اللہ رب العزت نے آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس ہستی کو تمام نبی نوع انسان کے لیے رحمۃ للعالمین بناکر بھیجا آپ کی مقدس شخصیت نہ صرف اللہ کے بندوں کو اللہ سے ملانے اور بزم جہاں میں شمع ہدایت بن کر آئی بلکہ آپ تمام بشری کمالات و محاسن کا مجموعہ اور سراپا حسن و جمال بن کر تشریف لائے۔ پیکر دلربا بن کے آئے، روح ارض و سما بن کے آئے، سب رسول خدا بن کے آئے، وہ حبیب خدا بن کے آئے۔ آپ کو رب کائنات نے چونکہ انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے بھیجا اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہایت احسن تقویم کا شاہکار بناکر بھیجا۔
یہ فطرت انسانی ہے کہ وہ جب بھی کسی ہستی یا شخصیت سے متاثر ہوکر اس کا گرویدہ، مطیع یا شیدا ہوتا ہے تو اس کی بنیادی طور پر تین بڑی وجوہات ہوا کرتی ہیں۔ یہ تین صورتیں یا تین جہتیں ہوسکتی ہیں۔
اول: یا تو وہ کسی کی عظمت و رفعت اور فضیلت و کمالات کی وجہ سے اس سے متاثر ہوکر اس کا گرویدہ ہوجاتا ہے اس سے محبت کرنے لگتا ہے اور اس کا تابع و مطیع ہوجاتا ہے۔
اس جہت سے اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات کو پیش نظر رکھا جائے تو آپ نبوت و رسالت کے سب سے اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز دکھائی دیتے ہیں۔ نبوت و رسالت کے تمام تر درجات، کمالات، معجزات اور فضائل جو مختلف انبیاء کرام کو اللہ تعالیٰ نے عطا کیے وہ سب آپ میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں بلکہ جو سب پیغمبروں اور رسولوں کو جدا جدا ملا وہ میرے آقا مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یکجا ملا۔ علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا:
حسن یوسف، دم عیسیٰ، یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
اور دوسری خوبی جس کی وجہ سے انسان کسی سے متاثر ہوتا ہے وہ اس کے اخلاق و کردار اور خصائص کی اعلیٰ خوبیاں ہیں اگر کسی کے ہم پر بہت زیادہ احسانات ہوں یا کوئی بے حد مہربان و غمگسار اور شفیق ہو تو بھی آپ اس کے احسانات کی وجہ سے دل سے اس کی عزت و قدر کرتے ہیں اور نتیجتاً اس سے عقیدت و محبت کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ کائنات میں سب سے اعلیٰ اخلاق پر فائز ذات بھی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے جن کے اخلاق کے عظیم ہونے کی گواہی خود اللہ تعالیٰ نے دے دی۔
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ.
(القلم، 68: 4)
’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)‘‘۔
اور احسانات اور رحمتوں کا عالم یہ ہے کہ سارے جہانوں کے لیے ان کا وجود سراپا رحمت ہے جیسا کہ سورۃ انبیاء میں ارشاد ربانی ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ.
(الانبیاء، 12: 107)
اور بالمومنین روف الرحیم تو ہیں ہی اس سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے خود مومنوں کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کو اپنا سب سے بڑ ااحسان قرار دے دیا۔
لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلاً.
(آل عمران، 3: 164)
تحقیق اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان میں سے ہی اپنا رسول مبعوث فرمایا ایسی صورت کہ جس کی وجہ سے انسان بے ساختہ کسی سے والہانہ محبت و عشق کرنے لگ جاتا ہے اور بے خود و دیوانہ ہوکر کسی پر دل و جان سے فدا ہوجاتا ہے اس کے حسین و جمال پیکر دلربا کو دیکھ کر بندہ بے ساختہ اس پر فریفتہ ہوجاتا ہے اور اگر اس پہلو یا اس زاویہ نگاہ کے مطابق سراپا مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نگاہ ڈالی جائے تو یہاں پر حسن وجمال کی تمام تر رعنائیاں اور خوبصورتی کے تمام تر معیار حسن مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نثار نظر آتے ہیں۔ حضرت حسان بن ثابتؓ حضور علیہ السلام کے حسن سراپا کے بارے میں اپنے نعتیہ کلام میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں:
واحسن منک لم ترقط عینی
واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرا من کل عیب
کانک قد خلقت کما تشآء
سردست ہمارا منشاء اس بات کا کھوج لگانا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل مبارکہ کے باب میں جو احادیث کا عظیم ذخیرہ موجود ہے قرآن اس کی تائید میں کیا صادر کرتا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ذکر مصطفی اور سیرت مطہرہ اور شمائل و فضائل کے باب میں قرآن سے بڑھ کر زیادہ مستند اور معتبر ذریعہ کوئی نہیں چنانچہ قرآن نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراپا مبارک اور حسن مجسم کا بیان ایسے دلآویز انداز سے کیا ہے کہ عاشقان جمال مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے سن کر وجد میں آجاتے ہیں اور ان کے دل میں عشق و محبت کے ایسے چراغ روشن ہوجاتے ہیں جنہیں حوادث زمانہ کی کوئی آندھی بجھا نہیں سکتی۔
قرآن اور سراپا مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان:
قرآن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مسعود کو سراپا نور قرار دیتا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
قَدْ جَآئَکُمْ مِّنَ اللهِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ.
’’بےشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)‘‘۔
(المائدة، 5: 15)
تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہاں نور سے مراد ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
حسن سراپا مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سراج منیر قرار دینا۔
یٰـٓاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّـآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا. وَّ دَاعِیًا اِلَی اللهِ بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا.
’’اے نبِیّ (مکرّم!) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)‘‘۔
(الاحزاب، 33: 45۔46)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن سراپا کو سراج منیر قرار دیا جانا ایک قرآنی استعارہ ہے۔ سراج لغت میں آفتاب یا چراغ کو کہتے ہیں اور منیر اسے کہتے ہیں جو دوسروں کو روشن کردے۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود نہ صرف خود روشن و منور ہے بلکہ چاروں طرف روشنی بھی بانٹ رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کی قسم کھائی ہے کہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری زندگی کی قسم کھائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَعَمْرُکَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَکْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ.
’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قَسم، بے شک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیں‘‘۔
(الحجر، 15: 72)
جس اللہ نے کسی نبی پیغمبر کی پوری زندگی کی قسم یوں نہیں کھائی یہ منفرد مقام و مرتبہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ستودہ صفات کو حاصل ہے کہ آپ کی پوری زندگی کی قسم کھائی جارہی ہے۔
چہرہ انور اور گیسوئے عنبریں کی قسم:
قرآن مجید کے صفحات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسد اطہر کے اعضاء مبارک یعنی چہرہ انور گیسوئے مبارک اور چشمان مقدس کے ذکر تک سے معمور ہیں۔
وَالضُّحٰی. وَالَّیْلِ اِذَا سَجٰی. مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰی.
(الضحیٰ، 93: 1 تا3)
’’قَسم ہے چاشت کے وقت کی (جب آفتاب بلند ہو کر اپنا نور پھیلاتا ہے)۔ اور قَسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے۔ آپ کے رب نے (جب سے آپ کو منتخب فرمایا ہے) آپ کو نہیں چھوڑا اور نہ ہی (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہوا ہے‘‘۔
یہاں تشبیہ کے پیرائے میں چاشت کی طرح چمکتے ہوئے چہرہ زیبا کا ذکر والضحیٰ کہہ کر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شانوں کو سیاہ رات کی طرح چھائی ہوئی زلفوں کا ذکر واللیل کہہ کر کہا گیا ہے۔
حضور ﷺ کی چشمان مقدس کا بیان:
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے آقا دو جہاں کی مبارک آنکھوں کا بھی ذکر کیا ہے:
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی.
(النجم، 53: 17)
’’اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)‘‘۔
قرآن و سنت آیات الہٰیہ کے باب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمال بصارت کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے:
لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰ یٰتِ رَبِّهِ الْکُبْرٰی.
’’بےشک انہوں نے (معراج کی شب) اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں‘‘۔
(النجم، 53: 18)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک کا بیان:
قرآن مجید نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک کا بھی ذکر کیا ہے:
اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ
(الانشراح، 92: 1)
’’کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لیے) کشادہ نہیں فرما دیا‘‘۔
منصب نبوت اور عظیم پیغمبرانہ مشن کی ذمہ داریوں کا بوجھ جو آپ کی پشت مبارک پر تھا جسے رب العزت نے کمال لطف و شفقت سے ہلکا کردیا تھا۔
گفتار مصطفی ﷺ کا ذکر:
قرآن مجید حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بول چال، گفتگو اور ذہن مبارک کا ذکر بھی کرتا ہے:
اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ.
(الحاقہ، 69: 40)
’’بے شک یہ (قرآن) بزرگی و عظمت والے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا (منزّل من اللہ) فرمان ہے، (جسے وہ رسالتاً اور نیابتاً بیان فرماتے ہیں)‘‘۔
یہ کتنی عظیم بات ہے کہ خدا نے اپنے کلام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام سے تعبیر فرمایا پھر قرآن نے ذہن انسانی سے اس خلیجان کو رفع کرنے کے لیے انسان ہونے کے ناطے اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام کو انسانی کلام پر محمول نہ کرلیا جائے۔ واشگاف انداز میں اعلان کردیا کہ میرا رسول خواہش نفس سے ایک لفظ بھی زبان پر نہیں لاتا بلکہ جوکہتا ہے اللہ کی طرف سے وحی ہوتا ہے۔
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰی. اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی.
’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے‘‘۔
(النجم، 35: 3-4)
بس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لب سے جو کلام ہوتا ہے وہ وحی الہٰی ہے، بس اتنا فرق ضرور ہے کہ اگر وہ وحی جبرائیل امین علیہ السلام کے توسط سے قلب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اترے تو اسے قرآن کہا جاتا ہے اور وہ وحی جلی اور وحی متلو کہلاتی ہے جبکہ دوسری وحی خفی اور غیر متلو کہلاتی ہے اور اسے حدیث کا درجہ حاصل ہے۔
فعلِ مصطفی ﷺ فعلِ خدا ہے:
جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات از روئے قرآن اور وحی الہٰی ہوتی ہے اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فعل کو بھی فعل خداوندی قرار دیا جاتا ہے۔ جیسے ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللهَط یَدُ اللهِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ.
(الفتح، 48: 10)
’’(اے حبیب!) بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اللہ کا ہاتھ ہے‘‘۔
اس آیت میں بیعت رضوان کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے حالانکہ صحابہؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دس اقدس پر بیعت کی تھی۔
قلبِ مصطفی ﷺ اور قرآن:
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کمال بصارت کے ذکر کے بعد قرآن آپ کے قلب انور کا ذکر بھی کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی.
(النجم، 53: 11)
’’(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا‘‘۔
حضور ﷺ کے دست اقدس کا بیان:
قرآن مجید میں اللہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں کا ذکر اس شان سے کیا ہے کہ دست مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا دست اقدس قرار دے دیا۔
یَدُ اللهِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ.
(الفتح، 48: 10)
’’ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اللہ کا ہاتھ ہے‘‘۔
حضور ﷺ کے سینہ اقدس کا بیان:
اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ اقدس کا ذکر کرتے ہوئے آپ کو شرح صدر کی دولت عنایت فرمادی۔
اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ.
’’کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لیے) کشادہ نہیں فرما دیا‘‘۔
(الانشراح، 94: 1)
فرمایا حضرت موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ سے شرح صدر کی دعا کی جسے قرآن نے بیان کیا۔ رب شرح لی صدری۔ اور مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ہے کہ خود اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کے شرح صدری کا اعلان فرمادیتے ہیں اور فرمایا لک تمہارے لیے کھولا تاکہ تو راضی ہوجائے اور کتنا کشادہ کیا انشرح صدر مقصد اور وسعت کا تعین نہیں فرمایا پس مفہوم کچھ یوں ہوگیا اے محبوب ہم نے آپ کا سینہ اس قدر کھول دیا کہ ارض و سماء کی ساری وسعتیں اس میں سماگئی ہیں۔ میں نے تمام اسرار و رموزکے خزانے آپ کے سینے میں سمودیئے ہیں۔
آپؐ کی ہر ادا باری تعالیٰ کی خصوصی توجہ کا مرکز ہے نگاہ مصطفیؐ اور حضور کے تکنے کا ذکر:
اللہ تعالیٰ نے چہرہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر اتنی شان کے ساتھ کیا کہ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ مبارک کو تکتے رہنا اور اپنی نگاہوں میں رکھنا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ جیسا کہ قبلہ کی تبدیلی کے واقع سے معلوم ہوتا ہے۔
قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فِی السَّمَآءِج فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰهَا.
(البقرة، 2: 144)
’’(اے حبیب) بے شک ہم نے آپ کے چہرہ کا آسمان کی طرف بار بار اٹھتا دیکھ لیا۔ پس بے شک ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس کو آپ پسند کرتے ہیں‘‘۔
دوسرے مقام پر قرآن نے واضح کردیا ہے کہ آپ کا ہر عمل اور ہر ادا رب العزت کی توجہ کا مرکز ہے۔
حضورؐ کے قیام و رکوع اور نشست و برخاست کا ذکر:
الَّذِیْ یَرٰکَ حِیْنَ تَقُوْمُ. وَتَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَ.
(الشعراء، 26: 218۔129)
’’جو آپ کو (رات کی تنہائیوں میں بھی) دیکھتا ہے جب آپ (نمازِ تہجد کے لیے) قیام کرتے ہیں اور سجدہ گزاروں میں (بھی) آپ کا پلٹنا دیکھتا (رہتا) ہے‘‘۔
یعنی اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم لمحہ لمحہ آپ کو تکتے رہتے ہیں آپ کو اپنی نگاہوں میں رکھتے ہیں آپ کی زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جو ہماری خصوصی نوازشات سے سرفراز نہ ہو یہاں تک کہ جب تو اٹھتا بیٹھتا ہے تو ہم تیری نشست و برخاست کو بھی دیکھتے ہیں۔
حضور ﷺ کی آواز کا ذکر:
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کی بارگاہ کے آداب بجا لانے کی تعلیم فرمائی تو حکم دیا خبردار تمہاری آوازیں میرے نبی کی آواز سے اونچی نہ ہونے پائیں۔
یٰـٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ.
’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبئ مکرّم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند مت کیا کرو‘‘۔
(الحجرات، 49: 2)
آنحضور ﷺ کو مخاطب کرنے کا ذکر:
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو مخاطب کرنے کا ادب بھی سکھایا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عام انسان سمجھ کر انہیں بلند آواز سے نہ پکاریں۔
وَلَا تَجْهَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَهْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ.
’’اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو‘‘۔
(الحجرات، 49: 2)
الغرض ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مختلف انداز میں کبھی تمثیل و تشبیہ سے کبھی رمزو اشارہ سے کبھی کنایہ مجاز سے اور کبھی صراحت وضاحت سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن سراپا اور نور مجسم کا ذکر کرتا ہے تاکہ آپ کے حسن و جمال کے تذکرے سے اہل ایمان کے دلوں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے عشق و محبت کا داعیہ پیدا ہو تاکہ محبوب کی تقلید و اتباع سے مشام جاں لذت و حلاوت کی چاشنی محسوس کرتے ہیں۔ بے شک یہ عظمت بلا شرکت غیرے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حصے میں آئی ہے کہ آپ جیسا حسین وجمیل، سراپا نور اللہ نے نہ پیدا کیا ہے نہ کرے گا۔
نبیوں میں نبی ایسے کہ ختم الانبیاء ٹھہرے
حسینوں میں حسین ایسے کہ محبوب خدا ٹھہرے