اقوام کی بقا امنِ عالم میں مضمر ہے

ڈاکٹر شفاقت علی البغدادی الازہری

کائنات ہست و بود میں بڑی بڑی قومیں اور عظیم تہذیبیں منصہ شہود پر مثل آفتاب ظہور پذیر ہوئیں اور مرور ایام کے ساتھ ترقی کے بام عروج پر پہنچیں، جب تک وہ اقوام و ملل فطرت کے قوانین پر عمل پیرا ہو کر امن اور اتفاق و اتحاد کے رشتہ میں پیوست رہیں تو قدرت نے بھی انہیں استوار اور قائم رکھا۔ لیکن جب انہوں نے قوانین فطرت سے اختلاف و انحراف کیا تو ذلت و رسوائی ان کا مقدر ٹھہرا یہاں تک کہ مختلف طرح کے انتشار و بگاڑ اور برائیوں میں مبتلا ہوگئیں۔

یاد رہے کہ یوں ہی چھوٹے درجات سے معاشرتی اور اخلاقی بگاڑ بڑھتے بڑھتے ایک ایسے ناسور کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جس کا منطقی نتیجہ اس قوم و تہذیب کے زوال وانحطاط کی شکل میں سامنے آتاہے اور دنیا کے نقشہ سے ان کا نشان تک مٹ جاتا ہے۔ چنانچہ معاشرتی امن و بقاء اور استحکام الوہی قوانین پر عمل پیرا ہونے سے ہی ممکن ہے اورافراد معاشرہ کا پر امن رہنا قوانین الٰہیہ کے سلسلے کی ہی ایک کڑی ہے۔

امن وہ اہم امر ہے جس کے بغیر نہ تو عالم انسانیت کے ارتقاء کا عمل جاری رہ سکتا ہے اور نہ ہی معاشرتی زندگی کی بقاء و سلامتی برقرار رہتی ہے۔ یہ بات مسلم ہے کہ ہر انسانی جستجو اور تحقیق و ترقی کا راز امن و سلامتی اور سکون میں ہی مضمر ہے، اسی طرح انسانی معاشروں کی بقا اور ترقی میں کلیدی کردار امن و استحکام اور روزگار کے مواقعوں کا ہے۔ جس معاشرے کو ایسی نعمتیں مل جائیں اس کو گویا دنیا کی تمام نعمتیں مل گئی۔ نعمت ہدایت کے بعد دنیا کی کوئی نعمت ان دو نعمتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔

اللہ تعالی نے سورہ النحل میں قوم سبا کی بستی کا ذکر کرتے انہی دو نعمتوں کی طرف اشارہ کیا ہے نیز حضرت ابراہیم نے کبھی مکہ کے لئے امن اور رزق کی دعا مانگی تھی۔ سورہ قصص میں بھی اللہ تعالی نے نعمت اور امن اور پھلوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اسی طرح ارشادربانی ہیـ:

وَضَرَبَ اللّـٰهُ مَثَلًا قَرْیَةً کَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَئِنَّـةً یَّاْتِیْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَـفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّـٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّـٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُـوْا یَصْنَعُوْنَ.

(النحل، 112)

اور اللہ نے ایک ایسی بستی کی مثال بیان فرمائی ہے جو (بڑے) امن اور اطمینان سے (آباد) تھی اس کا رزق اس کے (مکینوں کے) پاس ہر طرف سے بڑی وسعت و فراغت کے ساتھ آتا تھا پھر اس بستی (والوں) نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کے عذاب کا لباس پہنا دیا ان اعمال کے سبب سے جو وہ کرتے تھے ۔

سورہ قصص میں کبھی اللہ تعالی نے نعمت امن اور پھلوں کا ذکر فرمایا ہے چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَقَالُوا إِن نَّتَّبِعِ الْهُدَیٰ مَعَکَ نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَا أَوَلَمْ نُمَکِّن لَّهُمْ حَرَمًا آمِنًا یُجْبَیٰ إِلَیْهِ ثَمَرَاتُ کُلِّ شَیْءٍ رِّزْقًا مِّن لَّدُنَّا وَلَٰکِنَّ أَکْثَرَهُمْ لَایَعْلَمُونَ.

(القصص، 57)

اور (قدر ناشناس) کہتے ہیں کہ اگر ہم آپ کی معیّت میں ہدایت کی پیروی کر لیں تو ہم اپنے ملک سے اچک لئے جائیں گے۔ کیا ہم نے انہیں (اس) امن والے حرم (شہرِ مکہ جو آپ ہی کا وطن ہے) میں نہیں بسایا جہاں ہماری طرف سے رزق کے طور پر (دنیا کی ہر سمت سے) ہر جنس کے پھل پہنچائے جاتے ہیں، لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے (کہ یہ سب کچھ کس کے صدقے سے ہو رہا ہے)

امن اور تشدد، دو متضاد انسانی رویوں کا نام ہے جو باقاعدہ تربیت کے ذریعے کسی بھی فرد کی شخصیت کا حصہ بنتی ہیں۔ دین اسلام امن کا درس دیتا ہے امن انسان کی مذہبی، اخلاقی انفرادی و اجتماعی بین الا قوامی زندگی میں اطمینان اوربے خوفی کا نام ہے۔ جبکہ امن کے متضاد خوف، فتنہ و فساد کے لفظ مستعمل ہوتے ہیں۔ لوگوں میں میں خوف و ہراس پھیلانے کی مذمت کرتے ہوئے نبی کریم نے فرمایا:

لایحل لمسلم ان یروع مسلما.

(سنن ابی داؤد، رقم: 5004)

مسلمان کے لیے درست نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو خوفزادہ کرے۔

امن چو نکہ انسان کی بنیادی ضرورت ہے اسی میں انسانیت کا سکون وچین مضمر ہوتا ہے اس لئے اسلام نے اس حق کی خوب حفاظت کی ہے لیکن آج انسان ہی انسان کا دشمن بنا ہوا ہے دہشت سے خوفزدہ کر تا ہے جبکہ کسی انسان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی کو خوفزدہ کرے بلا وجہ پریشان کرے۔

امن دینی اجتماعی سیاسی ثقافتی گھر یلو معاشرتی معاشی ہر طرح سے ہونا ضروری ہے جب تک کسی معاشرے میں امن نہ ہوگا تب تک وہ معاشرہ ترقی کی منازل طے نہ کرسکے گا۔ زبوں حالی کا شکار ہی رہے گا اس کا حل ہمیں صرف نبی اکرم ﷺ کی سیرت میں ملتا ہے جن کا خلق خلق عظیم، جن کا اسوہ کامل، اور اسوہ حسنہ ہے۔ آپ ﷺ امن کے پیامبر تھے مدینہ میں بسنے والا ہر شہری چاہے وہ جس مذہب سے تعلق رکھتا تھا، بچہ، بوڑھا، جوان، مرد و عورت حتی کہ غلام ہو یا لونڈی سب کے لیے حقوق مقرر فرمائے اور ہر فرد معاشرہ کے لیے امن کے قیام کو ناگزیر قرار دیا۔

حضرت علی بن ابی طالب کے گھر جب پہلا بیٹا پیدا ہوا تو انہوں نے اس کا نام حرب تجویز کیا۔ عرب ایک جنگجو قوم تھے اور جنگی ناموں کو پسند کرتے تھے۔ پیغمبر اسلام ﷺ کو پتہ چلا تو آپ نے ان کا نام بدل کر حسن تجویز کیا اور فرمایا کہ تم اپنے بیٹے کا نام حسن رکھو۔ اس سے آپ ﷺ کے امن پسند مزاج کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ تشدد پر نہیں بلکہ حسن اخلاق پر یقین رکھتے تھے ۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا:

إن الله لم یبعثنی معنتا و لامتعنتا، ولکن بعثنی معلما میسرا.

(صحیح مسلم، رقم: 3690)

بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے سختی کرنے والا نہیں بلکہ مجھے آسانی سے سکھانے والا بنا کر بھیجا ہے۔

اسلام کی بنیادی تعلیمات بھی امن و صلح پر مبنی ہیں۔ قتل و غارت گری سب سے زیادہ معاشرے میں بد امنی کا سبب بننے والا عنصر ہے جس کی قرآن و سنت میں جابجا مذمت کی گئی ہے۔ اسلام ناحق قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔

چنانچہ قرآن حکیم میں واضح طور پر انسانی جان کی حرمت مذکور ہے ارشاد باری تعالی ہے:

مِنْ أَجْلِ ذَٰلِکَ کَتَبْنَا عَلَیٰ بَنِی إِسْرَائِیلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِی الْأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا.

(المائدة، 32)

اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر (نازل کی گئی تورات میں یہ حکم) لکھ دیا (تھا) کہ جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد انگیزی (کی سزا) کے بغیر (ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔

ایک پرسکون پر امن، چین اور خوشیوں سے بھرپور، فلاحی اور اصلاحی معاشرے کی تشکیل کیلئے جن بنیاد ی عوامل کا ہونا انتہائی ضروری ہے وہ درج ذیل ہیں:

  1. علم و معرفت عدل و انصاف مساوات
  2. باہمی تعاون ظلم و نا انصافی کے خلاف جدوجہد

علم و معرفت:

علم و معرفت امن وسکون کے قیام کے لیے ایک اہم رکن کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ تعلیم کا مقصد انسانی طبائع میں جو تضاد ومنافرت بوجہ شخصی پائی جاتی ہے اس کو دور کرتے ہوئے انسانی ذہن کو اصل حقائق سے روشناس کروانا اور ایک ایسا ماحول تشکیل دینا ہوتا ہے جہاں مختلف الطبع لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل جُل کر رہنے کا سلیقہ اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا ڈھنگ سیکھ سکیں۔ قرآن کریم میں میں علم کو نور کہہ کر پکار گیا ہے اور نور کو مختلف تہذیبی دائروں میں امن و سکون کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

انبیاء کرام کی بعثت کا مقصد بھی لوگوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح کرنا تھا۔ چنانچہ قرآن مجید میں جہاں اللہ عزوجل نے جگہ جگہ آقا کریمe کی صفات محمودہ کا ذکر فرمایا وہاں آپ ﷺ کی بعثت مبارک کی غایت اولیٰ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیْکُمْ وَ یُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَةَ وَ یُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ.

(البقرة، 151)

اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا)رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اَسرارِ معرفت و حقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔

علم کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

فضل العالم علی العابد کفضلی علی أدناکم، ثم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ وملائکتہ وأہل السماوات والأرض حتی النملۃ فی جحرہا وحتی الحوت لیصلون علی معلمی الناس الخیر(رواہ الترمذی)

علم والوں کو دوسروں کے مقابلے میں ایسی ہی فضیلت حاصل ہے، جیسے میری فضیلت تم میں سے ادنی شخص پر۔ یقینا اﷲ عزوجل، اس کے فرشتے اور آسمان و زمین والے حتی کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلیاں تک لوگوں کے معلم کے لیے بھلائی کی دعا کرتی ہیں۔

یہ سوال کہ مچھلیاں معلم کے لیے کیوں بخشش کی دعا کرتی ہیں؟ تو اس سوال کا جواب سادہ لفظوں میں یہ ہے کہ علم کا نفع ہر چیز کو پہنچتا ہے یہاں تک کہ مچھلیوں کو بھی کیونکہ علم کی وجہ سے حلال و حرام کو جانتے ہیں اور وہ ذبح ہونے والے جانوروں اور مچھلیوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ چنانچہ علم و معرفت کے ذریعے وہ معاشرے میں امن و استحکام کے قیام کا سبب بن جاتے ہیں۔

عدل و انصاف:

عدل و انصاف بھی امن وسکون کے قیام کے لیے ایک اہم رکن کی حیثیت رکھتا ہے عدل کے لغوی معنی: برابر، سیدھاکرنا، توازن اور مناسب بر قرار رکھنا، افراط و تفریط سے بچنا ہیں۔ ان کے علاوہ عربی میں عدل کے لئے بہت سی اصطلاحات مستعمل ہیں جن میں حاکم، عدل، نام شامل ہیں۔ گویا عدل کے معنی ہیں سیدھا کرنا، اونچ نیچ کی تقسیم ختم کر دینا، باہم توازن قائم کر دینا اور برابر تقسیم کرنا اور افراط و تفریط کے ہر طرح کے وہم کو دور کر دینا۔

یعنی وضع الشئی فی محلہ کسی چیز کو اس کے کسی مقام پر رکھنا۔ اصطلاح میں افراط و تفریط سے بالا ہوکر حقدار تک اس کے حق کا پہنچانے کا نام عدل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ اللهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ.

(النحل، 90)

بے شک اللہ تعالی عدل اور احسان کرنے کا حکم دیتے ہیں۔

عدل کا تصور دو مستقل حقیقتوں سے مرکب ہے ایک یہ کہ لوگوں کے در میان حقوق میں توازن و تناسب قائم ہو دوسرے یہ کہ ہر ایک کو اس کا حق ہے لاگ طر یقے سے دیا جائے اردو زبان میں اس مفہوم کو لفظ انصاف سے ادا کیا جاتا ہے مگر یہ لفظ غلط فہمی پیدا کرنے والا ہے اس سے خوامخواہ یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ دو آدمیوں کے در میان حقوق کی تقسیم نصف نصف کی بنیاد پر ہو گی اور پھر اس سے عدل کے معنی مساویانہ تقسیم حقوق کے تجھ لئے گئے ہیں جو سراسر فطرت کے خلاف ہے دراصل عدل جس چیز کا تقاضا کرتا ہے وہ توازن اور تناسب ہے۔

بعض حیثیتوں سے تو عدل بے شک معاشرے میں برابری چاہتا ہے مثلا حقوق شہریت میں مگر بعض دوسری حیثیتوں سے مساوات بالکل خلاف عدل ہے مثلا: والدین اور اولاد کے در میان معاشرتی و اخلاقی مساوات اور اعلی درجہ کی خدمات انجام دینے والوں اور کم تر درجہ کی خدمات ادا کرنے والوں کے در میان معاوضوں کی مساوات۔

یعنی اسلام میں ہر چیز کو اس کے اصل مقام پر رکھنے کا نام عدل ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ تمام لوگوں کے ساتھ برابری کا سلوک کیا جائے۔ یہ انسانی صفت ہے جو انسانی زندگی کی بنیاد ہے اور جس نے انسانی زندگی کے ان تمام پہلوؤں کو اپنے احاطہ میں لیا ہوا ہے یہ ایک ایسی خوبی ہے جو ایک انسان کو دوسرے کے ساتھ امن کے ساتھ رہنے کے قابل بناتی ہے۔

مساوات:

مساوات بھی معاشرے میں امن وسکون کے قیام کے لیے ایک اہم رکن کی حیثیت رکھتا ہے مساوات کا مطلب ہے۔ برابری"سارے انسانوں کے حقوق برابر ہیں، ان کا اپنا مقام ہے اور ان کے لیے یکساں مواقع فراہم ہیں، کوئی شخص اپنے خاندان، قبیلہ، وغیرہ کی وجہ سے الگ نہیں ہے بلکہ سارے لوگ ایک ہی ہیں، اسلام لوگوں کے درمیان ان کی نسل، رنگ، لباس، زبان کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں کرتا، اگر فرق کرتا ہے تو بس ان کے تقوی اور پرہیزگاری کے اعتبار سے۔

یٰٓاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآیلَ لِتَعَارَفُوْا. اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰیکُمْ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ.

(الحجرات، 13)

اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اللہ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے۔

اسلام میں مساوات، نرم مزاجی اور خوش اخلاقی پر بہت زور دیا گیا ہے، اسلام میں تمام انسان برابر کے شریک ہیں، گورے کو کالے پر یا کالے کو گورے پر، امیر کو غریب پر یا غریب کو امیر پر، نہ عرب کو عجمی پر اور نہ عجمی کو عرب پر فوقیت حاصل ہے۔

خُطبہ الوداع میں انسانی عظمت و اقدار کے منافی تمام پہلووں کو منسو خ کر دیا گیا اور وہ تمام جاہلانہ رسمیں جو کہ قبل از اسلام انسانیت کے منافی تھیں سب کو مو قوف کردیا گیا اسی لیے یہ خطبہ مکمل طور پر انسانیت کے تحفظ کیلئے بہترین ضابطہ حیات کی حیثیت رکھتا ہے، اور ایک اچھی زندگی گزارنے کیلئے ایک مکمل ضابطہ حیات اور انسانی عظمت کا منشور ہے۔

اس خطبہ میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لو گو! سن لو، زمانہ جاہلیت کے تمام رسم و رواج آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔ لو گو! تمہارا رب ایک تمہارا باپ آدم ہے۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی گورے کو کالے پر، کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی برتری نہیں ہے، فضلیت کا معیار صرف تقوی ہے تم سب آدم کی اولاد ہو۔ تم سب پر ایک دوسرے کا خون عزتیں اور مال حرام ہے خبردار! میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ اک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو۔

یہ خطبہ اسلام کے معاشرتی نظام کی راسخ بنیا د یں فراہم کر تاہے، معاشرتی مساوات نسلی افتخار و مباہا ت کا خاتمہ عورتوں اور غلاموں کے حقوق غلاموں سے حُسنِ سلوک ایک دوسرے کے جان و مال کا احترام سکھاتا ہے یہی وہ باتیں ہیں جوکہ اسلام کے نظام امن کی بنیاد یں ہیں۔

باہمی تعاون:

باہمی تعاون بھی امن وسکون کے قیام کے لیے کلیدی کردار کا حامل ہے کیونکہ انسان ہمیشہ سے مدنی الطبع رہا ہے اور اپنی فطرت میں پیدائش سے لے کر موت تک جماعتی زندگی کا محتاج ہے۔ معاشرے کا ہر فرد دوسرے فرد کی زندگی پر اثر انداز بھی ہوتا ہے اور ان سے متاثر بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے امداد باہمی کا ایک بہترین تصور دیا ہے دیتے ہوئے فرمایا ۔

وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَان وَاتَّقُواْ اللهَ إِنَّ اللهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ.

(المائدة، 02)

نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ اور ظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے۔

ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

الْمُؤْمِنُ یَألَفُ وَیُؤْلَفُ، وَلَا خَیْرَ فِیمَنْ لَا یَأْلَفُ وَلَا یُؤْلَفُ وَخَیْرُ النَّاسِ أَنفعُهُمْ لِلنَّاس.

(شعب الإیمان للبیهقی، رقم: 7896)

مومن الفت کرتا بھی ہے اور لوگ اس سے الفت رکھتے بھی ہیں اور اس شخص میں کوئی بھلائی نہیں جو الفت نہیں رکھتا اور نہ لوگ اس سے الفت رکھتے ہیں اور لوگوں میں بہترین وہ ہے جو لوگوں کے لئے نفع مند ہو۔

لوگوں کو نفع پہنچانا سب سے بڑی نیکی ہے۔ اس وجہ سے وہ لوگ جو دوسروں کو نفع پہنچاتے ہیں وہ "خیر الناس" ہیں۔ ایک اور روایت میں ان لوگوں کو بہتر اور خیر کہا گیا جس سے لوگ خیر کی امید کریں اور شر سے محفوظ رہیں۔

چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ سرکار دو عالم ﷺ ان کے پاس آکر کھڑے ہو گئے اور فرمایا: کیا میں تمہیں بتاؤں کہ تم میں سے اچھے کون ہیں اور برے کون ہیں؟" لوگ خاموش رہے۔ آپ ﷺ نے ان سے تین مرتبہ یہی فرمایا تو ایک شخص نے عرض کیا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! بتلائیے! آپ نے فرمایا:

خیرکم من یرجیٰ خیره، ویؤمن شره، وشرکم من یرجیٰ خیره ولا یؤمن شره.

(ترمذی: 2263، مسند احمد: 2: 378)

"تم میں بہتر لوگ وہ ہیں جن سے لوگ خیر کی امید رکھیں اور شر سے محفوظ رہیں، اور تم میں برے لوگ وہ ہیں جن سے لوگ خیر کی امید تو رکھیں مگر شر سے محفوظ نہ ہوں۔"

باہمی تعاون کے تعلق سے اسلام یہ اصول پیش کرتا ہے کہ تعاون ہمیشہ اچھائی، بھلائی اور نیکی کے کاموں میں ہو۔ ظلم و زیادتی، فتنہ و فسا د اور معاشرے میں فساد کے اسباب بننے والے کاموں میں کبھی بھی تعاون نہ کیا جائے۔

مذکورہ بالا بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ باہمی تعاون صالح معاشرہ کی تشکیل اور قیام امن و سلامتی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

ظلم و ناانصافی کے خلاف جدوجہد:

معاشرے میں قیام امن کے لیے ضروری ہے کہ ظلم و جبر کے خلاف ہمیشہ جدو جہد کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اکابر و اسلاف نے اس مقصد کے لیے لازوال قربانیاں دی ہیں۔ اور اسلامی تاریخ کے وسیع دور میں ایک لمحہ کا بھی ایسا وقت موجود نہیں ہے جب ہمارے اسلاف میں سے کسی نہ کسی نے ظلم و جبر کے خلاف کلمہ حق نہ بلند کیا ہو۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ نے جیل میں زہر کا پیالہ پی کر جام شہادت نوش کیا۔ امام احمد بن حنبلؒ کی پشت پر روزانہ کوڑے برستے رہے۔ امام شمس الائمہ سرخیؒ نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ حضرت مجدد الفؒ ثانی نے قلعہ گوالیار کو اپنی نظر بندی سے روشنی بخشی۔

قربانیوں کا یہ لامتناہی سلسلہ صرف ایک بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ظلم و جبر کے خلاف جنگ کو ہمارے اسلاف نے زندگی کا سب سے بڑا مقصد سمجھا ہے اسی لیے سب سے زیادہ قربانیاں اسی مقصد کے لیے پیش کیں۔ ظلم و جبر کا کوئی دور ہو، مسلمان حکمران ظلم کی لاٹھی لہرا رہے ہوں یا کافروں کی حکومت ہو، ہمارے بزرگوں نے ظلم کو قبول نہیں کیا، برداشت نہیں کیا اور ہر ممکن طریقہ سے ظلم و جبر کے خلاف جنگ کے شعلے بھڑکاتے رہے۔ جب تک ظلم و جبر کے نظام کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا نہیں جاتا، دنیا میں میں امن ایک خواب رہے گا، وہ خواب جس کی کوئی تعبیر نہیں ہوتی۔

جس طرح عدل و انصاف رحم و کرم، عفو و درگزر اور احسان و سلوک سے جس طرح انسان سنور تا ہے، معاشرہ سر سبز ہوتا ہے، دنیاشاد و آباد ہوتی ہے، اسی طرح ظلم سے انسانی فطرت مسخ ہو جاتی ہے، اس کی درندگی سے معاشرہ تباہ ہو تا ہے اور دنیا ویران ہو جاتی ہے اس لئے قرآن کریم میں جتنی عدل و احسان کی توصیف و قیام عدل کی تاکید ہے، اس سے زیادہ ظلم کی مذمت بیان ہوئی ہے۔ اللہ تعالی ظلم کو پسند نہیں کرتا۔ اس سلسلے میں فرمایا گیا:

وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَکُلٌّ کَانُوا ظَالِمِینَ.

(الانفال، 54)

اور ہم نے فرعون والوں کو (دریا میں) غرق کر دیا اور وہ سب کے سب ظالم تھے۔

اسی طرح اللہ تعالی نے ظالموں کے لئے مزید وعید بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ظالموں پر تو خدا کی پھٹکار ہے یعنی یہ واضح کر دیا کہ ظالم لوگ خدا کی رحمت سے محروم رہیں گے۔

أَلَا لَعْنَةُ اللهِ عَلَی الظَّالِمِینَ.

(هود، 18)

جان لو کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔

فروغ امن کے لیے اس وقت دنیا میں مختلف تحریکیں کردار ادا کر رہی ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں تحریک منہاج القرآن دیگر امور کی طرح اس معاملے میں بھی صف اول میں کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ ایک وقت تک تھا جب پوری دنیا کو دہشت گردی نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا تو قائد تحریک ڈاکٹرمحمد طاہر القادری نے اپنی جان کہ پرواہ نہ کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف 600 صفحات پر مشتمل فتویٰ لکھ کر اس فکر کو فروغ دینے والے عوامل کو تہہ تیغ کر ڈالا۔ اس وقت بانی تحریک کا مشن، پوری دنیا میں امن و امان کو عام کرنا اور دین اسلام کو غلبہ دلانے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک کے لاکھوں وابستگان اور رفقاء نے ہمیشہ آپس میں امن و محبت اور بھائی چارے کو فروغ دیا ہے اور قائد تحریک کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر تفرقہ پرستی اور فرقہ بازی کے خلاف ہمیشہ عمل بغاوت بلند کیا۔ حضور شیخ الاسلام نے عالمی سطح پر نہ صرف اسلام پر لگے دہشت گردی الزام کو رد کیا بلکہ ثابت کیا کہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس کی بنیادی تعلیمات امن و سلامتی ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب

اللہ تعالیٰ اس مقصد کے حصول لیے حضور شیخ الاسلام اور ان کی جملہ کاوشوں کو قبول فرمائے اور دین اسلام کو سربلندی و غلبہ عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ