تاریخ عالم کے مطالعہ سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ تاریخ انسانی میں بہت سے ایسے عظیم لیڈر گزرے ہیں جن کے مخلصانہ اور مدبرانہ کارنامے اپنی انفرادیت اور تنوع کے اعتبار سے دنیا بھر میں رشک کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ جو اس دنیا فانی سے پردہ کر جانے کے باوجود امر ہو جاتے ہیں اور ان کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ و تابندہ ہو جاتا ہے۔ جو جہدِ مسلسل کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بناتے اور دوسروں کی خاطر جینے کو جینا قرار دیتے ہیں۔ جو خود زمانے کی تلخیاں اور سختیاں برداشت کر کے دوسروں کو آرام پہنچانے کو حقیقی زندگی شمار کرتے ہیں۔ بلاشبہ پاکستان کے بانی قائدِ اعظم کا شمار بھی ایسے ہی عظیم لیڈروں میں ہوتا ہے۔
قائدِ اعظم اپنے افکار و نظریات، بلندی کردار اور کارناموں کے اعتبار سے ایک بھرپور تاریخ بھی ہیں اور نشانِ منزل بھی۔ آپ نے خداداد صلاحیت و بصیرت اور سیاسی جد و جہد سے عظیم مفکر علامہ اقبال کے تصورِ پاکستان کے خاکے میں حقیقت کا رنگ بھرا۔ آپ نے اپنے خونِ جگر اور خونِ تمنا سے ناممکن کو ممکن بنانے اور شبِ غلامی کو سحر آزادی میں بدلنے کی دن رات سعی کی۔ جس کے نتیجے میں ایک اسلامی مملکت وجود میں آئی جسے دنیا پاکستان کے نام سے جانتی ہے۔
قائدِ اعظم ملتِ اسلامیہ کے درد سے معمور ایسے سچے اور راسخ العقیدہ مسلمان تھے جن میں مصور پاکستان علامہ اقبال کے مرد مومن کی تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ آپ نے نہ صرف حصول پاکستان کی جد و جہد میں اسلامیان ہند کی رہنمائی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کی بلکہ قیام پاکستان کے بعد بھی تمام امور میں اسلامی تعلیمات کو پیشِ نظر رکھا۔ آپ کی سحر انگیز شخصیت ہمہ جہت خوبیوں کا مرقع ہے۔ جس کا ہر ہر پہلو روشن و تابناک ہے تاہم زیرِ نظر تحریر میں آپ کے روحانی پہلو پر اختصاراً روشنی ڈالی جائے گی تاکہ آپ کی اسلامی زندگی موجودہ پاکستانی عہدیداران کے لیے مشعلِ راہ بنے۔
قائدِ اعظم کو اسلام اور اسلامی تعلیمات سے گہرا لگاؤ تھا۔ اسلام سے متعلقہ آپ کے جذبات و احساسات کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے ہر مقام پر تعلیماتِ اسلام سے اپنی محبت کو واضح کیا۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی حیات و خدمات کا بنظر عمیق مطالعہ کیا جائے تو واضح ہو تا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کا آغاز خدا اور رسول اللہ ﷺ کے نام پر کیا اور اول و آخر اپنی عمومی و سیاسی زندگی میں آئین آسمانی اور حدیث نبوی ﷺ کی روشنی میں اسلامیان ہند کی راہنمائی کی۔ حیات قائد کا ایک قابل قدر گوشہ جذبہ عشق رسول ﷺ ہے۔ ذات رسالت مآب ﷺ کے ساتھ انہیں جو والہانہ عقیدت تھی اس کا اظہار ان کے اقوال و کردار سے بخوبی ہوتا ہے۔ بلاشبہ محبت رسول ﷺ ہرمسلمان کے ایمان کا جزو لانیفک ہے۔ اہل اسلام کے لئے نبی رحمت ﷺ کی ہستی کا مرکز جاذبیت ہونا اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اس کا اقرار غیر مسلم مورخ ہملٹن گب نے بھی بخوبی کیا ہے ۔وہ لکھتا ہے کہ
محمد ﷺ کے متعلق اہل اسلام کا جوش ارادت اور جذبہ عقیدت اس حد تک مستحکم ہے کہ اس میں مبالغہ کی گنجائش نہیں رہی۔ عہد رسالت اور زمانہ مابعد دونوں میں رسول ﷺ کی عظمت کا احساس اور تعظیم کا جذبہ امر لازم تھا،لیکن یہ احترام و توقیر سے کوئی بالا ترشے ہے۔ محمد ﷺ نے اپنے اصحاب کے دل میں اپنی ذات کے لئے جو جذبہ محبت و تحسین پیدا کیا تھا۔ وہ صدیاں گزرجانے کے بعد بھی آج تک فضائے ہستی میں گونج رہا ہے۔
اہل ا سلام نبی آخر الزماں ﷺ کے اسم گرامی محمد ﷺ کو اپنے نام کا جزو اول یا جزو آخر بناتے ہیں، تاکہ اس نام کے ارتباط سے اپنی شخصیت کو محمل برکات اور اور اپنی زندگی کو مہد سعادت بنائیں۔ قائد اعظم بھی ان خوش قسمت اہل اسلام میں سے ہیں کہ والدین نے محبت رسول ﷺ کو ان کے نام کا حصہ بنادیاا ور ان کا نام محمد علی رکھا۔ ان کی زندگی کی ابتداء او ر شعور کا ارتقاء اسی نام محمد ﷺ کی گونج سنتے اور سمجھتے ہوا۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ ابھی ننھے بچے تھے، ابھی سکول نہیں جاتے تھے اوردوسرے بچوں کی طرح گلیوں، محلوں میں کھیلا کرتے تھے۔ جہاں وہ کھیلنے جایا کرتے تھے، اس کے قریب ایک مسجد تھی جہاں پانچ وقت اذان ہوتی تھی۔ محمد علی جناحؒ اسے بغور سنتے اور ایک روز گھر آکر اپنی والدہ سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ میں ہر روز بڑے غور سے اذان میں اپنا نام سنتا ہوں، ماں نے ننھے بیٹے کو گلے لگایا اور کہا بیٹا یہ آپ کا نام نہیں لیا جاتا، یہ نام نامی ہمارے پیغمبر اسلام کا ہے۔ حضر ت محمد ﷺ اللہ کے محبوب رسول ہیں۔اور اللہ نے انہیں لوگوں کی رہنمائی، تعلیم وتربیت اور آگاہی کے لئے بھیجا تھا وہ لوگوں کو توحید کا درس دیتے تھے۔ تمہارا نام آپ ﷺ کے نام محمد کی نسبت سے رکھا گیا ہے۔ یہی وہ سبق تھا، جوان کے لاشعور سے ان کے قلب میں داخل ہوا۔
قائد اعظم محمد علی جناح نہایت خشوع و خضوع سے نماز ادا کرتے تھے۔ مولوی شبیر علی بیان کرتے ہیں۔
میرے ایک محترم دوست نے مجھ سے بیان کیا کہ ان سے مولانا حسرت موہانی صاحب نے بیان کیا کہ میں ایک روز جناح صاحب کی کوٹھی پر صبح ہی صبح ایک نہایت ضروری کام سے پہنچا اور ملازم سے میں نے اطلاع کرنے کو کہا۔ ملازم نے کہا کہ اس وقت ہم کو اندر جانے کی اجازت نہیں، آپ تشریف رکھیں۔ تھوڑی دیر میں جناب صاحب خود تشریف لائیں گے کیونکہ مجھے نہایت ضروری کام تھا اور میں اس کو جلد سے جلد جناح صاحب سے کہنا چاہتا تھا اس لیے مجھے ملازم پر غصہ آیا اور میں خود کمرہ میں چلا گیا ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں، دوسرے کمرے سے تیسرے میں پہنچا تو برابر کمرے سے مجھے کسی کے بہت ہی بلک بلک کر رونے کی آواز آئی اور کچھ کہنے کی آواز آئی، آواز چونکہ جناح صاحب کی تھی اس لیے میں گھبرا گیا۔ اور آہستہ سے پردہ اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ جناح صاحب سجدے میں پڑے ہیں اور بہت ہی بے قراری کے ساتھ کچھ مانگ رہے ہیں۔ میں دبے پاؤں واپس آ گیا۔ اور اب تو بھائی جب میں جاتا ہوں اور ملازم کہتا ہے کہ اندر ہیں تو میں یہی سمجھتا ہوں کہ وہ سجدے میں پڑے ہوئے دعا کر رہے ہوں ہیں، میرے تصور میں ہر وقت وہی منظر اور وہی آواز رہتی ہے۔
مولانا سیف الاسلام بھی اپنی چشم دیدی رپورٹ میں اسی قسم کا واقعہ لکھتے ہیں۔
قائد اعظم رات کے دو بجے اٹھ کر نماز پڑھتے ہیں اور بہت دیر تک سجدے میں روتے ہیں اور بہت گڑگڑا کر دعا کرتے ہیں۔
قائدِ اعظم قرآنِ حکیم کو اپنا آخری اور قطعی رہبر سمجھتے تھے۔ آپ قرآن کریم کی تلاوت اور اس کی آیتوں پر غور وفکر کرنا اور ان پر عمل کرنا ایک سچے اور پکے عاشق رسول کی علامت ہے۔ آپ کی قرآن حکیم سے گہری دلچسپی اور قرآن فہمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قائد اعظم نہ صرف قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے بلکہ اس کی ایک ایک آیت پر غور وفکر بھی کرتے تھے۔ بادشاہی مسجد کے سابق خطیب مولانا غلام مرشد ایک ذاتی واقعہ لکھتے ہوئے کہتے ہیں ۔
ان کے سامنے میز پر قرآن مجید کے انگریزی ترجمہ کا نسخہ رکھا تھا، اسے ہاتھ میں لے کر فرمایا:
"میرا ایمان ہے کہ اس کتابِ عظیم میں دنیا اور آخرت کی زندگیوں کے متعلق مکمل ضابطے اور آئین موجود ہیں۔ تمدنی معاشی اور اخلاقی انمٹ اور دائمی قواعد موجود ہیں۔"
عبد الرشید بٹلر کی زبانی ایک ایمان افروز واقعہ سنئے۔۔
قائداعظم گورنر ہاؤس پشاور میں آئے تو رات دو بجے میں نے انہیں کافی پیش کی۔ اس وقت سردار عبدالرب نشتر بابائے قوم سے ملاقات کے لئے گورنر ہاؤس میں موجود تھے۔ ملاقات کرکے کوئی اڑھائی بجے کہ لگ بھگ چلے گئے کہ سیکیورٹی والوں نے مجھے طلب کرلیا کیونکہ قائداعظم کے کمرے میں اس شب جانے والا آخری سرکاری اہلکار میں تھا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ اس وقت کہیں کوئی شخص تو نظر نہیں آیا کیونکہ جس میں قائد اعظم ٹھہرے تھے۔ اس سے ٹھک ٹھک کی آوازیں آ رہی تھیں، یہ آواز ایک ردھم سے آتی اور پھر وقفہ آ جاتا، وقفہ کے بعد دوبارہ اسی ردھم سے یہ آواز آتی۔ چونکہ سرحد میں (خان عبدالغفار خان سرحدی گاندھی کی جماعت کے) سرخ پوشوں کا زور تھا۔ سکیورٹی والوں کو خدشہ ہوا کہ قائداعظم پر کوئی حملہ نہ کیا جا رہا ہو۔ ان کے دروازے پر کسی کو دستک دینے کی جرات نہ تھی۔ چنانچہ مجھے ایک روشن دان سے جھانک کر قائد اعظم کے بارے میں معلوم کرنے کا فرض سونپا گیا میں نے جونہی روشندان سے اندر جھانکا کا تو دیکھا قائداعظم فرش پر چل رہے تھے اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے یہ بات میرے لئے تشویش کا باعث بنی اور میں اسکی وجہ معلوم کرنے کے لئے روشن دان سے اندر جھانکتا رہا۔ لکڑی کے فرش پر چلنے کی وجہ سے سے قائد اعظم کے جوتوں کی آواز ٹھک ٹھک پیدا کر رہی تھی اور جب آواز رک جاتی تو وہ کمرے میں موجود انگیٹھی پر اپنی دونوں کہنیاں رکھ کر کچھ پڑھتے اور پھر ٹہل ٹہل کر اس پر غور کرتے اور روتے۔ میں نے یہ بات سیکورٹی والوں کو بتا دی، جنہوں نے بتایا کہ بابائے قوم کے کمرے میں انگریزی زبان کے ترجمے والا قرآن مجید کا نسخہ رکھا ہوا ہے۔ اس پر میں سمجھ گیا کہ قائد اعظم ایک یا دو آیت شریف پڑھ کر ان کا ترجمہ پڑھنے کے بعد کمرے میں گھوم گھوم کر ان پر غور کرتے اور معانی ومطالب ان کی آنکھوں میں آنسوؤں کا موجب ہیں ۔
اس حقیقت کا اظہار قائد اعظم نے رانا نصر اللہ خان سے کیا:
"میں نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ کئی بار پڑھا ہے مجھے اس کی سورتوں سے بہت تقویت ملتی ہے۔ مثلاً وہ چھوٹی سورۃ (الم ترکیف فعل ربک) ہے، جس میں ابابیل کا ذکر ہے، اللہ تعالی نے جس طرح کے الفاظ کے بڑے لشکر کو ابابیلوں کے ذریعے شکست دی اسی طرح ہم لوگوں کے ذریعے انشاء اللہ کفار کی قوتوں کو شکست ہوگی۔''
اس واقعہ کے راوی نصراللہ خان کہتے ہیں کہ قائداعظم اس سورۃ کو ذوق و شوق سے سنتے تھے اور اپنی بات چیت اور تقریروں میں اکثر "انشاء اللہ"اور "اگر اللہ کو منظور ہوا" جیسے فقرے استعمال کرتے تھے۔
قائد اعظم نے اکثر اپنی تقاریر میں اپنے پیارے محبوب کی پیاری کتاب قرآن کریم کے حوالے دئیے ہیں۔ مثلاً 1943 میں کراچی مسلم لیگ کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔
" وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہے، وہ کون سی چٹان ہے جس پر اس ملت کی عمارت استوار ہے، وہ کونسا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے۔ وہ رشتہ، وہ چٹان، وہ لنگر خدا کی کتاب قرآن کریم ہے۔"
اسی طرح مسلمان قوم کو اپنے پیام عید 1945 میں فرمایا:
"جاہلوں کی بات الگ ہے ورنہ ہر کوئی جانتا ہے کہ قرآن کریم مسلمانوں کا ہمہ گیر ضابطہ حیات ہے۔ مذہبی، سماجی، شہری، کاروباری، فوجی، عدالتی، اور قانونی ضابطہ حیات جو مذہبی تقریبات سے لے کر روز مرہ زندگی کے معاملات تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، تمام افراد سے لے کر ایک فرد کے حقوق تک، اخلاق سے لے کر جرم تک، اس دنیا میں سزا و جزا سے لے کر اگلی دنیا میں سزا اور جزا تک کی حد بندی کرتا ہے۔"
قائدِ اعظم کی زندگی کا ایک اہم اور قابلِ قدر گوشہ جذبہ عشقِ رسول ﷺ ہے۔ آپ کو حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس سے والہانہ عقیدت و محبت تھی۔ حضور نبی اکرم ﷺ سے جذبہ عشق نے قدم قدم پر آپ کی رہنمائی کی۔
آپ کی زندگی میں حبِ مصطفی ﷺ کا شعوری اظہار تب ہوا جب محمد علی جناح تعلیم کے لئے انگلستان جاتے ہیں اور وہاں جا کر قانون کی ڈگری کے حصول کا عزم کرتے ہیں تو داخلہ لینے کے لئے وہاں کی قانون کی درسگاہوں میں جا کر ان کے قواعد و ضوابط اور طریقہ تدریس جاننے کے لئے کوشاں ہوتے ہیں تاکہ بہترین درسگاہ کا انتخاب ہو سکے۔ انہی معلوماتی دودوں کے دوران وہ ایک روزلنکن ان پہنچتے ہیں اور اس کے بیرونی دروازے پر جو عبارت درج ہے اسے پڑھنے لگے۔ یہاں دنیا بھر کے قدیم مقنّنین کے نام کندہ تھے اس فہرست میں سب سے اوپر حضرت محمد ﷺ کا نام دیکھ کر انہوں نے وہاں داخلہ لے لیا۔ جی الانہ نے اپنی کتاب میں رقم کیا ہے کہ 1947 میں قیام پاکستان سے قبل کراچی بار ایسوسی ایشن کے سپاسناتے کے جواب میں انہوں نے اس امر کی وضاحت کی تھی کہ انہوں نے قانون کی تعلیم کے لئے کسی دوسرے ادارے کی بجائے لنکن ان میں داخلہ کیوں لیا تھا ؟انہوں نے فرمایا تھا کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے میرے دل میں رسول اکرم ﷺ کی، جن کا شمار دنیا کے عظیم ترین مدبروں میں بھی سب سے بلند و بالا ہے، بہت عزت تھی۔ ایک دن اتفاقاً میں لنکن ان گیا اور میں نے اس کے دروازے پر پیغمبر اسلام کا اسم مبارک کندہ دیکھا میں نے لنکن ان میں داخلہ لے لیا، کیونکہ اس کے دروازے پر کندہ دنیا کے عظیم قانون سازوں کی فہرست میں سب سے اوپر آنحضرت ﷺ کا اسم مبارک بھی شامل تھا۔
اکثر اوقات قائداعظم فرماتے تھے کہ "جب ایک مسلمان اپنے نبی کریم ﷺ پر اللہ تعالی سے رحمت طلب نہیں کرتا تو اللہ تعالی اس بندے پر کیسے رحمت نازل کر سکتا ہے۔"
اپنی اپنی دن رات مشغول زندگی کے معمول میں سے روزانہ وقت نکال کر درود شریف کثرت سے پڑھتے رہتے تھے، ان کا خیال تھا کہ اس کے بغیر وہ یہ کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔
یہ واقعہ محمد علی جناحؒ کے ذاتی رحجانات، دینی عقاید اور پیغمبر اسلام ﷺ سے ان کی والہانہ عقیدت کا عکس ہے۔ ان کے کردار میں یہ رنگ نظر آتا ہے، وہ باکردار، سچے، کھرے اور مخلوق خدا سے محبت کرنے والے رہنماتھے۔ نواب بہادر یارجنگ 1934ء میں عید میلاد النبی ﷺ کے ایک جلسہ میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے اپنی پہلی ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دوران جلسہ قائدا عظم محمد علی جناحؒ جلسہ گاہ میں تشریف لائے۔ میں چونکہ ان سے واقف نہیں تھا، اس لئے میں نے جلسہ کے منتظم اور سیکرٹری سیٹھ ذکر یا منیارسے دریافت کیا توانہوں نے مجھے بتایا کہ یہ ہیں آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر مسٹر محمد علی جناح، جو کبھی آل انڈیا نیشنل کانگرس کے روح رواں تھے، ہندوستانی قومیت کے علمبردار تھے، مخلوط انتخاب کے حامی تھے۔ انگلستان کے مشہور بیرسٹر تھے اور آج مسلمانوں کی آنکھ کا تارا، ہندوستان کی ملت اسلامیہ کا سہارا، کانگرس کے فاتح اور مسلم لیگ کے علمبردار ہیں۔ جنہوں نے مسلمانوں کو واعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لاتفرقوا کا سبق ایک مرتبہ پھر پڑھانے کا عزم کر لیا ہے اور سب کی غلامی سے چھوٹ کر محمد رسول ﷺ کے آستانے سے وابستہ ہو گئے ہیں۔
اسی جلسہ کے ضمن میں نواب بہادر یار جنگ قائد اعظم کی تقریر کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں کہ خطبہ صدرات ختم ہوا اور تکبیر کے نعروں میں محمد ﷺ اور علیؓ کے ناموں سے نسبت رکھنے والا، عقل و دل کے جناحین پر خود بھی عرش کی سیر کرنے لگا اور اپنے سامعین کو بھی فرش سے بلند کرنے لگا۔ تقریر مختصر تھی جس کے ابتدائی جملے میرے لئے سند تھے اور آخری حصہ قانون محمد ی ﷺ کا دنیا کے دیگرمشہور قوانین خصوصاًرومن لاء سے تقابلی مطالعہ تھا۔ موجودہ قوانین کا ایک عالم متجر جس کی زندگی رومن لا کی ذریات کو اپنی آغوش میں پرورش کرتے ہوئے گزری، جب محمدی ﷺ قانون کے گوشے کھولنے لگا تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ تعلیم مغرب کے شیدائیوں نے حسن محمدی ﷺ کے کیسے کسیے جلوے دیکھے ہوں گے۔
تحریک پاکستان کے رہنما مولانا شبیر احمد عثمانی نے قائد اعظمؒ کو اورنگ زیب عالم گیر کے بعد دوسرا بڑا مسلمان قرار دیا تھا۔
اگست1943ء میں بہادر یار جنگ نے خان بہادر بخشی مصطفی علی خان کے ہاتھ ایک خط قائد اعظم کو روانہ کیا، اس خط میں انہوں نے لکھا کہ پیر سید جماعت علی شاہ صاحب محدث علی پوری کسی گروہ سے تعلق نہیں رکھتے وہ صرف مذہبی تشخص تبلیغ اسلام پر نظر رکھے ہوئے ہیں، مجھے بھی ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ آپ مسلمانوں کے لئے کام کر رہے ہیں اسی وجہ سے آپ کو قدر شناس پایا، آپ کے لئے ایک خط اور کچھ تحائف ارسال کئے ہیں، ان تحائف میں قرآن شریف کا ایک قلمی نسخہ ہے، یہ قرآن شریف یمن میں تیار ہوئے کپڑے پر مدینہ منورہ میں لکھا گیا ہے۔ یہ کپڑا حضور ﷺ کو بہت پیار ا تھا۔
نواب بہادر یار جنگ کا یہ خط حضرت پیر سید جماعت علی شاہ کا خاص مکتوب اور تحائف جن میں قرآن شریف کا قلمی نسخہ، جائے نماز اور ایک تسبیح اور آب زم زم کی بوتل لے کر جب (مرحوم) بخشی مصطفی علی خان ڈی ایس پی بنگور بمبئی پہنچے تو ان دنوں قائدا عظم پر قاتلانہ حملہ ہو چکا تھا۔ آپ کچھ علیل بھی تھے کسی سے ملاقات نہیں کرتے تھے مگر محترمہ فاطمہ جناح نے یہ سب امانتیں لے لیں اور قائداعظم کو پہنچا دیں۔
اگست1943ء کو قائدعظمؒ نے حضرت پیر سید جماعت علی شاہ صاحب کو خط لکھا، جس کا مضمون کچھ اس طرح سے ہے، جب آپ جیسے بزرگوں کی دعائیں میرے ساتھ شامل حال ہوں تو میں اپنے مقصد میں اپنے آپ کو ابھی سے کامیاب تصور کروں گا۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ قرآن شریف پڑھوں گا۔ میں نے انگریزی ترجمہ منگوا لیا ہے میں وعدہ کرتا ہوں کہ نماز پڑھوں گا اور تسبیح بھی، جو آپ نے ارسال کی ہے۔ جو شخص اپنے پیغمبر ﷺ پر درود شریف (اللہ کی رحمت) طلب نہیں کرتا، اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کیسے نازل ہوسکتی ہے؟
قائدا عظم کی حضور ﷺ سے محبت کا ایک یہ بھی ثبوت ہے کہ 5 فروری 1945ء کو رسول اکرم ﷺ کے یوم ولادت کے موقع پر مسلم ویوز (Muslim Views) سری لنکا کولمبو (سری لنکا)کے نام قائد کے پیغام کا متن: رسول اکرم ﷺ کے یوم پیدائش کے موقع پر آپ نے مجھ سے پیغام مانگا ہے۔ آج میں آپ کو اس کے سوا اور کوئی پیغام نہیں دے سکتا کہ اسلام کی بہترین روایات اور دین جو ہم تک رسول اکرم ﷺ کے ذریعے پہنچیں، دنیا بھر کے مسلمان کو اسکے مطابق زندگی بسر کرنی چاہیے۔ اسلام جہہوریت، امن اورا نصاف قائم کرنے کے لئے دنیا میں آیا تاکہ مجبوروں اور پسے ہوئے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ وہ نوع انسان تک امیر اور غریب ادنیٰ اوراعلیٰ کے درمیان مساوات کا پیغام لے کر آئے۔ رسول اکرم ﷺ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اس نصب العین کی خاطر جدوجہد میں گزارا۔ اس لئے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ کہیں بھی ہو وہ اس عظیم نصب العین اور اسلام کی شاندار روایات کو قائم رکھے۔ بنی آدم میں مساوات کے لئے جدوجہد، انسان کے جائز حقوق کے حصول اورجمہوریت کے قیام کے لئے انتہائی کوشش کرے؟ ہم ہندوستان کے باسی پاکستان کو اپنا جائز مطالبہ اور فطری حق سمجھتے ہیں۔ ہمارا یقین ہے کہ یہ جمہوری اصولوں اور انصاف سے ہم آہنگ ہے۔ اس لئے اس کے حصول کے لئے اٹل ہیں۔ اِن شاء اللہ فتح ہماری ہو گی۔
17 اگست 1944ء کو عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آبار دکن کے شعبہ اردو کے لیکچرار محمد اعظم نے قائد اعظم کے نام ایک خط میں لکھا کہ انہوں نے تھامس کار لائل کی کتاب ہیروز اینڈ ہیرورشپ کے دوسرے باب کا اردو ترجمہ کیا تھا اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہو رہا ہے۔ میری دلی تمنا ہے کہ اس کا پیش لفظ آپ تحریر فرما دیں۔ قائدا عظمؒ نے26اگست کو جواب میں یہ لکھا کہ
میرے لئے یہ بات واقعتا باعث مسرت ہے کہ آپ کارلائل کی کتاب ہیروز اینڈ ہیرورشپ کے اردو ترجمے کا دوسرا ایڈیشن شائع کر رہے ہیں۔ کارلائل کی دیگر کتابوں کی طرح اس کتاب کو بھی میں نے انگلستان میں اپنے زمانہ طالب علمی میں انگریزی میں پڑھا تھا اور جب سے ہی میں"Sage of Chelsea"کا بے حد مداح اور معترف ہوں۔ اس (کارلائل) نے ہمارے عظیم پیغمبر ﷺ کی حیات طیبہ، کردار اور سوانح کی غیر جانبدارانہ تصویر کشی کرکے نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ تمام دنیا کی بڑی خدمت کی ہے۔
جنوری1948ء میں قائداعظم محمدعلی جناحؒ پاکستان کے گورنر جنرل تھے۔ بہت ہی مصروفیت کا عالم تھا۔ کئی غیر ملکی وفو د آپ سے ملاقات کے منتظر رہتے تھے۔ کئی ایک سے تبادلہ خیال کرنا ہو تا تھا ان مصروفیات کے باوجود کراچی بارایسوسی ایشن کے ایک جلسہ سے خطاب کی دعوت ملی، اگر کوئی جلسہ عام ہوتا تو سوبہانے کیے جا سکتے تھے، مگر یہ جلسہ عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر تھا اور پھر پاکستان کے قانون دان کی طرف سے دنیا کے عظیم قانون دان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے منعقد کیا جا رہا تھا۔ قائد اعظمؒ بھلا کیسے انکار کر سکتے تھے، کیونکہ ایک قانون دان کو اس کی برادری نے ایک عظیم قانون ساز کے کارناموں پر روشنی ڈالنے کے لئے کہا تھا۔ آپ اس جلسہ میں حاضر ہوئے اور خطاب کرتے ہوئے 25جنوری 1948ء کو فرمایا کہ: آج ہم دنیا کی عظیم ترین ہستی کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں۔ آپ کی عزت و تکریم کروڑوں انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیتیں آپ کے سامنے سرجھکاتی ہیں۔ میں ایک عاجز ترین انسان خاکسار بندہ ناچیز اتنی عظیم ہستی کو بھلا کیا اور کیسے نذرانہ عقیدت پیش کر سکتا ہوں۔ رسول کریم ﷺ عظیم مصلح تھے۔ عظیم رہنما تھے۔ عظیم قانون ساز تھے۔ عظیم سیاست دان اور عظیم حکمران تھے۔ میں ان لوگوں کی بات نہیں سمجھ سکتا جودیدہ دانستہ اور شرارت سے یہ پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر بنایا جائے گا۔ اسلام کے اصول عام زندگی میں آج بھی قابل اطلاق ہیں، جس طرح تیرہ سوسال پہلے تھے۔ میں ایسے لوگوں کو جو بدقسمتی سے گمراہ ہو چکے ہیں۔ یہ صاف صاف بتادیناچاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ یہاں غیر مسلموں کو بھی ڈر خوف نہیں ہونا چاہیے۔ اسلام اور اس کے نظریات نے ہمیں جمہوریت کا سبق دے رکھا ہے۔ ہمارے رسول ﷺ کی زندگی انتہائی سادہ تھی۔ آپ نے جس چیز میں ہاتھ ڈالا کامیابی نے آپ کے قدم چومے، تجارت سے لے کر حکمرانی تک ہر شعبہ حیات میں آپ مکمل طور پر کامیاب رہے۔ رسالت مآب ﷺ پوری دنیا کی عظیم ترین ہستی تھے۔ تیرہ سو سال قبل آپ نے جمہوریت کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اسلام محض رسوم، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ نہیں ہے۔ اسلام ہر مسلمان کے لئے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جس کے مطابق وہ اپنی روز مرہ زندگی اپنے افعال وا عمال اور حتی کہ سیاست اور معاشیات اور دوسرے شعبوں میں بھی عمل پیرا ہو تاہے۔ (کتاب خالد سراج صفحہ 110)
فروری1948ء کو آسٹریلیا کے باشندوں کے نام ایک نشری پیغام میں قائد اعظم نے فرمایا کہ پاکستان کی آبادی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ہم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی تعلیمات کے پیروکار ہیں اور اسلامی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، جس میں حقوق شرف و احترام اور تکریم ذات کے اعتبار سے تمام افراد برابر ہیں۔ اسی بنا پر ہم میں اخوت اور وحدت کا بڑا گہرا جذبہ موجود ہے۔ ہماری اپنی تاریخ اور اپنی رسوم و روایات ہیں، ہم ایک مربوط فکر، نقطہ نگاہ اور احساس دروں سے سرشار ہیں اور یہی وہ عوامل ہیں، جو قومیت کی تشکیل کی بنیاد بنتے ہیں۔
قائداعظم، رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کی تلقین فرماتے رہے۔ آپ نے اپنی اکثر زندگی انگلستان میں گزاری۔ جہاں ہر قسم کی آلائشیں سے موجود تھیں۔ لیکن ایک سچے غلامی رسول پھول کی طرح آپ اسوہ رسول کریم پر چلتے ہوئے کبھی جھوٹ، فریب یا منکرات میں نہ پڑے۔ آپ کی راست بازی اور دیانتداری کو آپ کے بدترین دشمنوں نے بھی تسلیم کیا ہے۔
روزنامہ ’’تیچ‘‘ دہلی نے 15 ستمبر 1948ء آپ کی وفات پر لکھا ’’مسٹر جناح کی عظیم شخصیت کا مطالعہ کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ وہ ارادے کے پکے اور قول کے سچے تھے اور دوسرے فریق کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے میں بڑے سمجھدار تھے، اس لحاظ سے مسٹر جناح ایک بڑی شخصیت کے مالک تھے۔‘‘
ہندوستان ٹائمز (بھارت) نے یوں اعتراف کیا ان کے سیاسی مخالفین بھی یہ تسلیم کئے بنا نہیں رہ سکتے کہ ’’مسٹر جناح اپنے ارادے کے پکے اور خلوص نیت کے مالک تھے ممکن ہے کہ تاریخ ان کی فرقہ پرستی کی بنا پر انہیں نشانہ تنقید بنائے لیکن تاریخ انھیں فراموش نہیں کر سکتی کیونکہ انھوں نے تاریخ بنائی ہے۔‘‘
ان کا بڑے سے بڑا مخالف بھی ان کی خوبیوں کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا، وہ اپنے اندر قلب سلیم رکھتے تھے، انہوں نے دشمن کے مقابلے میں کبھی اوچھا ہتھیار استعمال نہیں کیا۔
قائد اعظم محمد علی جناح عشق رسول کی طرح اپنا سب کچھ ملک و قوم پر قربان کر دیا تھا۔ ٹیسٹ ڈاکٹر سید محمد مظاہر اشرفی الاشرفی الجیلانی اپنی یادوں کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کو سب کچھ دیا، اپنی تمام جائیداد قوم کے نام وقف کردیئے گئے، زندگی میں گورنر جنرلی میں صرف ایک روپیہ تنخواہ وصول کی، تمام خرچ اپنی جیب سے کرتے رہے، علاج معالجہ پر بھی اپنی جیب سے خرچ کیا، ان کے بہن بھتیجے سب ہی تھے لیکن وہ سب کچھ قوم کو دیئے گئے۔‘‘
ایک سچا عاشق رسول موت سے کبھی بھی نہیں ڈرتا، بلکہ اسے ہنسی خوشی قبول کر لیتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی موت سے نہ ڈرے بلکہ مردِ مومن کی طرح مطمئن رہے۔
یہ موت پہ میری نہیں، میری اجل کی موت ہے
کیوں ڈروں اس سے کہ مر کر، پھر نہیں مرنا مجھے
ذیقعدہ 1367، 11ستمبر 1948 کو قائد اعظم محمد علی جناح دنیائے فانی سے کوچ فرما گئے۔
مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کا عقیدہ تھا کہ کوئی قوم اس وقت تک زندہ نہیں رہ سکتی، جب تک وہ نبوت کے نصب العین کو اپنی شاہراہ حیات کی منزل مقصود نہ بنا لے، بانی پاکستان قائدا عظم محمد علی جناحؒ نے اس فکر کو عملی جامہ پہنایا۔ قائدا عظم اپنے قول و کردار میں اقبال کے مرد مومن کا عملی پیکر تھے۔ مومن کا سینہ عشق مصطفیٰ ﷺ کا گنجینہ ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا تحریر کی رو سے قرآن حکیم کی عظمت، حضور سے عشق و محبت اور اسلامی تعلیمات کا احترام جتنا قائد اعظم کے دل میں تھا اتنا عصر حاضر کے کسی پاکستانی عہدیدار کے دل میں شاید ہی ہو۔ بظاہر انہوں نے اپنے گرد مذہبی تقدس کا ہالہ نہیں بنایا تھا مگر انہوں نے ہمیشہ عوام کے مذہبی جذبات کی پاس داری کی۔ وہ مذہبی رسومات کی نمائش نہیں کرتے تھے مگر دین کی محبت و عقیدت کے جذبہ سے بھر پور سرشار تھے۔ ان کا رجحان، شعور اور نصب العین تعلیمات اسلامی کے عین مطابق تھا۔
وہ جب بھی بات کرتے تو اسلام کے آفاقی اصولوں، مساوات، اخوت، حریت، عدل و انصاف، حق، وقار، خودداری، یگانگت، برداشت، یقین، تنظیم اور ایثار پر زور دیتے۔ انہوں نے پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے لیے جان و مال کی پرواہ کیے بغیر ایک عظیم تاریخ رقم کی۔مگر صد افسوس موجودہ پاکستانی مملکت کے عہدیداروں نے اسلامی تعلیمات کو پس، پشت ڈال کر اسلام کے نام پر بننے والے ملک کو اپنے دست سفاک سے برباد کر دیا ہے۔ انہوں نے ذاتی و گروہی مفادات کی بھینٹ چڑھ کر ملکی معیشت، سیاست، حکومت اور اسلام کی اساس کو بُری طرح کمزور کر دیا ہے۔ کرپٹ رہنماؤں نے ہوس اقتدار کے نشے میں مست ہو کر ملتِ اسلامیہ کی اقدار کو پامال کر کے بے حیائی، ظلم و جبر، غداری، منافقت، جھوٹ، ضمیر فروشی کو عام کر دیا ہے اور عوام کے حقوق پامال کر کے جمہوریت اور آئین کی دھجیاں اڑا کر وطنِ عزیز کو اشرافیہ کی اسٹیٹ بنا دیا ہے۔
ان ان سنگین حالات میں پاکستان کو اسلام کا حقیقی قلعہ بنانے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی عہدیداران، قائد اعظم کے فرمودات کی روشنی میں اپنے دگرگوں احوال کا جائزہ لے کر قائد سے عہدِ وفا کریں اور اپنی لغزشوں اور کوتاہیوں سے توبہ کرتے ہوئے قائد کی دی گئی امانت کی حفاظت کریں جو کہ تقاضائے دین بھی ہے اور پاکستان کی بقاء، ترقی اور تحفظ کرتے ہوئے پھر سے اسی جذبہ کو بیدار کریں جس کے لیے پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا تھا تاکہ قائداعظم کا پاکستان مسلم ریاست کے طور پر دنیا میں ابھر سکے۔