اخلاق حسنہ اوراوصاف جمیلہ انسانی معاشرے کی مضبوطی اور بقاء کی بنیادی اقدار میں سے شمار ہوتا ہے جس معاشرے کے افراد اخلاق حسنہ کے اوصاف اور خوبیوں سے مزین ہوتے ہیں وہ معاشرہ بہترین تصور کیا جاتا ہے۔ اسلام جس ضابطہ اخلاق کی بات کرتا ہے وہ دنیا کے تمام ضابطوں سے بہترین اور اکمل ہے۔ علاوہ ازیں اخلاق حسنہ دنیا کے تمام مذاہب کا مشترکہ باب الہامی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء و مرسلین نے اصلاح معاشرہ کے لیے اخلاق حسنہ کی تکمیل پرزور دیا اور خاتم المرسلین نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کو قرآن کریم نے خلق عظیم سے تعبیر فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِنَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیمٍ.
(القلم: 4)
اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)
حضرت عائشہ سے کسی نے ایک دن پوچھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے ؟ توآپ نے جواب دیا؟
کَانَ خُلُقُ نَبِیِّ اللّٰهَ صلی الله علیه وآله وسلم الْقُرْآنَ. (رواہ مسلم)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے اثرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مقدس نفوس پر جب ظاہر ہوئے تو کوئی صداقت میں امام بن گیا، کوئی عدل و انصاف کا علمبردار ٹھہرا، کسی نے حضور کی ذات سے عکس سخاوت کی خیرات پائی اور کوئی شجاعت و بہادری کی مثال بن کر سامنے آیا۔ الغرض حضور کی ذات مبارکہ کے جمیع اوصاف و اخلاق کی خیرات سے صحابہ کرامؓ نے وافر اور کثیر حصہ پایا۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیماتِ اخلاق حسنہ صحابہ کے ذریعے آنے والے زمانہ تک پھیلتی چلی گئیں اور جمیع تابعین، اتباع التابعین، سلف صالحین، آئمہ و مجتہدین اور اولیائے کاملین نے اپنے اپنے زمانہ میں فیض حاصل کیا۔ بعدازاں اسی فیضِ اخلاق حسنہ کو عام کرتے ہوئے اولیائے کرام نے لوگوں کی زندگیوں میں روحانی، علمی، فکری، تربیتی و اخلاقی انقلاب برپا کیا اور افراد معاشرہ کے ظاہری و باطنی اخلاق کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ذیل میں ہم تمام اولیائے کے سردار امام الاولیائ، سلطان الاولیائ، محی الدین، غوث الوریٰ، حضورسیدناعبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اخلاق حسنہ کا تذکرہ کریں گے۔
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی خدمات و افکارکی وجہ سے مسلم دنیا میں آپ کو غوثِ الاعظم دستگیر کاخطاب دیا گیا ہے۔ آپؒ کاشمارناموراولیاء اللہ میں ہوتاہے۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مادرزادکامل ولی تھے۔ آپؒ کاتعلق سادات گھرانے سے ہے۔ آپؒ حسنی وحسینی سیدہیں۔آپؒ کاسلسلہ نسب والدماجدکی طرف سے حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ ؓ اوروالدہ ماجدہ کی طرف سے حضرت سیدناامام حسینؓ سے ملتاہے۔ گویاآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والدماجدحسنی سادات سے اوروالدہ ماجدہ حسینی سادات سے تعلق رکھتے تھے۔ اس طرح آپؒ نجیب الطرفین ہوئے۔یوں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کاسلسلہ نسب حضرت سیدناعلی المرتضی شیرخداکرم اللہ وجہہ الکریم سے جاملتاہے۔
آپؒ کے اخلاق و عادات وَإِنَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیمٍ کا نمونہ اور إِنَّکَ لَعَلَی هُدًی مُّسْتَقِیمٍ کا مصداق تھے، آپ عالی مرتبت، جلیل القدر، وسیع العلم ہونے اور شان و شوکت کے باوجود ضعیفوں میں بیٹھتے، فقیروں کے ساتھ تواضع سے پیش آتے، بڑوں کی عزت، چھوٹوں پر شفقت فرماتے، سلام کرنے میں پہل کرتے اور طالب علموں اور مہمانوں کے ساتھ دیر تک بیٹھتے، بلکہ شاگردوں کی لغزشوں اور گستاخیوں سے درگزر فرماتے، اپنے مہمان اور ہمنشین سے دوسروں کی نسبت انتہائی خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی سے پیش آتے، آپ کبھی نافرمانوں، سرکشوں، ظالموں اور مالداروں کے لیے کھڑے نہ ہوتے نہ کبھی کسی وزیر و حاکم کے دروازے پر جاتے، الغرض مشائخِ وقت میں سے کوئی بھی حسنِ خلق، وسعت قلب، کرمِ نفس، مہربانی اور عہد کی نگہداشت میں آپ کی برابری نہیں کر سکتا تھا۔ آپؒ علم و عرفان کا مینار تھے جس کا اعتراف آپ کے معاصر اور متاخر علماء نے کیا۔عجز و انکساری آپ کا وصف اور حق گوئی آپ کا خاصہ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر آپ کا شیوہ تھا۔ بسیار گوئی سے پرہیز کرتے تھے۔غریبوں سے شفقت اور مریضوں کی عیادت آپ کا وطیرہ تھا۔سخاوت کا مجسمہ اور پیکر عفو و کرم تھے۔ نہایت رقیق القلب اور شرم و حیا میں اپنی مثال آپ تھے۔ وسیع القلب، کریم النفس، مہربان، وعدوں کے پاسدار، خوش گفتار اورخوش اطوار تھے۔ آپ بہت غریب پرور اور مساکین کی مدد کرنے والے تھے۔
شیخ معمربیان کرتے ہیں: میری آنکھوں نے شیخ عبد القادر جیلانی کے سوا کسی کو اتنا خوش اخلاق، وسیع القلب، کریم النفس، نرم دل، مہربان، وعدوں اور دوستی کاپاس رکھنے والا نہیں دیکھا لیکن اتنے بلند مرتبت اور قدر و منزلت اور وسیع العلم ہونے کے باوجود چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آتے اور بزرگوں کا احترام کرتے، سلام میں ابتداء کرتے اور بزرگوں کے ساتھ بیٹھتے۔ فقراء کے ساتھ حلم و تواضع سے پیش آتے۔ کبھی کسی حاکم یا بڑے آدمی کے لیے کھڑے نہ ہوتے، نہ کبھی سلطان وزیر کے دروازے پرنہیں جاتے۔
(قلائد الجواهر، صفحه: 19)
آپ نے اخلاق حسنہ کے بارے میں اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے نصیحت فرمائی اورفرمایا اے بیٹے میں تمہیں یہ وصیت کرتا ہوں اسے ہمیشہ یاد رکھنا:
اغنیاء کے ساتھ تم بھی بطور ایک غنی اور پروقار بن کر رہنا جبکہ فقراء کے ساتھ عاجزی اور تواضع سے رہنا۔
مخلوق میں سے خدا تعالیٰ کے سب سے زیادہ نزدیک وہ شخص ہے جو اخلاق میں سب سے زیادہ عمدہ اخلاق کا مالک ہے۔
فقراء کی خدمت کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ فقراء کے معاملہ میں تین چیزوں کی پابندی لازمی ہے: تواضع انکساری، حسن آداب، سخاوت نفس۔
اپنی حاجتوں کو کسی شخص کے سامنے نہ رکھنا، چاہے اس کے اور تمہارے بیچ محبت، مودت اور قرابت دوستی کا تعلق ہی کیوں نہ ہو۔
تمام اعمال میں سب سے زیادہ افضل عمل ایسی چیز میں التفات سے بچنا ہے جو خدا تعالیٰ کو اذیت دے یعنی اس کی ناراضگی کا سبب بنے۔
جب فقراء کو خواہشات آلیں تو تم ان سے کنارہ کشی کرنا کیونکہ حقیقی فقیر خدا تعالیٰ کی ذات کے سواء ہر چیز سے مستغنی ہوتا ہے۔
آپ کے اخلاق حسنہ اور اوصاف عظیمہ کے نمایاں پہلو درج ذیل ہیں:
عفوو درگزر:
انسانی معاشرے کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے والا اہم اخلاق اور بہترین عادت درگزر کرنا ہے۔کیونکہ درگزر کرنا معاشرے کو پرامن رکھتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَاعْفُواْ وَاصْفَحُواْ حَتَّی یَأْتِیَ اللّہُ بِأَمْرِهِ إِنَّ اللّہَ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیرٌ.
(البقره، 109)
سو تم درگزر کرتے رہو اور نظرانداز کرتے رہو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دے، بیشک اللہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے۔
حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ عفوو درگزر اور محبت و شفقت میں اپنی مثال آپ تھے۔آپ کی مجلس میں حاضر ہونے والا یہی سمجھتا کہ آپ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ میری عزت افزائی کی جاتی ہے۔ آپ اپنے احباب کی خطاؤں سے درگزر فرماتے اور جو شخص قسم کھا کر کچھ عرض کرتا اس کی بات تسلیم کر لیتے اور اپنے علم کا اظہار نہ فرماتے۔
جس زمانے میں آپ مدرسہ نظامیہ میں پڑھاتے تھے اس دور میں خصوصی طور پر آپ نے طلبہ کی غلطیوں کو در گزر فرمایا، کسی پر ظلم ہوتا دیکھتے تو آپ کو جلال آجاتا مگر اپنے معاملے میں کبھی غصہ نہ آتا، اگر بتقاضائے بشری غصہ آجاتا تو خدا تم پر رحم کرے سے زیادہ کچھ نہ فرماتے۔ آپ فرمایا کرتے تھے اگر برائی کا بدلہ برائی سے دیا جائے تو یہ دنیا خونخوار درندوں کا گھر بن جائے۔
نرم دلی:
ایک روز آپ ؒخلوت میں بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے۔ آپ کے لباس و دستار پر چھت سے مٹی گری، تین مرتبہ تو آپ نے مٹی کو جھاڑ دیا، چوتھی مرتبہ آپ نے نظر اٹھا کر اوپر دیکھا تو ایک چوہا چھت کاٹ رہا ہے، محض نظر پڑنے سے ہی چوہے کا سر ایک طرف اور دھڑ دوسری طرف گرا، آپ لکھنا چھوڑ کر رونے لگے، راوی کہتا ہے کہ میں نے رونے کا سبب دریافت کیا، آپ نے فرمایا میں ڈرتا ہوں کہ کبھی کسی مسلمان سے مجھے تکلیف پہنچے اور اس کی بھی وہی حالت ہو جو اس چوہے کی ہوئی۔
اسی طرح ایک روز آپ مدرسہ میں وضو کر رہے تھے اچانک ایک چڑیا نے ہوا میں اڑتے ہوئے آپ کے لباس پر بیٹ کر دی، آپ کے نظر اٹھاتے ہی وہ چڑیا زمین پر گری، وضو سے فارغ ہوکر لباس سے بیٹ کو دھویا اور جسم سے اتارکر فرمایا کہ اسے لیجاکر فروخت کر دو اور اس کی قیمت فقیروں کو خیرات کر دو کہ اس کا یہی بدلہ ہے۔
غریب پروری:
سیرت طیبہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یتیموں، غریبوں اور مساکین کی ہمیشہ مدد فرماتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محتاجوں کی حاجت روائی کی تلقین کی حتی کہ آپ کے پاس جب مال غنیمت آتا تو اس وقت تک آرام نہ فرماتے جب تک سب مال اللہ کی راہ میں فقراء کو تقسیم نہ فرما لیتے حتی کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے:
"والذی نفس محمد بیده، لو ان عندی احدا ذهبا، لاحببت الا یاتی علی ثلاث لیال وعندی منه دینار اجد من یتقبله منی لیس شیء ارصده فی دین علی" (رواه بخاری)
قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! اگر میرے پاس احد پہاڑ جتنا سونا ہوتا، تو میں پسند کرتا کہ تین راتیں گزرنے سے پہلے پہلے دے دوں اور اپنے پاس ایک دینار تک نہ چھوڑوں سوائے اس کے کہ قرض چکانے کے لیے کچھ رکھوں۔
حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ کا فیض تھا جس کی وجہ سے سیدالاولیاء حضرت شیخ عبدا لقادر جیلانیؒ ہمیشہ حاجت رواؤں کی حاجت روائی فرماتے تھے۔ آپ بہت رقیق القلب اور غریبوں، مسکینوں کے لئے سراپا رحمت تھے، فقراء سے بے حد محبت فرماتے، انہیں اپنے ساتھ بٹھاتے، کھانا کھلاتے اور ان کی جو بھی خدمت بن آتی کرتے۔ کسی شخص کو تکلیف اور دکھ میں مبتلا نہیں دیکھ سکتے تھے۔
ایک مرتبہ آپ اپنی شہرت کے زمانہ میں حج کے ارادہ سے نکلے، جب بغداد کے قریب ایک موضع میں جس کا نام حلہ تھا پہنچے تو حکم دیا کہ یہاں کوئی ایسا گھر تلاش کرو جو سب سے زیادہ ٹوٹا پھوٹا اور اجڑا ہوا سا ہو، ہم اس میں قیام کریں گے اگرچہ وہاں کے امیروں اور رئیسوں نے بڑے اچھے اچھے مکانات آپ کے سامنے قیام کرنے کے لیے پیش کیے لیکن آپ نے انکار فرما دیا، تلاش بسیار کے بعد ایسا ایک مکان مل گیا جس میں بڑھیا، بڈھا اور ایک بچی تھی، آپ نے بڑے میاں سے اجازت لے کر رات اس مکان میں گزاری اور وہ تمام نذرانے اور ہدایا جو نقد، جنس اور حیوانات کی صورت میں آپ کو پیش کیے گئے تھے یہ کہہ کر کہ میں اپنے حق سے دستبردار ہوتا ہوں وہ تمام کے تمام بڑے میاں کو دیدیے، حاضرین نے بھی آپ کی موافقت میں تمام مال و اسباب ان بڑے میاں کو دیدیا اللہ تعالیٰ نے اس بوڑھے کو آپ کے مبارک قدموں کی برکت سے ایسی دولت عطا فرمائی کہ ان کی اطراف میں کسی کو نہ ملی۔
خدمت خلق:
سخی اللہ کا دوست اور سخاوت مومنین کی علامت ہے۔ ولی اللہ کبھی بخیل و کنجوس نہیں ہوتا۔آپؒ نے ہمیشہ مخلوقِ خدا کی بھلائی کی، اپنے پاس آنے والوں کی راہِ ہدایت کی طرف رہنمائی فرمائی، بے شمار مخلوقِ خدا کو دعاؤں کے ذریعہ نجات کے راستے پر گامزن کیا، اگر کوئی پریشان حال آیا تو اس کی بات سُن کر ہر ممکن مدد کی، مخلوقِ خدا آپ کو غمخوار جانتے ہوئے جوق در جوق آتی تھی اور آپ کی صحبت سے سکون حاصل کر کے جاتی۔
روایت ہے کہ آپ کی خدمت میں ایک تاجر نے آکر عرض کیا کہ میرے پاس ایسا مال ہے جو زکوۃ کا نہیں اور میں اسے فقراء و مساکین پر خرچ کرنا چاہتاہوں لیکن مستحق و غیر مستحق کو نہیں پہنچانتا، آپ جس کو مستحق سمجھیں عطا فرما دیں۔ آپ نے جواب دیا کہ مستحق و غیر مستحق میں سے جس کو چاہو دے دو تاکہ اللہ تعالیٰ تمہیں وہ چیزں دے جس کے تم مستحق ہو اور وہ چیزیں بھی عطا کرے جس کے تم مستحق نہیں۔
شیخ عبد القادر جیلانیؒ حقوق العباد کا بہت خیال رکھتے تھے۔ شیخ الاسلام عز الدین بیان کرتے ہیں:
اس قدر تواتر کے ساتھ کسی کی کرامتیں نہیں ملتیں جتنی کہ سلطان الاولیاء شیخ عبد القادر جیلانیؒ سے ظاہر ہوئیں۔ حضرت شیخ نہایت درجہ حساس تھے اور قوانین شرعیہ پر سختی سے عمل پیرا تھے اور ان کی طرف تمام لوگوں کو متوجہ کرتے تھے۔ مخالفین شریعت سے اظہار تنفر کرتے۔ اپنی تمام تر عبادات، مجاہدات کے باوجود آپ اپنی بیوی اور بچوں کا پورا خیال رکھتے تھے۔ آپ فرماتے تھے کہ جو شخص حقوق اللہ و حقوق العباد کی راہوں پر گامزن رہتا ہے وہ بہ نسبت دوسرے لوگوں کے مکمل اور جامع ہوتا ہے کیونکہ یہی صفت شارع علیہ السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھی تھی۔
(قلائدالجواهر، ص: 80)
ایثار و سخاوت:
آپ کا دل ہر قسم کے دنیاوی لالچ سے بے نیاز تھا۔ فیاضی کا جذبہ آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ آپ نے تجارت کا پیشہ بھی اپنا رکھا تھا اور اس سے جو لاکھوں روپے آتے تھے اس سے اللہ کے غریب بندوں کی امداد کیا کرتے تھے۔آپ کے جلیل القدر معاصر حضرت شیخ معمر جرارہ فرماتے ہیں۔
شیخ عبد القادرؒ جیسا فراخ دل، پابند عہد باوفا اور بامروت انسان میری نظروں سے نہیں گزرا وہ اپنی عظمتِ روحانی اور فضیلتِ علمی کے باوجود بہت ہی متواضع تھے۔
آپ نے ایک روز ایک فقیر کو شکستہ خاطر ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا دیکھا دریافت فرمایا کہ کس خیال میں ہو اور کیا حال ہے۔ اس نے عرض کیا کہ میں دریا کے کنارے گیا تھا، ملاح کو دینے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں تھا کہ کشتی میں بیٹھ کر دریا پار کرتا۔ ابھی فقیر کی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ ایک شخص نے تیس اشرفیوں سے بھری ہوئی ایک تھیلی آپ کی نذر کی، آپ نے وہ تھیلی اسی وقت فقیر کو دے کر فرمایا اسے لے جا کر ملاح کو دے دو۔
قول و فعل کی ہم آہنگی:
اللہ رب العزت نے قرآن میں ارشاد فرمایا۔
یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ.
(الصف: 2)
اے ایمان والو! تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو۔
قول و فعل میں ہم آہنگی اور مطابقت انسان کے دیانتدار اور سچا ہونے کی پائیدار علامت ہے۔ ایک داعی اور مربی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو ورنہ ارادت مندوں میں شیخ کی بات کا کماحقہ اثر نہیں ہوتا۔ آپؒ کے قول فعل میں مطابقت اس قدر تھی کہ ایک مرتبہ مدرسہ نظامیہ میں مسئلہ قضاء و قدر پر گفتگو فرما رہے تھے، اتنے میں چھت سے ایک بڑا سانپ آپ کی گود میں گرا اور آپ کے کپڑوں میں داخلہ ہو کر گردن کے گرد لپٹ گیا حاضرین دم بخود رہ گئے خوف کے آثار سب کے چہروں پر نمایاں تھے مگر آپ پرسکون رہے۔آپ نے نہ تو سلسلہ کلام قطع کیا اور نہ ہی پہلو بدلا۔سانپ اچانک آپ سے علیحدہ ہو گیا اور دُم کے بل کھڑا ہو کر کچھ بات کی اور چلا گیا۔حاضرین مجلس نے پوچھا حضرت یہ کیا ماجرا تھا۔ تو آپؒ نے فرمایا اس نے مجھے سے کہا:
میں نے متعدد بار اولیائے کرام کو اس طرح آزمایا مگر کوئی بھی آپ کی طرح ثابت قدم نہ رہا۔تو میں نے جواب دیا کہ میں قضاء و قدر کے موضوع پر تقریر کر رہا تھا اور تو ایک معمولی کیڑا ہے جسے قضاء و قدر حرکت و سکون میں لاتی ہے۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے قول و فعل میں تضاد پایا جائے۔
بعض مشائخِ وقت نے آپ کے اوصاف میں لکھا ہے کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی بڑے بارونق، ہنس مکھ، خندہ رو، بڑے شرمیلے، وسیع الاخلاق، نرم طبیعت، کریم الاخلاق، پاکیزہ اوصاف اور مہربان و شفیق تھے۔جلیس کی عزت کرتے اور مغموم کو دیکھ کر امداد فرماتے ہم نے آپ جیسا فصیح و بلیغ کسی کو نہیں دیکھا۔
بعض مشائخ نے اس طرح وصف بیان فرمایا ہے کہ آپ بکثرت رونے والے، اللہ سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے، آپ کی ہر دعا فوراً قبول ہوتی، نیک اخلاق، بدگوئی سے دور بھاگنے والے اور حق کے سب سے زیادہ قریب تھے، احکام الٰہی کی نافرمانی میں بڑے سخت گیر تھے لیکن اپنے اور غیر اللہ کے لیے کبھی غصہ نہ فرماتے، توفیق خداوندی آپ کی رہنما اور تائید ایزدی آپ کی معاون تھی، علم نے آپ کو مہذب بنایا، قرب نے آپ کو مؤدب بنایا، خطابِ الٰہی آپ کا مشیر اور ملاحظہ خداوندی آپ کا سفیر تھا، انسیت آپ کی ساتھی اور خندہ روئی آپ کی صفت تھی، سچائی آپ کا وظیفہ، فتوحات آپ کا سرمایہ، بردباری آپ کا فن، یاد الٰہی آپ کا وزیر، غور وفکر آپ کا مونس مکاشفہ آپ کی غذا اور مشاہدہ آپ کی شفاء تھے۔ آداب شریعت آپ کا ظاہر اور اوصاف حقیقت آپ کا باطن تھا۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں آپ کے طریق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اخلاق حسنہ سے ہمارے دامن کو مزین فرمائے۔ آمین
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخانؒ نے آپؒ کے حضور یوں نذرانہ عقیدت پیش کیا۔
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا
کیوں نہ قاسم ہو کہ تو ابن ابی القاسم ہے
کیوں نہ قادر ہو کہ مختار ہے بابا تیرا