تاریخ انسانی اس بات کی گواہ ہے کہ طلبہ و طالبات کسی بھی ملک و قوم کے اندر ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر تحریک پاکستان میں قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو طلبہ کی جذباتی اور علمی ہم سفری نصیب نہ ہوتی تو شاید یہ پاکستان کی نعمت بھی ہمیں حاصل نہ ہوتی، مجھے ایران کا انقلاب یاد آرہا ہے کہ طلبہ نے اپنے قائد کی آواز پر لبیک کہا اور تاریخ انسانیت کو ایران کے انقلاب کا سنہری باب عطا ہوگیا۔
طلبہ اپنے کردار، اپنی محنت اور علم کی دولت سے معاشرے کو انقلاب سے آشنا کرا دیتے ہیں۔ نوجوان طالب علم ’’مانگی ہوئی جنت سے دوزخ کا عذاب اچھا ہے‘‘ کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نوجوان طالب علم کسی جابر، وڈیرے، لٹیرے، ظالم، جاگیردار، سرمایہ دار، بداخلاق، شراب خور، بددیانت اور وقت کے فرعونوں، وقت کے یزیدوں اور وقت کے حرام خوروں، کے آگے جھکتے نہیں، ہاتھ نہیں پھیلاتے، بھیک نہیں مانگتے بلکہ وہ انقلاب کا راستہ اختیار کر کے ان سے اپنا حق چھین لیتے ہیں۔ ستاروں پر کمندیں ڈالنا ان کا وطیرہ ہوتا ہے۔ قلم سے جہاد کرنا ان کا پیشہ ہوتا ہے۔ ظلم و ستم کے خاتمے اور انسانی حقوق کے لئے سرگرم عمل رہنا ان کی خواہش ہوتی ہے۔ دکھیوں اور مجبوروں کا سہارا بننا ان کا شوق ہوتا ہے۔ جہالت میں ڈوبے ہوئے معاشرے کو جہالت سے نکالنا ان کا جذبہ ہوتا ہے۔ ایمان اور تقویٰ ان کا زیور ہوتا ہے۔ قرآن و سنت کا نظام لانا ان کا مقصد ہوتا ہے اور سوئے کربلا چل کر مصطفوی انقلاب بپا کرنا ان کی منزل ہوتی ہے۔
ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پرہو
طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
انقلاب کی منزل نوجوانوں کے جذبات سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ انقلاب جانوں کے نذرانے کا نام ہے۔۔۔ ظلم کے ساتھ ٹکرانے کا نام ہے۔ پریشان اور دکھی انسانوں کے چہروں پر خوشی لانے کا نام ہے۔ وقت کے فرعونوں اورنمرودوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کا نام ہے۔ انسانیت کو جہالت سے نکال کر علم کی شمع جلانے کا نام ہے۔ دشمنان دین کے خلاف مسلسل جدوجہد کانام ہے اور ظالمانہ نظام کو ختم کرکے نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بپا کرنے کا نام ہے۔
ایسا انقلاب محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عشق، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سچائی، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا عدل، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سخاوت، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت، حضرت موسی علیہ السلام کی زبان، حضرت یعقوب علیہ السلام کا غم، حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خواب کی تعبیر، حضرت اسماعیل علیہ السلام جیسی فرمانبرداری، حضرت لقمان علیہ السلام کی حکمت، حضرت یحی علیہ السلام ی کا ڈر، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سپہ سالاری، ٹیپو سلطان کا معقولہ، محمد بن قاسم کا حوصلہ، حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ جیسی معرفت، حضرت یوسف علیہ السلام جیسا حسن، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ جیسی شہادت، کپیٹن سرور شہید، میجر عزیز بھٹی شہید، لانس نائیک محمد محفوظ جیسا جذبہ، قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ جیسی سوچ، حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ جیسی عبادت، بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ جیسی فقیری، امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ جیسی شریعت، سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ جیسی ولایت، شیخ طریقت سیدنا طاہر علاؤالدین رحمۃ اللہ علیہ جیسی شفقت اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جیسی قیادت مانگتا ہے۔
ان تمام شرائط کو علم کا متلاشی، وطن کا دوست، دین وملت کا وفادار اور قوم کا ہمدرد نوجوان ’’طالب علم‘‘ ہی پورا کرسکتا ہے۔
دونوں کی پرواز ہے ایک ہی فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور ہے
انقلاب کی اس منزل پر چلنے والے مسافروں کے عظیم قائد کی عظمت کو سلام جس نے طلبہ کو اپنے کردار، اپنے علم، اپنی جدوجہد، اپنی میٹھی زبان، اپنے ہمدردانہ انداز، قرآن و سنت کے نور، گنبد خضریٰ کے فیضان، بغداد کی خیرات، سیدنا طاہر علاؤالدین رحمۃ اللہ علیہ کی سرپرستی اور ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کی دعاؤں سے پوری قوم کے طالب علموں کو مصطفوی انقلاب کی منزل دکھائی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج میرے قائد کے چاہنے والا اور قوم کا بچہ بچہ، نگر نگر، گلی گلی، یہ عزم دہرا رہا ہے کہ
اس غوث پیا کے صدقے سے
اس داتا علی کے صدقے سے
اب وقت وہ آنے والا ہے
جب جھنڈا میرے قائد کا
گھر گھر لہرانے والا ہے
اکیسویں صدی کا پاکستان اور عالم اسلام آپ کی ان پاکیزہ کوششوں سے آنے والے ’’مصطفوی انقلاب‘‘ کا منتظر ہے۔ کیونکہ
ہماری قیادت صالح، باہمت، باحوصلہ، ہمہ جہت، باعمل، باکردار، بے مثال اور لازوال ہے تو شاعر کیوں نہ کہے
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
’’مصطفوی انقلاب‘‘ کے متوالے اور علم و حکمت کے متلاشی اگر یہ عزم کرلیں کہ ہم نے پاکستان کو باوقار بنانا ہے اور عالم اسلام کو پھر سے متحد کرکے امت مسلمہ کی کھوئی ہوئی عزت کو بحال کرنا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت طلبہ کو ان کی منزل سے دور نہیں کرسکتی۔