حافظ محمد سعید رضا بغدادی

عرفان القرآن کورس

درس نمبر 16 آیت نمبر 26 (سورۃ البقرہ)

تجوید ادغام کا بیان

سوال : حروفِ ادغام کا مجموعہ کیا ہے؟

جواب : حروفِ ادغام کا مجموعہ ’’يَرْمَلُون‘‘ ہے۔

سوال : حروفِ ادغام کا حکم کیا ہے؟

جواب : حروفِ ادغام کا حکم یہ ہے کہ جہاں ان میں سے کوئی ایک حرف بھی آئے گا اور اگر اس کا ماقبل ساکن ہوا تو حرفِ ادغام ما قبل کو اپنے اندر مدغم کر لے گا جیسے : ’’مَنْ يَّعْمَلْ‘‘ میں’ی‘ حرفِ ادغام تھا اور ما قبل نون ساکن ’’ نْ‘‘ آیا تو ’’ی‘‘ نے ’’نْ‘‘ کو اپنے اندمدغم کرلیا اَب ’’نْ‘‘ لکھا تو جائے گا مگر پڑھنے میں نہیں آئے گا۔

ترجمہ

إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحْيِي أَن يَّضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا

متن إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحْيِي أَن يَّضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا
لفظی ترجمہ بیشک اللہ نہیں شرماتا اس سے کہ وہ بیان کرے مثال کوئی سی مچھر خواہ اس سے بڑھ کر
عرفان القرآن بیشک اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ (سمجھانے کے لئے) کوئی بھی مثال بیان فرمائے (خواہ) مچھر کی ہو یا (ایسی چیز کی جو حقارت میں) اس سے بھی بڑھ کر ہو،

فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُواْ فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ

متن فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُواْ فَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ
لفظی ترجمہ پھر وہ کہ جو لوگ ایمان لائے پس وہ جانتے ہیں بیشک وہ حق ہے سے انکے رب کی
عرفان القرآن تو جو لوگ ایمان لائے وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ مثال ان کے رب کی طرف سے حق (کی نشاندہی) ہے،

وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُواْ فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَـذَا مَثَلاً

متن وَ َأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُواْ فَ يَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَـذَا مَثَلاً
لفظی ترجمہ اور وہ کہ جنہوں نے کفر کیا سو

کہتے ہیں

کیا ارادہ کیا اللہ نے اس سے مثال
عرفان القرآن اور جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ (اسے سن کر یہ) کہتے ہیں کہ ایسی تمثیل سے اللہ کو کیا سروکار؟

يُضِلُّ بِهِ كَثِيراً وَّيَهْدِي بِهِ كَثِيراً

متن يُضِلُّ بِهِ كَثِيراً وَّ يَهْدِي

بِ

هِ كَثِيراً
لفظی ترجمہ وہ گمراہ کرتا ہے ساتھ اسکے بہتوں کو اور ہدایت دیتا ہے

سے

اس بہتوں کو
عرفان القرآن

(اس طرح) اللہ ایک ہی بات کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ ٹھہراتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے

وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِينَO

متن وَ مَا يُضِلُّ بِ هِ

إِلاَّ

الْفَاسِقِينَ
لفظی ترجمہ اور نہیں گمراہ کرتا ہے سے اس

مگر

نافرمان ہیں
عرفان القرآن

اور اس سے صرف انہی کو گمراہی میں ڈالتا ہے جو (پہلے ہی) نافرمان ہیںo

تفسیر

علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ لَا يَسْتَحْی اَی لَا يَخْشٰی وَقِيْلَ لَايَتْرُکْ وَقِيْلَ لَايَمْتَنِعْ (وہ نہیں شرماتا اس کا معنی یہ ہے کہ وہ نہ توڈرتا ہے اور کہاجاتاہے نہ وہ اپنے امر کو ترک کرتا ہے اور نہ وہ منع ہوتا ہے ) مقصدیہ ہوا کہ کسی حقیقت کو واضح کرنے کے لئے اگر مکھی ،مکڑی ،مچھر یا اس سے بھی حقیر ترین چیز سے مثال دینا ضروری ہو تو اللہ تعالی کسی کے اعتراض کے ڈر سے ایسی مثال کو ترک نہیں فرماتا۔سلیم الطبع لوگ تو مثال کے مفید ہونے کی وجہ سے تسلیم کرتے ہیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے لیکن جن کی فطر ت مسخ ہو چکی ہے وہ اعتراض کرنا شروع کردیتے ہیں کہ یہ عجیب خدا کا کلام ہے جس میں مکڑی اور مچھروں کا ذکر ہے۔(تفسیر ضیاء القرآن)

  1. قرآنی ثمثیلات کا مقصد حق کو خوب واضح کرنا ہے۔
  2. اہل ایمان ثمثیلات قرآنی سے حق کی معرفت حاصل کرتے ہیں۔
  3. اہل کفر تمثیلات قرآنی پر بھی اعتراض کرتے ہیں۔
  4. حق شناس لوگ قرآنی بیان سے ہدایت لیتے ہیں۔
  5. ہٹ دھرم لوگ قرآنی بیان سے بھی خود کو گمراہی میں مبتلا کرلیتے ہیں۔
  6. عارفوں اور بزرگوں کے اس کلام پر جو معرفت کا ہو مگر ظاہراً سمجھ میںنہ آتا ہو لعن طعن نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس میں کلام کا نقص نہیں بلکہ پڑھنے اور سمجھنے والے کی اپنی سوچ پر منحصر ہے۔ (تفسیر منہاج القرآن)

قواعد

ماضی مجہول بنانے کا طریقہ

اگر ماضی معروف کو مجہول میں تبدیل کرنا ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ فا کلمہ کو ضمہ

اور عین کلمہ کو کسرہ دیں ۔ (اگر پہلے نہ ہو) ماضی مجہول بن جائے گی جیسے

ضَرَبَ سے ضُرِبَ لَعِقَ سے لُعِقَ کَتَبَ سے کُتِبَ

عَلِمَ سے عُلِمَ غَسَلَ سے غُسِلَ شَرِبَ سے شُرِبَ

ماضی مجہول کا ترجمہ ماضی معروف سے مختلف ہوتا ہے مثلا ضَرَبَ ( اس نے مارا ) مگر ضُرِبَ ( اسے مارا گیا)

دعا

مسجد میں نفلی اعتکاف کی دعا : :

جب بھی مسجد میں داخل ہوں یہ دعا کریں ۔انسان جب تک مسجد میں رہے گا‘ اسے نفلی اعتکاف کا ثواب ملتا رہے گا۔

نَوَيْتُ سُنَّتَ الِإعْتِکَافِ

’’ میں سنت اعتکاف کی نیت کرتا ہوں‘‘۔