جزیرہ نما عرب کا خطہ جو حجاز کے نام سے معروف تھا نہ صرف وہاں کے لوگ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے تھے بلکہ تمام دنیا ہی گمراہی و ضلالت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرچکی تھی۔ ہر طرف کفرو شرک اور ظلم و جور کا بازار گرم تھا۔ کوئی برائی ایسی نہ تھی جو موجود نہ ہو۔ عربوں کے اندر بھی ہر قسم کی قبیح برائیاں موجود تھیں۔ زنا کاری، شراب نوشی اور قمار بازی ان کی زندگی کے مشاغل میں شامل تھے۔ بات بات پر لڑائی جھگڑا، قتل و غارت گری یہاں تک کہ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کی ظالمانہ رسم جاری و ساری تھی۔ ہر طرف چوری، ڈکیتی، راہزنی، مکاری و عیاری عربوں کا پیشہ تھا۔ خانہ کعبہ میں خدائے واحد کی عبادت کی بجائے سینکڑوں خداؤں کی پوجا جاری تھی یہاں تک کہ ان معبودانِ باطل کی تعداد سال کے دنوں کے مطابق 360 تھی۔ اس مقدس بیت العتیق کی نگرانی عربوں کے سب سے معزز قبیلے قریش کی ایک شاخ بنو ہاشم کے معزز شخص عبدالمطلب کے ہاتھ میں تھی۔
قدرت کا یہ اصول ہے کہ جب دنیا مکمل طور پر جہالت و گمراہی کے اندھیروں میں غرق ہوجائے تو کسی مصلح کا آنا لازم ہوجاتا ہے جو اہل دنیا کو اخلاقی تعلیم دیتے ہوئے انہیں جہالت سے نکالتا ہے اور ہدایت کی شمع روشن کرکے اپنی بے لوث محبت سے اپنی طرف بلاتا ہے اور ظلم و جور کا خاتمہ کرتے ہوئے پستہ حال قوم کو الہامی تعلیمات کی روشنی اور اپنی محبت کی طاقت سے اوج ثریا تک پہنچا دیتا ہے۔ ایسے ہی زمانے میں سر زمینِ حجاز کے شہر مکہ میں قبیلہ بنو ہاشم کے اُسی معزز و محترم متولی کعبہ عبدالمطلب (مرحوم بیٹے عبداللہ) کے گھر میں نبوت کا لازوال آفتاب طلوع ہوا جس کے نور سے جزیرہ نما عرب دور دور تک جگمگا اٹھا جس کی روشنی نے ساری دنیا کو منور کردیا۔
نعیم صدیقی اس حوالے سے لکھتے ہیں:
’’قوم کا یہ چمکتا ہوا ہیرا جب نبوت کے منصب سے کلمہ حق پکارتا ہے تو زمانہ کی آنکھوں کا رنگ معاً بدل جاتا ہے اور اس کی صداقت و دیانت اور شرافت و نجابت کی قدرو قیمت بازارِ وقت میں یکایک گرا دی جاتی ہے‘‘۔
حالانکہ وہ محترم شخص جو قریش کی آنکھوں کے سامنے مکی معاشرے کی گود میں پل کر جوان ہونے والا جب پختگی کی عمر کو پہنچتا ہے تو اُسے صادق اور امین کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ کل تک جس کا احترام بچہ بچہ کرتا تھا۔ اعلان حق کرنے پر پوری قوم اس کی مخالفت میں کھڑی ہوجاتی ہے۔ وہ عظیم المرتبت شخص جس نے چالیس سال تک اپنے کردار کو دنیا کی کسوٹی پر کھرا ثابت کیا تھا وہ پیغام حق کو سناتے اپنے ہی لوگوں کے معیار کی نذر ہوجاتا ہے۔
قریش کی کورنگاہی نے اس ہیرے کی ناقدری کرتے ہوئے مخالفت پر آمادہ کردیا۔ اس مخالفت کی وجہ صرف اور صرف جاہلیت کا وہ فاسد نظام تھا جس کو بدلنے کے لیے نبی محترم نے آوازِ حق بلند کی تھی۔ حالانکہ قریش کے لوگ اس مقدس و معزز شخص کو صادق و امین گردانتے تھے کیونکہ انہیں اس کے فکرو کردار میں کوئی کجی یا رخنہ نہیں تھا بلکہ ان کی مخالفت کی وجہ صرف اور صرف ان کی مفاد پرستانہ ذہنیت تھی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب ان کے اس جاہلانہ نظام کو للکارا تو قریش کو اپنی سیادت کا سورج غروب ہوتا دکھائی دیا۔
اگر ایک طرف قریش سیاسی و معاشرتی اعتبار سے طاقت کا مظہر بنے ہوئے تھے تو دوسری طرف مذہبی امور کے نگران بھی تھے اور اس حوالے سے پورے عرب میں ان کی عزت و احترام تھا۔
خانہ کعبہ پر چڑھائے جانے والے تمام نذرانے اور چڑھاوے ان کے پاس آتے تھے۔ قریش کے بے تاج بادشاہ ہونے کی وجہ سے وہ تمام دولت کے مالک و مختار تھے۔ اس کے علاوہ قریش کا فاسقانہ کلچر اور قبیح عادات ان کے خون میں رچ بس چکی تھیں اور جب اس داعی اعظم نے کلمہ حق بلند کیا تو قریش ہیجان زدہ ہوکر مخالفت کے لیے کھڑے ہوگئے۔
نبوت کے اوائل دور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رویائے صادقہ اور غیبی پیغامات ملنا شروع ہوئے اور بالآخر جبریل امینؑ اولین پیغام لے کر آگئے اور یہ پیغام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ کو سنایا تو وہ آپ کے پیغام پر لبیک کہنے والی سب سے پہلی مومنہ تھیں اور آہستہ آہستہ ہم نشینوں میں یہ پیغام پہنچا تو بلا پس و پیش انہوں نے لبیک کہا اور پھر یہ دعوت حق رفتہ رفتہ موثر ہوتی چلی گئی اور یہ تمام افراد ایسے تھے جو قریش کے کسی بھی اعلیٰ مذہبی و قومی منصب پر مامور نہیں تھے بلکہ سادہ لوح اور آزاد طبع لوگ تھے اسی طرح اپنے رفقاء کے ساتھ دعوت حق میں تین سال گزر گئے تو اعلانیہ دعوت نبوت کا پیغام آن پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کو کوہ صفا کے پاس بلایا اور انہیں بلند آواز سے مخاطب کرتے ہوئے گویا ہوئے۔
’’اے بنو عبدالمطلب، اے عبد مناف، اے بنو زہرا، اے بنو تمیم، اے بنو اسد! خدا پر ایمان لے آؤ ورنہ تم پر سخت عذاب نازل ہوگا‘‘۔
اور اس اعلان پر آپ کا چچا ابو لہب بہت برہم ہوا اور یوں آپ کو اپنے قبیلے کی طرف سے ہی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری دعوت عام میں آپ نے خاندان عبدالمطلب کو کھانے پر مدعو کیا اور کھانے کے بعد مختصر خطاب فرمایا کہ میں جس پیغام کو لے کر آیا ہوں یہ دین دنیا دونوں کا کفیل ہے۔ تم میں سے کون اس مہم میں میرا ساتھ دیتا ہے، پورے ماحول پر سکوت طاری ہوگیا کہ اتنے میں ایک بارہ تیرہ برس کا لڑکا اٹھا اور کہنے لگا کہ
’’اگرچہ میں آشوبِ چشم میں مبتلا ہوں۔ اگرچہ میری ٹانگیں پتلی ہیں۔ اگرچہ میں بچہ ہوں لیکن اس مہم میں مَیں آپ کا ساتھ دوں گا‘‘۔
اس بیان کو سن کر حاضرین محفل ہنسنے لگے۔ ان کے خیال میں یہ محض ایک مذاق اور جنون کے سوا کچھ نہ تھا۔
بہرکیف اس داعی انقلاب کی یہ تحریک آہستہ آہستہ آگے بڑھتی گئی یہاں تک کہ اس صدائے حق پر لبیک کہنے والوں کی تعداد چالیس تک جا پہنچی اور اب وہ وقت آن پہنچا تھا کہ کھلم کھلا کلمہ حق کو بلند کیا جائے۔ اسی دوران آپ نے حرم کعبہ میں آکر توحید کا اعلان کردیا۔ اس مقدس چار دیواری میں خدائے واحد کی وحدانیت کی آواز بلند ہوتے ہی کفار و مشرکین مشتعل ہوگئے اور ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔
وہ دعوت حق جو انتہائی پرسکون ماحول میں پھل پھول رہی تھی اس کا رد دلائل کے بغیر جذباتی اشتعال انگیزی سے کیا جانے لگا۔ معقولیت کے جواب میں تلواریں بے نیام ہوگئیں۔ دلائل کے مقابلے میں زبان درازی کے ساتھ ساتھ ظلم و ستم شروع ہوگیا مخالفت تیز تر ہوتی چلی گئی اور ظلم و ستم کا بازار گرم ہوگیا۔ کبھی دوران عبادت شورو غل کیا جاتا کبھی ہنسی و تمسخر اڑایا جاتا۔ کبھی نماز میں دوران سجدہ اونٹ کی غلاظت ڈال دی جاتی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گلے میں چادر لپیٹ کر گلا گھونٹنے کی نوبت آگئی۔ دوران تلاوتِ کلام پاک قرآن کے ساتھ ساتھ خدا و رسول کو برا بھلا کہا جاتا۔ آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے ، اوباش لڑکوں کو آپ کے پیچھے لگادیا جانا جو آپ پر آوازیں کستے اور تمسخر اڑاتے کہ کسی بھی طرح اس پیغام حق کو دبا کر اس کی آواز خاموش کرادی جائے۔ انہی حالات میں آپ کے ساتھ مکہ کی چند معتبر اور زور آور ہستیاں بھی آپ کی اس دعوت میں شامل ہوئیں تو صورتِ حال میں کچھ تبدیلی آئی۔
دعوت حق کی یہ تحریک ظلم و جور سے گھبرائے بغیر آگے بڑھتی رہی۔ داعی حق کی آواز پر لبیک کہنے والوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم بھی ملا بالآخر وہ وقت بھی آن پہنچا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کو الوداع کہنے کا فیصلہ فرمایا۔ اب یہ دعوت حق مدینہ کی طرف رواں دواں ہوگئی۔ ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ اس تحریک کا مرکز بدلنے سے اس کا اجالا چاروں طرف پھیلنے لگا جوں اس داعی اعظم کی محبت دلوں کو منور کرتی گئی ویسے ہی اسلام کا بول بالا ہوتا چلا گیا۔
مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے دعوت حق کا دائرہ خود بخود بڑھتا گیا یہاں تک کہ سات ماہ کے قلیل عرصے میں تقریباً ہر قبیلے سے جانثاروں نے آپ کی آواز پر لبیک کہا اور مدینہ کا معاشرہ مہاجرین و انصار کی لازوال محبت کا امین بن گیا۔ اس داعی اعظم کی جہد مسلسل سے ایک نئی مسلم برادری معرض وجود میں آگئی اور تیرہ برس کی قلیل مدت میں آپ کا پیغام قرب و جوار کی دیگر حکومتوں میں بھی پہنچ گیا کیونکہ یہ ایک ایسی دعوت تھی جس کا فطری تقاضا تھا کہ یہ صرف عرب کے خطے تک ہی محدود نہ رہے بلکہ کائنات ہستی کے گوشے گوشے تک پہنچ جاتے۔
اور یہ اس داعی اعظم کی بے مثال قیادت اور لازوال تربیت ہی کا نتیجہ تھا کہ چند برسوں کے مختصر عرصے میں اس تحریک کی روشنی نے پورے عالم کو منور کردیا اور الحمدللہ آج مسلمانوں کا وجود اسی محترم و مکرم ہستی کی جانفشانی کی بدولت باقی ہے۔ یہ اسی مقدس ہستی کا فیضان ہے کہ مسلمانوں کے سینوں میں آج بھی کلمہ حق کا ولولہ برقرار ہے اور یہ اسی داعی اعظم کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کے سامنے ایک باضابطہ لائحہ عمل (قرآن وسنت) کی شکل میں موجود ہے۔ یہ پروردگار کا ہم پر احسان عظیم ہے کہ ہمیں اس داعی اعظم کی تحریک/مشن میں حصہ لینے کا شرف حاصل ہوا اور ہم اسی داعی حق کی بدولت حالت ایمان پر قائم ہیں۔
ہدیہ بحضور سرورِ کائنات ﷺ
مالک تسنیم و کوثر، صاحب جود و کرم
منتہائے خالقِ ارض و سما ذی محترم
اے شہ کون و مکاں، یا رحمۃ للعالمیں
نارسائی کو میری لے چل کبھی سوئے حرم
میں کہاں جاؤں تیرے در کی گدائی چھوڑ کر
کاسۂ قلبِ حزیں پر ہو تیرا لطف و کرم
ایک مدت سے ہوں باران سخا کی منتظر
بھیج دو اب میری جانب بھی کوئی ابرِ کرم
اس جہاں میں تو مجھے نسبت ہے تیری آل سے
اے شفیع المذنبین محشر میں بھی رکھنا بھرم
(ڈاکٹر فرخ سہیل)