یہ نظام قدرت ہے کہ انسان بشرط زندگی بچپن، لڑکپن اور جوانی کی بہاریں دیکھنے کے بعد بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ نُّعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فِی الْخَلْقِ ط اَفَـلَا یَعْقِلُوْنَo
(یٰس، 36: 68)
اور ہم جسے طویل عمر دیتے ہیں اسے قوت و طبیعت میں واپس (بچپن یا کمزوری کی طرف) پلٹا دیتے ہیں، پھر کیا وہ عقل نہیں رکھتے۔
یعنی عمر رسیدہ افراد اپنی کمزوری، ناتوانی اور ضعیف العمری کی وجہ سے ذہنی و جسمانی لحاظ سے بچے کی مانند ہو جاتے ہیں، جو کل تک دوسروں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھایا کرتے تھے آج وہ خود عمر کی اس منزل پر دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور ان کی خدمت و محبت کے محتاج ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں حسن سلوک کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں نوکروں یا حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے ان کی کمزوریوں اور ناتوانیوں کا مداوا بننے کی کوشش کی جائے۔ کسی کی تھوڑی سی محبت اور احساس میں گوندھی ہوئی توجہ انہیں اس عمر میں جینے کی نئی راہ دے سکتی ہے اور اس کے عوض بارگاہ الٰہی سے عظیم اجر عطا ہوتا ہے۔ عمر رسیدہ افراد کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں فرامین رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے واضح اور اہمیت کے حامل ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ما أکرم شاب شیخا لسنه إلا قیض الله له من یکرمه عند سنه.
(ترمذی، السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء فی إجلال الکبیر، 4: 327، رقم: 2022)
’’جو جوان کسی بوڑھے کی عمر رسیدگی کے باعث اس کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرے گا۔‘‘
اسلام، ایک آفاقی اور ہمہ گیر دین ہے جس میں زندگی گزارنے کے تمام تر طریقے اور انسانی ضروریات کی تکمیل کی مکمل تفصیلات ملتی ہیں حقوق انسانی کی جتنی رعایت اور احترام کی تاکید ہمیں دینِ اسلام میں ملتی ہے وہ دوسرے مذاہب میں کہیں نہیں ملتی پھر حقوق انسانی میں بطور خاص معمر افراد کے حقوق کا معاملہ درپیش ہو تو اسلام کا رویہ محض عدل و انصاف تک محدود نہیں رہتا بلکہ سراسر احسان پر مبنی قرار پاتا ہے۔
ہمارا دین اس قدر خوبصورت اور آسان ہے کہ یہ عمر رسیدہ افراد کی خدمت اور ان کی عزت و تکریم کو باعث برکت قرار دیتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ کا بغور مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمر رسیدہ افراد کا بے حد ادب و احترام فرمایا کرتے تھے جس کی ایک جھلک ہمیں فتح مکہ کے بعد رونما ہونے والے حیرت انگیز واقعات میں نظر آتی ہے جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بوڑھے والد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کرنے کے لیے مجلس میں لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تعظیم میں کیا الفاظ ارشاد فرمائے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
جئت بأبی أبی قحافة رضی الله عنه إلی رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم فقال هلا ترکت الشیخ حتی آتیه.
(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 3: 272، رقم: 5065)
’’میں اپنے والد محترم حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں لایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آپ اپنے والدِ بزرگوار کو گھر میں ہی رکھتے، میں خود وہاں آجاتا۔ ‘‘
یہ عمر رسیدہ افراد کی عملی قدر دانی ہے، جس کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثبوت فراہم کررہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تعظیم کرتے ہوئے یہ تصور نہ کیا کہ ابو قحافہ ایک طویل عرصہ تک کفر کی حالت میں رہے، اب کفر مغلوب ہوا تو وہ مسلمان ہورہے ہیں، بعض دفعہ انسان سابقہ اختلاف کی وجہ سے کسی کی تعظیم وتکریم سے کتراتا ہے؛ حالاں کہ اس میں ان لوگوں کے لیے اسوہ ہے کہ سن رسیدہ کی ہر صورت تعظیم کی جائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بزرگوں کی تعظیم کو اجلال الٰہی کا حصہ قرار دیا ہے۔
حضرت ابو موسیٰ أشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إن من إجلال اللہ إکرام ذی الشیبۃ المسلم.
’’بوڑھے مسلمانوں کی تعظیم کرنا اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا حصہ ہے۔‘‘
(أبو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب فی تنزیل الناس منازلهم، 4: 261، رقم: 4843)
اسی طرح بزرگوں کی عزت و تکریم کی عظمت کے بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إن من إجلالی توقیر الشیخ من أمتی.
’’بے شک میری اُمت کے معمر افراد کی عزت و تکریم میری بزرگی و عظمت سے ہے۔‘‘
(هندی، کنز العمال، 3: 17، رقم: 3106)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سن رسیدہ افراد کے ساتھ احساس ہمدردی کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے کہ باجماعت نماز میں عمر رسیدہ افراد کی موجودگی کی وجہ سے قرأت میں تخفیف فرمانے کی تاکید فرماتے جیسا کہ حدیث مبارک سے ثابت ہے۔ حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أن رجلا قال والله یا رسول الله إنی لأتأخر عن صلاۃ الغداۃ من أجل فلان مما یطیل بنا فما رأیت رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم فی موعظۃ أشد غضبا منه یومئذ ثم قال إن منکم منفرین فأیکم ما صلی بالناس فلیتجوز فإن فیهم الضعیف والکبیر وذا الحاجۃ.
(بخاری، الصحیح، کتاب الجماعۃ والإمامۃ، باب تخفیف الإمام فی القیام و إتمام الرکوع و السجود، 1: 248، رقم: 670)
ایک شخص عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! خدا کی قسم، میں صبح کی نماز سے فلاں کی وجہ سے رہ جاتا ہوں جو ہمیں لمبی نماز پڑھاتے ہیں۔ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نصیحت کرنے میں اُس روز سے زیادہ ناراض نہیں دیکھا۔ فرمایا تم میں سے کچھ لوگ نفرت دلانے والے ہیں۔ پس جو تم میںسے لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھانی چاہیے کیونکہ ان میں کمزور، بوڑھے اور ضرورت مندبھی ہوتے ہیں۔
حضرت حسن بن مسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
من تعظیم جلال اللہ تعظیم ذی الشیبۃ المسلم.
(بیهقی، شعب الإیمان، 7: 460، رقم: 10987)
’’یہ اللہ کے جلال اور بزرگوں کی تعظیم میں سے ہے کہ اس مسلمان کی تعظیم کرنا جس کے بال سفید ہو چکے ہیں۔ ‘‘
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أتی النبی صلی الله علیه وآله وسلم بقدح فشرب منه وعن یمینه غلام أصغر القوم والأشیاخ عن یساره فقال یا غلام أتأذن لی أن أعطیه الأشیاخ.
(بخاری، الصحیح، کتاب المساقاة الشرب، باب فی الشرب وقول اللہ تعالی، 2: 829، رقم: 2224)
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک پیالہ پیش کیا گیا تو آپ نے اُس میں سے نوش فرمایا اور آپ کے دائیں جانب ایک نو عمر لڑکا تھا اور بائیں جانب عمر رسیدہ حضرات تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے لڑکے! کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں یہ عمر رسیدہ لوگوں کو دے دوں۔ ‘‘
اس حدیث مبارک میں غور طلب امر یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معمر افراد کے بائیں جانب بیٹھے ہونے کے باوجود اس بات کی کوشش کی کہ مشروب کا آغاز بڑوں ہی سے ہو، اس کے لیے بچے سے اجازت بھی مانگی، مذکورہ احادیث مبارکہ سے عمر رسیدہ افراد کی عزت و تکریم کا درس ہمیں اسؤہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتا ہے۔
ہر طرح کے سماجی اور معاشرتی معاملات میں بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بڑوں کی تکریم اور ان کے ادب و احترام کا حکم دیا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود خیبر پہنچے تو وہ دونوں باغات میں ایک دوسرے سے الگ ہوگئے۔ اسی اثناء میں عبد اللہ بن سہل شہیدکر دیے گئے تو عبد الرحمٰن بن سہل اور مسعود کے بیٹے حویصہ اور محیصہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے ساتھی کے معاملہ میں انہوں نے گفتگو کی،جس کا آغاز عبد الرحمٰن نے کیا جبکہ وہ سب سے چھوٹے تھے، اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
کبر الکبر.
(بخاری، الصحیح، کتاب الأدب، باب إکرام الکبیر ویبدأ الأکبر بالکلام والسؤال، 5: 2275، رقم: 5791)
’’بڑے کے مرتبے اور عزت کا خیال رکھو۔‘‘
درج بالا احادیث مبارکہ سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر موقع پر بوڑھوں کا لحاظ فرمایا اور ان کا اکرام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانیت کی بنیاد پر کیا، ہر قسم کی رشتہ داری اور تعلق سے بالا تر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر سن رسیدہ کے اکرام کو تر جیح دی۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاں اقتصادی، معاشرتی، اخلاقی اور معاشی حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا ہے وہاں بالخصوص عمر رسیدہ افراد کو بہت سے حقوق دئیے ہیں۔ انہیں قابل عزت و تکریم اور باعث برکت و رحمت قرار دیا گیا ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
االبرکة مع أکابرکم.
(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 1: 131، رقم: 210)
’’تمہارے بڑوں کے ساتھ ہی تم میں خیر و برکت ہے۔ ‘‘
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَا مِنْ مُعَمَّرٍ یُعَمَّرُ فِی الْإِسْلَامِ أَرْبَعِینَ سَنَۃً إِلَّا صَرَفَ اللَّہُ عَنْہُ ثَلَاثَۃَ أَنْوَاعٍ مِنْ الْبَلَاءِ الْجُنُونَ وَالْجُذَامَ وَالْبَرَصَ فَإِذَا بَلَغَ خَمْسِینَ سَنَۃً لَیَّنَ اللَّہُ عَلَیْہِ الْحِسَابَ فَإِذَا بَلَغَ سِتِّینَ رَزَقَہُ اللَّہُ الْإِنَابَۃَ إِلَیْہِ بِمَا یُحِبُّ فَإِذَا بَلَغَ سَبْعِینَ سَنَۃً أَحَبَّہُ اللَّہُ وَأَحَبَّہُ أَہْلُ السَّمَاءِ فَإِذَا بَلَغَ الثَّمَانِینَ قَبِلَ اللَّہُ حَسَنَاتِہِ وَتَجَاوَزَ عَنْ سَیِّئَاتِہِ فَإِذَا بَلَغَ تِسْعِینَ غَفَرَ اللَّہُ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ وَمَا تَأَخَّرَ وَسُمِّیَ أَسِیرَ اللَّہِ فِی أَرْضِہِ وَشَفَعَ لِأَہْلِ بَیْتِہِ.
(أحمد بن حنبل، المسند، 3: 127، رقم: 13303)
جب مسلمان بندہ چالیس سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے تین طرح کی بلائیں دور کردیتا ہے، جنون، کوڑھ اور برص اورجب پچاس سال کا ہوجاتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کے حساب میں تخفیف کر دیتا ہے اور جب ساٹھ سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی طرف جھکنا نصیب فرماتا ہے اور جب ستر سال کی عمر کا ہو جاتا ہے تو آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اسی سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیاں ثابت رکھتا ہے اور اس کی برائیاں مٹا دیتا ہے اور جب نوے سال کا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرماتا ہے اور اس کے گھرانے کے آدمیوں کے بارے میں اسے شفاعت کرنے والا بناتا ہے اور آسمانوں میں لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ اللہ کی زمین میں اس کا قیدی ہے اور اس کے گھر والوں کے حق میں اس کی سفارش قبول فرماتے ہیں۔
عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ عہد خلافت راشدہ میں بھی عمر رسیدہ افراد کے حقوق کا خصوصی خیال رکھا گیا اور انہیں کئی مراعات دی گئیں جو بوڑھے افراد کام کاج کے قابل نہیں تھے ان کے لیے وظائف مقرر کر دیئے جاتے۔ مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم عمر رسیدہ افراد کی بھی امداد کی جاتی۔ جس کا عہد فاروقی کی درج ذیل مثال سے واضح اندازہ ہوتا ہے:p> اایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک جگہ سے گزر رہے تھے دیکھا کہ ایک نابینا بوڑھا بھیک مانگ رہا ہے آپ نے بھیک مانگنے کا سبب دریافت کیا تو اس نے کہا الجزیۃ والحاجۃ یعنی جزیہ اور معاشی ضروریات نے مجبور کر دیا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے گھر لے جا کر کچھ عطا کیا پھر بیت المال میں لے جا کر خزانچی کو حکم دیا انظریدا واضرباہ یعنی یہ اور اس قسم کے دوسرے حاجت مندوں کی تفتیش کرو یہ انصاف نہ ہو گا کہ ہم نے جوانی میں ان سے فائدہ اٹھایا اور اب بڑھاپے میں ہم ان کو بھول جائیں۔ الغرض اس کا اور اس قسم کے دوسرے معززین کا بیت المال سے وظیفہ جاری ہو گیا اور ان سے جزیہ ساقط ہو گیا۔
(ابو عبیدہ قاسم، کتاب اموال:57، رقم: 413)
آج ہم حضرت عمر بن خطاب کے اس عمل کا ذکر تو کرتے ہیں کہ انہوں نے مسلم اور غیر مسلم رعایا کے عمر رسیدہ افراد کے لیے ایک وظیفہ مقرر کیا جبکہ ہمارے ملک کا حال تو یہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان اپنے بجٹ کا 2 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے اور اگر عمر رسیدہ افراد کا حصہ اس میں سے اخذ کریں تو زیادتی کی وجوہ سمجھنے میں دشواری نہیں ہو گی۔
یہ المیہ ہے کہ اسلامی اصولوں کی بنیاد پر قائم کردہ مملکت پاکستان میں تمام افراد کو مذہبی، معاشی معاشرتی، سیاسی، اقتصادی اخلاقی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بے شمار حقوق اسلامی قوانین کی روشنی میں دینے کا حق تو دیا گیا ہے تاکہ ایک حقیقی اسلامی ریاست میں ان حقوق سے تمام شہری مستفیض ہو سکیں لیکن تاحال اس معاشرہ میں افراد کے حقوق کا نہ تو احترام ہے اور نہ ان کی ادائیگی کا نظام اورضعیف العمر افراد کا تو کوئی پرسان حال نہیں۔
آج دور حاضر کی نوجوان نسل کو دین اسلام کی تعلیمات اور عملی مثالوں کے ذریعے طبقات انسانی بالخصوص معمر افراد کی تکریم کے لیے راہنمائی فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل پیرا ہو کر انسانیت کے اس اہم طبقے کے ساتھ نرم گفتاری، حسن سلوک اور جذبہ خیر خواہی اختیار کریں۔ ان کے حقوق احسن طریقے سے پورے کریں۔ ضعیف العمری کے باعث چڑچڑا پن فطری تقاضا ہے لہٰذا بوڑھوں کی خلاف مزاج باتوں پر تحمل اور برداشت سے صرف نظر کریں تاکہ گھر اور معاشرہ دونوں امن و آشتی کا گہوارہ بن سکیں۔