کسی بھی ملک کی ترقی میں شرح خواندگی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، جس کے بغیر ترقی اور خوشحالی ناممکن ہے۔ آج کے دور میں ہمارے معاشرے کو ناخواندہ معاشرہ سمجھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے کوئی بھی شخص معاشرتی سیاسی، معاشی اور قومی ترقی میں اپنے کردار ادا کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ اس طرح ہر فرد کو دوسروں سے استحصال کا خطرہ رہتا ہے۔ پاکستان میں آج ناخواندگی کو ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا جاتا ہے۔ ایک قوم گڈ گورننس، مضبوط معیشت اور اچھی تعلیم کے بغیر پائیدار ترقی حاصل نہیں کر سکتی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی قوم اس وقت ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے جب اس کے شہری پڑھے لکھے ہوں۔کوئی بھی فرد ترقی ذاتی حیثیت میں نہیں کرتا بلکہ اس کے اثرات پورے معاشرے پر رونما ہوتے ہیں۔
خواندگی سے مراد:
اعداد و شمار کے پڑھنے، لکھنے اور استعمال کرنے، خیالات او ر رائے کا اظہارکرنے، فیصلے کرنے اور معاملہ فہمی کے ہیں۔ بنیادی طور پر خواندگی ان تمام اصولوں کا مجموعہ ہے جن کا سامنا انسان کو اپنی زندگی میں کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواندگی کا عالمی دن کل منایا جاتاہے، اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر کے کروڑوں ناخواندہ، غیر تعلیم یافتہ، افراد کو تعلیم کی اہمیت سے روشناس کروانا ہے تاکہ جہالت کے اندھیرے دور ہوکر علم و فہم کے چراغ روشن ہوں، سب سے پہلے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے1965میں منانے کااعلان کیا جس کے بعد8 ستمبر1966 کو پہلا عالمی یوم خواندگی منایا گیا تاکہ دنیا بھر کے کروڑوں مرد وخواتین اور بچوں کو خواندگی کی امید دلائی جا سکے جو اپنا نام تک نہیں لکھ سکتے، 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ناخواندہ افراد کی تعداد 780 ملین سے زائد ہے جس میں 496ملین خواتین ہیں، پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس دن کی مناسبت سے انسانی حقوق کی تنظیموں، شرح خواندگی میں اضافے کے حوالے سے کام کرنے والے اداروں اور سماجی تنظیموں کے زیر اہتمام مختلف تقریبات منعقد کی جاتی ہیں جس میں تعلیم کی اہمیت کے ساتھ نا خواندہ افراد کے مسائل کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔جیسا کہ اس دن کے منانے کا مقصد دنیا سے جہالت کے اندھیرے دور کرکے آنے والی نسلوں کو ایک بہتر اور روشن مستقبل کی ضمانت دینا ہے۔تو بہت سے ممالک میں ہر سال خواندگی کے فروغ کے عالمی دن کی مناسبت سے مختلف پروگراموں اور سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود دنیا بھر میں لاکھوں بچے ایسے ہیں جو اسکول نہیں جاتے اور تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم ہیں۔ ہمارے ملک کے مختلف علاقوں میں بھی کم شرح خواندگی کی ایک بڑی وجہ تعلیم اور اس کی اہمیت کے بارے میں آگاہی نہ ہونا اور ناقص تعلیمی نظام بھی ہے۔
خواندہ افراد کی کارکردگی ہی ہر شعبے میں بہتر ہوتی ہے۔ بلاشبہ نوجوان کسی بھی ملک کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ اگر وہ پڑھے لکھے، صحت مند اور پیداواری صلاحیتوں کے مالک ہوں تو وہ ملک کی اقتصادی ترقی میں ممد ومعاون ثابت ہوتے ہیں اور اس ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس کے برعکس اگر وہ ناخواندہ، بیماریوں کا شکار اور پیداواری صلاحیتوں سے عاری ہوں تو وہ قوم پر بوجھ ثابت ہوتے ہیں۔ دنیا کے وہ ممالک جنہوں نے اس حقیقت کو پاتے ہوئے تعلیم کو فروغ دیا، ملک سے ناخواندگی دور کرنے کو سب کاموں پر فوقیت دی اور اس کے لیے وسائل مختص کیے، وہ صنعتی اور زرعی اعتبار سے ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ تعلیم ہر قوم کے لیے کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ دنیا اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ اگر ہم نے تعلیمی میدان میں خاطر خواہ ترقی نہیں کی تو نہ صرف یہ کہ ہم دوسروں سے پیچھے رہ جائیں گے بلکہ شاید ہمارا وجود ہی قائم نہ رہے۔
ناخواندگی کی شرح ملک کے مختلف حصوں میں مختلف ہے لیکن سب سے زیادہ ناخواندگی دیہات میں دیکھنے میں آتی ہے، جہاں اکثر عورتیں لکھنا پڑھنا نہیں جانتیں۔ آج کل شہروں میں اگرچہ بیداری کی نئی لہر دوڑ چکی ہے لیکن ملک کا اہم حصہ یعنی دیہات اب بھی خواب غفلت میں محو ہیں۔ اگر ہم تیزی سے ترقی کرتی قوموں کے حالات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنی ناکامیوں سے سبق سیکھا اور خود احتسابی کے عمل کو جاری رکھتے ہوئے کبھی اپنی غلطیوں کو نہیں دوہرایا۔ ماہرین کے مطابق تعلیمی میدان میں ہماری ناکامیوں اور زوال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے اساتذہ زیادہ تر غیر تدریسی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں، کبھی پولیو مہم، کبھی ڈینگی آگاہی مہم، کبھی امتحانات اور الیکشن میں ڈیوٹیاں یا پھر کوئی اور سرکاری کام، جس کی وجہ سے بچوں کی پڑھائی بری طرح متاثر ہو تی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اساتذہ کو کسی بھی غیر تدریسی عمل میں شریک کرنے کے بجائے ان کاموں کے لیے الگ سے بھرتیاں کی جائیں تا کہ اساتذہ اپنے کام پر پوری توجہ دے سکیں، ورنہ ہمارا معیار تعلیم پست سے پست ہوتا چلا جائے گا۔
تعلیم بالغاں ؛کیوں اور کیسے؟:
ایسے افراد جو بچپن میں کسی وجہ سے سکولوں سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کر سکے، انہیں ضروری تعلیم دے کر معاشرے کے مفید افراد بنانا تعلیم بالغاں کہلاتا ہے۔ شرح خواندگی بڑھانے کے لیے تعلیم بالغاں کی اشد ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے تعلیم بالغاں کی بدولت خواندگی کی شرح کو سو فیصد تک کر لیا ہے، جس کی وجہ سے وہ قومیں ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکی ہیں۔ تعلیم بالغاں کی بدولت افراد کو ضروری تصورات کی تفہیم کے ساتھ مختلف فنون سکھائے جاتے ہیں تا کہ وہ کار آمد افراد بن کر ملک وقوم کے لیے مفید بن سکیں۔ ان پڑھ بالغ افراد کو تعلیم دینا کہ وہ اپنے کھیتوں کو سرسبز بنا سکیں یا کارخانوں میں بہتر کاریگر ثابت ہوں، اس بات کی دلیل ہے کہ کسی بالغ شخص کو تعلیم دینا دولت اور محنت کا ضیاع نہیں ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ چھوٹی عمر کے ان تمام بچوں کو جو کسی وجہ سے سکول نہیں جا رہے ہیں، ان کا سکول میں داخلہ یقینی بنانے کے ساتھ ایسے والدین جو بچوں کو سکول نہیں بھیج رہے ہیں ان کی نشاندہی کر کے انہیں تعلیم کا شعور دیا جائے۔ میٹرک تک تعلیم نہ صرف بالکل مفت ہو بلکہ غریب بچوں کو وظائف، جوتے اورکپڑے وغیرہ بھی دیے جائیں۔ ساتھ ہی ساتھ بالغ افراد کی تعلیم کا خصوصی اہتمام کیا جائے تاکہ ایسے افراد جو بچپن میں کسی بھی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکے تعلیم کی بدولت کار آمد افراد بن سکیں۔ ماضی میں ہم نے تعلیم بالغاں کی طرف کچھ خاص توجہ نہیں دی۔ اگرچہ اس تعلیم کے لیے سفارشات تو بہت پیش کی گئیں، لیکن ان سفارشات کو عملی جامہ نہیں پہنایا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں خواندگی کی شرح کم ہی رہی۔ تعلیم بالغاں کے لیے جامع اور مکمل درسی مواد وسیع پیمانے پر ترتیب دینا اور تیار کرنا ضروری ہے۔ تعلیم بالغاں معاشرتی استحکام پیدا کرنے اور سیاسی شعور بیدار کرنے میں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے اور ملک کے ان پڑھ باشندوں کو اس قابل بنا سکتی ہے کہ وہ پورے وثوق سے اپنی شہری ذمہ داریوں سے نبرد آزما ہو سکیں۔
اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ شہر اور دیہات میں خواندگی کے لیے جامع منصوبہ بندی کرے اور دیگر معاشرتی اداروں میں تعلیم بالغاں کے مراکز کھولے جائیں اور روایتی طریقہ ہائے تدریس کے ساتھ ساتھ جدید رجحانات سے بھی استفادہ کیا جائے جیسے ٹی وی، ریڈیو، نمائش، سیمینار، چارٹ، ماڈل اور پوسٹرز وغیرہ۔ تعلیم بالغاں کے ان مراکز کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ کا سلیکشن کیا جائے اور انہیں ابتدائی تربیت دی جائے۔ تعلیم بالغاں کے پروگرام میں فیکٹریوں کے مزدوروں، دیہی علاقوں کے کسانوں، کاریگروں اور دیگر بالغ افراد جنہوں نے سکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کی شامل کیا جائے تاکہ وہ کامیاب زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔ خاص طور پر خواتین کو تعلیم سے آراستہ کرنا از حد ضروری ہے تا کہ وہ بہتر انداز میں گھریلو زندگی گزار سکیں۔ تعلیم بالغاں کے فروغ کے دوران کچھ مسائل درپیش آسکتے ہیں کیوں کہ بالغ افراد کو تعلیم حاصل کرنے پر آمادہ کرنا خاصا مشکل امر ہے۔ اکثر افراد کا پہلا اعتراض یہی ہو گا کہ ہماری پڑھنے کی عمر اب کہاں رہی ہے، ہمارے اوپر ذمہ داریاں بہت ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
تعلیم، خواندگی اور تربیت:
تعلیم ایک ایسا زیور ہے جس سے انسان نکھرتا ہے بغیر تعلیم کے انسان جاہل ہی کہلاتا ہے۔ عام طور پر تعلیم کو سمجھتا ہی نہیں جاتا۔ خواندگی کو تعلیم قرار دے کر اس سے تربیت کو منسلک کر دیاجاتا ہے اور اسی میں اصلاح کے پہلو تلاش کیے جاتے ہیں۔یہ سمجھا جاتا ہے کہ تربیت کا فقدان لوگوں کو برائی پر مائل کرتا ہے۔ تربیت پر تو سب ہی زور دیتے ہیں لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ کیسی تربیت اور کونسی تربیت ضروری ہے کہ جوکسی کو ایک اچھا انسان اور ایک اچھا شہری بنا دے۔ایک تعلیم یافتہ شخص اچھی تربیت کا حامل ہوتا ہے۔ تربیت تعلیم کا ایک مکمل جزو ہے۔ تربیت یافتہ نہ ہونے کا مطلب تعلیم یافتہ نہ ہونا ہے۔ایک ایسا شخص جو بہت سی ڈگریوں کا حامل ہے مگر بات تمیز سے کرنا نہیں جانتا، خواندگی کے اعلیٰ معیار پر تو فائز ہے مگر تعلیم یافتہ ہرگز بھی نہیں۔صرف طالبعلم کی تربیت ہی کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ان کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے والے یعنی استاد کو بھی تربیت کی اشد ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ آنے والی نسل کی صحیح معنوں میں تربیت کر سکے۔
آج کل کا دور کمپیوٹر کا ہے مگر بنیادی تعلیم بہت ضروری ہے ہم جہاں انگریزی اور ماڈرن تعلیم پر زور دیتے ہیں وہاں دینی تعلیم اور اخلاقی تعلیم بھی ضروہے تعلیم حاصل کرلی مگر دینی اخلاقی تعلیم اور تربیت حاصل نہ کی تو ایس تعلیم کا کیا فائدہ جس کے پاس ڈگریاں تو ہوں مگر وہ اخلاقی اور دینی تربیت سے محروم ہو. آپ صرف وسطی ایشیائی ممالک کو لے لیں جہاں پر شرح خواندگی 99% ہے وہاں ہر دوسرا شخص پڑھا لکھا ہے۔ حدیث نبوی ﷺ ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اب آپ یہ بھی اندازہ لگا لیں کے قرآن اور حدیث میں کتنا زور دیا گیا ہے تعلیم پر۔ ہم اگر اپنے آپ سے وعدہ کریں کے تعلیم اور تربیت کے معاملے پر کوتاہی نہیں برتیں گے تو یقین کریں ہم بھی اپنی شرح خواندگی کو بہترین کر سکتے ہیں۔
مغربی ممالک کی اقتصادی میدان میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ انہوں نے بیسویں صدی کے اوائل میں ہی ناخواندگی کا قلع قمع کر دیا۔ ان ممالک میں کھیتوں میں کام کرنے والے کسان اور کارخانوں میں کام کرنے والے کاریگر سب تعلیم یافتہ ہیں۔اسی لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسکول نہ جانے والے بچوں کو اسکول کے اندر لانے کی پالیسی اور نئے اسکولوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تربیت اور ان کے انتخاب کے حوالے سے بھی انقلابی اقدامات کیے جائیں تاکہ ملک میں خواندگی کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوسکے۔آئیے ہم سب مل کر اپنی قوم و ملک سے ناخواندگی کو دور کرنے کے لیے جد و جہد کریں اور ملک و ملت کی ترقی پر گامزن ہوں۔