معلم چار حرفی لفظ اپنے اندر انتہائی خوبصورت مفاہیم سمیٹے ہوئے ہے۔ مثلاً م: محبت و مہربانی، ع: علم و عمل، ل: لگاؤ اور م: مددو معاون۔ گویا محبت و مہربانی سے علم و عمل کے لگاؤ میں ممدو معاون استاد کے حروف سے یہ اخذ کرسکتے ہیں: ’’اللہ اور انسان کو سمجھنے میں تعاون دلائے‘‘، ’’اللہ اور انسان سے تعلق استوار کرادے‘‘۔ قرآن و حدیث میں بھی معلمی کی فضیلت دیگر شعبوں سے بڑھ کر ہے بلکہ معلمی کو شیوہ پیغمبری قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے: ’’بے شک مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے‘‘، ’’علماء انبیاء کے وارث ہیں‘‘۔
صاحب نہج البلاغہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی شخص مجھے ایک لفظ سکھائے تو میں اس کا غلام ہوں۔ استاد و شاگرد یا معلم و تلمیذ کا رشتہ روحانی تعلق پر مبنی ہوتا ہے۔ والدین ہمیں عدم سے ہستی میں لاتے ہیں اور اساتذہ زمین سے آسمانوں تک کا سفر سکھاتے ہیں۔ اچھے استاد وہ ہیں جو شاگردوں کے بنجر ذہن کو کھلیان بنادیں جو گمان کو یقین میں بدل دیں، جو پتھر کو تراش کر ہیرا بنادیں۔ استاد وہ ہے جس کی چشم بصیرت دل و نگاہ کو بصیرت سے مامور کردے، استاد وہ ہے جو سوچوں کی شب تاریک کو روز روشن کی طرح عیاں کردے۔ استاد وہ ہستی ہے جس کے لہجے میں مٹھاس اور نگاہوں میں شفقت ہو، رویے میں پیار برستا ہو، جو اپنے ہاتھوں میں جگنو لیے شمس و قمر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ سکے۔
یہ مہر و تاباں سے جاکر کہہ دو، کہ اپنی کرنوں کو گن کے
رکھیں
میں اپنے صحرا کے ذرے ذرے کو خود چمکنا سکھا رہا ہوں
5 اکتوبر کو پوری دنیا میں ٹیچرز ڈے بڑے ذوق و شوق سے منایا جاتا ہے اور سال میں ایک دن اپنے اساتذہ سے محبت و احترام کا ڈھونگ رچا کر حقِ شاگردی ادا کردیا جاتا ہے۔ کیا اساتذہ صرف اتنی ہی تعظیم کے مستحق ہیں؟ آج ہمارے استاد اور شاگردوں کے درمیان دوریاں کیوں ہیں؟ ہمارے پاس ٹیچرز تو بہت ہیں مگر حقیقی معنوں میں استاد بہت کم ہیں۔ آج علم کو دولت کے پیمانے پر تولا جاتا ہے اور فقط درسی کتابوں کے اسباق رٹا لگوائے جاتے ہیں اور طلباء بھی فقط حصول ملازمت کی غرض سے اس دوڑ میں شریک ہیں۔
آج اساتذہ بھی طلباء کے لیے معلمانہ و پدرانہ شفقت سے عاری ہیں۔ کمرہ جماعت کے علاوہ طلباء کی مدد کرنے سے کتراتے ہیں۔ تعلم و تعلیم کو فقط حصول زر کا ذریعہ بنادیا ہے۔ اساتذہ تنخواہوں کے لیے اور طلباء ملازمت کے لیے درس گاہوں کا رخ کرتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے متعین کردہ نصاب کے صرف انہی موضوعات پر توجہ دی جاتی ہے جو امتحانی نقطہ نظر سے اہم ہوتے ہیں ایسے میں دیئے گئے علم پر عمل کو ترجیح تو دور کی بات کورس بھی مکمل نہیں کروایا جاتا۔
ہماری موجودہ نسل میں استاد بننے کے خواہاں آٹے میں نمک کے برابر ہیں کیونکہ عام تصور ہے کہ استاد صرف وہی بنتے ہیں جو کسی اور شعبے میں نہ جاسکیں۔ جس معاشرے میں کوئی اپنی خواہش سے استاد نہ بننا چاہے وہاں بظاہر پڑھے لکھے (ڈگریاں خرید کر گریجویٹ بننے والے) حقیقتاً جاہل مطالبات کے لیے کئی کئی روز سڑکوں پر بھوک ہڑتال کرنی پڑتی ہے جس معاشرے کے استاد کو سڑکوں پر ڈنڈے مارے جائیں اس کی اخلاقی و روحانی اقدار کا جنازہ تو نکلتا ہی ہے اس کی سیاسی و سماجی، معاشی و معاشرتی اور مذہبی اقدار بھی تنزلی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ چار سو درندوں اور بھیڑیوں کا راج اور جنگل کا قانون دکھائی دیتا ہے۔ انصاف کی دھجیاں اڑتی ہیں تو سماوی آفات عوام کا مقدر بن جاتی ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’عالم کی روشنائی شہید کے خون سے مقدس تر ہے‘‘۔
ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان ملکہ برطانیہ اور ان کے شوہر کو پاکستان کے دورے کے دوران برن ہال سکول ایبٹ آباد لے گئے۔ ملکہ تو ایوب خان کے ساتھ بچوں سے ہاتھ ملاتی آگے بڑھ گئیں ان کے شوہر بچوں سے باتیں کرنے لگے، پوچھا کہ بڑے ہوکر کیا بننا ہے؟ بچوں نے کہا ڈاکٹر، انجینئر، آرمی آفیسر اور پائیلٹ وغیرہ وغیرہ، وہ کچھ خاموش ہوگئے۔ لنچ پر ایوب خاں سے کہا کہ آپ کو اپنے ملک کا کچھ سوچنا چاہیے میں نے بیس بچوں سے بات کی کسی نے یہ نہیں کہا کہ اسے ٹیچر بننا ہے اور یہ بہت خطرناک بات ہے۔ ایوب خان صرف مسکرادیئے کچھ جواب نہ دے سکے چاہیے تو یہ تھا کہ تبھی اساتذہ کے لیے بھی ڈاکٹرز، انجینئرز اور آرمی آفیسرز جیسی عزت و دولت کے قوانین بنائے جاتے تاکہ آج مزید ساٹھ سال گذرنے پر اساتذہ کو سرِ بازار رسوا نہ ہونا پڑتا، شاگردوں کے ہاتھوں پٹنے سے محفوظ ہوتے اور پاکستان صحیح معنوں میں اسلامی رفاعی مملکت ہوتا نہ کہ دہشت گردوں کا ملک۔
کتب تواریخ گواہ ہیں کہ جب ہندوستان کی انگریز حکومت نے حضرت علامہ اقبالؒ کو سر کا خطاب دینے کا ارادہ کیا تو اقبالؒ کو وقت کے گورنر نے اپنے دفتر آنے کی دعوت دی۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے یہ خطاب لینے سے انکار کردیا۔ جس پر گورنر بے حد حیران ہوا۔ وجہ دریافت کی تو حضرت علامہ اقبالؒ نے فرمایا: میں صرف ایک صورت میں یہ خطاب وصول کرسکتا ہوں کہ پہلے میرے استاد مولوی میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب دیا جائے۔ یہ سن کر انگریز گورنر نے کہا: ڈاکٹر صاحب! آپ کو تو سر کا خطاب اس لیے دیا جارہا ہے کہ آپ بہت بڑے شاعر ہیں آپ نے کتابیں تخلیق کی ہیں۔ بڑے بڑے مقالات تخلیق کیے ہیں۔ آپ کے استاد مولوی میر حسن صاحب نے کیا تخلیق کیا ہے؟ یہ سن کر علامہ اقبالؒ نے جواب دیا:
’’مولوی میر حسن نے اقبال تخلیق کیا ہے‘‘۔
اس پر انگریز گورنر نے حضرت علامہ اقبالؒ کی بات مان لی اور ان کے استاد مولوی میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب دینے کا فیصلہ کرلیا۔ اس پر مستزاد حضرت علامہ اقبالؒ نے مزید کہا کہ میرے استاد کو شمس العلماء کا خطاب دینے کے لیے یہاں نہ بلایا جائے بلکہ ان کو یہ خطاب دینے کے لیے سرکاری تقریب کو سیالکوٹ میں منعقد کیا جائے یعنی میرے استاد کے گھر۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ مولوی میر حسن کو آج شاید کوئی بھی نہ جاتا اگر وہ علامہ اقبالؒ کے استاد نہ ہوتے۔ آج وہ شمس العلماء مولوی میر حسن کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ یہ تھا استاد کا مقام اور عظمت جس کا مقابلہ نہیں۔ حضرت امام غزالیؒ اساتذہ یا معلمین کو درج ذیل آداب کا خیال رکھنا ضروری قرار دیتے ہیں:
- معلم شاگردوں کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آئے انہیں اپنی اولاد کی طرح سمجھے۔
- استاد کے قول و فعل میں مطابقت ہو۔
- شاگردوں سے ان کے معیار اور ذہنی سطح کے مطابق بات چیت کرے۔
- تعلیم کا صلہ طلب نہ کرے، نہ ہی خوشامد اور تعریف کی خواہش کرے۔
- جہاں تک ممکن ہو طلبہ کو نصیحت کرتا رہے۔
- حکیمانہ انداز سے نصیحت کرے۔ سختی سے طلباء کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور معلم کا وقار نہیں رہتا۔
- انتہائی اشد ضرورت میں بدنی سزا دی جائے مگر وہ بھی تین چھڑیوں سے زیادہ نہ ہو۔
تعلم و تعلیم میں بہترین نتائج انہی اصولوں پر عمل پیرا ہوکر حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے پوری انسانیت کے لیے علم کی روشنی کو لازمی قرار دینے کے لیے پہلی وحی اقراء سے شروع کی اور رب نے خود انسان کو علم سکھایا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلم اعظم بناکر بھیجا اور نبوت کا منصب منصبِ معلمی بنایا ہے۔
لہذا معاشرے کی بقاء و ترقی کے لیے اچھے اساتذہ ناگزیر ہیں۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اس آدمی کی کوئی قیمت نہیں جو نہ معلم ہے اور نہ متعلم۔ علم کو مومن کی گمشدہ میراث قرار دیا گیا ہے اور یہ میراث فقط درس گاہوں ہی سے ممکن نہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کا خاص انعام ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُمّی تھے اور معلمِ انسانیت بن کر آئے۔
یہ فیضان نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
معلمی کے لیے اگر ڈگریوں اور کتابوں کی ہی اہمیت ہوتی تو حضرت شمس تبریزؒ حضرت مولانا رومؒ کی کتابیں کنویں میں نہ پھینکتے اور مولانا رومؒ یہ فرماتے:
مولوی ہر گز نہ شُد مولانائے روم
تا غلام شمس تبریز نہ شدُ
آقائے دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر خلفائے راشدین، امہات المومنین، تابعین اور تبع تابعین میں متعدد ہستیاں ایسی گذری ہیں جو تلمیذ الرحمن تھیں اور ان کی زندگیاں بنی نوعِ انسان کے لیے مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہیں۔