اگر ہم اسلام کے اوائل میں مسلمانوں کی عظمت و کامرانی کے ساتھ کامیابیوں کا جائزہ لیں تو ان کے مقابلے میں ہمیں دوسری کوئی قوم نظر نہیں آتی اس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف یہی تھی کہ جہاں بھی باطل، حق کی راہ میں حائل ہوا اور اسلامی وقار کا مسئلہ درپیش ہوا تو مسلمانوں نے اللہ کی خاطر صبر و رضا کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے دینِ حق کی آبرو کو بچایا جیسا کہ زوال بغداد کے بعد سلطنت عثمانیہ کی داغ بیل اسلام کی نشاۃ ثانیہ ثابت ہوئی تو اس کے خلاف طاغوتی طاقتیں پھر سے متحد ہوگئیں جس کے نتیجے میں اتنی عظیم اور جلیل القدر اسلامی سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا اور آج یہ وقت آن پہنچا ہے کہ مسلمان محض اپنے دفاع کے لیے جی رہے ہیں اور یہ فراموش کرچکے ہیں کہ کسی بھی پُرعزم اور باہمت قوم کے سامنے دفاعی پوزیشن اس کی بقا کی ضامن نہیں ہوتی اور نہ ہی اس قوم کا نصب العین شمار ہوتی ہے بلکہ مسلم قوم کا اصل نصب العین اللہ کی رضا کی خاطر صبرو استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے باطل قوتوں کے سامنے ڈٹ جانا ہے اور اگر اس راہ میں جان بھی قربان کرنا پڑے تو اللہ کی رضا کی خاطر دین اسلام کی سربلندی کے لیے اپنی جانوں کو بھی راہ حق میں قربان کردیا جائے کیونکہ صبرو رضا کے حصول کے لیے اولین شرط ہی اپنے آپ کو اللہ کی مرضی کا تابع بنانا ہے اور یہی اسلام کے وقار اور عظمت کی سربلندی کی دلیل ہے کہ دشمن طاغوتی طاقتوں کے سامنے اپنے ذاتی مفادات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے انقلاب آشنا فکرو عمل سے دنیا کے نظام کو بدل ڈالا جائے کہ انسان ایسی منزل پر متمکن ہوجائے کہ ’’فضلاً من اللہ و رضواناً‘‘ یعنی صرف اور صرف اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے طالب بن جائیں۔
قوموں کی ترقی میں صبر و رضا کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور جو قومیں صبرو رضا کے دامن کو اپنے ہاتھ سے چھوڑ دیتی ہیں وہ زوال پذیر ہونا شروع ہوجاتی ہیں، مسلمان اقوام کے سامنے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ ایک عظیم الشان مثال ہے جس کا اعتراف مغربی مفکرین کو بھی کرنا پڑا جیسا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب لکھتے ہیں کہ:
’’مغربی مفکرین اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں اپنے تمام تر تعصبات کے باوجود اسلام کی عظیم الشان تہذیب اور ثقافت کی نفی نہیں کرسکے انہیں برملا اعتراف کرنا پڑا کہ مسلمانوں نے یورپ کو تہذیب کی شائستگی کی دولت سے ہی نہیں نوازا بلکہ شخصیت کی تعمیر و کردار کے لیے بنیادیں فراہم کیں اور یوں کرہ ارض پر ان مہذب معاشروں کے قیام کی راہ ہموار کی جو آج بھی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں‘‘۔
تاریخ عالم اس بات پر گواہ ہے کہ مسلمانوں نے کتنا طویل عرصہ اندلس پر حکمرانی کی۔ سلطنت عثمانیہ کی بے مثال حکومت بھی اس بات کا بیّن ثبوت ہے یہ تمام کامیابیاں مسلمانوں کو اپنے کردار کی عظمت و بلندی سے حاصل ہوئیں لیکن جب مسلمانوں نے اپنے کردار کی عظمت کو پش پشت ڈال کر بے عملی کو اپنا شعار بنایا اور اپنی قومی و ملی غیرت کو غیروں کے آگے کم قیمت پر بیچ دیا تو زوال اور انحطاط مسلمانوں کا مقدر بن گیا۔
سیرۃ طیبہ کی قیادت میں 23 برس کے قلیل عرصے میں مسلمانوں نے جو عروج حاصل کیا وہ خلفائے راشدین کے دور کو منور کرتا رہا جبکہ اس کے بعد آہستہ آہستہ اسلامی سلطنت زوال پذیر ہوتی گئی جس کی وجہ مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بے عملی تھی کیونکہ انفرادی زندگی کا نصب العین انسان کو ایک ایسے بلند مقام پر پہنچاتا ہے جس میں اللہ کی رضا شامل ہوتی ہے جس کے لیے قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهٗ.
’’اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے‘‘۔
اور یہ مقام انسان کو اس وقت حاصل ہوتا ہے جب وہ رضائے الہٰی کے حصول کے لیے جدوجہد کرے اور اپنی انفرادی زندگی میں انقلاب برپا کرے۔ انسان کی یہ جدوجہد اس کے تزکیہ نفس سے مربوط ہے جیسا کہ پروردگار عالم کا ارشاد ہورہا ہے کہ:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَا.
’’بے شک وہ شخص فلاح پاگیا جس نے اپنے نفس کو پاک کرلیا‘‘۔
اور جب انسان اپنے نفس کو پاک و طاہر کرلیتا ہے تو وہ اس نصب العین کو پالیتا ہے جو اس کی زندگی کا محور و مرکز ہے اور اس کا اطلاق قانون الہٰی کی پاسداری ہے۔ پاکیزہ و طاہر نفس اپنے آپ کو رضائے الہٰی کا تابع کردیتا ہے۔ تمام معاملات میں اس کے سامنے اللہ کی رضا اور خوشنودی موجود رہتی ہے تاکہ اللہ کی رضا کو حاصل کیا جاسکے اللہ کی رضا کی خاطر صبر کرنا بھی اس کے نیک و صالح بندوں کا خاصہ ہے جو اپنے پروردگار کی رضا حاصل کرنے کے لیے مشکل سے مشکل مقامات پر صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوتے مشکل ترین مرحلوں پر ان کے دل میں توکل علی اللہ ہی موجزن رہتا ہے اور ان کی زبان پر کلمہ شکر جاری رہتا ہے۔
اب اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ مقام صبر و رضا کا مفہوم کیا ہے اور مقام صبر و رضا کیا ہے؟ اور اس مقام کو پانے کے لیے انسان کو کن کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے لہذا اللہ پر یقین کے مقامات میں سے سب سے بلند ترین مقام خدا تعالیٰ کی رضا کا ہے جس کے لیے اللہ تبارک تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ:
رضی الله عنهم ورضو عنه کہ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے۔
یعنی اللہ عزوجل کے بندے سے راضی ہونے کی واحد شرط یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کی رضا کے ساتھ اپنی مرضیوں کو جوڑ دے اللہ کی مرضی کے ساتھ اپنی خواہشات کو ختم کردے جیسا کہ ایک روایت کے مطابق حضرت لقمانؑ نے رضا کو توحید سے ملاتے ہوئے اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ:
’’میں تجھے ایسی خصائل کی وصیت کرتا ہوں جو تجھے اللہ کے قریب کردیں گی اور اس کی ناراضگی سے دور کردیں گی۔ پہلی یہ کہ تو اللہ کی عبادت کرے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائے اور دوسری یہ کہ پسند اور ناپسندیدہ ہر معاملہ میں اللہ کی تقدیر پر راضی رہے‘‘۔
اور اہل رضا کے نزدیک معمولی معمولی بات کا شکوہ کرنا بھی عدم رضا کی علامت ہے اور ان مشکلات میں اپنے قلب کو ہلکان نہ کرے بلکہ قلب سے رضا و تسلیم رکھے۔ ذہن کو مطمئن اور اطاعت گزار بنالے اس کی مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے پروردگار سے عرض کی کہ:
’’اے پروردگار مجھے وہ بات بتایئے کہ جس میں تیری رضا ہو کہ میں اس پر عمل کروں اللہ کی طرف سے ان پر وحی نازل ہوئی کہ میری رضا تیری ناپسندیدگی میں ہے اور جو تجھے ناپسندیدہ ہے تو اس پر صبر نہیں کرتا‘‘۔
موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: ’’اے پروردگار مجھے وہ بتادیں تو فرمایا تیری رضا میری قضاء کے ساتھ تیرے راضی رہنے میں ہے‘‘۔
اسی طرح شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب لکھتے ہیں کہ:
’’مرحلہ رضا کا پہلا درجہ ترک الاختیار قبل القضاء ہے‘‘۔ یعنی جب قضاء کی چھری چلنے لگے اور بچنے کا اختیار بھی ہو تو اختیار رکھتے ہوئے بھی خود کو قضاء سے نہ بچایا جائے‘‘۔
صوفیا کرام توکل علی اللہ کے تین مراحل بیان کرتے ہیں جن سے انسان پروردگار کی بارگاہ میں خوشنودی حاصل کرنے کی جدوجہد کرتا ہے وہ یہ ہیں:
- مرحلہ صبر
- مرحلہ توکل
- مرحلہ رضا
پروردگار عالم ہمیں زندگی میں بہت سے کام کرنے کا حکم دیتا ہے اور بعض کاموں سے بچنے کی ہدایت فرماتا ہے۔ مثلاً حلال پر چلنے اور حرام سے بچنے کا حکم اللہ کی جانب سے ہے اس پر عمل کے دوران جو بھی پریشانیاں یا مصائب و آلام آئیں ان کو بخوشی برداشت کرنا صبر عظیم کہلاتا ہے یعنی راہ حق میں آنے والی تمام پریشانیوں، مصائب و آلام اور آزمائشوں پر پورا اترنے کا نام صبر ہے۔ اس کے علاوہ صبر کا دوسرا درجہ صبر علی اللہ ہے یعنی بارگاہ پروردگار سے جو کچھ میسر ہو اس پر خوش رہنا صبر علی اللہ ہے جبکہ ’’صبر مع اللہ‘‘ صبر کا تیسرا درجہ ہے کہ اگر زندگی میں کوئی ایسا وقت آجائے کہ جس میں پریشانیاں اور رنج و مصائب انسان پر یکدم حملہ آور ہوں اور انسان عین اس موقع پر اللہ کے لیے صبر کرے اور تکلیف کا قطعاً احساس نہ کرے۔
جیسا کہ حضرت علیؓ شیر خدا کی مثال کہ جس میں آپ کے جسم اطہر میں تیر اس قدر گہرا پیوست ہوگیا تھا کہ اس کا نکالنا تکلیف کا باعث تھا تو آپؑ نے فرمایا تھا کہ جس وقت میں نماز ادا کروں تو یہ تیر نکال دینا اور اس عمل سے اگرچہ خون کثرت سے بہا مگر آپ بدستور نماز میں مشغول رہے اور کسی بھی قسم کی تکلیف کا اظہار نہیں کیا۔ صبر کا سب سے مشکل ترین مرحلہ عاشقوں کا صبر ہے جو الصبر فی اللہ کہلاتا ہے کہ جس میں اوامر و نواہی پر عمل کرتے ہوئے ہر قسم کی تکلیف کو برداشت کرنا اور پھر خوشی و غمی کے موقعوں پر صبر کرنا مصائب والم کو برداشت کرنا محبوب حقیقی سے وصال کی محرومی اور ہجر و فراق کے لمحوں میں صبر کرنا یہاں تک کہ تمام مراحل میں اللہ کی رضا اور خوشنودی کو مدنظر رکھنا کہ خدا خود ان کے لیے فرمائے۔
اولئک علیهم صلوات من ربهم یعنی ایسے لوگوں پر ان کے پروردگار کی طرف سے نوازشیں ہیں اور رحمت ہے۔
صبر کی تمام منازل طے کرنے کے بعد توکل کا درجہ آتا ہے یعنی جب کوئی نعمت چھن جائے تو اس پر بھی راضی برضائے تعالیٰ رہنا اور ایسے متوکلین سے اللہ محبت کرتا ہے۔
مرحلہ رضا اس وقت شروع ہوتا ہے جب انسان صبر کی تمام منازل کو عبور کرکے توکل کی منازل بھی سر کرلے اگرچہ مرحلہ رضا تک رسائی اور اس پر ثابت قدمی بڑا دشوار گزار مرحلہ ہے جہاں بڑے بڑے اولیاء اللہ کے قدم بھی ڈگمگاجاتے ہیں لیکن امت محمدی میں ایک ایسا ولی باصفا گزرا ہے جس نے صبرو توکل کی تمام منازل طے کرتے ہوئے رضائے الہٰی کے اس مقام کو پایا جس کی مثال کہیں نہیں ملتی وہ عظیم المرتبت شخصیت نبیؐ محترم و مکرم کا نواسہ اور علیؓ و فاطمہؓ کے جگر گوشہ حسین علیہ السلام ہیں جو مقام صبر و رضا کی اس منزل پر متمکن نظر آیا جو سب سے اعلیٰ مقام ہے۔ اپنی شہادت پر علم و اختیارکے باوجود اسے قبول کیا جیسا کہ بہت سی احادیث سے ثابت ہے کہ آپ بچپن ہی سے اپنی شہادت کی خبر رکھتے تھے لیکن آپ نے یزید کی بیعت قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے شہادت کو ترجیح دی اور مقام صبر و رضا کے اعلیٰ ترین مرحلے پر اس طرح پورے اترے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ مژدہ جانفزا سنایا گیا کہ:
’’اے وہ نفس مطمئنہ! اپنے رب کی طرف واپس چل اسی طرح کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی پھر تو میرے برگزیدہ بندوں میں شامل ہوجا اور میری بہشت میں داخل ہوجا‘‘۔
لہذا شہادت حسینؑ کا سب سے اہم پیغام اللہ کی رضا کی خاطر عملی جدوجہد کا پیغام ہے اور تاریخ اسلام بھی اس بات پر گواہ ہے کہ جب تک مسلمان مشیت ایزدی پر لبیک کہتے ہوئے صبر ورضا کا دامن تھامتے ہوئے انسانیت کی فلاح اور حق کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگادیتے ہیں تو وہ کامیابی و فتح سے ہمکنار ہوجاتے ہیں لیکن اس کے برعکس اگر وہ صبر و رضا کو ترک کرتے ہوئے طاغوتی طاقتوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں تو ناکامی و شکست ان کا مقدر بن جاتی ہے۔