ترتیب و تدوین : محمد حسین آزاد الازہری
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دور دراز تک آبادیوں میں انہی 4000 علماء کی اولادیں آباد ہو گئیں وہ یہود تھے اور کچھ نصاری تھے، اس زمانے میں مذہب یہی تھا جو دین ابراہیمی پر تھے۔ یہ وہی اہل کتاب تھے جن کو قرآن بار بار اہل کتاب کہہ کر ذکر کرتا ہے، جن کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا۔ پھر جب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ قریب آیا اور وہ خط نسل در نسل اس رئیس العلماء سے ہوتا ہوا ان کی اولاد میں ان کے بیٹوں کے پاس پھر ان کے پوتوں کے پاس اس طرح آگے نسلوں میں منتقل ہوتا ہوا امانت کے طور پر ان کے پاس چلتا رہا۔ جب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہو گئی اور 53 برس کی عمر مبارک میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت مدینہ کا فیصلہ فرما لیا۔ اس سے قبل چونکہ مدینہ سے لوگ جا کے منی میں بیعت کر آئے تھے، تین سالوں میں منی میں بیعت عقبہ اولیٰ پھر عقبہ ثانیہ اور پھر عقبہ ثالثہ ہوئی اور جب ان کو خبر ہو گئی کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے committment کر لی ہے اور ہجرت کر کے مدینہ تشریف لا رہے ہیں تو سب نے مشورہ کیا کہ یہاں پہنچنے سے پہلے اس خط کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچا دیا جائے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف نے مشورہ دیا کہ اپنے میں سے کوئی ثقہ آدمی نمائندہ منتخب کر کے اس کو خط دیا جائے تاکہ وہ راستے میں ہی مکہ معظمہ کے قریب جہاں بھی حضور علیہ الصلوۃ والسلام موجود ہوں خط پہنچا دے۔ انہوں نے انصار میں سے ایک معتبر شخص حضرت ابولیلہ کو منتخب کیا اور تبع الاول کا خط دے کر روانہ کیا۔ مکہ معظمہ سے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نکلے ہی تھے کہ وہ خط لے کر پہنچ گئے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیا۔ دوسری روایت میں ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی مکہ ہی میں تھے جب وہ خط پہنچا تو آقا علیہ السلام نے لے کر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو دیا کہ اے علی! اسے پڑھو کیا لکھا ہے؟
اس روایت سے معلوم ہوا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکہ معظمہ سے روانہ ہونے سے قبل خط پہنچا اور بعض ائمہ نے جو اپنے طرق سے روایات لی ہیں اس میں لکھا ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو خط دیا اور فرمایا ابوبکر! پڑھو کیا لکھا ہے؟ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام روانہ ہو چکے تھے۔ تاہم پہلی روایت کے مطابق ابولیلہ جب خط لے کر وہاں پہنچا تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راستے میں پڑاؤ کئے ہوئے تھے اور اسے معلوم نہیں تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کون ہیں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کون ہیں؟ کیونکہ ابھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ وہ تو اس خیال سے آ رہا تھا کہ میں مکہ پہنچ کر دریافت کر کے وہ خط آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوں گا مگر جب راستے میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے پر نگاہ پڑی تو وہ تکتا ہی رہ گیا۔ اتنے میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : فَقَالَ أَنتَ أَبُو لَيلَة؟ اے شخص تمہارا نام ابولیلیٰ ہے؟ قَالَ نَعَم اس نے کہا میرا نام ابولیلیٰ ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَعَکَ کِتَابُ تُبَّع الاَوَّل (تُبَّع الاَوَّل کا خط تم لے کر آئے ہو؟) وہ شخص متفکر اور متحیر ہو گیا کہ یہ چہرہ جادوگر کا تو نہیں لگتا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پتہ کیسے چل گیا کہ میں ابولیلیٰ ہوں اور میرے پاس تبع کا خط ہے؟ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میں محمد رسول اﷲ ہوں اور تُبَّعْ نے وہ میرے لئے ہی خط لکھا تھا۔ مجھے دے دو‘‘۔ اس طرح آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ خط ملا اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اور اگر وہ روانگی سے پہلے پہنچا تھا تو حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو پڑھنے کے لئے دیا اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ساتھ رکھ لیا اور پھر سفر ہجرت مکمل کر کے یثرب پہنچے۔ مدینہ میں سب نے استقبال کیا اور ہر شخص خواہش مند تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر رکیں اور میرے گھر مہمان ہوں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو فرما دیا کہ اس بات کا نہ تم فیصلہ کرو گے نہ میں فیصلہ کروں گا، یہ اونٹنی خود فیصلہ کر دے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اونٹنی اﷲ کے امر کے ساتھ چل رہی بس انتظار کرو۔ کس کے گھر پر جا کر رکتی اور بیٹھتی ہے۔ کل انصار مدینہ اور اہل مدینہ جلوس کی شکل میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے نغمے گاتے اور حبشہ کے آئے ہوئے حبشی رقص کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کر رہے ہیں اور چھوٹی بچیاں دف بجا کر طَلَعَ البَدْرُ عَلَينَا کے نغمے گا رہی ہیں، اک سماں تھا اور سارا شہر اہل مدینہ کے پیچھے پیچھے تھا، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اونٹنی پر سوار تھے اور دنیا کی نگاہیں اونٹنی پر جمی ہوئی تھیں کہ کس کے گھر جا کر بیٹھتی ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ ناقہ چلتی چلتی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر آ کر بیٹھ گئی، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا شجرہ نسب پوچھا تو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اس رئیس العلماء کی اولاد میں سے تھے۔
امام ابو سعد النیشاپوری فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ تُبَّعْ اَوَّل نے ایک گھر ہزار سال پہلے الگ بنا کے رئیس العلماء کو بتایا تھا کہ یہ گھر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ہے، جب وہ تشریف لائیں گے تو اس میں رہائش اختیار فرمائیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حقیقت میں وہ گھر حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا بھی نہیں تھا، بلکہ ان کے کنٹرول میں تھا وہ اس کے care taker تھے۔ لہذا اونٹنی بھی وہیں بیٹھی جو ہزار سال پہلے تبع کے ہاتھوں دارِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طور پر تعمیر ہوا تھا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ ’’علم‘‘ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی کا ہے کہ ہر ایک نے کہا میرے گھر ٹھہریں۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی نے کہا ارے تم کون ہو کہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے گھر ٹھہریں، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کے مہمان نہیں، ساری کائنات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مہمان ہے، مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود میزبانِ کائنات ہیں۔ یہ اپنے گھر ٹھہریں گے جو ہزار سال پہلے ان کے لیے تعمیر کیا گیا ہے۔ بعد ازاں آج سے 60، 70 سال پہلے، جب سعودی حکومت آئی تو انہوں نے اسی گھر کو ’’مدرسۃ العلوم الشرعیہ‘‘ بنادیا۔ اس مبارک رات میں تحدیثِ نعمت کے طور پر ایک بات آپ کو بتا رہا ہوں۔ یہ ’’مدرسۃ العلوم الشرعیہ‘‘ گنبد خضریٰ کے بالکل سامنے تھا، اللہ کی شان دیکھئے کہ کس جگہ وہ گھر اللہ نے بنوایا عین اس مقام پر کہ جس کے بالکل سامنے صرف ایک چھوٹی سی گلی، گلی کی اس دیوار میں دروازہ ہے جو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر کا ہے، اسی دیوار میں باب جبریل ہے اور باب جبریل کے ساتھ دائیں جانب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مزارِ اقدس ہے۔ گھر بھی اس عین مقام پہ تعمیر کروایا گیا، جہاں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیام بھی کرنا تھا اور جہاں مزار اقدس گنبد خضریٰ بھی بننا تھا۔ باب جبریل کے باکل سامنے اُس زمانے میں یہ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا گھر دار ابی ایوب کہلاتا تھا۔ اب یہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندر آگیا ہے مگر 1963ء میں اُس وقت مسجد نبوی کی توسیع نہیں ہوئی تھی جب میں وہاں گیا اُس وقت وہ دار ابی ایوب اور ’’مدرسۃ العلوم الشرعیہ‘‘ موجود تھا اور میری 12 سال عمر تھی میری دینی تعلیم کی ابتدا اُس مدرسۃ العلوم الشرعیہ میں ہوئی جو سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گھر تھا۔ حضرت علامہ مولانا ضیاء الدین مدنی رحمتہ اللہ علیہ جن کا گھر بابِ مجیدی کے سامنے تھا، انہوں نے وہاں مجھے بسم اللہ کرائی۔
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا ذکر تمام انبیاء و رسل کرتے رہے اور اپنی امت کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے، ادب اور تعظیم و تکریم کرنے کی ترغیب اور تعلیم دیتے رہے۔ لہذا انہوں نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اور نبوت و رسالت کی پہچان اپنی کل امتوں کو کروا دی تھی۔ اسی طرح اللہ رب العزت نے اپنی تمام دیگر مخلوقات میں بھی جس میں کائنات کے تمام حیوانات، نباتات، شجر و حجر ہر شئے کو تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کی پہچان کروا دی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ زمین و آسمان کی ساری مخلوق میں اور کائناتِ خلق میں کوئی شئے حتیٰ کہ شجر و حجر اور درخت کا کوئی پتا بھی ایسا نہیں تھا، جو میری رسالت کو نہ پہچانتا ہو۔ صحیح مسلم میں اور ترمذی شریف کی حدیث جو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ باب علامات نبوت میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔
’’میری بعثت سے بھی پہلے یعنی میں نے ابھی اعلان نبوت بھی نہیں کیا تھا میں اُس وقت سے شہر مکہ کی ایک گلی کے پتھر کو پہچانتا ہوں کہ میں جب اُس گلی کے کونے سے گزرتا تھا تو پتھر مجھے دیکھ کر ’’اَلصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلَيکَ يَا رَسُولَ اﷲ‘‘ کہتا تھا‘‘۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اب تک وہ پتھر موجود ہے میں اب بھی اسے پہچانتا ہوں۔ اس طرح ترمذی شریف کی حدیث صحیح میں ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مکہ معظمہ کے جنگل کی طرف نکلا۔ اللہ کی عزت کی قسم کوئی شجر کوئی حجر ایسا نہ تھا جو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر ’’اَلصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَلَيکَ يَا رَسُولَ اﷲ‘‘ نہ کہتا ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسانوں کے علاوہ غیر انسان شجر و حجر، جمادات و نباتات و حیوانات اور مخلوقات کی ہر شئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانتی اور معرفت رکھتی تھی۔ بدقسمت ہیں وہ لوگ جو امت میں ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و معرفت سے محروم ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انصاری صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے کسی ایک کے گھر میں اُن کا اونٹ جن کے ذریعے وہ کھیتی باڑی کے لیے پانی بھر کے لاتے تھے قابو سے باہر ہوگیا جس کی وجہ سے ان کی کھیتی باڑی رک گئی اور سارے باغ اجڑ گئے۔ وہ صحابی پریشان ہوکر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آئے اور اپنے اونٹ کی شکایت کی۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چلو! اس اونٹ کے پاس چلتے ہیں۔ سارے صحابہ رضی اللہ عنہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام اُس انصاری کے گھر تشریف لے گئے۔ جب اس کے گھر کے احاطے میں پہنچے تو اونٹ ایک کونے میں باندھا ہوا تھا، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کی طرف چل پڑے۔ انہوں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کے لیے اس اونٹ کے قریب نہ جائیں کیونکہ یہ باؤلے کتے کی طرح کاٹتا ہے۔ ہمیں خوف ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ آور نہ ہوجائے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں مجھ پر حملہ نہیں کریگا۔ ایسا ہی ہوا حدیث پاک میں ہے فَلَمَّا نَظَرَ الْجَمَلُ الٰی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أَقْبَلَ نَحْوَهُ حتیٰ خَرَّ سَاجِدًا بين يده ’’جونہی آقا علیہ الصلوۃ والسلام قریب گئے اونٹ تیزی سے اُٹھا اور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کے سامنے سجدہ ریز ہوگیا۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب اُس نے سجدہ کیا تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آگے بڑھ کر پیشانی سے اس کو پکڑا اور پیشانی کے بالوں کو مروڑ کر دوبارہ کام پر لگا دیا۔
آگے حدیث میں ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے جب یہ منظر دیکھا کہ اونٹ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کیا تو صحابہ کرام بول اٹھے یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم هٰذه بَهِيمَةٌ لَا تَعْقِلُ تَسْجُدُ لَکَ وَنَحْنُ نَعْقِلُ فَنَحْنُ أَحَقُّ أن نَسْجُدَلَک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! یہ جانور ہے، اسے تو عقل ہی کوئی نہیں۔ یہ بے عقل بے شعور جانور ہو کر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کر رہا ہے ہم تو عقل اور دانش رکھنے والے انسان ہیں اجازت دیں آج سے ہم بھی سجدہ کیا کریں۔ دوسری روایت میں ہے قالوا يا رسول اﷲ نَحْنُ أَحَقُّ بِسُجُوْدٍ مِّنَ البَهَائم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارا حق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کرنے کا جانوروں سے زیادہ ہے، ہمیں اجازت دیں۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ انسان انسان کو سجدہ نہیں کرسکتا۔ منع کر دیا گیا۔