وقت ایک ایسا نایاب خزانہ ہے جس کی حفاظت اگر نہ کی جائے تو انسان حقیقتاً خسارہ سے دوچار ہوتا ہے۔ عقلمند اور ذہین وہی ہیں جو دستیاب وقت کا بہترین اور بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ وقت ایک ایسی دولت ہے ایک بار خرچ ہو جائے تو پھر پلٹ کر نہیں آتی۔ وقت کی اہمیت اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں جن اشیا کی قسم کھائی ہے ان میں وقت بھی ہے۔ آج کل ہر شخص وقت کی قلت کا گلہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اگر کسی بھی شخص کے وقت کے استعمال پر دھیان دیا جائے تو بہت کم افراد ایسے ہوں گے جو اپنے وقت کے ہر لمحے کو مفید بنانے کے لئے فکر مند نظر آئیں؟ جن قوموں نے وقت کی قدر کی وہ آج ممتاز و باوقار ہیں اور وقت ضائع کرنے والی قومیں بظاہر آزاد نظر آنے کے باوجود محکومی کی زندگی بسر کررہی ہیں۔ قدرتی اعتبار سے خواتین میں وقت کی پابندی اور ٹائم مینجمنٹ مردوں کی نسبت بہتر ہے۔ خواتین اپنے 24 گھنٹوں کے اوقات کار میں بچوں کی تربیت بھی کرتی ہیں۔ امور خانہ داری بھی انجام دیتی ہیں اور گھر کو خاندان کے ایک یونٹ کے طور پر منظم و مربوط بنانے کے لئے اپنا بیشتر وقت ایک نظم کے ساتھ صرف کررہی ہوتی ہیں۔ خواتین اپنے اوقات کار میں سماجی تعلقات کو برقرار رکھنے کے لئے بھی کردار ادا کرتی ہیں۔ سماجی تعلقات سے مراد عزیز و اقارب سے روابط اور ہمسایوں سے بہترین تعلقات استوار کرنا ہے جو ایک نارمل زندگی کا ناگزیر تقاضا ہے۔ ہر شخص کے پاس 24 گھنٹے کی تقسیم کار ہے۔ ان 24 گھنٹوں میں نیند، کام اور دیگر امور انجام دئیے جاتے ہیں۔ جو لوگ انفرادی حیثیت میں ان 24 گھنٹوں کی بہترین تقسیم کو یقینی بنا لیتے ہیں وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک بہتر مقام کی طرف بڑھتے نظر آتے ہیں۔ ایک حدیث نبوی ﷺ جس کا مفہوم ہے کہ مومن کا آنے والا کل اس کے گزرے ہوئے کل سے بہتر ہوتا ہے۔ اس حدیث نبوی ﷺ میں بے پناہ حکمت کارفرما ہے یعنی اگر جس کا آنے والا کل گزرے ہوئے کل سے بہتر نہیں ہے تو وہ مومن کے اوصاف اور خصائص پر پورا نہیں اترتا اور خسارے میں ہے۔ یہاں ٹائم مینجمنٹ کی بات کی گئی ہے یعنی عبادت، رزق حلال، آرام اور خانگی امور کو وقت دینا ایک ناگزیر تقاضا ہے۔ اسلام وہ واحد الہامی دین ہے جس نے ٹائم مینجمنٹ کے اوپر بہت زیادہ فوکس کیا ہے۔’’لا اکرہ فی الدین‘‘ یعنی دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ ہر مسلمان کو اعتدال کے ساتھ عبادات کی اجازت دی گئی ہے۔ اگر کوئی شخص فرائض کی ادائیگی یقینی بناتا ہے تو اُس کے اوپر کوئی مزید عبادت کا بوجھ نہیں ڈالا گیا یہاں اُس کی اہلیت اور طبیعت کو پیش نظر رکھا گیا ہے کیونکہ اسلام نے عبادت کے ساتھ ساتھ سماجی تعلقات، حقوق و فرائض اور رزق حلال کو اہمیت دی ہے۔ ہر شخص کو اپنے روز مرہ کے اوقات کار کا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ کن امور پر کتنا وقت صرف کرتا ہے اور وہ وقت انہی کاموں کے لئے ناگزیر کیوں ہے؟ ٹائم مینجمنٹ کا بنیادی قاعدہ یہ ہے کہ ضروری امور کی انجام دہی کو سر فہرست رکھا جائے اور ایسے امورو معاملات کو ترک کر دیا جائے جو وقت کے ضیاع کے زمرے میں آتے ہیں۔ آج کل وقت کی قلت کا رونا رونے کے باوجود گھنٹوں سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس پر صرف ہورہے ہیں اور اس بات کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ اس سے زیادہ ضروری امور بھی موجود ہیں۔ ٹائم مینجمنٹ کئے بغیر صرف کی جانے والی زندگی ڈپریشن سے بھر جاتی ہے۔ جب ہم ضروری اور غیر ضروری کاموں میں تفریق نہیں کرتے تو اُس کا نتیجہ ڈپریشن کی صورت میں برآمد ہوتا ہے، لہٰذا ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اہم اور غیر اہم میں تقسیم کرے اور ضروری کاموں کو التواء میں ڈالنے سے گریز کرے۔