اس بات سے قطعی انکار کی گنجایش نہیں کہ انسان کی نشوونما اور زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ اسکی کی ضرورتیں اور احتیاجات بھی بدلتے رہتے ہیں اگر یہ تبدیلی نہ ہوتی تو کسی بھی طرح کی ترقی اور نشوونما کا امکان بھی نہ ہوتا چونکہ انسان طبیعی طورسے معاشرتی اور اجتماعی ہے اسی لئے اپنی شخصی اور فردی زندگی کے علاوہ معاشرتی زندگی میں بھی آگے بڑھنا چاہتاہے اس سلسلے میں اپنی ذاتی صلاحیتوں کے علاوہ ووسروں کے تجربوں اور روزمرہ کے ایسے سارے وسائل کا سہارا لیتا ہے جو اسے جلد از جلد اپنی منزل مقصود سے ہمکنار کرا سکتے ہوں انہی میں سے ایک ناقابل انکار حقیقت آئیڈیل، ماڈل یا اسوہ ہے جسکے نقش قدم پر چل کر انسان اپنی زندگی کے مختلف جوانب اور میادین میں رشد و ترقی کی راہوں کو طے کرتا ہے۔ بعض افراد غیر شعوری اور بعض شعوری طور پر اپنی زندگی میں اس ضرورت کو محسوس کرتے ہیں اور یہ ایک ایسی ضرورت ہے جس میں نہ عمر کا لحاظ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی اور چیز کا۔ بلکہ انسان اپنے آئیڈیل کی کامیاب زندگی کے اصولوں کی پیروی کر کے اپنی زندگی کو بھی کامیاب بنانا چاہتا ہے لہذا بچے، بوڑھے، خواتین ومرد، جاہل، عالم، اچھا برا سب کے سب اپنی زندگی میں ایک ایسے آئیڈیل کی تلاش میں ہوتے ہیں جسے وہ اپنی زندگی کے تمام میادین میں نمونہ عمل بنا سکیں۔ پس دوسرے معنوں میں اگر اسے فطری ضرورت کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
جی ہاں دینی اور مذہبی تعلیمات کی رو سے بھی اگر دیکھا جائے تو اس ضرورت پر نہ صرف تاکید ہوئی ہے بلکہ دینی اور اسلامی آئیڈیل اور اسوہ حسنہ کے نقش قدم پر فکری اور عملی میدان میں چلنے پر بھی بہت زور دیا گیا ہے۔ قرآنی آیات اور اسلامی روایات کی رو سے بھی زندگی میں آئیڈیل اپنانے پر بہت تاکید ہوئی ہے۔ قرآن کریم نے انسان کے واسطے مثبت اور منفی دونوں طرح کے آئیڈیل کا تعارف بھی کرایا ہے اور مثبت آئیڈیل کو اسطرح سے پیش کیا ہے کہ گویا تمام اعصار میں تمام نسلوں کے واسطے قابل اعتماد اور قابل عمل ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن حکیم نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صاحبان ایمان کے لئے اسوہ حسنہ اور ماڈل قرار دیا ہے۔
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ يَرْجُو اﷲَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ.
(الاحزاب، 33 : 21)
''تم میں سے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے اس کے لئے جو بھی خدا اور آخرت سے امید لگائے ہوئے ہے''
اسی طرح سے توحید اور وحدانیت کی حقیقت کو فروغ بخشنے والے حضرت ابراہیم اور آپکے ساتھیوں کو مسلمانوں کے واسطے نمونہ عمل اور ماڈل کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ.
(الممتحنه، 60 : 4)
''بیشک حضرت ابراہیم اور آپکے ساتھیوں کی زندگی میں تمہارے لئے نمونہ عمل ہے''۔
اور سورہ تحریم کی آخری تین آیتوں میں دو طرح کے منفی اور مثبت آئیڈل پیش کئے گئے ہیں اور اتفاق کی بات یہ ہے کہ کفار اور غیر مسلموں کے واسطے حضرت لوط اور نوح علیہما السلام کی بیویاں منفی آئیڈیل اورحضرت آسیہ اور حضرت مریم علیہما السلام کو سارے مومن خواتین و مرد کے لئے مثبت آئیڈیل قرار دیا گیا۔ ارشاد فرمایا :
’’خدا نے کفر اختیار کرنے والوں کے لئے زوجہ نوح اور زوجہ لوط کی مثال بیان کی ہے کہ یہ دونوں ہمارے نیک بندوں کی زوجیت میں تھیں لیکن ان سے خیانت کی تو اس زوجیت نے خدا کی بارگاہ میں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور ان سے کہہ دیا گیا کہ تم بھی تمام جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہو جاؤ اور خدا نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی زوجہ کی مثال بیان کی ہے کہ اس نے دعا کی کہ پروردگار میرے لئے جنت میں ایک گھر بنا دے اور مجھے فرعون اور اس کے کاروبار سے نجات دلا دے اور اس پوری ظالم قوم سے نجات عطا کر دے۔
اور مریم بنت عمران علیہا السلام کی مثال جس نے اپنی عفت کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کے کلمات اور کتابوں کی تصدیق کی اور وہ ہمارے فرمانبردار بندوں میں سے تھی‘‘۔
پس فردی اور معاشرتی سطح پرایک ا چھے اور مثبت آئیڈیل کی ضرورت سے انکار نہیں کیاجاسکتا ہے اور عقلی و شرعی اعتبار سے ایک آئیڈیل ہماری زندگی میں مؤثر کردار اپنا تا ہے وگرنہ شریعت کی تاکید کرنا بے معنی ہے۔
یہ مضمون چونکہ معاشرے کی ایسی صنف کے آئیڈیل کی ضرورت کے پہلو پر روشنی ڈالے گا جسکا انسانی اور مثالی معاشرہ بنانے میں ایک اہم کردار ہے اگر کہا جائے کہ مرد سے بھی زیادہ اسی صنف کی وجہ سے معاشرے کی ترقی اور پسماندگی کا دارومدار ہوتا ہے تو کوئی بیہودہ بات نہیں کہی۔ جی ہاں یہ صنف خواتین ہے بقول امام خمینی : انسان عورت کی گود سے معراج پر فائز ہو جاتا ہے۔ یہ اس کائنات کی وہ بہترین مخلوق ہے جس کے وجود کے بغیر معاشرہ ناقص اور عیب دار ہے جس کی وجہ سے کائنات کا حسن، دلکشی اور رنگینیت برقرار ہے۔ بقول علاّمہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ :
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
عصرحاضر کا انسان ہر طرح کی حیرانی اور پریشانی میں مبتلا ہے ہمارے معاشرے کی نئی نسل روز بروز فساد اور لاابالی کی دلدل میں دھنس چکی ہے۔ آج کے انسان کی زندگی کے مختلف مراحل میں انحراف اور لغزشیں دکھائی دیتی ہیں۔ چونکہ انسان کی فردی اور معاشرتی تربیت، اصلاح اور تہذیب کے عروج و زوال میں خواتین کا اہم کردار ہے لہذا ان سب مشکلات کا حل اسی میں ہے کہ خواتین کی تربیت اچھی ہو۔ انہیں اسلامی اصولوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم اور سماجی مسائل کو حل کرنے کی سوجھ بوجھ حاصل ہو۔ وہ معاشرے کے ہر میدان میں مرد سے قدم بہ قدم ملا کے چل سکے اور اسکے اصول اور اعتقادات سے تصادم بھی نہ ہونے پائے۔ اس کیلئے ایک آئیڈیل کی ضرورت ہے ایسا آئیڈیل جسکے اندر یہ سارے امور پائے جاتے ہوں جس سے وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے محبت بھی کرتی ہو اور اسکے عمل اور فکر کی تقلید کر کے زمانے کے ان سارے مسائل میں حصہ بھی لے سکے جو انکا ذاتی حق ہے۔ ایک ایسا ماڈل ہو جسکے نقش قدم پر چل کے اسلام اور معاشرتی مسائل کی گتھی کو بھی سلجھایا جا سکے۔
مسلم معاشرے میںایک طرف سے مغرب تو دوسری طرف مشرق، اپنے وقتی، جعلی اور غیر مطمئن آئیڈیل پیش کرتا رہا لہذا ہم اپنے روایتی اور حقیقی آئیڈیل کا صحیح تعارف پیش کرنے سے قاصر رہے یہی وجہ ہے کہ دیکھا جائے تو آج بھی ایک اچھے، مطمئن، قابل اعتماد، دائمی اور ہمہ گیر آئیڈیل کا فقدان واضح اور نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ آج کی عورت نے ایسے مکاتب کی جانب رخ کیا ہے اور ایسے کھوکھلے اور فرسودہ اور بے اعتبار آئیڈیل اور ماڈل کو اپنا لیا ہے، جنکے نقش قدم پر چل کر اس نے اپنی حقیقی پہچان اور تشخص ہی کھو دیا ہے۔ وہ اپنی اصلی حقیقت سے جدا اور الگ تھلگ ہوکر غیروں اور اجنبیوں سے پیوستہ ہو چکی ہے۔ اسی لئے یہ ساری مشکلات اور درد بھرے نالے اور فریادیں سنائی دیتی ہیں۔
دائمی اور ہمیشہ باقی رہنے والے آئیڈیل کے اسرار و رموز :
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک دائمی اور ہمیشہ رہنے والے آئیڈیل کی ضرورت کیوں ہے ؟ وہ اس لئے کہ :
- اسکے افکار اور سوچ ہمیشہ کے لئے زندہ ہوتی ہے۔
- گفتار اور عمل کے اعتبار سے اسکی سیرت انسانی فطرت کے ساتھ ھم آھنگ ہوتی ہے۔
- اسکی عقیدت اور فکر و اندیشہ میں یکجہتی اور ملاپ پایا جاتا ہے۔
دامن اسلام میں ایسے بہت سارے آئیڈیل اور مثالی خواتین موجود ہیں۔ جب دامن اسلام میں ایسے آئیڈیل پائے جاتے ہیں پھر ہماری خواتین کی یہ روگردانی اور پریشانی کیسی؟ ہمارے معاشرے کی خواتین کی زندگی ناکام کیوں؟ معاشرہ میں جہالت، پسماندگی، انحراف، فساد اور زبوں حالی کا عروج کیوں؟ بعض جگہوں پر خواتین میں گھٹن کا احساس کیوں؟ معاشرے کی پڑھی لکھی نسل اسلامی اور انسانی اقدار اور اصولوں سے کوسوں دور کیوں؟ اب بھی عورت کی معاشرتی سرگرمیوں کو اسلامی تعلیمات کے منافی سمجھا جانا کیوں؟ ماں باپ، بھائی بہن، بیٹا، بیٹی، میاں بیوی کو ایک دوسرے کے فرائض اور ذمہ داری سے ناآشنائی کیوں؟ ہمارے معاشرے کے روشن خیال طبقہ کا خواتین کے احیائے حقوق کے لئے مغربی اور سامراجی گروہوں، کنونشنوں اور آرگنائزیشنوں کا سہارا لینا کیوں؟
انکا جواب صرف ایک جملہ میں پوشیدہ ہے کہ ہمارے معاشرے کو ان چہروں سے حقیقی آشنائی نہیں ہے ابھی تک ہمیں انکے اصلی اور حقیقی زندگی سے آگہی نہیں کرائی گئی یا یوں کہا جائے کہ ہم خود آشنا نہیں تو اپنے معاشرے کو ان کی پہچان کیا کروائیں گے!!۔ ہمارے لئے خاتون جنت، دو عالم کی شہزادی حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کوئی ماڈل ہی نہیں۔ لیکن معرفت نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے معاشرے نے کبھی آپ کی ذات کو اس زاویے سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اسی لئے غیر اسلامی ماڈل کی اتباع کی وجہ سے زوال، پسماندگی اور انحرافات نے معاشرے کو بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ کیا حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاجیسی ہستی کے ہوتے ہوئے ہماری خواتین کو اپنی زندگی کے اسوہ حسنہ کی تلاش کے واسطے دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑتیں؟ ہم قصور وار ہیں ہم نے آپ رضی اللہ عنہا کی زندگی کو مثالی خاتون کے حوالے سے کبھی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی تو دوسروں کو کیا سمجھاتے۔
چند ایک دلائل کی بنیاد پر یہ بات ثابت کی جا سکتی ہے کہ نہ فقط مسلمان خواتین بلکہ پوری دنیا کی خواتین کے واسطے آپ سے بڑھ کر ایک ہمہ گیر، دائمی اور بغیر کسی نقص اور عیب کے، ایک مکمل آئیڈئل کوئی اور واقع نہیں ہو سکتی ہیں۔
٭ چونکہ آپ خود ایک عورت تھیں اور اسکے ساتھ ساتھ کمال سعادت کے عروج پر فائز تھیں لہذا صنف خواتین کے مسائل کے واسطے ایک عورت ہی ھمہ گیر آئیڈیل ہو سکتی ہیں۔
٭ آپ ایسے مکتب کی بیٹی اور پاسباں ہیں جو جاودان اور ہمیشہ رہنے والا مکتب ہے لہذا اس مکتب کے پاسبان بھی ابدی ہیں رہتی دنیا تک باقی ہیں جن کے یہ فرامین آبِ زر سے لکھنے والے ہیں۔
''فاطمة سيدة نساء اهل الجنةّ'' '' يا فاطمة الا ترضين ان تکونی سيدة نساء العالمين و سيدة نساء هذه الامّة و سيدة نساء المؤمنين''
کائنات کی عظیم شخصیتوں نے آپ کو اپنی پوری زندگی میں اسوہ حسنہ قرار دیا ہے اور اپنے آئیڈیل کے طور پر آپ کا انتخاب کیا۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کا ہر فکر ی اور عملی کارنامہ انسانی اور فطری اصولوں پر مبنی ہے۔ یہ اصول ابدی ہیں ان میں کبھی بھی کسی قسم کی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ زمانے اور وقت کے تقاضے صرف ہماری انہی ضرورتوں کو بدل دیتے ہیں جنہیں ہم دوسر ی ضرورتوں کا نام دیتے ہیں لیکن اصول کبھی نہیں بدلتے، ہو سکتا ہے کہ ہماری روش اور طور طریقہ بدل جائے۔ '' مثال کے طور پر ظلم اور ظالم کے خلاف احتجاج کرنا، لوگوں کو ظلم سہنے سے پرہیز دلانا ایک ایسا دائمی فطری اور انسانی اصول ہے جو زمانے کی تبدیلیوں کی وجہ سے کبھی نہیں بدلتا، چاہے پتھر کے زمانے کا غیرمہذب انسان ہو یا عصر حاضر کا تعلیم یافتہ اور مہذب انسان یا پھر آ نے والا بشر ہو یہ سب کے سب اس اصول کے پابند ہیں لیکن زمانے کے تقاضے صرف ظلم و ظالم کے خلاف احتجاج کرنے کے طریقہ کار میں تبدیلی لاتے ہیں۔ لہذا اس اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو ہم حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی زندگی کے ان اصولوں کو آج بھی اپنا سکتے ہیں ان پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں اور اپنی زندگی کو خوشگوار بنا سکتے ہیں۔ اس اعتبار سے اگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کو دیکھا جائے تو یہ نہ فقط صنف خواتین کے لئے بلکہ پوری انسانیت کے واسطے مثالی خاتون اور آئیڈیل ہو سکتی ہیں۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
سیرت فرزندہا از امہات
جوہر صدق و صفا از امہات
مذزع تسلیم را حاصل بتول
مادراں را اسوہ کامل بتول
( رموز بے خودی)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں کچھ اہم اصول پائے جاتے ہیں جن کا سرچشمہ اسلام ہے۔ ان میں سے چند یہ ہیں :
- زندگی میں ایک خاص قسم کا نظم و نسق حاکم تھا اور ہر کام کا ہدف معین اور مشخص تھا۔
- خدا کی جانب سے نازل شدہ آئین اور قانون پر مکمل ایمان اور عقیدہ رکھتی تھیں۔
- آپکا عمل اور سوچ اسلامی تعلیمات سے عین مطابقت رکھتی تھی۔
- اپنے سارے اعمال تقویٰ، زہد اور ورع کے دائرے میں انجام دیتی تھیں۔
- اپنے ہر کام کو بنا کسی افراط اور تفریط کے اعتدال و میانہ روی کے ساتھ انجام دیتی تھیں۔
- اپنے ہر کام میں مسلمانوں کی مصلحت اور منفعت کا خیال رکھا کرتی تھیں۔
- معاشرتی کاموں میں بھر پور شرکت کر کے جاہلیت کے تصور پر کاری ضرب لگائی۔
- اپنے اہداف اور مقاصد کے حصول کے لئے سختیوں اور مشکلات کوصبر اور استقامت سے برداشت کیا۔
- خدا پر مکمل ایمان کی وجہ سے یاد خدا سے کبھی بھی غافل نہیں ہوتی تھیں۔
- اسی اعتماد اور ایمان کی وجہ سے بہادری اور شجاعت کا مظہر تھیں۔
- خدا کی عطا پر قناعت کرتی تھیں۔
- صالح اور پاکیزہ ہستیوں کی اقتداء کرتی تھیں۔
- خدا کی رضا کو مخلوقات کی رضا پر ترجیح دیتی تھیں۔
- اپنی انسانی عزت، عظمت اور کرامت کی حفاظت کرتی تھیں۔
- ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کرتی تھیں۔
- آپکی زندگی مسلسل جدوجہد اور مبارزت کا دوسرا نام تھا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں یہ سارے اصول کار فرما تھے۔ یہ اصول کبھی بدلتے نہیں بلکہ ہمیشہ زندہ اور باقی رہنے والے ہیں تبھی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا ہمیشہ زندہ ہے۔ اسی بقا کی وجہ سے فاطمہ رضی اللہ عنہا ہمیشہ اور ہر جہت سے مثالی معاشرے کی بنیاد کے لئے ایک آئیڈیل اور مثالی خاتون ہے۔
علامہ اقبال رضی اللہ عنہا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مسلمان خواتین کے واسطے ماڈل کے عنوان سے پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
فطرت تو جذبہ ہا دارد بلند
چشم ہوش از اسوہ زہرا مبند
تا حسینی شاخ تو بار آورد
موسم پیشیں بگلزارآورد
( رموز بے خودی)
اسلام نے مثالی عورت کا جو تصور پیش کیا ہے اس تصور کی روشن اور پاکیزہ تصویر خود پیغمبر اسلام نے اپنے انسانیت طراز ہاتھوں سے بنائی تھی جس طرح سونے کو آگ میں تپا کر کندن بنایا جاتا ہے اسی طرح پیغمبر اسلام نے آپ کو سختی، فقر اور جدوجہد کی آنچ میں تپا کر نکھارا۔ آپ کی تعلیم و تربیت پر بڑی گہری اور کڑی نگاہ رکھی اور آپ کو حیرت انگیز انسانی خوبیوں کا مظہر بنا دیا۔
وہ ہر اعتبار سے ایک مثالی عورت تھیں، نسوانیت کی تمام گوناگوں ابعاد کے لے ایک مثالی نمونہ ہیں۔
اپنے عظیم باپ کے حوالے سے۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مثالی بیٹی۔
اپنے شوہر کے حوالے سے۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مثالی بیوی۔
اپنے بچوں کے حوالے سے۔۔۔۔۔۔۔ ایک مثالی ماں۔
ان کا اسوہ عورتوں کے لئے ایک قابل تقلید نمونہ ہے، ہر اس عورت کے لئے جو آزادانہ طور پر اپنی شخصیت کی تعمیر کرنے کی خواہش مند ہو ان کی حیرت انگیز جدوجہد اور کشمکش سے لبریز زندگی، داخلی اور خارجی محاذ پر ان کا مسلسل جہاد، اپنے باپ کے گھر اپنے شوہرکے گھر اور اپنے معاشرہ میں ان کا کردار، ان کی فکر، ان کا عمل غرض ان کی جامع اور مثالی شخصیت اس سوال کا مکمل جواب ہے کہ ایک عورت کو کیسا ہونا چاہیے؟ ( فاطمہ رضی اللہ عنہا فاطمہ رضی اللہ عنہا ہے)