ارشا د باری تعالیٰ ہے:
وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ.
(الشعراء، 26: 214)
’’اور (اے حبیبِ مکرّم!) آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو (ہمارے عذاب سے) ڈرائیے‘‘۔
جب بعثت کے بعد اظہار نبوت کا وقت آیا کہ یہ پیغام سب سے پہلے اپنے اقربا تک پہنچادیں۔
قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی.
(الشوریٰ، 42: 23)
’’فرما دیجیے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور اللہ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں)‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کی ابتداء اقربا سے کی جب اسلام کی ابتداء کی بات تھی تب بھی اقربا کام آئے جب اسی اسلام کی بقاء کی بات آئے تب بھی اقرباء تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوہ صفا پر سب کو جمع کیا اس میں غیر لوگ نہیں تھے صرف سردارانِ قریش تھے۔ اپنی صداقت کے تصدق سے اللہ کو منوایا جن کے نصیب میں ایمان نہیں تھا ان میں پیش پیش ابولہب تھا اس نے کچھ نازیبا کلمات بھی کہے۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! تم نے ہمیں یہ کہنے کے لیے جمع کیا تھا چنانچہ مجمع بکھر گیا۔ آپ علیہ السلام گھر آئے تو حضرت علی المرتضیٰؓ جن کی عمر مبارک 9 برس تھی ان کی عمر کے متعلق مختلف روایات ہیں آپ بالکل نوجوانی کی عمر میں تھے نوعمری میں بچہ درحقیقت باپ کے گھر میں رہتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؓ کو بلوایا اور فرمایا کل ہم نے سب قریشی سردار کو بلایا تھا اب انہیں پھر اپنے گھر بلائیں تاکہ میں ان کو دعوت توحید دوں چنانچہ حضرت علیؓ نے سارے سردارانِ قریش کو بلاکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت توحید کی اشاعت کے لیے دستر خوان بچھایا، کھانا پکایا اور آقا علیہ السلام کو بلایا یہ گھر علیؓ کا تھا یا ابی طالب کا تھا؟
یہ گھر ابو طالبؓ کا ہے۔ دار ارقم میں جو چھپے چھپے تبلیغ ہوتی تھی تین سال تک وہ مرکز توحید بعد میں بنا ہے۔ سب سے پہلے گھر جو مرکز توحید بنا وہ دار ابی طالبؓ ہے چنانچہ آقا تشریف لے گئے بکری کی رانیں بھونی، دودھ کے کٹورے رکھے، اہتمام سے کھانا بنایا اور سردارن قریش کو بٹھایا۔ آقا علیہ السلام کو بلاکر کہا حبیب اب آپ بیان کریں۔ پہلا جلسہ کوہ صفا پر، دوسری نشست دعوت و توحید کی دار ابی طالب میں منعقد ہوئی۔ آقا علیہ السلام نے پورا خطاب کیا میزبان حضرت ابو طالبؓ تھے۔ منعقد کرنے والے حضرت علی المرتضیٰؓ تھے اس کے بعد دوسرے دن پھر دعوت کی، آقاؑ پھر تشریف لائے اور کھانا ہوا اور آقاؑ نے دعوت توحید دی، تیسرے دن پھر دعوت کی۔ دارِ ابی طالبؓ میں تین دن تک آقا علیہ السلام دعوت توحید دیتے رہے جب بیان ہوچکا اس میں حضرت ابی طالب کھڑے ہوگئے اس کو ابن اثیر امام طبری دیگر مورخین روایت کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا بھیجے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تین دن آپ سے سن کر آپ کی مدد کرنا، ہمیں آپ کے عمل سے بھی محبت ہوگئی ہے ہم نے آپ کی نصیحت خوب قبول کرلی ہے۔
(ابن اثیر، تاریخ الکامل، ج: 2، ص: 61)
حضرت ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کی تصدیق کا اعلان کردیا اس کے بعد کوئی اور بھی اعلان رہ گیا۔
نبوت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو گواہ ہیں ایک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا ابو مطلب اور ایک آپ کے چچا حضرت ابو طالب اعلان نبوت ابھی مدتوں بعد ہونا تھا۔ آقا علیہ السلام پنگھوڑے میں تھے۔
امام جلال الدین سیوطیؒ نے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک بہت تھوڑی تھی کہ مکہ میں دو سال سے قحط تھا۔ بارش نہ تھی لوگ بہت پریشان تھے۔ وادیاں سوکھ گئی تھیں فصلیں جل گئیں۔ سب لوگ پریشان ہوکر خانہ کعبہ کے پاس کھڑے ہوکر دعا کررہے تھے۔ کوئی لات کو پکارتا کوئی منات کو اور کوئی عزیٰ کو جب بارش نہیں ہوئی کسی نے بآواز بلند کہا کیا کرتے ہو؟ آؤ سب مل کر حضرت ابو طالبؓ کے پاس چلتے ہیں۔ سارے اہل مکہ کے معززین کا وفد حضرت ابو طالبؓ کے پاس پہنچا۔ حضرت ابی طالب نے فرمایا رک جاؤ ذرا سورج ڈھل لے تیز ہوا رک لے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت ابو طالبؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اٹھالیا۔ خانہ کعبہ کی طرف لے کر چل پڑے۔ ہر کوئی بارش مانگنے کے لیے بتوں کی طرف راجع تھا۔ حضرت ابو طالب لات کی طرف گئے نہ منات کی طرف وہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اٹھا کر چل پڑے۔ (یہ اس وقت کی بات ہے جب آقا علیہ السلام کی عمر مبارک سال، 2 سال کی تھی جنہوں نے سال دو سال تک اتنا کچھ دیکھا کیا تھا کہ تین سو ساٹھ بتوں کو چھوڑ دیا۔)
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک کعبۃ اللہ سے لگادی۔ آپ کو اٹھا کر کہا۔ اے رب! اے پروردگار، اے باری تعالیٰ اس بچے کے وسیلے سے بارش دے دے۔ کہتے ہیں کہ دعا کے کلمات ابھی فضاء میں گونج رہے تھے کہ موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔ اتنی بارش ہوئی کہ خطرہ ہوگیا کہ کہیں مسجد نہ گر جائے اس موقع پر حضرت ابو طالبؓ کا کمال دیکھیں وہ شاعر بھی تھے انہوں نے آقاؑ کی شان میں جو شعر کہے اس کو امام بخاری نے جامع الصحیح میں لیا پھر عمر بھر اسی قصیدے میں لکھتے رہے۔ سو سے زائد اشعار ’’ل‘‘ کے کافیہ میں لکھ ڈالے اس کو قصیدہ لامیہ کہتے ہیں۔
اے گورے چہرے والے آپ کی ذات اتنی بابرکت ہے آپ کے چہرے کے صدقے سے بادلوں سے بارش لی جاتی ہے۔
(بخاری، الصحیح، ج: 1، ص: 342)
یہ دو سال کو دیکھ کر کہہ رہے ہیں کہ چالیس سال کا زمانہ دیکھ کر کہہ رہے ہیں جو لوگوں نے چالیس سال بعد دیکھا ابی طالب کی نگاہ چالیس سال پہلے دیکھ رہی تھی۔ بیواؤں کی عصمت کے محافظ ہیں۔ ہاشم کی بھوکی پیاسی ہلاکت میں گھری ہوئی اولاد ہر وقت آپ کو گھیرے رکھتی ہے کیونکہ ان کے لیے آپ کے دامن میں ساری نعمتیں ہیں، ساری فضیلتیں ہیں۔ فرمایا: میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا انکار کرنے والو سنو! بیت اللہ کی قسم تم نے غلط خیال کیا کہ تم ہم سے لڑ کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا راستہ روک لو گے۔ تم نے غلط خیال کیا کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاملے میں تم سے مغلوب ہوجائیں گے، نہیں اور ہم انہیں تمہارے حوالے کردیں گے اگر وقت آیا تو اس محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اردگرد اپنی جانیں لے کر بچھ جائیں گے ان کی خاطر بیوی، بچوں کو بھی قربان کردیں گے۔
حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو طالبؓ کی گواہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چالیس سالوں پر محیط ہے۔ حضرت ابو طالب متولی کعبہ تھے۔ عرب تاجروں کا قافلہ ملک شام کی طرف جارہا تھا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ساتھ چل پڑے تھے۔
(صحیح بخاری، ج: 1، ص: 127)
حضرت ابی موسیٰ اشعری راوی ہیں۔ راستے میں پہنچتے ایک مقام آیا جو بحیرہ راہب کی جگہ تھی اس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا قریب آگئے۔ آکر اتارا ساتھ لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس نے کہا یہ رسول رب العالمین، یہ سیدالعالمین ہیں اللہ نے انہیں رحمت للعالمین بناکر مبعوث کیا ہے۔
بوڑھے اشخاص سن کر بولے اے راہب یہ سارا کچھ تمہیں کیسے پتہ چلا تمہارے علم کی بنیاد کیا ہے؟ اس نے کہا خدا کی قسم میں نے دیکھا جب تم گھاٹی سے اترے کوئی پتھر، کوئی درخت ایسا نہ تھا جو انہیں دیکھ کر سجدہ نہ کررہا ہو۔ ہم نے کتابوں میں پڑھا ہے درخت اور پتھر سوائے نبی کے کسی کو سجدہ نہیں کرتے۔ یہ نبی آخرالزمان ہیں۔ یہود اس کی تاک میں ہیں۔ یہ باتیں ہورہی تھیں کہ وہاں یہودی آنکلے اس نے پوچھا تم کیوں آئے ہو انہوں نے کہا ہمیں اپنے راہبوں نے خبر دی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی آخرالزمان پیدا ہوچکا ہے وہ ان دنوں میں ملک شام کے سفر پر ہے ہم انہیں پکڑنے کے لیے نکلے ہیں۔ بحیرہ راہب نے ابو طالبؓ سے کہا تم نے دیکھ لیا اور سن لیا اسے شام میں نہ لے جائیں۔ یہ نبی آخرالزماں ہیں لوگ ان کے درپے ہیں۔ انہیں باحفاظت واپس بھیج دیں۔ اگر حضرت ابو طالبؓ بحیرہ راہب کی اس بات پر یقین نہ کرتے تو کہتے کہ مجھے خوش کرنے کے لیے کہہ رہا ہے، بات سنی ان سنی کردیتے لیکن حضرت ابو طالبؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واپس مکہ بھیج دیا۔ (جامع ترمذی)
راوی بیان کرتے ہیں جمعہ کا دن تھا آقا علیہ السلام منبر پر تھے خطبہ ارشاد فرمارہے تھے اتنا قحط تھا کہ درخت سوکھ گئے، لوگ مرنے کو تھے۔ حالت خطبہ میں ایک اعرابی کھڑا ہوگیا۔ ہاتھ جوڑ کر عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہمارے مویشی ہلاک ہونے لگے، بچے بھوک سے مرنے لگے، قحط سالی کی انتہا ہوگئی۔ اللہ کے حضور ہمارے لیے بارش کی سفارش کردیں۔ آقا علیہ السلام نے جب فریاد سنی تو حالت خطبہ میں مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ ابھی اٹھے تھے کہ بادل امڈ آئے، ابھی نیچے نہیں آئے تھے کہ موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔ آقا علیہ السلام جب منبر سے نیچے اترے تو ریش مبارک سے پانی ٹپک رہا تھا۔ آٹھ دن گزر گئے اگلا جمعہ آگیا بارش ایک لمحہ نہیں تھمی۔ آقا علیہ السلام پھر منبر پر خطبہ جمعہ کے لیے آئے پھر اعرابی کھڑے ہوگئے۔ یارسول اللہ! مرگئے خدا کے لیے اس بارش کو تھمادیں۔ میرے آقاؑ نے انگلی کھڑی کی اور عرض کیا باری تعالیٰ ہمارے گردو نواح میں ہو ہمارے اوپر نہ ہو جوں جوں اشارہ کرتے بادل پھٹتے جاتے تھے جہاں ضرورت رہی وہاں بارش رہی جو وادی بھر گئی وہاں رک گئی۔
امام حجر عسقلانیؒ نے بیان کیا جب یہ منظر ہوچکا آقا علیہ السلام یہ منظر دیکھ کر خوش ہوئے۔ اتنے ہنسے کے دندان مبارک نظر آنے لگے۔ کہنے لگے آج میرا چچا ابو طالب زندہ ہوتے تو اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتی۔ ایسے موقع پر کون کیسے یاد کرتا ہے؟ کوئی کافر کو یاد کرتا ہے۔ آقا علیہ السلام کو یاد تھا کہ میرا چچا میرے چہرے کا وسیلہ دے کر بارش مانگتے تھے۔ اس سے بڑی بھی دلیل ایمان کوئی ہے۔ فرمانے لگے کوئی ہے جو مجھے اپنے چچا ابو طالب کے شعر سنادے۔ حدیث میں ہے کہ کئی صحابہ کھڑے ہوگئے صحابہ نے عرض کیا: لگتا ہے کہ آپ ان کا یہ شعر سننا چاہتے ہیں۔ فرمایا ہاں پھر مولا علی المرتضیٰؓ نے یہ شعر گنگنایا۔
جب عمر مبارک 11، 10 سال کی ہوجاتی ہے۔ اب تنہا ابو طالب گواہ ہیں۔ 9 سال کی عمر میں جو کچھ بحیرہ راہب نے کہا تھا ابو طالبؓ نے اس پر عمل کرکے ایمان کی قبولیت کا اعلان کردیا۔ جب انہوں نے دیکھ لیا کہ سب ان کے دشمن ہوگئے ہیں انہوں نے کہا میرے محبوب یہ دشمن ہوگئے ہیں میرا دل چاہتا ہے کہ میں مستقل آپ کے ساتھ ایک گارڈ رکھ دوں۔ تیرہ سال ہر روز یہ عمل رہا کہ ایک گارڈ مقرر کرتے جو طریقہ چچا نے بنادیا یہ مدینہ میں بھی جاری رہا یہاں تک یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔
وَ اللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ.
(المائدہ، 5: 67)
’’اور اللہ (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا‘‘۔
اللہ نے آیت اتاری جبرائیلؑ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتادیں اب گارڈ ہٹادیں اب ہم خود تمہارے گارڈ ہوگئے ہیں۔ یہ تو تیرہ برس کا معمول تھا جب معاشرتی مقاطعہ ہوگیا تھا کفارو مشرکین کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں پسند نہیں آئیں۔ حکمرانوں کے تخت کو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود خطرہ لگنے لگ گیا تھا۔ انہوں نے کہا مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے سرداریوں کے نظام کو چیلنج کردیا ہے۔ بڑھتے بڑھتے وہ دشمنی یہاں تک پہنچی کہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پورے بنی ہاشم کا بائیکاٹ کردیا اور شعب ابی طالب میں قید کردیا اس عرصے میں کیا معمول تھا امام ابو نعیم الصفہانی بیان کرتے ہیں جب ہر کوئی اپنے اپنے بستر پر سو جاتا تو ابو طالب کہتے میرے پیارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ بھی سب کے سامنے اپنے بستر پر لیٹ جائیں کیونکہ دشمن مخالف جھانک کر دیکھتے تھے۔ حضرت ابو طالبؓ خود بیٹھتے تکتے رہتے جب اندھیرا چھا جاتا، دیکھتے اب کوئی نہیں دیکھ رہا ہوگا۔ حضرت ابو طالبؓ خاموشی سے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اٹھاتے، ادھر سے علی مرتضیٰؓ کو اٹھاتے اگر کوئی بدبخت تلوار لے کر حملہ کرے تو میرے علیؓ پر ہوجائے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نہ ہو۔ اگر کوئی کہے کہ یتیم بھتیجے سے محبت بہت تھی۔ کوئی شک نہیں لیکن کوئی اس محبت پر بیٹا بھی قربان کرتا ہے؟
اگر یہ عمل بھتیجا سمجھ کر کرتے تو اوروں کو لٹاتے علی کو نہ لٹاتے۔ اگر علیؓ کو اس بستر پر لٹادیا تو محبت بھتیجا سمجھ کر نہیں بلکہ آخرالزماں کرکے کی تھی۔ اگلی رات دوسرے بیٹے کو لٹادیتے کسی بھائی کو لٹادیتے۔ تین سال تک ایک رات بھی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے بستر پر نہیں سونے دیا۔ ایمان والوں کے ایمان ابوطالب کے تین سالوں کی راتوں کے اس عمل پر قربان ہوجائیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام چھوٹی عمر میں ہیں بے آب و گیاہ ریگستان پر لیٹے ہیں۔ صفا مروہ کی پہاڑیاں اور وادیاں ہیں حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش میں دوڑ رہی ہیں ان کے دوڑنے نے صفا مروہ کو شعائر اللہ بنادیا۔ اس دوران حضرت اسماعیلؑ کی پیاس بڑھی انہوں نے ایڑی رگڑی ان کی ایڑی رگڑنے سے چشمہ نکل آیا وہ چشمہ چار ہزار سال سے رواں ہے وہ چشمہ حضرت اسماعیلؑ کی خاطر نکلا۔
ایک چشمہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایڑی سے بھی نکلا طبقات ابن سعد میں ہے۔ راوی حضرت عمر بن سعیدؓ انہوں نے حضرت ابو طالبؓ سے روایت کیا کیا کسی کافر سے روایت لی جاسکتی ہے؟ ’’انہوں نے کہا کہ میں اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ذوالمجاز میں تھا۔ مجھے شدت کی پیاس لگی تو میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا مجھے پیاس لگی اور پانی نہیں مل رہا ہر طرف دیکھا آقاؑ پریشان ہوگئے کہ ہمارے چچا کو پیاس لگی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایڑھی ماری زمین سے چشمہ پھوٹ گیا۔ فرمایا چچا ابو طالبؓ یہ چشمہ آپ کے لیے ہے‘‘ جو راز میری سمجھ میں آیا ہے وہ یہ کہ جو اپنے چچا کی ایک لمحے کی پیاس گوارا نہیں کرتے۔ غیرت ایمانی سے بتائیں کہ آقاؑ کو آخرت میں ابو طالبؓ کی پیاس گوارا ہوگی۔ آخرت میں لاکھوں چشمے چچا کو دے دیں گے۔
ابن جوزی اور دیگر محدثین نے اپنی کتب میں روایت کیا ہے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ سے نکاح کا وقت آیا تو حضرت ابو طالبؓ نے نکاح پڑھایا۔ مہر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقد کا ابو طالب نے اپنی جیب سے ادا کیا۔ حضرت آدمؑ و حواؑ کا بھی نکاح اور مہر ہوا تھا۔ آدمؑ نے عرض کیا باری تعالیٰ ہمارا نکاح کون پڑھائے اور مہر کیا ہوگا؟ فرمایا: آدم و حوا دونوں مل کر میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھ دو یہی مہر نکاح ہوجائے گا۔ ایمان والو! سوچنے کی بات ہے۔ حضرت آدم کا نکاح ہو تو مہر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درود کا رکھا جائے کیونکہ اسی صلب سے سب نبیوں نے آنا ہے۔ حضرت آدم و حوا کے نکاح پر مہر درود بر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو۔ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نکاح ہو تو مہر کسی کافر کی جیب سے قبول کرلیا جائے۔
حضرت خدیجہؓ جس کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی نہیں بھولے۔ ابولہب، ابو جہل بھی چچا تھے کسی اور کا مہر گوارا نہیں کیا۔ ابو طالبؓ کی جیب کا مہر گوارا کیا کیونکہ اس میں سے حسینؓ نے آنا ہے۔ انہیں منتخب کیوں کیا؟ اس لیے جب اشاعت اسلام کا وقت آئے گا۔ اسلام کی ابتداء بھی ابو طالبؓ کے گھر سے ہوگی جب اسلام کی بقاء کا وقت آئے گا تو اسی کے اولاد حضرت حسین علیہ السلام کے در سے ہوئی۔