بانی پاکستان محمد علی جناح کے بارے عام تصور یہ پھیلایا جاتا ہے کہ وہ سیکولر اور لادین ذہن کے مالک تھے، جبکہ انکی زندگی کے متعدد واقعات اس غلط تصور اور فرضی خیال کی مکمل نفی کرتے ہیں۔ بہت اوائل اور نوجوان عمری میں جب کہ انسان کی اپنی سوچ ابھی پختہ نہیں ہوئی ہوتی اور گھریلو تربیت کا بہت سا اثر باقی ہوتا ہے جب قائداعظم محمد علی جناح انگلستان پہنچے اور قانون کی تعلیم کے لیے تعلیمی ادارے کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہوا تو دواداروں میں سے اس ادارے کا انتخاب کیا جس کے باہر دنیا کے مشہور قانون دانوں کی فہرست میں سب سے اوپر محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام مبارک لکھا تھا۔ قانون کی تعلیم سے فارغ ہوئے تو لندن کے ایک ڈرامیٹک کلب میں شمولیت اختیار کر لی اور ان سے ادائیگی کا چیک بھی وصول کر لیا۔ ایک ڈرامے کی مشق کے دوران قائد اعظم سے کہا گیا کہ ایک لڑکی کے چہرے پر بوسہ لیں، اس وقت ان کی عمر 19 برس کی تھی، ہندوستان کے ایک نوجوان کے لیے یہ محض ایک حسین خیالی بات تھی کہ وہ لندن جیسے شہر میں برطانوی لڑکی کا بوسہ لے لیکن قائداعظم نے محض یہ کہ کر ڈرامے کا یہ منظر مشق کرنے سے انکار کر دیا کہ میرے مذہب میں اسکی اجازت نہیں ہے۔
ہندوستان میں اپنے والد بزرگوار محترم پونجا جناح کو خط لکھا کہ میں قانون کی تعلیم میں آگے بڑھنے کی بجائے ڈرامے کے میدان کا انتخاب کیا ہے اور ایک کلب میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ والد نے جوابی خط میں سختی سے اس بات سے منع کیا اور حکم دیا کہ فوراََ کلب سے مستعفی ہو کر قانون کی مزید تعلیم جاری رکھو۔ قائد اعظم نے ابھی وہ چیک کیش نہ کروایا تھا اور بغیر کسی پس وپیش کے یہ کہ کر کلب والوں کو لوٹا دیا کہ یہ میرے والد کا حکم ہے اور میرے مذہب میں والدین کی نافرمانی کی گنجائش نہیں۔ قانون کی تعلیم کے بعد ہندوستان لوٹے اور بمبے میں وکالت کا آغاز کیا۔۔ بمبے آزاد خیالی میں اس زمانے کے دوران بھی لندن سے کسی طور کم نہ تھا، ایک نوجوان خوبصورت مجوسی لڑکی قائداعظم پر فریفتہ ہو گئی، ہر طرح سے مایوس ہو چکنے کے بعدجب اس نے شادی کی خواہش کا اظہار کیا تو قائداعظم نے کہا مذہب کا اختلاف اسکی اجازت نہیں دیتا۔ وہ مذہب تبدیل کرنے پر آمادہ ہوئی تو اٹھارہ سال کی قانونی مدت پوری ہونے تک اسے ایک سال کا انتظار کرنا پڑا۔ ایک برس بعد وہ عدالت سے مسلمان ہونے کی ڈگری لائی تب قائداعظم نے اس سے نکاح کیا۔
ہندوستان کے حالات سے مایوس ہونے کے بعد وہ ایک بار پھر انگلستان سدھار گئے کہ اب نہ لوٹیں گے۔ لیکن علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے خط لکھ کر انہیں واپس بلایا اور غلامی کے اس پرآشوب دور میں مسلمانوں کی قیادت کرنے کے لیے تیار کیا۔ سوال یہ ہے کہ قائداعظم اگر سیکولراور لادین ذہن کے مالک تھے تو علامہ اقبال جیسا درد دل رکھنے والا بنیاد پرست مسلمان کی نظر انتخاب ان پر کیوں پڑی؟ کیا علامہ محمد اقبال جیسا راسخ العقیدہ مسلمان کہ جس کا ہاتھ تاریخ کی نبض پر تھا وہ مسلمانوں کی قیادت کے لیے ایک لادین شخص کا انتخاب کرتا؟ ہرگز نہیں مذکورہ واقعات اور ان صفحات میں آئندہ آنے والی تحریری شہادتیں اس امر کی قطعی نفی کرتی ہیں۔
تحریک پاکستان کے دوران قائداعظم کی تقاریر جہاں پاکستان کو نظریاتی اساس فراہم کرتی ہیں وہاں انکے ذہن تک رسائی کا بھی ایک وقیع ذریعہ ہیں، ذیل میں انکی تقاریر سے چند اہم اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں :
’’کوئی شبہ نہیں کہ لوگ ہمارا مدعا پوری طرح نہیں سمجھتے، جب ہم اسلام کا ذکر کرتے ہیں تو اسلام صرف چند عقیدوں، روایتوں اور روحانی تصورات کا مجموعہ نہیں۔ اسلام ہر مسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے جو اسکی زندگی اور کردار کو سیاست اور معیشت تک کے معاملات میں انظباط عطا کرتا ہے‘‘
(کرم حيدری، قائداعظم کا اسلامی کردار، صفحات 101,102 مکتوبات حرمت راولپندی 1984ء)
’’قرآن مجید کی تعلیمات میں انسانی زندگی کے ہر باب کے متعلق ہدایات موجود ہیں۔ زندگی کا روحانی پہلو ہو یاسیاسی، معاشرتی اور معاشی غرض یہ کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآنی تعلیمات کے احاطے سے باہر ہو۔‘‘
(کرم حيدری، قائد اعظم کا اسلامی کردار، صفحه 103)
’’اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اس میں اطاعت و وفا کیش کا مرجع خدا کی ذات ہے۔۔۔۔ قرآن مجید کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کر سکتے ہیں۔ اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول و احکام کی حکمرانی ہے۔‘‘
(کرم حيدری، قائد اعظم کا اسلامی کردار، صفحه 103)
’’وہ کونسا رشتہ ہے جس میں تمام مسلمان منسلک ہو کر جسد واحد کی طرح ہو جاتے ہیں۔ وہ رشتہ خدا کی کتاب قرآن مجید ہے، ایک خدا ایک رسول ایک امت‘‘
(سعيد راشد، قائداعظم گفتار و کردار، صفحه 513، مکتبه ميری لائبريری لاهور1986)
’’ہماری اسلامی تہذیب کو کوئی نہیں مٹا سکتا، اس اسلامی تہذیب کو جو ہمیں ورثے میں ملی ہے۔ ہمارا نور ایمان زندہ ہے، ہمیشہ زندہ رہے گا۔ دشمن بے شک ہمارے اوپر ظلم کرے، ہمارے ساتھ بدترین سلوک روا رکھے لیکن ہم اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں اور ہم نے یہ سنگین فیصلہ کر لیا ہے اگر مرنا ہی ہے تو لڑتے لڑتے مریں گے‘‘
(آغا اشرف. مرقع قائد اعظم صفحه41 مقبول اکيدمی لاهور1992)
’’مسلمان ایک جھوٹے احساس سلامتی میں مبتلائے فریب رہے اور اقلیت کی اصطلاح کو تاریخی، آئینی اور قانونی سمجھا جانے لگا لیکن مسلمان کسی حیثیت سے بھی یورپی ممالک کی اقلیت نہیں ہیں، ایک چیز قطعی ہے اور وہ یہ کہ ہم کسی طرح بھی اقلیت نہیں ہیں بلکہ ہم اپنے نصب العین کے ساتھ بجائے خود ایک علیحدہ اور ممتاز قوم ہیں‘‘
(داکتر اسعد گيلانی، اقبال، قائداعظم اور مولانا مودودی، صفحه 75)
’’پاکستان اس دن وجود میں آ گیا تھا جب ہندوستان کا پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا، مسلمانوں کی قومیت کا بنیادی کلمہ توحید ہے وطن نہیں اور نہ ہی نسل۔ آپ نے غور کیا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرکہ کیا تھا؟ مسلمانوں کی جداگانہ مملکت کی وجہ جواز کیا تھی؟ تقسیم ہند کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی وجہ نہ ہندؤں کی تنگ نظری ہے نہ انگریزوں کی چال بلکہ یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے۔‘‘
قائداعظم (داکتر اسعد گيلانی، اقبال، قائد اعظم اور مولانا مودودی، صفحه 75)
قائداعظم کے یہ فرمودات واضح طور پر یہ پتہ دیتے ہیں کہ وہ کبھی بھی سیکولر نہیں رہے، زمانہ طالب علمی اور پیشہ ورانہ زندگی کے واقعات اور تحریک پاکستان کے دوران تقریروں کے اقتباسات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ذہن میں اسلامی تعلیمات پوری طرح راسخ تھیں۔ ایک بار انہوں نے قرآن مجید کو بھی پوری طرح پڑھ چکنے کا عندیہ دیا تھا لیکن اردو، عربی اور فارسی سے بہت زیادہ واقفیت نہ ہونے کے باعث وہ ہندوستان کی روایتی مذہبیت سے دور ہی رہے۔ پھر کیا یہ ایک تاریخی شہادت نہیں ہے کہ غازی علم دین شہید کا مقدمہ قائداعظم نے اس وقت مفت لڑا تھا جب کہ انکا شمار ہندوستان بھر کے مہنگے ترین وکیلوں میں ہوتا تھا۔
تحریک پاکستان کے دوران ہندو قیادت نے انگریز سے مراعات لینے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی کتاب میں نہرو کی بیوی سے تعلقات تک کا ذکر بھی کیا ہے، لیکن اس طرح کے ماحول میں رہنے اور طویل جنگ لڑنے کے باوجود محترمہ فاطمہ جناح کو مردوں سے ہاتھ ملانے تک کی اجازت نہ تھی، حتی کہ کسی نے انہیں ننگے سر بھی نہ دیکھا۔ تقسیم ہند میں اس طرح کے رویے سے مسلمانوں کا نقصان بھی ہوا لیکن قائداعظم نے یہ ثابت کیا کہ ایک سچے مسلمان کے لیے ایمان اور شرم و حیا سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہوتا۔ زیارت ریذیڈنسی میں قائداعظم نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے، انکے خدمتگار سے جب ان ایام کا احوال پوچھا گیا تو اس نے بہت ساری باتوں کے ساتھ ساتھ انکی آخری نماز کا بھی تذکرہ کیا، اس کے بقول قائداعظم باقاعدگی سے فقہ حنفی کے مطابق نماز ادا کرتے تھے۔ آخری نماز جو انہوں نے ادا کی اس کا حال خدمتگار کی زبانی سنئے’’ظہر کی نمازکی ادائیگی کے بعد انہوں نے کہا کہ عصر کا وقت ہوتے ہی مجھے بیدار کر دینا میں نے کہا جی اچھا، لیکن آنکھ کھلنے پر انہوں نے استفسار کیا کہ کیا ابھی عصر کا وقت نہیں ہوا؟ میں نے کہا ہو چکا ہے لیکن آپ ابھی آرام کر لیں، میں تھوڑی دیر بعد آپ کو نماز پڑھا دوں گا کیونکہ نقاہت بہت زیادہ تھی، انہوں نے فرمایا کہ نہیں اول وقت میں نماز کی ادائیگی پسندیدہ ہے پس تکیہ میری کمر کے نیچے کر دو تو میں نماز پڑھ لوں، وضو کے بعد یہ انکی زندگی کی آخری نماز تھی جس کے بعد وہ قومے میں چلے گئے اور بالآخر اﷲ تعالی سے جا ملے‘‘۔ قائداعظم کا یہ خدمتگار ہنوز زندہ ہے اور جدہ (سعودی عرب) میں اقامت پذیر ہے، اسکی یہ روایت ہمارے استاد محترم مولانا عبدالمجید اخوان کے ذریعے براہ راست ہم تک پہنچی۔
قائد اعظم کی اولاد چونکہ اسلام سے گریزاں رہی اسی لیے قائد اعظم بھی ان سے گریزاں رہے اور پورا بڑھاپا کنواری بہن کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر گزار دیا۔ جب انتقال ہوا تو وصیت میں یہ لکھ کر گئے کہ ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق چونکہ مسلمان کسی کافر کا اور کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہو سکتا اس لیے میرے ترکے میں سے ایک پائی بھی میری اولاد کو نہ دی جائے اور اپنی کل جائیداد جس کی کثرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس زمانے میں انکے پاس اپنا ذاتی ہوائی جہاز تھا، ساری کی ساری نوزائدہ اسلامی مملکت پاکستان کے نام کر گئے۔ قائداعظم اگر سیکولراور لادین خیالات کے مالک ہوتے تو علامہ شبیر احمد عثمانی جیسے جید عالم دین انکی نماز جنازہ کیوں پڑھاتے؟ ٹھیک ہے وہ اس طرح سے مذہبی انسان نہ تھے جس کا تصور ہمارے ہاں پایا جاتا ہے لیکن بہرحال وہ ایک راسخ العقیدہ اور پکے مسلمان تھے۔ جن فاضل مصنفین نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر انہیں سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اس سے بھی قائداعظم کے پختہ ایمان کی تصدیق ہوتی ہے کہ اگر کسی زمانے میں ان پر سیکولر خیالات کا سایہ رہا بھی ہے تو وہ اسلام اور قرآن کے مطالعے کے بعد ان فرسودہ خیالات سے دستکش ہو کر شعوری طور پر اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا رہے اور ایک سچے مسلمان اور امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرد کی حیثیت سے اپنے رب کے حضور پیش ہوئے۔
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوا کرتا ہے، اگر قائداعظم کی نیت ایک سیکولر ریاست بنانے کی تھی تو وہ ریاست اسلام کا قلعہ کیسے بن گئی؟حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں تبلیغ و ارشاد کے لیے یہاں سے جماعتیں روانہ ہوتی ہیں، دنیا بھر میں جہاں جہاں جہاد کا میدان سجا اس کے لیے اسی مملکت خدادا پاکستان نے اپنے سپوت اور عسکری راہنمائی کے ساتھ ساتھ ممکنہ وسائل بھی فراہم کیے، تین سو سال کے بعد امت کو دفاع کے میدان میں ایٹمی قوت کی خوشخبری اسی اسلامی ریاست سے میسر آئی اور مستقبل میں بھی مشرق سے مغرب تک کل مسلمانوں کی امیدیں اسی پاکستان سے وابسطہ ہیں گویا پاکستان، اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عملی تصویر بنا کہ ’’مجھے مشرق سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے‘‘ اور اس سب کا سہرا قائداعظم کے سر ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں پر ملوکیت کا سایہ ہو یا غلامی کی اندھیری غار، غداروں کی دغا بازیاں ہوں یا دشمن کے پالتو لوگوں کی حکمرانیاں، سازشوں کے جال ہوں یا تہذیبی و ثقافتی یلغار اس امت کی کوکھ قیادت کے میدان میں ہمیشہ سرسبزو شاداب رہی ہے، یہ آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں کا ثمرہ ہے۔ اقوام عالم کو صدیوں کے بعد کوئی قابل قدر راہنما میسر آتا جسے وہ قرنوں تک یاد رکھتے ہیں اور کتنی ہی قومیں محض اس لیے تاریخ کے صفحات میں دفن ہو گئیں کہ انہیں کوئی راہنما میسر نہ آیا جبکہ امت مسلمہ کا دامن کبھی بھی مخلص دیندار اور جرات مند قیادت سے خالی نہیں رہا۔
اﷲ کرے مدارس اسلامیہ سے قال اﷲ تعالی اور قال قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صدائیں بلند ہوتی رہیں، اﷲ کرے مساجد کے مینار صدائے بلالی کے امین رہیں، اﷲ کرے ختم نبوت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت و عقیدت سے اس امت کے نوجوانوں کے سینے سرشار رہیں اور اﷲ کرے اس امت کا اجتماعی ضمیر ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے کہ یہی عناصر ہیں بانی پاکستان جیسی صاف ستھری قیادت کی فراہمی کے اور یہی امت کے روشن مستقبل کے سنگ ہائے میل ہیں اور میرے اﷲ نے چاہا تو وہ دن دور نہیں جب یہی پاکستان شاعر مشرق کے خوابوں کی سچی حسین تعبیر بنے گا اور اس مملکت کی وجہ جواز نظریہ پاکستان کے منکر راندہ درگاہ ہو کر ہمیشہ کے لیے لعنت و ملامت کا نشان بن کر عبداﷲ بن ابی، میر جعفر اور میر صادق کی صف میں شامل ہوں گے۔