فراغت اور فرصت کے اوقات بڑی نعمت ہیں یہ ہمت کو دوبارہ بحال کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ آقا علیہ السلام نے فرصت کے اوقات کو نعمت قرار دیا ہے۔ (ترمذی)
دو نعمتیں ایسی ہیں جن کی بہت سارے لوگ قدر نہیں کرتے۔ صحت اور فرصت۔
حضرت حسن بصریؒ اس نعمت عطیہ کو غنیمت جاننے کے بارے میں فرماتے کہ روزانہ فجر کے وقت اللہ تعالیٰ کا ایک منادی آواز دیتا ہے۔ اے ابن آدم! میں نئی تخلیق ہوں اور تیرے عمل کا گواہ ہوں۔ لہذا عمل صالح کے ذریعے مجھ سے توشہ بنالے کیونکہ پھر میں قیامت تک دوبارہ نہیں آؤں گا۔
وقت کی قدر:
جب کسی اچھے کام کرنے کا ارادہ کرو تو اسے کر گزرو یہ مت کہو کہ کل کرلوں گا۔ وقت تو بادلوں کی طرح گزر جاتا ہے۔ آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک زمانے قریب نہ آجائیں۔ ایک سال ایک مہینہ کے برابر ہوجائے گا۔ مہینہ ایک جمعہ کے برابر، جمعہ ایک دن کے برابر اور ایک دن ایک لمحہ کے برابر اور ایک لمحہ ایک آگ کے انگارے جتنا ہوجائے گا۔ (مسند احمد)
غافل لوگوں کے لیے وعید آئی ہے:
ذَرْهُمْ یَاْکُلُوْا وَیَتَمَتَّعُوْا وَیُلْهِهِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ.
(الحجر، 15: 3)
’’آپ (غمگین نہ ہوں) انہیں چھوڑ دیجیے وہ کھاتے (پیتے) رہیں اور عیش کرتے رہیں اور (ان کی) جھوٹی امیدیں انہیں (آخرت سے) غافل رکھیں پھر وہ عنقریب (اپنا انجام) جان لیں گے۔‘‘
تفسیر قرطبی سے علامہ قرطبیؒ نے اس آیت کی تفسیر میں تحریر کیا ہے کہ لمبی امیدیں ایک لاعلاج اور دائمی مرض ہے جب یہ دل میں بیٹھ جاتا ہے تو مزاج خراب اور علاج سخت ہوجاتا ہے اس سے نہ بیماری دور ہوتی ہے نہ ہی کوئی دوا کامیاب۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے: ’’اس امت کے اولین لوگوں کی درستگی زہد اور یقین سے ہوئی اور اس کے آخری لوگوںکو بخل اور امید سے ہلاک کردیا جائے گا۔‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے تھے۔ مجھے ایسی ندامت کبھی نہیں ہوتی جیسی ندامت مجھے اس دن پر ہوتی ہے جس کا سورج غروب ہو اور میری عمر کا وقت کم ہوجائے مگر اس میں میرا عمل زائد نہ ہوا ہو۔
علامہ ابن جوزیؒ اپنی معروف کتاب نقعۃ الکبد فی نصیحۃ الولد میں بیان فرماتے ہیں۔ اے میرے بیٹے جان لو یہ ایام چند ساعات پر مشتمل ہیں اور ساعت کچھ سانسوں پر اور ہر سانس ایک خزانہ ہے اس لیے اس بات سے ہوشیار رہنا کہ کوئی سانس بغیر کچھ کام کئے گزار دو ورنہ قیامت میں اپنا خزانہ خالی دیکھ کر تمہیں ندامت ہوگی۔ ہر لمحہ کو دیکھو وہ کیا لے جارہا ہے لہذا اس لمحے کو بہتر سے بہتر کام کے ساتھ رخصت کرو اور اپنے نفس کو مہلت مت دینا بلکہ اسے عادت ڈالو کہ وہ اچھے اعمال اور نیکیاں کرے۔ اپنی قبر کے صندوق میں اپنے لیے وہ کچھ بھیجو جو جب تم کو ملے تو اس سے خوشی حاصل ہو۔ کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے فارغ وقت کو قرآن حکیم کا کچھ حصہ زبانی یاد کرنے یا دینی مجلسوں میں گزارو کیونکہ نیک صحبت، قرآن اور دینی اجتماع پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جس گھر میں کچھ لوگ جمع ہوکر اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے اور اس کو ایک دوسرے کو سکھاتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے رحمت انھیں ڈھانپ لیتی ہے فرشتے انھیں گھیرے رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے پاس موجودہ لوگوں میں ان کا تذکرہ کرتا ہے۔ (مسلم شریف)
سلف صالحین کا معمول:
صحابہ کرامؓ اور اس وقت کے علماء وقت کی اس قدر کرتے تھے ان کے واقعات درج ذیل ہیں:
حضرت عبداللہ بن عمر العاص ؓ اپنے بارے میں فرماتے ہیں میں نے قرآن جمع کرلیا اور ایک رات میں پورا پڑھ لیا تو مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ڈر ہے کہ آگے کے وقت میں جب ٹائم زیادہ لگے گا تو تم بیزار سے ہوجاؤ گے اس لیے مہینہ میں ایک مرتبہ پڑھاکرو تو میں نے گزارش کی مجھے اپنی قوت اور جوانی کا فائدہ اٹھانے دیجیے تو آپ ﷺ نے فرمایا پھر دس دن میں ایک قرآن ختم کیا کرو۔ میں نے پھر وہی گزارش کی تو فرمایا کہ سات دن میں پڑھا کرو میں نے پھر وہی گزارش کی تو آپ ﷺ نے مزید کمی کرنے سے انکار کردیا۔(ابن ماجہ)
ان صحابی رسول ﷺ کو دیکھیں کہ وہ جوانی سے فائدہ اٹھانے کی اجازت مانگ رہے ہیں۔ وہ بھی محض اللہ کی رضا کے لیے لیکن رسول ﷺ نے اجازت نہیں دی بلکہ اعتدال میں رہنے کی تلقین کی۔
حضرت امام شافعیؒ اپنی رات کو تین حصوں پر تقسیم کرتے تھے۔ ایک تہائی رات علم کے لیے ایک تہائی عبادت کے لیے ایک تہائی سونے کے لیے وہ قرآن مجید ایک رمضان میں نفل میں ساٹھ مرتبہ ختم فرماتے تھے۔
گھر والوں یا احباب کو مدد کی ضرورت ہو تو ان کی مدد کرو۔ مریض کی عیادت کرو، تکلیف میں مبتلا شخص کی مدد کرو، حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت میں لگا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرنے میں لگ جاتا ہے جو شخص کسی مسلمان کی تکلیف دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی تکلیف دور کردے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔(بخاری)
حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے کسی مریض کی عیادت کی یا کسی بھائی کی زیارت کی ایک منادی آواز دیتا ہے تو مبارک ہو تیرا چلنا مبارک ہو تیرا ٹھکانہ جنت میں ہو۔ (بخاری)
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک وہ شخص جس کے دل میں قرآن کا کچھ بھی حصہ نہ ہو وہ ویران گھر کی طرح ہے۔ (بخاری)
قیامت کے دن عرش کے سائے تلے حاملین قرآن ہوں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے اپنی اولاد کو تین خصائل کی تربیت دو۔
1۔اپنے نبی کی محبت
2۔اہل بیت کی محبت
3۔قرآن پڑھنے کی محبت
حاملین قرآن عرش کے سائے تلے انبیاء کرام اور اللہ کی خاص بندوں کے ہمراہ ہوں گے۔ اس دن اس سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔
حضرت عمر بن خطابؓ کا قول ہے۔ میں جب کسی ایسے آدمی کو دیکھتا ہوں جو نہ دنیا کے کسی پیشہ میں لگا ہو نہ آخرت کے عمل میں ہو تو وہ میری نظروں سے گر جاتا ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے دی گئی مہلت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے اور کار آمد بنانے کی توفیق دے۔ آمین
ابن جریر طبری کے بارے میں مورخین لکھتے ہیں۔ انھوں نے چالیس سال تک روزانہ چالیس ورق تحریر کیے۔ ان کے شاگردوں نے ان کی ہوش مندی کی عمر سے موت تک کا حساب لگایا (وہ چھیاسی سال کی عمر میں فوت ہوئے) پھر اس ساری عمر کے ایام میں تصنیفات کو تقسیم کیا تو روزانہ کے چودہ صفحہ بنے یعنی کہا جائے تو انھوں نے ہوش مند ہوتے ہی روزانہ بلاناغہ چودہ صفحے تصنیف کیے۔
ابن انیسؒ جب لکھنے بیٹھتے تو ان کے پاس چھے قلم رکھ دیئے جاتے اور وہ اپنا چہرہ دیوار کی طرف کرلیتے اور اپنے دل سے تصنیف شروع کردیتے۔ سیلاب کی روانی کی طرح قلم چلتا اور جب قلم لکھنا چھوڑ دیتا تو یہ اسے رکھ کر دوسرا قلم اٹھا لیتے تاکہ قلم چھیلنے میں وقت ضائع نہ ہو۔
لہذا میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا کیونکہ یہ ایسی تلوار ہے جسے تم نہیں کاٹو گے تو وہ تمھیں کو کاٹ دے گا۔
وَهُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّیْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّکَّرَ اَوْ اَرَادَ شُکُوْرًا.
(الفرقان، 25: 62)
’’اور وہی ذات ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے گردش کرنے والا بنایا اس کے لیے جو غور و فکر کرنا چاہے یا شکر گزاری کا ارادہ کرے (ان تخلیقی قدرتوں میں نصیحت و ہدایت ہے)۔‘‘
ابن عقیل حنبل کہتے ہیں کہ میرے زندگی سے کوئی لمحہ ضائع کرنا حلال نہیں ہے مجھے علم کی حرص اتنی زیادہ ہے کہ آج اسی سال کی عمر میں میرا شوق بیس سال کی عمر کے شوق سے بھی زیادہ ہوچکا ہے۔ میں اپنے وقت کو بے انتہا کم پاتا ہوں لہذا کیک کے چورے کو کھاتا ہوں اور روٹی کو پانی سے نگل لیتا ہوں تاکہ مجھے چبانے میں وقت صرف نہ کرنا پڑے اور جو وقت بچے اسے کتاب کے مطالعہ یا لکھنے میں کار آمد بنالوں۔
وقت کو قیمتی بنانے کا طریقہ:
وقت کو قیمتی بنانے کے بہت سے طریقے ہیں۔
1۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سورۃ اخلاص تہائی قرآن کے برابر ثواب رکھتی ہے۔
2۔ سورۃ فاتحہ کے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں تمہیں ایک ایسی سورۃ سکھاؤں گاجو قرآن میں سب سے زیادہ عظمت والی سورۃ ہے پھر آپ ﷺ نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کی اور فرمایا یہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔
3۔ حضور ﷺ نے فرمایا: دو کلمے جو زبان پر ہلکے، میزان پر بھاری ہیں اور رحمن کو بہت پسند ہیں۔ سبحان الله وبحمده، سبحان الله العظیم. (بخاری و مسلم)
4۔ جو شخص دن میں سو مرتبہ سبحان اللہ وبحمدہ پڑھے گا اس کے گناہ مٹادیئے جائیں گے چاہے وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔ (متفق علیہ)
5۔ حضور علیہ السلام پر بیس مرتبہ درود پڑھنے سے اللہ تعالیٰ اس پر دو سو مرتبہ رحمتیں بھیجتا ہے۔
6۔ استغفار و مغفرت جنت میں داخلے کا سبب ہے۔ بلاؤں کو دور کرنے اور معاملات میں آسانی مال اور اولاد کے ذریعے اللہ کی مدد کا سبب بناتا ہے۔
7۔ لااله الا الله وحده لاشریک له، له الملک و له الحمد، وهو علی کل شئی قدیر. جو شخص یہ دعا دس مرتبہ پڑھے گا اس کا ثواب ایسا ہے جیسے کوئی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے چار افراد کو غلامی سے آزاد کرادے۔ (متفق علیہ)
8۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ کے بارے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں جنت کے ایک خزانے کی جانب رہنمائی نہ کردوں تو میں نے عرض کیا کیوں نہیں یارسول اللہ ﷺ آپ نے فرمایا: لاحول ولا قوة الا بالله. (متفق علیه)
9۔ اپنے وقت کو قیمتی بنانے کا یہ بھی طریقہ ہے کہ امر بالمعروف کریں راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹادیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کا باعث بن کر گناہوں کو مٹادے گا۔ نیکیاں نامہ اعمال میں جمع ہوجائیں گی۔