ترتیب و تدوین : صاحبزادہ محمد حسین آزاد
معاونت : کوثر پروین، روبینہ شاہین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اِنَّمَا يُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِحِسَابٍO
(الزمر، 39 : 10)
اﷲ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں جابجا صبر کی فضیلت اور اسکی برکات و ثمرات کا ذکر فرمایا ہے۔ یہ آیت کریمہ جو میں نے تلاوت کی ہے۔ اس میں اﷲ جل مجدہُ نے ارشاد فرمایا :
’’بلاشبہ صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب انداز سے پورا کیا جائے گا‘‘۔
(عرفان القرآن)
یعنی مصائب و آلام پر صبر کرنے والوں کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ انہیں ان کا اجر بغیر حساب کے عطا فر ماتا ہے۔ گویا صبر پر جو اجر ملتا ہے۔ وہ حساب و کتاب سے بالا تر ہوتا ہے۔ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ.
(البقره، 2 : 153)
’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقینا اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے‘‘۔
(عرفان القرآن)
اسی طرح قرآن حکیم میں ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے :
نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِِلِيْنَo الَّذِيْنَ صَبَرُوْا وَعَلٰی رَبِّهِمْ يَتَوَکَّلُوْنَo
(العنکبوت، 29 : 58 . 59)
’’(یہ) عملِ (صالح) کرنے والوں کا کیا ہی اچھا اجر ہے۔ (یہ وہ لوگ ہیں) جنہوں نے صبر کیا اور اپنے رب پر ہی توکّل کرتے رہے‘‘۔
(عرفان القرآن)
معلوم ہوا جو لوگ صبر کرتے ہیں اور صبر پر عامل ہوتے ہیں تو صابر لوگوں کو ان کے اعمال پر اﷲ تعالیٰ بہت بڑا اجر عطا فرماتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے خاص محبوب اور مقرب بندوں پرجب خصوصی نعمت کرنا چاہتا ہے اور اپنا کوئی خاص احسان فرمانا چاہتا ہے، ان کے درجے بلند کرنا چاہتا ہے، ان کو خصوصی احسانات اور نوازشات کے ساتھ بہرہ ور کرنا چاہتا ہے، انہیں خصوصی مقامات ِقرب کے ساتھ نوازنا چاہتا ہے، انہیں اونچا اور بلند کرنا چاہتا ہے تو باری تعالیٰ اکثر و بیشتر ان پر کوئی مصیبت، کوئی پریشانی، کوئی رنج وملال، کوئی دکھ، کوئی ایسی حالت طاری فرما دیتا ہے تاکہ یہ صبر کریں اور اس صبر کے مرحلے سے جب وہ گزرتے ہیں تو ان کے درجے اتنے بلند ہو چکے ہوتے ہیں کہ وہ ہزار ہا سال کی عبادتوں اور ریاضتوں سے بھی بلند نہیں ہوتے۔ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ایک راز ہے اور اس راز کے ساتھ وہ اپنے ایمان والے اور محبت والے بندے کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اس تصوّر کو انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیا ء کرام رضی اللہ عنہم کے حوالے سے بھی واضح کیا گیا ہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی جابجا اس کا حکم دیا ہے تاکہ مقربیّت اور محبوبیّت میں اضافہ ہو۔ فرمایا :
وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْيُنِنَا.
(النجم، 53 : 48)
’’اور (اے حبیبِ مکرّم! اِن کی باتوں سے غمزدہ نہ ہوں) آپ اپنے رب کے حکم کی خاطر صبر جاری رکھئے بے شک آپ (ہر وقت) ہماری آنکھوں کے سامنے (رہتے) ہیں‘‘۔
یعنی اگر ان ظالموں نے نگاہیں پھیر لی ہیں تو کیا ہوا ہم تو آپ کی طرف سے نگاہیں ہٹاتے ہی نہیں ہیں اور ہم ہر وقت آپ ہی کو تکتے رہتے ہیں۔ (عرفان القرآن)
صبر کا اجر یہ ہے کہ جتنا صبر کرو گے اتنی ہی ہماری نگاہ شفقت تمہاری طرف جمی رہے گی۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ اپنے انبیاء علیہم السلام پر اور اپنے مقرب اولیاء پر اور اپنے محبوب بندوں پر اپنی جانب سے ان کی شان اور ان کے حال کے لائق کبھی کوئی بھول طاری فرماتا ہے۔ ان سے کوئی بھول کرواتا ہے۔ اور بھول ہر ایک سے اس کی شان کے لائق ہوتی ہے۔ اور یہ بھول اور نسیان طاری فرما کر پھر ان پر پیار بھری گرفت کرتا ہے۔ جس میں سختی اور ناراضگی نہ ہو۔ ان کے دلوں میں ندامت اور شرمندگی کا احساس پیدا کرتا ہے۔ اس ندامت کے نتیجے وہ نادم اور شرمندہ ہو کر اﷲ کی بارگاہ میں روتے ہیں اور ان آنسوؤں کی برسات میں ان کے درجے بلند کرتا چلا جاتا ہے مگر ہم لوگ صبر کی اس اہمیت سے آگاہ نہیں ہیں۔ اگر آگاہ ہوں تو ہماری زبانوں پر اور دلوں پر کبھی بھی شکوہ نہ آئے۔ درج ذیل چند مثالوں کے ذریعے یہ حقیقت واضح ہو جائے گی تاکہ ہم انہیں اپنی زندگیوں میں عملاً رائج کر سکیں۔
اﷲ تبارک و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو زمین میں خلیفہ بنانے کا ارادہ فرمایا :
وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰئِکَةِ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِيْفَةً.
(البقره، 2 : 30)
’’اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں‘‘۔ (عرفان القرآن)
خلافت سے حضرت آدم علیہ السلام کو نوازنا یہ کس کا فیصلہ تھا، اﷲ تعالیٰ کا اور خلافت کہاں کی دینی تھی، زمین کی اور حضرت آدم علیہ السلام تھے کہاں جنت میں۔ اب قابل توجہ بات یہ ہے کہ خلیفہ زمین کا بنانا ہے اور رہتے جنت میں ہیں۔ یہ بات ایسی ہوگئی جیسے صدر پاکستان کا ہو اور اقامت و رہائش افریقہ کی ہو۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے۔ نہیں ہو سکتا۔ لہذا چاہا کہ زمین کا خلیفہ بنانے کے لئے آدم علیہ السلام کو زمین پر بھیجے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو یہ فیصلہ کرنے کے بعدحکم دیا کہ اے آدم (علیہ السلام) تم اور تمہاری زوجہ محترمہ (حضرت) حوا (علیہا السلام) اس درخت کے قریب نہ جانا۔
وَلاَ تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ.
(البقره، 2 : 35)
’’مگر اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ حد سے بڑھنے والوں میں (شامل) ہو جاؤ گے‘‘۔
یہ حکم دے دیا کہ اس درخت کے قریب نہ جانا اور اس کا پھل نہ کھانا۔ ادھر شیطان آ گیا اس نے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا کہ یہ پھل کھا لو۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا نہیں۔ اس نے بڑا زور لگایا۔ آپ علیہ السلام نے انکار کیا۔ اب قرآن کہتا ہے کہ جب شیطان نے دیکھا کہ یہ تو مان ہی نہیں رہا تو کِیا کیا جائے۔ شیطان جانتا تھا کہ یہ اہلِ محبت ہیں۔ ان کے سامنے ان کے محبوب کا نام لیا جائے لہذا اس نے اﷲ کے نام کی قسمیں کھائیں جب حضرت آدم علیہ السلام نے محبوب کا نام سنا تو آپ سب کچھ بھول گئے۔ اہلِ محبت کا حال یہ ہوتا ہے کہ جب محبوب کی بات کانوں میں پڑتی ہے تو آگے پیچھے سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ پھر خیال نہیں رہتا کہ اس کام میں نفع یا نقصان ہوگا۔ بالکل ایسے ہی جیسے زنان ِ مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام کا جلوہ کیا تو آنکھ کو جھپکنا بھول گئیں اور چُھری سے ہاتھ کٹتے رہے۔ انگلیاں کٹتی رہیں اور خون بہتا رہا۔ اور آپ علیہ السلام کے جلوہ میں مست ہوگئیں :
فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلّهِ مَا هَـذَا بَشَرًا إِنْ هَـذَا إِلاَّ مَلَكٌ كَرِيمٌ.
(يوسف، 12 : 31)
’’سو جب انہوں نے یوسف (علیہ السلام کے حسنِ زیبا) کو دیکھا تو اس (کے جلوہ جمال) کی بڑائی کرنے لگیں اور وہ (مدہوشی کے عالم میں پھل کاٹنے کے بجائے) اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور (دیکھ لینے کے بعد بے ساختہ) بول اٹھیں : اﷲ کی پناہ! یہ تو بشر نہیں ہے، یہ تو بس کوئی برگزیدہ فرشتہ (یعنی عالمِ بالا سے اترا ہوا نور کا پیکر) ہے‘‘۔ (عرفان القرآن)
اس سے معلوم ہوا کہ جب جلوہ یار سامنے ہو تو کچھ یاد نہیں رہتا۔ محبت والوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ محبوب کی بات کان میں پڑ جائے تو کچھ یاد نہیں رہتا۔
حضرت آدم علیہ السلام نے یہ خلاف ورزی اﷲ کے حکم کی نہیں کی تھی، گناہ نہیں کیا۔ کیونکہ قرآن مجید میں اﷲ تبارک وتعالیٰ خود ان کی طرف سے صفائی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا.
(طٰهٰ، 20 : 115)
’’اور درحقیقت ہم نے اس سے (بہت) پہلے آدم (علیہ السلام) کو تاکیدی حکم فرمایا تھا سو وہ بھول گئے اور ہم نے ان میں بالکل (نافرمانی کا کوئی) ارادہ نہیں پایا (یہ محض ایک بھول تھی)‘‘۔ (عرفان القرآن)
اﷲ پاک فرما رہا ہے کہ ہم نے ہرگز حضرت آدم علیہ السلام کے دل میں اپنے حکم کی نافرمانی کا کوئی ارادہ نہیں پایا۔ حضرت آدم علیہ السلام کی صفائی خود اﷲ تعالیٰ دے رہا ہے۔
جب اﷲ تعالیٰ نے خود صفائی دے دی تو پھر گناہ کیسا؟ اﷲ پاک نے ان کی گواہی دے کر انہیں بے گناہ قرار دے دیا مگر ساتھ ہی دوسری جگہ اس طرف اشارہ کیا تاکہ حضرت آدم علیہ السلام کے دل میں احساس و ندامت پیدا ہو۔ اور یہ خیال پیدا ہو کہ مجھ سے خطاء ہوگئی۔ کہیں میرا مولا مجھ سے ناراض نہ ہو جائے۔ یہ خیال اللہ نے، اس احساس ِ ندامت کو پیدا کرنے کے لئے کروایا۔ اور ساتھ فرمایا : اے آدم علیہ السلام تم دونوں اب زمین پر اتر جاؤ۔ تاکہ احساس ندامت پختہ ہو جائے۔ زمین پر اترے اور رونے لگے۔ روتے رہے۔ اس وقت تک رولایا جب تک کہ وہ مقام نہ آ گیا کہ جب خلافت کا تاج سر پر پہنانے کا وقت آ گیا۔ اگر غلطی ہوئی ہوتی اور گناہ ہوا ہوتا تو کیا اس پر معافی ہوتی اور پچھلے درجے پر بحال کر دیا جاتا ہے۔ نہیں بلکہ یہاں ہم کیا دیکھتے ہیں۔ جب بھول ہوئی اور زمین پر اتارا تو فقط آدم علیہ السلام تھے اور جب معاف کیا تو زمین پر خدا کے خلیفہ بن چکے تھے۔ چونکہ اﷲ کا فیصلہ پہلے دن سے تھا۔ مگر اس فیصلے کا اجراء کب ہونا ہے یہ اﷲ کے علم میں تھا۔ یقینا انبیاء علیہ السلام گنہگار نہیں ہوتے بلکہ معصوم ہوتے ہیں۔ پیدائش ہی سے معصوم ہوتے ہیں۔ مگر ان کی شان کے لائق ان کے دل میں یہ خیال طاری کیا جاتا ہے تاکہ وہ نادم ہوں اور اﷲ کی بارگاہ میں روئیں اور یہی رونا انہیں مزید بلندی کے مقام پر فائز کر دیتا ہے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام سے ان کے بیٹوں نے جب اجازت چاہی کہ ابّا جان ہمارے بھائی یوسف علیہ السلام کو ہمارے ساتھ شکار اور سیر و تفریح کے لئے بھیج دیں۔ آپ علیہ السلام نے پہلے تو انکار کیا بعد ازاں ان کے اسرار پر اپنے بیٹوں کو اجازت دیتے وقت ارشاد فرمایا :
قَالَ إِنِّي لَيَحْزُنُنِي أَن تَذْهَبُواْ بِهِ وَأَخَافُ أَن يَأْكُلَهُ الذِّئْبُ وَأَنتُمْ عَنْهُ غَافِلُونَ.
(يوسف، 12 : 13)
’’انہوں نے کہا : بے شک مجھے یہ خیال مغموم کرتا ہے کہ تم اسے لے جاؤ اور میں (اس خیال سے بھی) خوفزدہ ہوں کہ اسے بھیڑیا کھا جائے اور تم اس (کی حفاظت) سے غافل رہو‘‘۔ (عرفان القرآن)
یہ تو علم نبوت کی بات ہے کہ جو جھوٹا واقعہ بعد میں انہوں نے پیش کیا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے پہلے ہی اس کی نشاندہی کر دی۔ مگر راز درانہ بات۔ اس روایت کے مطابق یہ ہے کہ عرفاء فرماتے ہیں جب انہوں نے یہ کہا کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں بھیڑیا نہ کھا جائے۔ اس بات پر اﷲ تعالیٰ نے عتاب فرمایا : پیار بھری گرفت کی اور فرمایا : اے یعقوب (علیہ السلام) تمہارا دھیان ان کی غفلت کی طرف گیا کہ کہیں میرے بیٹے غفلت نہ کریں اور یوسف علیہ السلام کو بھیڑیا نہ کھا جائے جبکہ شان ِمحبوبیّت کا تقاضا یہ تھا کہ ان کی غفلت تکنے کی بجائے تیرا دھیان میری حفاظت کی طرف جاتا۔ یہ جو ایک جملہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی زبان سے نکلوایا۔ اس جملے کا نتیجہ تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو حضرت یعقوب علیہ السلام سے جدا کر دیا۔ اور ان کی جوانی تک یہ جدائی چلتی رہی اور پھر کیا ہوا جس طرح آدم اور حواں روتے رہے۔ اس طرح حضرت یعقوب علیہ السلام کو بیٹے کی جدائی پر رلایا۔ اُسی بیٹے کی قمیض سے پھر بینائی لوٹا دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس صبر پر اللہ تعالیٰ نے ان کے بھی درجے بلند کر دئیے۔
یہی ماجرا حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا، جب حضرت یوسف علیہ السلام جیل میں چلے گئے اور آپ کو معلوم ہے کہ جیل میں بے گناہ گئے تھے۔ تھوڑا عرصہ گزرا تھا کہ جیل سے دو قیدیوں کی رہائی ہونے لگی۔ قرآن مجید میں ہے جب رہائی کا وقت آیا تو حضرت یوسف علیہ السلام جانتے تھے کہ میں بے گناہ ہوں اور مجھے ناحق جیل میں ڈالا گیا اگر اس پر سزا ہو رہی ہو توحق ہے کہ بادشاہ ِوقت تک اس بات کو پہنچایا جائے۔ تاکہ وہ ناحق ظلم سے باز آئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے جب دیکھا کہ وہ رہائی پا رہے ہیں تو جاتے ہوئے ان سے کہا :
وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ.
(يوسف، 12 : 42)
’’اور یوسف (علیہ السلام) نے اس شخص سے کہا : جسے ان دونوں میں سے رہائی پانے والا سمجھا کہ اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کر دینا (شاید اسے یاد آ جائے کہ ایک اور بے گناہ بھی قید میں ہے) مگر شیطان نے اسے اپنے بادشاہ کے پاس (وہ) ذکر کرنا بھلا دیا نتیجتاً یوسف (علیہ السلام) کئی سال تک قید خانہ میں ٹھہرے رہے‘‘۔
’’اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کر دینا‘‘۔ یہ ایک پُر حکمت بھول تھی۔ اپنے محبوب اور برگزیدہ بندے کی زبان سے یہ کلمہ کہلوایا۔ یہ اس کے مقرب بندے کی شان ہے جو اس کے بندوں کی طرف سے نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے طاری کی جاتی ہے۔
جیسے ایک روز آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ِعصر پڑھائی۔ دو رکعت پڑھ کے ہی سلام پھیر دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا، آقا کیا نماز چھوٹی کر دی گئی یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھول ہوگئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب میں فرمایا : نہ نماز چھوٹی کی گئی نہ میں بھولا بلکہ فرمایا :
’’میں بھولا نہیں بلکہ بھولایا گیا ہوں‘‘۔ تاکہ بھول پر ایسا کرنا تمھارے لئے سنت بن جائے اور تمہیں مسئلہ معلوم ہو جائے کہ کوئی نماز بھول جائے تو کیا کرنا ہے۔
لہذا بھول انبیاء پر طاری کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہ السلام کی شان یہ ہے کہ بھول ان کی طرف منسوب نہیں کی جاتی بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کسی حکمت، کسی راز، کسی مصلحت، کسی اپنے منصوبے کے پیشِ نظر، پُر حکمت اور پُر مصلحت اور پُر راز بھول طاری کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں پیار بھری گرفت کرتا ہے تاکہ ندامت طاری ہو اور میرے محبوب کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر اسے بلند درجے پر فائز کر دیں۔ اب حضرت یوسف علیہ السلام کی بات جائز تھی مگر فرمایا : میرے یوسف یہ تیرے لئے مناسب نہ تھا کہ تو بادشاہ کو پیغام دیتا کہ میرا ذکر بادشاہ کے سامنے کر دینا۔ تیرا دھیان اس کی طرف کیوں گیا۔ تیرا دھیان تو میری طرف رہنا چاہئے تھا۔ نتیجہ کیا ہوا کہ وہ شخص جس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جا کر بادشاہ کو یاد کروائے گا اُسے شیطان نے بھلا دیا اور وہ بادشاہ کے سامنے ذکر تک نہ کر سکا اور عتاب یہ ہوا کہ مزید آٹھ نو سال تک حضرت یوسف علیہ السلام جیل میں رہے۔
اللہ تعالیٰ نے صبر کے مرحلے سے گزارا جب وہ اس میں کامیاب ہوئے تو جیل جانے سے پہلے یوسف علیہ السلام زر خرید غلام تھے اور جب جیل سے نکالا تو مصر کا سلطان بنا کر نکالا۔ درجے اتنے بلند کئے کہ مصر کا بادشاہ بنا دیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمتیں ہیں۔
(جاری ہے)