس نے خودکشی کرلی۔ جائزہ لینے والے آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا: میں گواہی دیتا ہوں کہ واقعی آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: بات کیا ہوئی ہے؟ اس شخص نے سارا واقعہ عرض کر دیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک ایک آدمی جنتیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے جیسا کہ لوگ دیکھتے ہیں لیکن درحقیقت وہ جہنمی ہوتا ہے؛ اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے دیکھنے میں وہ جہنمیوں جیسے کام کرتا رہتا ہے لیکن درحقیقت وہ جنتی ہوتا ہے۔
- (بخاری، الصحیح، کتاب المغازی، باب غزوة خیبر، 4: 1541، رقم: 3970)
- (مسلم، الصحیح،کتاب الإیمان، باب غلظ تحریم قتل الإنسان نفسه، 1: 106، رقم: 112)
درج بالا حدیث میں آقا علیہ السلام نے واضح طور پر فرما دیا کہ مشکلات کا مقابلہ کرنا جنتیوں والا، اور مشکلات میں خود کشی کر لینا جہنمیوں کا کام ہے۔ اگر مذکورہ لڑکی یا کوئی بھی فرد اپنی عزت، حرمت اور نظریات کے لیے مارا جائے تو وہ شہید ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے:
عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِه فَهوَ شَهیدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ اَهلِہ اَوْ دُونَ دَمِه اَوْ دُونَ دِینِه فَهوَ شَهیدٌ.
حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو اپنے مال کی حفاظت کرنے کے باعث قتل کر دیا جائے تو وہ شہید ہے۔ جو اپنی بیوی، اپنے خون اور اپنے دین کی حفاظت کرنے کے باعث قتل کر دیا جائے تو وہ شہید ہے۔
(احمد بن حنبل، المسند، 1: 190، رقم: 1652، موسسة قرطبة، مصر)
اگر کوئی فرد اپنے اہلِ خانہ، اپنی جان اور دین کے تحفظ میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، تو وہ شہید کہلائے گا، تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ عورت اپنی عزت کی حفاظت کرتے ہوئے مزاحمت میں ماری جائے، تو اس کو بھی مرتبہ شہادت نصیب ہوگا۔