انسانی زندگی میں اکثر اوقات ایسے واقعات پیش آتے ہیں جن میں انسان اپنے ہوش و ہواس کو بھول کر جذبات کے سمندر میں بہہ جاتا ہے، انسان کے جذبات اس کی عقل و فہم پر پردہ ڈال دیتے ہیں جن کی وجہ سے وہ غیظ و غضب کی آگ میں جلنے لگتا ہے اور چاہتا ہے کہ جس پر اسے یہ غیظ و غضب آ رہا ہے یا جس کی وجہ سے آ رہا ہے اسے نیست و نابود کر دے، اپنی پوری طاقت سے فوری کاروائی کرے اور دشمن کو آناًفاناً زیر کر دے۔ دین اسلام چونکہ مکمل ضابطہ حیات ہے لہٰذا اس نے انسان کی رہنمائی کرتے ہوئے اسے جذبات میں فیصلہ کرنے سے منع فرماتے ہوئے اپنے ہوش و ہواس کو قابو میں رکھنے اور اچھی طرح غور وفکر کرنے کی ترغیب دی ہے جسے قرآن مجید نے صبر کی اصطلاح سے تعبیر کیا ہے۔
عربی لغت میں صبر کا معنی برداشت سے کام لینے۔ خود کو کسی بات سے روکنے اور باز رکھنے کے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں صبر کا مفہوم یہ ہے کہ نفسانی خواہشات کو عقل پر غالب نہ آنے دیا جائے اور شرعی حدود سے تجاوز نہ کیا جائے۔ صبر کے عمل میں ارادے کی مضبوطی اور عزم کی پختگی ضروری ہے۔ بے کسی، مجبوری اور لاچاری کی حالت میں کچھ نہ کرسکنا اور روکر کسی تکلیف و مصیبت کو برداشت کرلینا ہرگز صبر نہیں ہے بلکہ صبر کا تانا بانا استقلال و ثابت قدمی سے قائم رہتا ہے اس وصف کو قائم رکھنا ہی صبر ہے۔
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے صبر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
أُوْلَئِکَ یُؤْتَوْنَ أَجْرَهُم مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوا وَیَدْرَؤُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ یُنفِقُونَ.
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دوبار دیا جائے گا اس وجہ سے کہ انہوں نے صبر کیا اور وہ برائی کو بھلائی کے ذریعے دفع کرتے ہیں اور اس عطا میں سے جو ہم نے انہیں بخشی خرچ کرتے ہیں۔
( القصص، 28: 54)
اللہ تعالیٰ دیگر نیک اعمال کے مقابلہ میں صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر عطا فرمائے گا ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ یَا عِبَادِ الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّکُمْ لِلَّذِینَ أَحْسَنُوا فِی هَذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃٌ وَأَرْضُ اللَّہِ وَاسِعَۃٌ إِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَیْرِ حِسَابٍ.
(الزمر، 39: 10)
(محبوب میری طرف سے) فرما دیجئے: اے میرے بندو! جو ایمان لائے ہو اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے جو اس دنیا میں صاحبانِ احسان ہوئے، بہترین صلہ ہے، اور اللہ کی سرزمین کشادہ ہے، بلاشبہ صبر کرنے والوں کو اُن کا اجر بے حساب انداز سے پورا دیا جائے گا۔
شکر اخلاق، اعمال اور عبادات کا بنیادی جزو ہے۔ جذبۂ شکر کے بغیر تمام اعمال و عبادات بے معنی ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں شکر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
مَّا یَفْعَلُ اللّهُ بِعَذَابِکُمْ إِن شَکَرْتُمْ وَآمَنتُمْ وَکَانَ اللّهُ شَاکِرًا عَلِیمًا.
(النساء، 4: 147)
اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر گزار بن جاؤ اور ایمان لے آؤ، اور اللہ (ہر حق کا) قدر شناس ہے (ہر عمل کا) خوب جاننے والا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ شکر کو ملا کر ذکر کیا اور ان دونوں کو رفع عذاب کا باعث قرار دیا۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْ کُرْکُمْ وَاشْکُرُوْالِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِo
سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو۔
(البقرہ، 2: 152)
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو کثرت سے قیام فرماتے اور عبادتِ الٰہی میں مشغول رہتے۔ کثرتِ قیام کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک پاؤں سوج جاتے۔ آپ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم ! آپ تو اللہ تعالیٰ کے محبوب اور برگزیدہ بندے ہیں پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اَفَلَا اَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا.
(مسلم، الصحیح، 4: 2172، رقم: 2825)
کہا میں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں۔
گویا پتہ چلا کہ صبر و شکر دونوں لازم و ملزوم ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو ملا دیا اور قرآن حکیم میں دونوں کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا:
فَقَالُوا رَبَّنَا بَاعِدْ بَیْنَ أَسْفَارِنَا وَظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ فَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِیثَ وَمَزَّقْنَاهُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُورٍ.
( السباء، 34: 19)
تو وہ کہنے لگے: اے ہمارے رب! ہماری منازلِ سفر کے درمیان فاصلے پیدا کردے اور انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تو ہم نے انہیں(عِبرت کے) فسانے بنا دیا اور ہم نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرکے منتشر کر دیا۔ بیشک اس میں بہت صابر اور نہایت شکر گزار شخص کے لئے نشانیاں ہیں۔
حضرت مغیرہ بن عامر سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
الشکر نصف الایمان والصبر نصف الایمان و الیقین الایمان کله.
صبر نصف ایمان ہے، اور شکر نصف ایمان اور یقین کامل ایمان ہے۔
( بیهقی، شعب الایمان، 4: 109، رقم: 4448)
یعنی یقین دونوں کی اصل ہے اور یہ دونوں اس کے پھل ہیں۔
حضرت معاذبن انسؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اپنا غصہ اتارنے اور بدلہ لینے پر قادر ہو اور اس کے باوجود وہ اپنے غصہ کو دبائے اور قابو میں رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن مخلوق کے سامنے بلائیں گے اور اختیار دیں گے کہ وہ جنت کی آہو چشم حوروں میں سے جس کو چاہے لے لے۔ (ترمذی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے کوئی وصیت فرمائیے۔ جس پر میں عمر بھر کاربند رہوں، آپ نے فرمایا: غصہ کبھی مت کرنا، راوی کہتے ہیں اس شخص نے اپنی کوتاہ فہمی کی وجہ سے باربار یہی سوال لوٹایا، مجھے وصیت کیجیے، آپ نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا، غصہ کبھی مت کرنا۔ (صحیح بخاری)
صبر میں اگر اخلاص موجود ہو تو انسان کی روح کو شفافیت ملتی ہے۔ ایک متحمل مزاج آدمی ہی جذبہ تخلیق سے آراستہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس عدم برداشت آدمی کی تخلیقی صلاحیتوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:
الَّذِینَ یُنفِقُونَ فِی السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْکَاظِمِینَ الْغَیْظَ وَالْعَافِینَ عَنِ النَّاسِ وَاللّهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ.
(آل عمران، 3: 134)
یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
عدم برداشت اور بے صبری یقین اور اطمینان کی قوتوں کو ختم کر دیتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ لوگ دل برداشتہ ہو کر بڑے بڑے جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ معمولی معمولی باتوں پر لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ بہت سے لوگ عدم برداشت کی وجہ سے اپنی جان کو ختم بھی کر دیتے ہیں۔
برداشت اور تحمل نئی امیدوں کو پروان چڑھاتی ہے۔ امید اور یقین کی قوت سے ہی انسانی معاشرے کی تقدیر بدل جاتی ہے۔ برداشت معاشرتی ترقی اور رواداری کی نئی راہیں کھول دیتی ہے۔اس وقت پاکستانی معاشرے کو سب سے زیادہ ضرورت صبر و تحمل اور برداشت کی ہے۔ صبر و تحمل ہی ہمارے امن و سکون اور معاشرتی ترقی کی ضامن ہے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری قوتوں کے باوجود کبھی انتقامی جذبات سے کام نہیں لیا۔ قریش نے آپ کو گالیاں دیں، مارنے کی دھمکی دی، راستوں میں کانٹے بچھائے، جسمِ اطہر پر نجاستیں ڈالیں، گلے میں پھندا ڈال کر کھینچا، آپ کی شان میں ہزار گستاخیاں کیں؛ مگر کوئی ایسی مثال نہیں کہ غیظ و غضب سے بے قابو ہوکر آپ نے کوئی کاروائی کی ہو، اگر آپ چاہتے تو ایک اشارہ میں ہزاروں خون آشام تلواریں نکل سکتی تھیں جو آپ کی شان میں گستاخی اور بے ادبی کرنے والوں کا کام تمام کرنے کے لیے کافی ہو جاتیں؛ مگر قربان جائیے رحمت ِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے اس راہ کو اختیار کیا اور نہ مسلمانوں کو اس کی ہدایت دی؛ بلکہ موقع بہ موقع آپ صحابہ کرامؓ کے جذبات کو سکون دینے کی کوشش کرتے اور انھیں صبر و ضبط تواضع و بردباری کا سبق سکھاتے رہتے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نبوت کا اعلان کیا تو مکہ کا سارا ماحول آپ کے لیے اجنبی بن گیا، وہی لوگ جن کے بیچ آپ کا بچپن اور آپ کی جوانی گزری، جو آپ کی امانت و صداقت کے بڑے مداح اور عاشق تھے، آپ کے مخالف اور جانی دشمن ہوگئے، آپ کے رشتہ دار اور اہل خاندان جن سے آپ کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں، ان کا بھی آپ کو کوئی سہارا نہیں ملا، وہ بھی انجانے اورنا آشنا ثابت ہوئے، تنِ تنہا توحید کا پیغام لیے گھر سے باہر نکلے؛ مگر کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ حالات کا رخ بدل گیا، ناموافق ہوائیں اب موافق ہوگئیں، دشمنوں کے دل پسیج گئے اور پھر وہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے دیوانے بنے کہ تاریخِ انسانیت میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
طائف کا واقعہ کسے یاد نہیں ہے، بڑی تمنا اور آرزوئوں کے ساتھ اہل مکہ سے تنگ آکر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا سفر کیا کہ شاید وہاں کے لوگ کچھ موافقت کریں؛ مگر وہ لوگ چار قدم اور آگے نکلے، صرف گالی اور تمسخر پر اکتفا نہیں کیا گیا؛ بلکہ اوباشوں کے ذریعہ اتنے پتھر برسائے گئے کہ قدمِ مبارک خون سے بھیگ گئے، ضعف و کمزوری سے طبیعت بوجھل ہوگئی۔ آپ تھک کر جب بیٹھ جاتے تو زبردستی آپ کو اٹھایا جاتا اور پھر پتھروں کی بارش برسائی جاتی اس عظیم حادثہ سے عرش پہ کہرام مچ گیا، عذاب کے فرشتے نازل کیے گئے؛ مگر نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب تھا: اگر ان لوگوں نے ایمان قبول نہیں کیا تو مجھے امید ہے کہ ان کی نسلیں ضرور اسلام سے وابستہ ہوں گی، اس صبر و برداشت کی کیا دنیا مثال پیش کرسکتی ہے؟
یہیں تک نہیں، دشمنوں سے انتقام کا سب سے بڑا موقع فتح مکہ کا تھا۔ دشمن اس دن مکمل آپ کے قابو میں تھے کہ اگر آپ چاہتے تو ایک ایک اذیت کا بدلہ لے سکتے تھے؛ مگر آپ نے یہ کہتے ہوئے سب کو معاف فرمادیا:
لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ اذْھَبُوْا فَأَنْتُمُ الطُّلَقَاء.
تم پر کوئی ملامت نہیں جائو تم سب آزاد ہو۔
(سیرة النبی، 342/2)
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی صبر و تحمل سے لبریز ہے، کسی موقع پر بھی آپ نے نفسانی جذبات کا استعمال نہیں کیا، غیظ و غضب اور وقتی معاملات سے طیش میں آکر کوئی بھی اقدام بلاشبہ ہزار مفاسد پیدا کرتا ہے؛ اس لیے ضرورت ہے کہ تمام شعبہ ہائے حیات میں صبر و تحمل سے کام لیا جائے، آقا اپنے ملازم کے قصور اور لغزشوں کو معاف کرتے اور اگر وقتی طورپر کبھی آقا ناراض ہوجائے تو ملازم کو بھی اسے برداشت کرنا چاہیے، باپ اپنے بیٹے کے ساتھ اور بیٹا اپنے باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرے، میاں بیوی میں خلش ایک فطری بات ہے؛ مگر اسے باہمی صبرو تحمل سے دور کرتے ہوئے زندگی کو خوش گوار بنانے کی کوشش کی جائے۔ غرض پرسکون اور کامیاب زندگی کے لیے صبر و تحمل اور قوتِ برداشت بنیادی عنصر ہے۔
ہماری پستی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم وقتی طورپر جذبات کے رَو میں بہہ جاتے ہیں، جس سے دوررس نگاہ متأثر ہوجاتی ہے اور سوچ و تدبر کا مزاج نہیں رہتا۔ موجودہ حالات میں خاص طورپر سیرتِ نبوی کے اس پہلو کو اپنانے کی سخت ضرورت ہے۔