تحریک منہاج القرآن کا 40 واں یوم تاسیس 17 اکتوبر 2020ء کو منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں منایا گیا، یوم تاسیس کی تقریب میں علماء، مشائخ، سیاسی، سماجی، صحافتی شخصیات نے شرکت کی، خطاب اور شرکت کرنے والوں میں معروف ادیبہ، شاعرہ، کالم نویس صوفیہ بیدار بخت بٹ، رکن صوبائی اسمبلی ومتحدہ مجلس وحدت المسلمین کی رہنما زھراہ نقوی اورمنہاج القرآن ویمن لیگ کی ناظمہ سدرہ کرامت شامل تھیں۔ یوم تاسیس کی تقریب سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے انتہائی فکر انگیز خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تحریک منہاج القرآن نے اپنے قیام کے 40 سالوں میں قرآن و سنت کی تشریحات کے ضمن میں بین المسالک ہم آہنگی، بین المذاہب رواداری، اعتدال اور توازن کی فضاء بہتر بنانے کی مقدور بھر کوشش کی، انتہا پسندی اور فکری تنگ نظری کو ختم کرنے کی جدوجہد کی۔ قدیم اور جدید کے درمیان باہمی میلاپ، توازن اور ربط پیدا کیا، دین اور دنیا کی تفریق کو مٹانے کی کوشش کی گئی، دور جدید کے تقاضوں کے مطابق تعبیر و تشریح کے ذریعے جمود اور تعطل کو ختم کر کے فکری تحرک پیدا کیا۔ اسلام کی تعلیمات کو اعتقادی دائروں کے اندر محدود کرنے کی بجائے علمی، سماجی، معاشی، ثقافتی، اقتصادی دائروں کے اندر اس کی وسعت کو اجاگر کیا۔ مصادرِ اصلیہ (کتاب و سنت) سے استنباط اور براہ راست رہنمائی کے علمی کلچر کا احیاء کیا تاکہ اہل علم حضرات نچلے درجے کے مصادر کا حوالہ دینے کی بجائے براہ راست قرآن و سنت کا حوالہ دیں، تحریک منہاج القرآن نے اپنی 40 سالہ علمی، تحقیقی، تربیتی جدوجہد کے دوران معلومات کو قیاس، تجزیے، افراط و تفریط سے الگ کر کے اسے علم اور تحقیق کے ساتھ جوڑا ہے۔ امت میں دین کی تعبیر اجزاء میں تقسیم تھی، اگر توحید پر توجہ مرکوز ہوئی تو رسالت سے توجہ ہٹ گئی، شان اہلِ بیت بیان ہوئی توصحابہ کرام ؓ کی فضیلت سے توجہ کٹ گئی، 40 سالہ جدوجہد کے دوران کوشش کی کہ دین اجزاء کی بجائے کُل دکھائی دے۔ جدیداور قدیم تشریحات میں ایک خلاء تھا، نوجوان اشکالات کا شکار تھے اور اسلاف علمی کلچر سے کٹ چکے تھے، تعلیم اور تربیت جدا ہو گئے تھے، اس خلیج کو تعلیمی اداروں کی شکل میں ختم کیا ہے، ہمارے تعلیمی اداروں میں بیک وقت جدید اور شرعی علوم پڑھائے جارہے ہیں۔ تصوف کی شناخت بحال کی، سلف صالحین کے تحرک، زہد و تقویٰ اور مطابعت کا اسلامی تعلیمات کے مطابق احیاء کیا۔ اسلام پر دہشت گردی کے لگنے والے الزام کو رداور اس کی اعتدال پر مبنی تعلیمات کو دنیا بھر میں اجاگر کیا، دینی رویوں کو تفرقے، تعصب، تنگ نظری اور انتہا پسندی سے پاک کرنے کی کوشش کی۔ جہاد کے عنوان کو دہشت گردی کے ساتھ خلط ملط کرنے کی منفی کوشش کی گئی، تحریک منہاج القرآ ن نے اس کا بروقت جواب دیا اورایسے تمام الزامات کا رد کیا۔ بین المسالک ہم آہنگی، باہمی تعاون، تحمل، وسیع البنیاد سوچ کی بنیادیں رکھیں، مسلم اور غیر مسلم کی حدود اور دائرے کا تعین کیا اور قرآن و سنت کی فکر کو ہائی لائٹ کیا۔ اجتہاد کے دروازے بند کر دئیے گئے تھے، حقیقی تقلید جامد ہو گئی تھی، علمی حلقے بوجوہ آئمہ کی تقلید سے دور ہو گئے تھے، اس حوالے سے توازن پیدا کیا۔ خواتین کے حقوق دینی حلقوں میں نظر انداز ہو گئے تھے، دو طرح کی انتہائی سوچیں پیدا ہو گئی تھیں، ایک سوچ میں حقوق نام کی سرے سے کوئی گنجائش نہیں تھی اور دوسری سوچ قرآن و سنت کی تعلیمات اور اقدار سے بالاتر تھی (سیکولر) اس حوالے سے بھی اعتدال کا راستہ اختیار کیااور خواتین کا جو اسلامی کردار اور عزت و تکریم تھی اس کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ نوجوان تربیت کے روایتی اور غیر روایتی ماحول اور انسٹی ٹیوشنز سے محروم ہو چکے تھے، منہاج القرآن نے اس خلاء کو پُر کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے۔ یوم تاسیس کی تقریب سے امیر جماعت سینیٹر اسلامی سراج الحق، علامہ راجہ ناصر عباس، سید ضیا اللہ شاہ بخاری، مجیب الرحمن شامی، میاں منظور احمد وٹو، خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ، علامہ حسین رضا، انجینئر محمد رفیق نجم نے خطاب کیا، تقریب کے اختتام پر 40ویں یوم تاسیس کی مناسبت سے کیک کاٹا گیا۔