ماحول، خانقاہ اور خانقاہی نظام
ماحول (environment) انسانی فطرۃ بالقوہ (مزّین بہ اقرار الوہیت و ربّوبیت الہی، امتیازِ خیر و شر، بصیرتِ نفس، احساس امانت)، فطرۃ بالفعل (شہوانی اور نفسانی خواہشات، اولاد، اقرباء، مال و زر اور جاہ و منصب کی محبت وغیرہ کے لیے جد و جہد پر ابھارنے والی فطرت)، لاشعور (unconscious) اور شعور (conscious) کے احساسات اور داعیات کو بلاشبہ متاثر کرنے کی زبردست قوت رکھتا ہے۔ اگر ماحول، فطرۃ بالقوہ، لا شعور یا ضمیر (conscience) کے لوازمات اور تقاضوں کی تعمیل اور تکمیل کے لیے سازگار اور مناسب (conducive) مل جائے، تو فطرۃ بالقوہ کے جملہ داعیات (motives) مزید ابھرتے اور ترقی کرتے ہیں اور اگر ماحول پر فطرۃ بالفعل کے تقاضوں، بے ضمیری یا بے حسی کی دھند چھا جائے تو انسان اس کے زیر اثر خواہشات، لالچ اور حرص و ہوا کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔
ایام حج میں ہم دیکھتے ہیں کہ لاکھوں فرزندان ِ توحید ایک جیسی عبادات فرائض، سنن اور نوافل ادا کر رہے ہوتے ہیں، سب کا ایک ہی طرح سفر، حضر، لباس، قیام، طعام، اعمال اور اشغال ہوتے ہیں۔ مناجات، ذکر اذکار، رہن سہن اور بودوباش بھی ایک جیسی ہوتی ہے، حجاج کرام کا مجموعی طرز عمل، حسنِ اخلاق آپس کا سلوک، برتاؤ، ایثار و محبت، باہمی اخوت و مروت کے جذبات بھی سب کے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ یہ سب ایک خاص روحانی ماحول کی تاثیر ہوتی ہے جو حجاج کو ایک جیسا رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ حاجی چاہے کسی رنگ، نسل، زبان، قوم قبیلہ سے ہو، حج کے ماحول کے زیر اثر ذمائم اور رذائل سے پرہیز کرتا ہے۔ جھوٹ، غیبت، حسد، انتقام، لڑائی جھگڑا، شر و فساد، قتل و غارتگری اور اسی نوع کے سینکڑوں افعال قبیحہ سے اجتناب کرتا ہے، دوسرے حجاج کی طرح اس کے وظائف اعمال بھی ویسے ہی ہوتے ہیں جو باقی سب کے ہوتے ہیں۔ خدانخواستہ حجاج میں سے کوئی شخص اگر اس پاکیزہ اور روحانی ماحول میں کسی قسم کے افعال شینعہ میں مبتلا ہو جائے تو ماحول سے متضاد اعمال کی وجہ سے وہ اپنے دوسرے ساتھیوں سے الگ دکھائی دیتا ہے۔ دیگر حجاج کے لیے بھی اس کی اس قسم کی غیر متوقع حرکات و سکنات ناپسندیدہ اور ناقابل برداشت ہوتی ہیں۔ اُس کے ساتھی اس کو ان حرکات سے باز رکھنے کی تلقین کرتے ہیں اور اگر وہ باز نہ آئے تو احتجاجاً سب اس سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں۔ اس طرح وہ شخص خود بخوداس ماحول میں الگ تھلگ اور اجنبی (alien) ہو جاتا ہے۔ اپنے لوگوں سے یہ دوری اس کے لیے سوہانِ روح بن جاتی ہے وہ شرمندہ ہوتا ہے، توبہ و استغفار اور اللہ کے سامنے عاجزی اور انکساری کرتا ہے اور اس پاکیزہ اور روحانی ماحول کیوجہ سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس کو اصلاح کی توفیق عنایت کرتا ہے اس طرح اس کو اعمال قبیحہ سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ لیکن خدانخواستہ اگر وہ ان رذائل سے روگردانی نہ کرے اور سنجیدگی سے ان اعمال سے دامن چھڑانے کی کوشش نہ کرے تو اللہ بھی اس کو اعمال بد کی وجہ سے اس پاکیزہ ماحول کے ثمرات سے مستفید ہونے کی توفیق عطا نہیں کرتااور وہ راندہ درگاہ ہو جاتا ہے۔
اب تصویر کا دوسرا رخ یعنی اس ماحول کے برعکس ایک دسرے ماحول کی تاثیر ملاحظہ کیجئے۔ گندگی اور ناپاکی میں لتھڑا ایک ایسا ماحول جس میں شراب نوشی، منشیات کا استعمال، اختلاطِ مرد و زن، جنسی مشاغل، فحاشی، بے حیائی عام ہو رہی ہے۔ جیسے آج کل کے ہوٹل، کلب، جمخانوں سینماؤں، تھیٹروں، بدکاری کے اڈوں اور رقص و سرور کی محافل میں فحاشی اور بدکاری کے سارے کام کھلے عام ہوتے ہیں۔ ہر شخص وہاں ایک خاص مقصد سے آتا ہے اور اپنے شغل میں مصروف ہو جاتا ہے، دولت لٹائی جاتی ہے۔ عصمتیں لٹی جاتی ہیں۔ طرب و نشاط کی محفلیں بپا ہیں۔ ہر طرف بد اخلاقی، بے راہ روی، جنسی نراج اور کردار کی موت کا راج ہے۔ اس ماحول میں بے حیائی اور فحاشی کو برا نہیں سمجھا جاتا بلکہ بنظرِ تحسین دیکھا جاتا ہے۔ یہاں اخلاق باختہ اور پیشہ ور عورتوں کو ’’معزز خواتین اور ہیروئین یعنی بہادر عورتوں‘‘ کا درجہ حاصل ہے۔ قوم کی معصوم بیٹیوں کو بھی ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ بے حیائی کو رفعت اور اخلاق باختگی کو عزت کا پیمانہ سمجھ کر اس راہ کو اختیار کریں۔ یہ ذریعہ معاش کا سب سے معزز کام ہے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں یہاں ہونے والے پروگراموں میں ایک دوسرے کو کھلم کھلا گلے لگاتے ہیں۔ بوس و کنار ہوتا ہے۔ دنیا اس کو اعلیٰ انسانی اقدار اور اظہار آزادی کا بہترین ماحول کہتی ہے۔ نوجوان بچے بچیاں منشیات کا استعمال کیفے کلبوں کے علاوہ کالج یونیورسٹیوں میں اساتذہ کے سامنے کھلے عام کرتے ہیں۔ کوئی ان کاموں کو برا نہیں کہتا۔ بے حیائی اور فحاشی قریہ قریہ گھر گھر ہو رہی ہے۔ اس ماحول کے سب لوگ ایک ہی طرح کے کام میں مصروف ہیں۔ یہ سب کا عام معمول ہے جو ہر سُو اپنا اثر دکھا رہا ہے۔ فطرۃ بالفعل؛ شہوانی، نفسانی خواہشات، مال و دولت اور جاہ و منصب کے حصول کی بھوک کو تیز کرتی ہے، بے حسی اور بے ضمیری کی فضا عام ہو تو کوئی شخص دوسرے کو کسی قسم کی بد اخلاقی اور بد فعلی پر روکتا ٹوکتا نہیں کیونکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ سب کا ماحول ایک جیسا ہے۔ آج کل کے کلبوں اور ہوٹلوں کے سوئمنگ پولوں اور ساحل سمندر پر مرد عورتوں کا اکٹھا ننگا نہانا عام ہے اور اس کو معیوب نہیں سمجھا جاتا کیونکہ یہ کام سب مِل کر کرتے ہیں۔ ایک مخصوص ماحول میں مشترکہ طور پر کئے جانے والے اعمال یا تو فطرۃ بالقوہ، لاشعور اور ضمیر کے تقاضوں کو پروان چڑھانے میں ممدومعاون ہوں گے اور یا وہ فطرۃ بالفعل اور شعوری تقاضوں کے تحت انسانی خواہشات اور شہوات کو مہمیز کریں گے۔ جیسا دیس ویسا بھیس ہوتا ہے۔
ہر شخص کی زندگی میں کچھ لمحات ایسے ضرور آتے ہیں جب وہ دنیاوی بکھیڑوں سے نالاں ہو کر کسی ایسے گوشہ تنہائی کی تلاش کرتا ہے جہاں وہ نفسانی خواہشات، شہوات، دنیا کے مال و متاع، جاہ و منصب کی طلب، حرص و ہوا اور ہوس سے کنارہ کش ہو کر کچھ لمحے من کی دنیا میں امن، آشتی، سکون اور اطمینانِ کے گذار سکے۔ یہ حقیقت کی تلاش کا سفر ہوتا ہے جو ہر انسان کی فطرۃ بالقوہ (potential nature) کا تقاضا ہوتا ہے۔ فطرت کا یہ اثر کتنا دائمی، نیم دائمی یا عارضی ہوتا ہے اس کا انحصار اس کے لاشعور (Unconscious) کی پختگی پر ہوتا ہے۔ جتنی دیر وہ فطرت بالقوہ اور ضمیر کے زیر اثر رہتا ہے وہ امن، سکون اور آشتی کے ماحول میں ہوتا ہے۔ لیکن جیسے ہی اس کا شعور (conscious) یا اس کی فطرۃ بالفعل (actual nature) کے تقاضے، لوازمات اور داعیات اس کے قلب و ذہن پر اثر انداز ہونے لگتے ہیں۔ وہ دنیا کے انہی جھمیلوں میں دوبارہ لوٹ جاتا ہے۔ شعور، قبل شعور اور لا شعور کا گورکھ دھندہ کیا ہے، انسان کی زندگی پر یہ کیسے اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے اثرات انسانی رویوں، برتاؤ اور سلوک پر کیا ہوتے ہیں؟ ان شاء اللہ کسی مناسب موقع پر ہم اس موضوع پر اپنے دروس میں گفتگو کریں گے کہ سالکین اور صوفیاء کے لیے ان سے باخبر ہونا ضروری ہوتا ہے۔
مُرید یا مبتدی سالک پر جب لاشعورکی یہ کیفیات وارد ہوتی ہیں تو وہ روحانی سکون اور اطمینانِ قلب کی تلاش کے لیے مادّی دنیا سے ہجرت کر کے روحانی دنیا میں جانے کا ارادہ کرتا ہے اور کسی سلسلہ طریقت سے منسلک ہوتا ہے۔ پچھلے درس میں یہ استفسار سامنے آیا کہ دروس سلوک و تصوف میں اکثر خانقاہ اور خانقاہی نظام جیسے الفاظ سننے میں آتے ہیں ہمیں بتایا جائے کہ خانقاہ کسے کہتے ہیں، یہ کہاں ہوتی ہے۔ کیا یہ کوئی خاص جگہ ہوتی ہے یا ایک ایسی دنیا ہوتی ہے جس کا نظام ہماری دنیا سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ خانقاہ میں کس قسم کے لوگ ہوتے ہیں وہ کیا کرتے ہیں، کیسی زندگی گزارتے ہیں۔ کیا وہ لوگ دنیا کے عام لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں وہ روزی کیسے کماتے ہیں اور اپنے بال بچوں کا پیٹ کیسے پالتے ہیں، کیا وہ ہر وقت ذکر و فکر میں ہی مصروف رہتے ہیں اور دنیا کے معمولات اور مصروفیات سے بالکل الگ تھلک ہوتے ہیں۔ خانقاہی نظام کیا ہوتا ہے۔ اس نظام کو چلانے والا کون ہوتا ہے اس کی ذمہ داریاں اور فرائض کیا ہوتے ہیں۔ معاشرے کی پروان اور تہذیب و تمدن میں خانقاہ اور اس سے وابستہ افراد کا کیا کردار ہوتا ہے، دنیا میں اس کی اہمیت اور ضرورت کیا ہے؟ یہ ایک اچھا سوال تھا۔ لہذا ضروری ہے کہ خانقاہ میں مرید کی تعلیم وتربیت کے مختلف مراحل بیان کرنے سے پہلے ہم ان سوالات کے مختلف گوشوں کا جائزہ لیں۔
مرید، مبتدی سالک یا صوفی اس دنیا میں رہنے والے دوسرے انسانوں کی طرح کا ایک انسان ہوتا ہے۔ زندگی گزارنے کے لیے اس کی بنیادی ضروریات، گزر اوقات کے طور طریقے، رسم و رواج اور روزمرہ کے معمولات معاشرے میں رہنے والے دوسرے افراد ہی کی طرح ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے انبیاء کرام علیہم السلام، رسل، پیغمبر، صحابہ کرام، اولیاء اور صالحین معاشرے کے دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر زندگی گزارا کرتے تھے۔ معمول کے مطابق کاروبار زندگی کرتے اور ایک دوسرے کی غمی خوشی میں شریک ہوتے تھے۔ ان نفوسِ قدسیہ میں کوئی بھی اپنے آپ کو دوسرے انسانوں سے الگ نہیں سمجھتا تھا۔ نہ کوئی اپنے آپ کو مافوق البشر سمجھتا اور نہ ہی دوسروں پر اپنی بزرگی اور پارسائی جتاتا تھا، یہ انسانوں کے ساتھ انسانوں کی طرح رہتے تھے۔ البتہ عام لوگوں کی نسبت ان کی زندگی پاکیزہ اور فطرت کے زیادہ قریب ہوتی تھی۔ خود نیک، متقی، پارسا اور پرہیز گار تھے اور دوسروں کو اللہ پر ایمان لانے اور اس کی رضا کے مطابق صراط مستقیم پر چلنے کی تلقین فرماتے تھے۔ ہر ایک کی زبان پر یہ ہی الفاظ ہوتے کہ وہ اللہ کی مخلوق اور عاجز بندے ہیں۔ وہ اللہ کی توحید کا درس دیتے اور لوگوں کو بتاتے تھے کہ اللہ سب مخلوقات کا خالق، رازق اور پالنے والا ہے، وہ ہی مالک، مختار، مسجود اور معبود ہے۔ انسان کو صرف اللہ کی عبادت کرنی چاہیے۔ مخلوق کے سامنے سجدہ ریز ہونے اور ان سے حاجتوں کو پورا کرنے کی طلب اور خواہش سے گریز کرنا چاہیے۔ انسان کو دنیا میں دوسرے انسانوں کی طرح فطرت کے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنی چاہیے اور کسی انسان اور مخلوق کو مافوق الفطرت یا مافوق البشر نہیں ماننا چاہیے۔
عقائد کے لحاظ سے دنیا میں لوگ مختلف دائروں کے اندر زندگی بسر کرتے ہیں۔ ایک دائرہ میں وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو اپنا معبود، مسجود، خالق اور مالک مانتے ہیں، یہ لوگ اللہ کی جماعت کے لوگ ہوتے ہیں۔ قرآن حکیم میں ان کو ’’حزب اللہ‘‘ کہا گیا ہے۔ دوسرے دائرہ کے لوگ وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اپنا خالق و مالک نہیں مانتے، اس کی ہستی کا انکار کرتے ہیں۔ ایسے لوگ منکر و مُلحِد ہوتے ہیں۔ قرآن حکیم میں ان کو’’حزب الشیطٰن‘‘ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ حزب اللہ یعنی اللہ کو ماننے والوں کے اندر بھی مختلف عقائد کے لوگ ہیں۔ ان میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں۔ جو انبیاء اور رسولوں کو بھی اللہ کی خدائی میں شریک کرتے ہیں، یہ لوگ انبیاء، رسل اور پیغمبروں پر اتاری جانے والی کتابوں اور صحائف سے اپنی مرضی کے معنی نکالنے کی غرض سے تحریف کرتے ہیں۔ بعض اقوام اللہ اور صرف اپنی قوم کے رسولوں کو مانتے اور دیگر رسولوں اور خاص کر نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان نہیں رکھتے، دنیا میں ایسے مذاہب کے پیروکار بھی ہیں جو ایک خدائے مطلق کی بجائے مخلوقات الہی میں سے لاکھوں کروڑوں اشیاء اور جانداروں کو خدا مانتے اور پوجتے ہیں۔ ایسے مذاہب بھی ہیں جو اللہ کی بجائے اپنے قبیلے کے کسی نیک شخص کو خدا کا مقام دیتے ہیں اور اس کے آگے سر ٹیکتے ہیں، علی ہذا القیاس دنیا میں ایسے بہت سارے لوگ ہیں جو اللہ کی ہستی کے منکر اور انبیاء، رسل اور پیغمبروں پر ایمان نہیں رکھتے۔ شریعت کے مطابق ایسے سب لوگ کافر ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ، سب انبیاء، رسل، پیغمبر، اور ان پر نازل کردہ حقیقی کتب الہی، اللہ کے ملائکہ، یوم آخرت اور نبی مکرم ومحتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آخری نبی ماننے والے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی دوسرے شخص کو نبی اور رسول نہ ماننے والے ہی حقیقی مومن اور مسلمان ہوتے ہیں، مومن اور مسلمان کافر نہیں ہوتے البتہ ان کے بعض فرقے اور گروہ عقائد بد کی وجہ سے گمراہ اور گناہ گارہوتے ہیں۔
مسلمانوں میں ایسے افرد بھی ہیں جو ارکان اسلام ادا کرنے میں غفلت برتتے اور احکام الہی پر پوری طرح عمل نہیں کرتے۔ گذشتہ دروس میں ہم ان کے مختلف اقسام اور انواع پر تفصیلی گفتگو کر چکے ہیں، بہر حال مسلمانوں میں وہ لوگ جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے شدید محبت کرتے ہیں اور سنت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پوری طرح کاربند رہ کر احکامِ الہی بجا لانے کی آرزو رکھتے ہیں۔ وہ اپنے لیے اکثر ایسے ماحول (environment) کی تلاش میں رہتے ہیں۔ جہاں ان جیسے فکر و خیال کے حامل دوسرے افراد بھی ہوں جو مل کر اپنے مقصد تخلیق یعنی اللہ کی مرضی و منشاء کے مطابق اللہ کی عبادت کرتے اور اس کی بندگی کا فریضہ ادا کرتے ہوں۔ سب ایک ہی عقیدہ، عمل اور کردار کے حامل ہوں اور ایک ایسے روحانی معاشرہ کی تشکیل میں ایک دوسرے کی معاونت کریں کہ جس کی بنیاد تکریم آدمیت اور احترام انسانیت پر قائم ہو جس میں نسل، زبان، رنگ، قبیلہ اور مذہب کی گروہی عصبیت کی بجائے آپس کے تعلقات کی بنیاد دین اسلام ہو، جس کے افراد تحسین علاقتہ الانسان باللہ اور تحسین علاقتہ الانسان بالانسان کے آفاقی اصول پر عمل پیرا ہوں۔
عہد رسالت نبوی اور دورِ خلافت راشدہ میں تو پورے عالم اسلام میں عدل اجتماعی اور بقائے اصلح کا ایسا روحانی ماحول ہر مسلمان کو میسر تھا، ہر شخص پورے صدق و اخلاص سے ایک جیسی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا اللہ کی عبادت میں مگن تھا۔ محبت الہی، محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، مکارمِ اخلاق اور خدمت خلق کو عبادت میں بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ مسلمان بحیثیت انسان دوسرے انسانوں کی مدد کرتے تھے۔ ایک ہی قوم ہاشمی تھی جس میں نہ کوئی فرقہ تھا نہ مسلک، عقیدہ کی بناء پر الگ الگ گروہ تھے اور نہ ہی سیاسی پارٹیاں اور جماعتیں تھیں، پوری قوم اللہ کی پارٹی اور حزب اللہ تھی، جس کے اعلیٰ اخلاق، سلوک، برتاؤ، تہذیب و تمدن کی پاکیزگی اور تصوف کو دیکھ کر حزب الشیطان سے لوگ ناطہ توڑ کر دین مبین کی آغوش میں پناہ لیتے تھے۔ حزب الشیطان ہر زمانہ میں رہا اور رہے گا۔ شیطان نے رب العزت جل شانہ‘ سے انسان کے اندر عزم و ارادہ کی بے ثباتی، اس میں استقامت اور عزم و حوصلہ کے فقدان کو ثابت کرنے اور اس کو گمراہ کرنے کے لئے مہلت طلب کی تھی جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے عطا کر دی تاکہ شیطان پر ثابت ہو جائے کہ اس کے مخلص اور اس پر مضبوط ایمان رکھنے والے بندے اس کے فریب و تلبیس میں نہیں آئیں گے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے یہ سلسلہ چلا، ابلیس نسل انسانی کو طرح طرح کے حیلے بہانوں سے ورغلاتا رہا، ابلیسی کارکن بھرتی اور شیطانی پارٹیاں بناتا رہا۔ انبیاء، رُسل اور پیغمبر بھی ہر دور میں آتے رہے، انسان کو شیطان سے بچانے اور اللہ کے ساتھ پیوستہ رہنے کی پیغمبرانہ ہدایت بھی میسر آتی رہی، آسمانی کتابوں اور صحائف کا نزول بھی ہوتا رہا۔ صدق و اخلاص اور نیک نیتی سے اللہ پر ایمان لانے والے پوری استقامت سے اللہ کی پارٹی یعنی حزب اللہ سے جُڑے رہے۔ یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔ فطرت سے قریب رہنے والے لوگ حزب اللہ کے ساتھ پیوست رہیں گے اور فطرت کے بر عکس زندگی گزارنے کو ترجیح دینے والے افراد شیطان کی پارٹی کے ساتھ جُڑے رہیں گے۔ لیکن دونوں پارٹیوں کے افراد میں جو فرق ہے وہ بھی تا قیامت رہے گا۔ حزب اللہ کی نشانی یہ ہے کہ وہ اللہ کے فرمان کے مطابق خوف و غم اور جہالت سے محفوظ ہوتا ہے اور حزب الشیطٰن ساری عمر خوف و غم اور جہالت میں مبتلا رہتا ہے۔ عہد رسالتِ نبوی اور عہد خلفائے راشدین عالم انسانیت کا دورِ زرّین تھا لیکن جیسے ہی مسلمانوں کے مابین سیاسی نفاق نے جڑ پکڑنی شروع کی اور انتشار پیدا ہُوا تو خلافت راشدہ ملوکیت اور آمریت میں تبدیل ہوگئی۔ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور فرقہ بازی سے اللہ ناراض ہوتا ہے اور اس کی رحمت روٹھ جاتی ہے۔ بہت سارے ملوک، امراء، بادشاہوں، سلاطین اور ان کے زیر اثر علمائے سُوء نے دین اسلام کی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر عقائد میں بگاڑ پیدا کرنا شروع کیا۔ عقائدبدلنے لگے تو مختلف فرقے وجود میں آنے لگے۔ تفرقہ بازی کیوجہ سے مسلمان آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے۔ تفرقہ اور اختلافاتِ عقیدہ کیوجہ سے تعلیماتِ اسلامی میں بنیادی حیثیت کے حامل اعمال; محبت الہی، محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، مکارمِ اخلاق اور خدمتِ خلق کے جذبوں کو شدید نقصان پہنچا۔ مسلمانوں کے طور طریقے تبدیل ہونے لگے۔ علمی، تعلیمی، سیاسی، معاشی، معاشرتی غرضیکہ مسلمانوں کی زندگی کی ہر سطح فتنہ بازی کی لپیٹ میں آ گئی۔ اسلام کا ابتدائی دور صدق و اخلاص اور سادگی کا دور تھا۔ نبی محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت اور رسالت پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا کامل ایمان تھا۔ مسلمانوں کا سب سے اہم علمی مشغلہ، قران حکیم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کو توجہ سے سننا، سمجھنا، اس پر یقین اور عمل کرنا اور دوسروں کو اس کا ابلاغ تھا۔ احکام الہی اور فرمودات نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دل و جان سے عمل کرنا ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایمان تھا۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ۔
’’خير القرون قرنی ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم‘‘
(سب زمانوں سے بہتر میرا زمانہ ہے، اس کے بعد وہ زمانہ جو اس سے متصل ہے پھر وہ جو اس کے بعد آئے گا)
اللہ سبحانہ و تعالیٰ بھی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہلبیت علیہم السلام کی تعریف قرآن کی سورۃ توبہ کی آیت نمبر 100 میں ان الفاظ سے فرماتا ہے : ۔
’’وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ‘‘
(اور مہاجرین اور انصار میں سب سے پہلے سبقت لے جانے والے (صحابہ کرام علیہم السلام و اہلبیت اطہار علیہم السلام جو سب سے پہلے دین کی حمایت میں کھڑے ہوئے، ہجرت کی یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اور مسلمانوں کا خیر مقدم کیا اور جو ان (سبقت لے جانے والوں) کے نقش قدم پر اچھی طرح چلے، (جو ان کے سانچے میں ڈھلے) اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے)
ان بہترین ادوار میں علم قرات، علم حدیث اور خاص کر علم اسماء الرجال (یعنی حدیث کے راویوں کے احوال جاننے کا علم) اور علم فقہ کے جاننے، سمجھنے اور احکام کی اصل روح تک رسائی کے اشغال ہی کو تعلیماتِ اسلامی سمجھا جاتا تھا۔ لیکن جب دنیا کے دیگر اقوام وملّل اور ممالک محروسہ تک اسلام کی حقانیت کا پیغام پہنچنا شروع ہوا، اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع ہونے لگا اور دوسرے ادیان و مذاہب کے لوگ دین اسلام قبول کرنے لگے توان میں یہودی، مجوسی، عیسائی، دہریے، افلاطونی، نو افلاطونی فلسفہ کو ماننے والے، ہندو مت اور بدھ مت سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل تھے۔ ان لوگوں نے اگرچہ ساری عمر ایک خاص ماحول میں گزاری تھی۔ ان کی تعلیم و تربیت اور عقائد دین اسلام کی تعلیمات سے یکسر مختلف تھے لیکن دین اسلام کی حقانیت نے ان پر اثر دکھایا اور وہ حلقہ بگوشِ اسلام ہو گئے، اسلامی طرز زندگی اختیار کی اور وہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے رہے۔ شومئے قسمت سے خرابی اس وقت پیدا ہوئی جب نومسلموں میں وہ لوگ بھی شامل ہوگئے کہ جن کے اذہان میں اپنے پچھلے عقائد کی جڑیں بہت زیادہ گہری تھیں یا ان میں بعض سیاسی اور اسی نوع کے دیگر مفادات کے حصول کے لیے مسلمان ہوئے، کچھ خطرناک تخریب کار، مفسد اور دہشت گرد بھی تھے جو مسلمانوں کے درمیان فساد ڈالنے کے لئے اپنی حکومتوں اور مذہبی قائدین کی جانب سے مامور تھے، وُہ بظاہر ایمان لاتے لیکن اپنا کام دکھانے کے بعد غائب ہو جاتے تھے، بہر حال ان عناصر کی ریشہ دوانیوں سے دین اسلام کی سادہ فطرتی تعلیمات اور عقائد بھی متاثر ہونے لگے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو متعلمین رسول اللہ تھے ان کا زمانہ صاف ستھرا شفاف اور سادہ تھا، وُہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اور معیت سے براہ راست فیضیاب تھے۔ ان کاایمان کامل اور عقیدہ مضبوط تھا لہذا مفسدین کے ہتھکنڈے اور بحث و تمحیص سے وہ تو کبھی متاثر نہ ہوئے اور تبلیغ حق کا فریضہ بخوبی سر انجام دیتے رہے، خود معلمین کے مرتبہ پر فائز تھے، فضول بحث و مباحثہ اور یا وہ گوئی ان کا شعار نہ تھا۔ لہذا مضبوطی سے اپنے عقیدہ پر قائم رہے۔ لیکن وہ سادہ لوح اور دین کا کم علم رکھنے والے افراد اسلامی معاشرے کے اندر داخل ہونے والے مفسدین اور منافقین کے بحث و مباحثہ اور چرب زبانی کے چکر میں آ کر متاثر ہو جاتے تھے۔ مسلمانوں کے بھیس میں شامل ہونے والے تخریب کاروں کا سب سے موثر ہتھیارسادہ مسلمانوں کو یونانی فلسفہ اور منطق کے بکھیڑوں میں الجھانے کا تھا لہذا جہاں اور جب بھی ان کو موقع ملتا وہ سادہ لوح اور کم علم مسلمانوں کے ساتھ مختلف دینی مسائل پر بحث و تمحیص او رمناظرہ شروع کر دیتے۔ چونکہ عام مسلمان تو قرآن و حدیث اور فقہ کے علوم سے کماحقہ واقف نہ تھے لہذا اکثر ان کی منطق سے ابہام و تشکیک میں مبتلا ہو جاتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ مفسدین ان عام غیر مسلموں جیسے نہ تھے کہ جنہوں نے دین مبین کی تعلیمات اور مسلمانوں کے حسنِ اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا تھا بلکہ یہ مذاہب باطلہ کے بہت خاص ایجنٹ ہوتے تھے، جن میں زیادہ تر تعداد ان متعصب علماء اور راہبوں کی تھی جن کے لیے دین اسلام کے تفوق اور کامیابی کو برداشت کرنا ممکن نہ تھا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے وہ مسلمانوں میں فرقہ بازی کی خُو ڈالنے کا مشن لے کر اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ ان کی کاوشوں کے نتیجے میں دین اسلام میں سینکڑوں فرقے پیدا ہوئے جن کی وجہ سے اسلام کی وحدتِ ملی کو شدید نقصان پہنچا، طوالت کی وجہ سے اس وقت ہم مختلف فرقوں سے دین اسلام کو پہنچنے والے شدید نقصانات کا تفصیلی ذکر کرنے سے قاصر ہیں۔ ان شا ء اللہ مناسب موقع پر دروس سلوک و تصوّف کے قارئین کو ہم ان فرقوں کی پہچان کرانے کی کوشش کریں گے تا کہ آج کے سادہ مسلمان اور اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ افراد موجودہ دور کے مفسدین کے بچھائے دام ہمرنگِ زمین سے محفوظ رہ سکیں۔ مختصرا اتنا عرض ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین اور اتباعِ تابعین کے بعد ملوکیت اور آمریت کے مختلف ادوار اسلام کی اخلاقی اور روحانی تعلیمات کے زوال کا زمانہ تھا۔ ان ادوار میں مادی، علمی اور فنی ترقی تو ہوئی۔ اسلامی ممالک کی سرحدات میں توسیع بھی خوب ہوئی لیکن عہد رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور کے اخلاق جمیلہ، روحانیت، صدق و وفا، اخلاص، للہیت اور اللہ کے محبوب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بے حد محبت، مسلمانوں میں اخوت، بھائی چارے، مساوات، سخاوت، شجاعت، عفت، عصمت اور عدالت جو دین اسلام کے بنیادی لوازمات اور مسلمانوں کے مقاصد حیات تھے کا وہ معیار قائم نہ رہ سکا۔ ملوکیت اور آمریت کی مجموعی خرابیوں نے مسلم روحانی معاشرہ کو شدید نقصان پہنچایا۔ ملوک و سلاطین اور امراء کی عاداتِ قبیحہ، مفاد پرستی، حرص و ہوس، لالچ، اکنازِ مال، ضمیر فروشی، سیاسی چالبازیاں، فتنہ و فساد، شورشیں، احتکار، رشوت ستانی، اقرباء نوازی اور بے جا سفارش جیسی معاشرتی اور اخلاقی برائیوں نے مسلمان رعایا کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا۔ مسلم معاشرہ میں سب سے بڑی ہولناک تباہی شریعت کے اصولوں کے خلاف امراء اور رؤساء کی عیش پرستی، طرب و نشاط کی محافل، اختلاطِ مرد و زن، تھیٹر، ڈراموں، قصہ کہانیوں اور کھلم کھلا فحاشی کے اڈوں کی سر پرستی کی وجہ سے مسلط ہوئی۔ سیاسی مذہبی اور مسلکی اختلافات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ امت مرحومہ پر ہر طرف خوف و غم کے سائے منڈلا نے لگے۔ اخلاقی اور روحانی اقدار جو مسلم معاشرے کی پہچان تھے۔ تیزی سے روبہ زوال ہونے لگے۔ لیکن بحیثیتِ مجموعی زوالِ ملّت کا اصل سبب وہ تفرقہ تھا، جس کا بیج اسلام دشمن قوتوں نے ملت اسلامیہ میں بڑی مہارت سے بویا۔ ایک خدا کی عبادت کرنے اور ایک دین کے ماننے والے مختلف فرقوں اور مسلکوں میں بٹ کر شجرِ وحدت کی جڑوں کو خود کاٹنے لگے۔ مسلمانوں کا سیاسی تنزل، معاشی و معاشرتی تنزل، علمی و فنی تنزل، ان میں سے کوئی ایک بھی کلیتاً اصل تنزل نہ تھا۔ تنزل کی اصلی جڑ وہ اخلاقی اور روحانی تنزل تھا، جو اس اخلاق حسنہ کے فقدان سے پیدا ہوا جو عہد رسالت اور عہد صحابہ رضی اللہ عنہم کا خاصہ تھا۔ معلم اخلاق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلق عظیم اپنانے والے عشاقِ نبی، صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین اور تبع تابعین باقی رہے اور نہ ان کے بعد آنے والوں نے ان کی سیرت کو اپنے لئے مشعل راہ بنایا۔
یہ وہ وقت تھاجب ملت کے افتراق و انتشار کی ساعتوں میں کچھ مخلص عاشقانِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میدان عمل میں اترے، یہ نیک سیرت لوگ صوفیاء کہلاتے تھے۔ حکومت، ریاست و سیاست سے لاتعلق رہ کر یہ مردان حق لوگوں کو حقیقی اسلام کی طرف دوبارہ متوجہ کرنے لگے۔ معلم اخلاق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصلی پیرو کار یہ نفوسِ قدسیہ فطرۃ بالفعل کی بجائے مسلمانوں کے قلب و ذہن کے اندر پنہاں محبت الہی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی فطرۃ بالقوہ کے تقاضوں کو جگانے کی جدوجہد کرنے لگے۔ اتباع سنت کی پیروی کرنے والے ان صالحین نے معاشرہ کے احوال درست کرنے کے لیے سب سے پہلے انفرادی اصلاحِ احوال کا بیڑا اٹھایا۔ دورِ زوال کے وقت بھی یہ بزرگ اور مشائخ دین اسلام کے حقیقی، معنوی، جوہری اور روحانی علوم و فنون سے آراستہ تھے، یہ قرآن و سنت، حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور فقہ اسلامی کے ماہرین، محدثین اور مفسرین تھے اور حقیقی معنوں میں معیاری دین اور معمول بہ دین کی حقیقی روح کو سمجھنے والے زعماءِ ملت تھے، یہ اپنے طالبعلموں اور مریدوں کو علم اور عمل سے اصل دین پڑھاتے سکھاتے تھے۔ حکومتی سیاست سے دُور یہ حضرات قرآنی علم و حکمت کے ذریعے سالکین کا تصفیہ نفس اور تزکیہ باطن کرتے تھے۔ یہ حضرات تعلیم و تعلم اور درس و تدریس کا فریضہ ہر اس مقام اور جگہ پر ہر وقت ادا کرنے کے لئے تیار رہتے تھے جہاں متلاشیانِ حق ان کے پاس پہنچ جاتے۔ مدارس، مساجد، درگاہیں اور خانقاہیں ان کے روحانی مراکز ہوتے تھے، جہاں ہر سمے قال اللہ اور قال الرسول کا ماحول ہوتا تھا۔ جو درسیات طالب علموں، مریدوں اور سالکین کو پڑھائے جاتے تھے ان کا عملی مظاہرہ اساتذہ، معلمین اور مرشدین کے کردار میں نظر آتا تھا۔ ان کا قال اور حال ایک جیسا تھا۔ طالب علم اور متعلمین یہ سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھتے تھے۔ اسلامی تعلیمات، سلوک، تصوف اور احسان کے درس و تدریس والے سب مقامات روحانی خانقاہیں ہوتی ہیں۔ مشائخ اور درویش جنگل، پہاڑ کی چوٹی، کھوہ، کسی لق و دق میدان یا صحراجہاں کہیں بیٹھ جاتے ہیں وہاں قال اللہ اور قال الرسول کی محفل جم جاتی ہے۔ اللہ جل شانہ‘نے سب انبیاء، رسل اور پیغمبروں کو گوناگوں معجزات سے قوت عطا فرمائی لیکن اپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جن خاص امتیازات سے نوازا، وہ کسی دوسرے نبی اور رسول کو ودیعت نہیں کی گئیں۔ مقام محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منفرد و یکتا ہے۔ آپ رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقوشِ حیات؛ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیغمبرانہ زندگی، معاشرت، معاشی، سیاسی، عسکری، معلّمانہ اور ازدواجی زندگی بنی نوع کے ہر فرد و بشر کے لیے نمونہ کمال ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس جامعیت کبرٰی کی مظہر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بے حد و شمار امتیازات میں ایک خاص امتیاز تمام روئے زمین کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے سجدہ گاہ ہوناہے۔
تمام مذاہب عبادت کے لیے چار دیواریوں کے محتاج ہیں۔ ان کے باہر وہ اللہ کو پکار نہیں سکتے اور نہ اس کی عبادت کر سکتے ہیں لیکن جو دین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لائے اس کی رو سے اللہ چار دیواریوں میں محدود نہیں ہے بلکہ وہ ہر جگہ ہے۔ بحر و بر، پہاڑوں اور میدانوں میں آسمانوں کی بلندیوں میں ستاروں اور کہکشاؤں کے ہر حصہ میں اس کو یاد کیا جا سکتا ہے، اس کے سامنے سجدہ کیا جا سکتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’ تم جدھر منہ پھیرو ادھر ہی اللہ کا چہرہ ہے‘‘
(فَأَيْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْهُ اللّهِ ..)
ہر جا کُنیم سجدہ یاں آستاں رسد!
معلّمِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں درویش مردِ مومن جہاں بیٹھ جائے، ذکر الہی شروع ہو جاتا ہے اور فیوضات ذکر جاری ہو جاتے ہیں۔ اولیاء اور درویشوں کے بیٹھنے کی ہر جگہ خانقاہ ہے، ذکر الہٰی جہاں کیا جائے وہ مسجد بھی ہے، معبد بھی ہے، بارگاہ بھی ہے درگاہ بھی اور آستانہ ہوتا ہے۔ ہر جگہ خدا ہے ہر جگہ خدا کی ہے اور دنیا کی ہر جگہ اللہ کے بندوں کی عبادت گاہ ہے۔ دِلِ مسکین، قلبِ ذاکر، خانہ خدا، بیت اللہ سب کے سب مقاماتِ ذکر الہی ہیں۔ خانقاہ، صومعہ اور درویشوں کے بیٹھنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ اس کو خانگاہ بھی کہا جاتا ہے۔ سر دلبراں کے مؤلّف نے اس کو شیخ کی قیام گاہ اور عالم تنزیہ کے مفہوم کے تحت بیان کیا ہے۔
ناریاں مر ناریاں را جاذب اند
نوریاں مر نوریاں را طالب اند
(مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ)
(اہل آتش، اہل آتش کو اپنی طرف بلاتے ہیں۔ نوری لوگ نوریوں کے طالب ہیں)
گمراہ لوگ گمراہوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور ہدایت یافتہ لوگ طالبانِ حق و ہدایت کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔
مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سیاہ فام لوگ سیاہ فام لوگوں کے رفیق ہوتے ہیں اور رومیوں کا کام رومیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
کند ہم جنس بہ جنس پرواز
کبوتر بہ کبوتر، باز بہ باز
(تمام پرندے اپنے ہم جنس پرندوں کے ساتھ محوِ پرواز ہوتے ہیں۔ کبوتر کبوتروں کی ڈار میں اور باز بازوں کے ساتھ اڑتا ہے)
مسجدے کو اندرون اولیا ست
سجدہ گاہ جُملہ است، آن جا خدا ست
(وہ مسجد جو اولیاء کے باطن میں ہے وہ جملہ مخلوق کی سجدہ گاہ ہے اسی میں خدا بھی ہے)
(مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ)
مولائے روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب دل کا آئینہ پاک اور شفاف ہو جائے تو ایسا دل حقیقی مسجد اور خانہ خدا بن جاتا ہے اور اس جگہ خدا کے نور کے جلوے بھی ضوفگن ہونے لگ جاتے ہیں جو لوگ ایسے لوگوں کے دلوں میں ہوتے ہیں وہ بھی فیضان الہٰی حاصل کرنے کی استطاعت حاصل کر لیتے ہیں۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
دل نہیں شاعر کا ہے کیفیتوں کی رستخیر
کیا خبر تجھ کو درون سینہ کیا رکھتا ہوں میں