ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
أَوَ مَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَن مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا كَذَلِكَ زُيِّنَ لِلْكَافِرِينَ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَO
(انعام : 122)
’’بھلا وہ شخص جو مُردہ (یعنی ایمان سے محروم) تھا پھر ہم نے اسے (ہدایت کی بدولت) زندہ کیا اور ہم نے اس کے لیے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لیے) چلتا ہے اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ (وہ جہالت اور گمراہی کے) اندھیروں میں (اس طرح گھِرا) پڑا ہے کہ اس سے نکل ہی نہیں سکتا۔ اسی طرح کافروں کے لیے ان کے وہ اعمال (ان کی نظروں میں) خوشنما دکھائے جاتے ہیں جو وہ انجام دیتے رہتے ہیں‘‘۔
اس آیت کریمہ میں مردہ سے مراد نورِ ایمان و نورِ ہدایت سے محروم شخص ہے۔ یہاں مردہ سے مراد روح کا قفس عنصری سے پرواز کرجانے کے بعد کفنانا اور دفنانا نہیں ہے بلکہ یہاں ’’مَيْتاً‘‘ سے مراد ایسا زندہ ہے جو نور ایمان سے محروم ہے۔ بعض لوگ انبیاء و اولیاء اللہ کے ظاہری پردہ فرماجانے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ وہ مردہ ہوگئے، آپ انہیں زندہ کیسے مانتے ہیں؟
ان کے لئے اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ ہم انہیں زندہ اسی طرح مانتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے درج بالا آیت کریمہ میں زندہ کو مردہ کہا۔ پس کئی زندہ ہوکر مردہ ہیں اور کئی وفات پاکر بھی زندہ ہیں۔ کیسے؟
فرمایا کہ وہ شخص جو مردہ تھا یعنی چلتا پھرتا، تقریریں کرتا، تبلیغ و وعظ کرتا اور زندہ نظر آتا تھا، اس کو اللہ نے فرمایا کہ کیا اس مردہ کو زندہ جیسا سمجھ لوں۔ گویا باری تعالیٰ نے اس زندہ کو مردہ کہا ہے۔ حیات جسمانی کے اعتبار سے زندہ تھا مگر اللہ نے اسے مردہ کہا۔ پھر ارشاد فرمایا ہم نے اسے زندہ کیا اور اسے نورِ ایمان، نورِ ہدایت و معرفت عطا کردی۔ نورِ ولایت و قربت، نورِ تقویٰ و عبدیت عطا کردیا، نورِ نسبت عطا کردیا، نورِ ہدایت و معرفت سے وہ مردہ، زندہ ہوگیا۔
معلوم ہوا کہ ہم جس کو مردہ یا زندہ کہتے ہیں وہ اور ہے اور اللہ کے ہاں جو مردہ و زندہ کی اصطلاح ہے وہ اور ہے۔ اللہ کے ہاں جو محرومِ نور ہو وہ مردہ ہے اور جو صاحب نور ہو وہ زندہ ہے۔ لہذا جو محروم نور ہے، جو خود ہی مردہ ہے اسے زندوں کے احوال کی کیا خبر ہوگی۔ پس یہ زندگی و موت دوسری ہے اور وہ زندگی و موت اور ہے۔ اُس دنیا میں جو زندہ ہوجاتا ہے اس کو اللہ کبھی مردہ نہیں کہتا۔
قاعدہ یہ معلوم ہوا کہ اگر روح جسم کے اندر ہو تو تب بھی قرآن اسے مردہ کہہ رہا ہے۔ پس روحانی موت و حیات کا تعلق روح کے جسم کے اندر یا باہر ہونے سے نہیں ہے۔ روح اندر تھی تب بھی مردہ تھا، روح جسم سے نکل گئی پھر بھی کوئی فرق نہ پڑا کیونکہ پہلے ہی مردہ تھا۔ عین ممکن ہے کہ روح جسم سے جدا ہو، لیکن صاحب نور ہونے کی بناء پر پھر بھی زندہ ہے۔ وہ روحانی موت تھی، یہ روحانی حیات ہے۔ روح جسم سے نکلنے کے بعد جسم کے ساتھ متعلق رہتی ہے۔ جو لوگ جیتے جی مردہ ہوتے ہیں، محرومِ نور ہوتے ہیں، موت انہیں دبوچنے کے لئے آتی ہے اور جو لوگ اس دنیا میں روحانی حیات پاکر زندہ ہوجاتے ہیں انہیں موت مار ہی نہیں سکتی، انہیں موت مارنے کے لئے نہیں بلکہ انہیں چومنے کے لئے آتی ہے۔ موت یہ خواہش کرتی ہے کہ مولیٰ مجھے بھی موقع دے تیرے مقرب بندوں کو چھولوں اور برکت حاصل کرلوں۔ پس موت ان کو چھوکر چلی جاتی ہے، موت ان کا کچھ نہیں بگاڑتی اس لئے کہ وہ ایسے زندہ ہوچکے ہیں کہ اس زندگی کے بعد کوئی موت نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ
’’بھلا وہ شخص جو مردہ تھا (یعنی محروم نور ولایت تھا) ہم نے اس کو زندہ کردیا۔۔۔ ’’کیسے؟‘‘۔۔۔ اس کو نور عطا کردیا‘‘۔
پس جس کو نور مل جائے وہ زندہ ہوجاتا ہے۔ نور چونکہ روح میں ہوتا ہے لہذا وہ زندگی جو نور سے ملتی ہے وہ موت سے ختم نہیں ہوتی بلکہ جاری رہتی ہے کیونکہ وہ روحانی اور نورانی حیات ہوتی ہے، اس کو جسمانی حیات سے غرض نہیں ہوتا۔ جسمانی حیات کے تقاضے اس کے تقاضے نہیں ہوتے بلکہ وہ ان سے بالا ہوجاتی ہے۔ پھر نور اپنے فیض سے ان کے جسم کو بھی قبر میں ترو تازہ اور سلامت رکھتا ہے جس طرح سورج دوری کے باوجود اپنی شعاعوں، نور اور تپش سے زمین کے پودوں کو سلامت رکھتا ہے اور اگر سورج کی شعاعوں کو کسی پودے تک پہنچنے سے روک دیا جائے تو وہ پودا پھل پھول نہ لائے گا بلکہ ختم ہوجائے گا۔ گویا سورج کی شعاعوں نے، نور نے اس پودے کو زندگی بخشی۔ اسی طرح انسانی روح اور روحانیت کا پودا بھی نور سے زندہ ہوتا ہے۔
پھر فرمایا :
نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ.
’’اب وہ بندہ نور لے کر اللہ کی مخلوق میں چلتا ہے‘‘ یہاں خود صاحب نور ہونا اور پھر نور کا فیض مخلوق میں بانٹنا دونوں کا ذکر آگیا ہے۔
گویا اللہ فرمارہا ہے کہ ہم نے اسے نور کی دولت عطا کردی اور پھر وہ نور سے صرف اپنے سینے کو ہی روشن نہیں کرتا، اس سے صرف اس صاحب نور کا قلب ہی روشن نہیں ہوتا بلکہ اوروں میں بھی نور بانٹتا ہے۔ ارشاد فرمایا :
فَمَن يُرِدِ اللّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلاَمِ.
’’پس اﷲ جس کسی کو (فضلاً) ہدایت دینے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کشادہ فرما دیتا ہے‘‘۔
(الانعام : 125)
اور دوسرے مقام پر فرمایا :
أَفَمَن شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَى نُورٍ مِّن رَّبِّه.
(الزمر : 22)
’’بھلا، اللہ نے جس شخص کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا ہو تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر (فائز) ہوجاتا ہے‘‘۔
اللہ جسے ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور اللہ جس کا سینہ کھول دیتا ہے اسے نور پر کردیتا ہے اور جس کو اللہ تعالیٰ شرح صدر کے ذریعے اپنے نور سے پر نور کرتا ہے تو وہ پھر اللہ کے نور کے ساتھ عرش سے لے کر تحت اسراء تک ساری کائنات کو اس کے نور سے دیکھتا ہے۔
حجابات، اندھیرا ہوتے ہیں، نور، حجابات کا رفع ہونا ہے۔ جب نور مل جاتا ہے تو اندھیرا ختم ہوجاتا ہے۔۔۔ حجابات اٹھ جاتے ہیں۔۔۔ جب حجابات اٹھ جاتے ہیں تو بارگاہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اکتساب فیض کرنے والا بلا حجاب بارگاہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی دیدار کرتا ہے۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیض بھی لیتا ہے اور بارگاہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مشاہدہ بھی کرتا ہے۔
حضرت شیخ روز بہان بکلی رحمۃ اللہ علیہ ، شیراز کے رہنے والے ولی کامل تھے۔ آپ حدیث کا درس دیتے تھے اور بڑے بڑے محدثین اپنی اسناد درست کرنے کے لئے آپ کے پاس آتے۔ آپ خاموشی سے سماع کرتے۔ اگر آپ خاموشی سے سماع کرتے رہتے تو اس کا مطلب ہوتا کہ حدیث صحیح ہے اور سند صحیح ہے۔ جس حدیث پر نفی میں سر ہلاتے تو اس سے مراد ہوتا کہ اس کی سند صحیح نہیں۔ ایک روز طلباء و محدثین نے کسی حدیث کی قرات کی آپ نے نفی میں سر ہلادیا۔ انہوں نے کہا کہ حضرت! اس کی سند میں تمام رجال ثقہ ہیں اور سند مضبوط ہے۔ حدیث مقبول ہے، فلاں فلاں محدثین نے اس کو قبول کیا ہے۔ نیز طلباء و محدثین نے محدثانہ دلائل دیئے، آپ سن کر مسکراتے رہے اور فرمایا کہ تم ابھی سند میں ہو، تمہاری ساری بحث سند تک ہے، سند سے آگے نہیں گئے۔ میں تمہاری سند کی بحث سنوں یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھوں۔
’’پردہ اٹھا دیا اور کہا کہ یہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سامنے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میں نے یہ نہیں کہا‘‘۔
عالم اور عارف میں فرق یہ ہے کہ عالم سند میں رہتا ہے جبکہ عارف صاحب سند کی بارگاہ میں رہتا ہے۔ عالم اسانید میں رہتا ہے، عارف مصابیح میں رہتا ہے۔ گویا جب نور ملتا ہے تو اس سے حجابات اٹھ جاتے ہیں۔ لہذا نور اور اندھیرا یکجا نہیں رہتا۔ پس اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ وہ لوگ جن کے پاس پہلے از خود نور نہ تھا، میں نے انہیں نور سے مالا مال کر دیا، زندہ کردیا، انہیں حیات قلبی و روحانی سے مطمطع کر دیا۔ ان کو صاحب نور کرنے کے بعد انہیں قاسم نور کیا۔ اہل نور ہوئے اور پھر اس کے بعد درجہ بڑھا اور نور بانٹنے والے ہوگئے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ میں پتھروں کی تین اقسام بیان کی ہیں ارشاد فرمایا :
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الأَنْهَارُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللّهِ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَO
(البقرہ : 74)
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ایمان و ہدایت کے نور سے محروم اشخاص کے لئے فرمایا :
تم تو ان پتھروں جیسے بھی نہ ہوئے۔ کیونکہ پتھر بھی ایسے ہوتے ہیں جو خشیت الہٰی سے پھٹ جاتے ہیں اور ان سے چشمے نکلتے ہیں جو دور دور تک اللہ کی زمین کو سیراب کرتے ہیں۔ پتھر مردہ تھے، ہم نے ان کے سینے پھاڑ دیئے اور معرفت کے چشمے بلند ہوگئے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ جب اپنے بندوں کے دل زندہ کرتا ہے تو ان میں معرفت کے چشمے ابلتے ہیں اور معرفت کے چشمے نور اور ہدایت لے کر دور دور تک اللہ کے بندوں کے دلوں اور سینوں کی وادیوں کو آباد کرتے ہیں۔ نور بانٹتے ہیں جہاں جہاں نظر کرتے ہیں اندھیرے دور ہوجاتے ہیں۔
اگر تم ان پتھروں جیسے نہ ہوسکو کہ تم سے محبت، خشیت، طاعت، عبادت، عشق، معرفت کے چشمے ابل پڑیں، تو چلو دوسری قسم کے پتھر ہوجاتے کہ جن میں تھوڑی سے دراڑ آتی ہے تو پانی رس جاتا ہے اور گردونواح کو ہریالی دے جاتے ہیں۔ اے لوگو! تم ان پتھروں جیسے بھی نہ ہوسکے۔
پھر فرمایا اگر تم ایسے بھی نہ بن سکے تو تیسری قسم کے پتھر کی مانند ہوجاتے جو خوف الہٰی سے لرز جاتے ہیں اور لرز کر گرجاتے ہیں۔ تم پر بھی کبھی خدا کے خوف کا لرزہ طارہ ہوجاتا اور تم لرز کر میرے حضور سجدہ میں گرجاتے، تمہاری آنکھیں رواں ہوجاتیں، اوروں کو سیراب نہ کرتے مگر اپنے لئے تو ہوجاتے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخری کیفیت سے تو کسی اور کو فیض نہ ملا تو اس کی مثال کیوں دی؟
اس میں بھی ایک راز ہے۔ پہلی قسم میں بڑا فیض ملا، وہ لوگ غوث، قطب ہوگئے۔
دوسری قسم میں بھی فیض ملا اور وہ ابدال، اولیاء، صالحین اور عرفاء ہوگئے۔
تیسری قسم سے بھی ایک فیض ہے اور وہ یہ کہ اگر کم از کم رقت والے ہوجاتے اورلرز کر خدا کے حضور سجدہ ریزی والے ہوجاتے اور اس کی یاد میں روتے تو تم اگر فیض دے نہ سکتے تو کم از کم کوئی تم کو دیکھ کر خود ہی ایسا ہوجاتا۔۔۔ تمہیں دیکھ دیکھ کر کسی کی حالت ایسی ہوجاتی۔۔۔ تمہاری حالت کے اثر سے کوئی اثر پالیتا۔۔۔ تمہاری رقت کو دیکھ کر کوئی صاحب رقت ہوجاتا۔۔۔ تمہاری گریہ و زاری و سجود کی کیفیت کو دیکھ کر کوئی سجدہ ریزی کی طرف آجاتا۔۔۔ بھولا بھٹکا تمھارے حال کو دیکھ کر اپنا حال سنوار لیتا۔
پس اللہ نے فرمایا کہ جن کو میں نے صاحب نور بنایازندہ کیا، نور دیا، نور بانٹنے والا بنایا۔ كَمَن مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا. ’’کیا اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جس کا حال یہ ہے کہ وہ اندھیروں میں گھرا پڑا ہے کہ اس سے نکل ہی نہیں سکتا‘‘۔۔۔ نادان لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ سب ہمارے جیسے ہیں، اللہ پاک نے اس آیت میں ’’ہمارے جیسے‘‘ کا فلسفہ رد کردیا۔ اس حوالے سے کسی کے فتوے کی ضرورت نہیں، صرف اور صرف قرآن کی آیت پر غور کریں جس میں خدا کلام فرمارہا ہے۔ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی مثل کہنے والوں کی سوچ پر ماتم کیا جاسکتا ہے کہ وہ لوگ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی مثل کہتے ہیں حالانکہ جن لوگوں کو مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کے صدقے نور ملتا ہے وہ بھی ان اندھیروں میں رہنے والوں کی مثل نہیں ہیں، مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات تو بڑی دور کی بات ہے۔ فرمایا جن کو میں مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے نور دیتا ہوں، جن کے سینے میں نور کے چراغ جلادیتا ہوں اور وہ نور بانٹتے ہیں، ان جیسا کوئی نہیں اور تم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے بنتے ہو۔
یہ قرآن کی نصِ صریح ہے جس میں اللہ کا فتویٰ ہے۔ آیت میں چار درجے بیان کئے :
- مردہ تھا
- زندہ ہوا
- صاحب نور ہوا
- قاسم نور ہوا
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اولیاء کوئی فیض نہیں دے سکتے۔ کتنی نادانی کی بات ہے کہ اگر وہ فیض نہیں دے سکتے تو اللہ کا یہ فرمان کہ وہ نور لے کر لوگوں کے درمیان چلتا ہے تو کیا اللہ اسے لوگوں کے درمیان چلا کر کوئی ورزش کروارہا ہے۔۔۔ نہیں۔۔۔ بلکہ لوگوں کے درمیان گھمانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ نور لوگوں کے درمیان تقسیم کرے۔
اگر یہ لوگ فیض تقسیم نہ کرسکتے تو بات یہیں ختم ہوجاتی کہ ’’اس کو ہم نے صاحب نور کردیا‘‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پہلے وہ خود نور والا بنا۔۔۔ پھر اندھیرے والوں کو نور تقسیم کرتا ہے۔۔۔ اگر وہ بغداد بیٹھ جائے تو نور پھیلاتا ہے۔۔۔ اگر اجمیر بیٹھے تو نور پھیلاتا ہے۔۔۔ اگر لاہور بیٹھے تو نور پھیلاتا ہے۔۔۔۔ وہ سر ہند میں بیٹھ جائے تو نور پھیلاتا ہے۔۔۔
اللہ نے فرمایا بھلا یہ نور دینے والے، ان کے برابر ہوسکتے ہیں جن کے پاس نور نہیں ہے اور وہ اندھیرے میں رہتے ہیں اور اندھیرے سے نکل ہی نہیں سکتے۔۔۔ کسی نور والے کے ساتھ وابستہ ہوں تو نکلیں۔
یہ نہیں فرمایا کہ اندھیرے والے اور نور والے برابر نہیں ہوسکتے حالانکہ اس طرح کہنے سے مضمون مکمل ہوجاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے مضمون یہاں ختم نہیں کیا بلکہ فرمایا لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا ’’ ایسے اندھیروں میں رہتے ہیں کہ اندھیروں سے نکل ہی نہیں سکتے‘‘۔
اللہ نے یہ بات کیوں فرمائی؟ اس لئے فرمائی کہ اس سے پہلے وہ فرماچکا ہے کہ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ ایسے لوگ بھی ہیں جو لوگوں کو اندھیروں سے نکالتے ہیں اور نور پھیلاتے ہیں۔۔۔ نور بانٹنے والے بھی ہیں۔۔۔ اور اندھیروں میں رہنے اور نہ نکل سکنے والے بھی ہیں۔ دونوں حصوں کو جب جوڑ دیں تو معنی یہ نکل آیا کہ اگر کسی نے اب اندھیروں سے نکلنا ہو تو اس کی شرط یہ ہے کہ کسی نور والے سے جڑ جائیں۔۔۔ کسی نور والے کے دامن سے لگیں۔۔۔ کیونکہ ان کا کام ہی یہ ہے کہ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ وہ پکڑ پکڑ کر اندھیروں سے نکالتے اور نور کی طرف لے جاتے ہیں۔ لہذا اگر نور والے کے دامن سے لگو گے تو اندھیروں سے نکلو گے۔۔۔ اگر نہیں لگو گے تو لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا اندھیرے میں رہو گے نکل نہیں سکتے۔
گویا اللہ تعالیٰ نے ایک قاعدہ و ضابطہ مرتب فرمادیا۔ نیز یہ ایک ایسا ضابطہ ہے کہ اگر کوئی بھی اندھیرے سے نکلنا چاہے اور فیض لینا چاہے تو وہ وقت یہی ہے کیونکہ جب قیامت کا وقت آجائے گا تو اس وقت ان کو پچھتاوا ہوگا۔ قیامت کے دن بھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی پہچان نور رکھے گا ارشاد فرمایا :
يَسْعَى نُورُهُم بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِم.
’’کہ اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کی دائیں جانب تیزی سے چل رہا ہوگا ‘‘۔
(الحدید : 12)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحابہ کرام نے پوچھا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت کے دن اپنے امتی کو کس طرح پہچانیں گے؟ فرمایا : کہ ان کے وہ تمام اعضاء جس پر ان کے دنیا میں وضو کے دوران پانی لگتا تھا وہاں نور ہوگا۔
سوال کیا : یارسول اللہ اولیاء اللہ کی پہچان کیا ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
فَوَاللّٰهِ اِنَّ وُجُوْهَهُمْ لنُوْرٌ وَاِنَّهُمْ لَعَلٰی نُوْرٍ.
(سنن ابی داؤد، کتاب البيوع باب فی الرهن،3 : 288)
’’اللہ کی قسم ان کے چہرے نور ہوں گے اور وہ نور (کے منبروں) پر ہوں گے‘‘۔
قیامت کے دن کچھ لوگوں کے لئے منبر بچھائے جائیں گے اور کچھ نفسا نفسی کے عالم میں سرگرداں ہوں گے، کچھ سوا نیز پر موجود سورج کی تمازت سے جل رہے ہوں گے، کچھ مولیٰ کے دیدار میں محو و مست و بے خود ہوں گے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قیامت کا دن 50 ہزار سال کے برابرہوگا مگر اللہ والوں پر یہ دن عصر کی چار رکعت کے برابر وقت میں گزر جائے گا اور انہیں معلوم بھی نہ ہوگا۔ پھر جو لوگ دنیا میں ان کی سنگت میں آگئے قیامت کے دن یہ سنگت ان کو نفع دے گی۔
اَلْاَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضهم لِبَعْضٍ اِلَّاالْمُتَّقِيْن.
’’سب لوگ ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے متقین کے‘‘۔
اس دن اس نفسا نفسی کے عالم میں میرے ولی، حقیقی یار ہوں گے، جو میرے پرہیزگار بندے، متقین ہیں۔
اِنْ اَوْلِيَاءُ ه اِلاَّالْمُتَّقُوْن.
’’متقی میرے اولیاء ہیں‘‘۔
متقی میرے اولیاء ہوں گے اور یہی تمہارے یار ہوں گے یہی مددگار ہوں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تصدیق فرمادی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ
70 ہزار افراد میری امت میں ایسے ہوں گے جنہیں بلا حساب و کتاب بخشا جائے گا اور ان میں سے ہر ایک ایسا ہوگا کہ ہر ایک ساتھ 70، 70 ہزار افراد کو جنت میں داخل کیا جائے گا‘‘۔
یہ اولیاء اللہ کے سلسلے ہوں گے جو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے اور پھر ان کے ساتھ جانے والے وہ ہوں گے جنہوں نے دنیا میں ان کی سنگت کو تھامے رکھا۔ جو مریدین، طالبین، صادقین، متوسلین ہیں۔
ایک اور مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
عَنْ اَبِی حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ مِنْ اُمَّتِيْ سَبْعُوْنَ اَلْفًا، اَوْسَبْعُ مِائَةِ اَلْفٍ (لَايَدْرِی اَبُوْ حَازِمٍ اَيُّهُمَا قَالَ) : مُتَمَا سِکُوْنَ آخِذٌ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، لَا يَدْخُلُ اَوَّلُهُمْ حَتَّی يَدْخُلَ آخِرُهُمْ، وُجُوْهُهُمْ عَلَی صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ.
(الدار قطنی فی السنن، 2 : 278، الرقم : 194)
’’امام ابو حازم حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت کے ستر ہزار یا سات لاکھ افراد جنت میں داخل ہوں گے (ابو حازم کو یاد نہیں رہا کہ ان میں سے کون سی تعداد مروی ہے) وہ ایک دوسرے کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہوں گے ان میں سے پہلا شخص اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوگا جب تک ان کا آخری فرد بھی داخل نہ ہوجائے (یعنی وہ اپنے ہزاروں لاکھوں افراد کی نگرانی کررہا ہوگا) ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب ان اللہ کے نیک بندوں کا اذن ہوگا کہ تم جنت میں جاؤ جنت تمہارے انتظار میں ہے تو کئی اولیاء یہی عرض کریں گے کہ ہم جنت میں نہیں جائیں گے؟ پوچھا جائے گا کیوں؟
يَقُوْلُوْنَ : رَبَّنَا اِخْوَانُنَا کَانُوْا يُصَلُّوْنَ مَعَنَا وَيَصُوْمُوْنَ مَعَنَا وَيَحُجُّوْنَ مَعَنَا فَاَدْخَلْتَهُمُ النَّارَ قَالَ : فَيَقُوْلُ : اذْهَبُوْا فَاَخْرِجُوْا مَنْ عَرَفْتُمْ مِنْهُمْ، قَالَ : فَيَاْتُوْنَهُمْ فَيَعْرِفُوْنَهُمْ بِصُوْرِهِمْ فَمِنْهُمْ مَنْ اَخَذَتْهُ النَّارُ اِلَی اَنْصَافِ سَاقَيْهِ وَمِنْهُمْ مَنْ اَخَذَتْهُ اِلَی کَعْبَيْهِ، فَيُخْرِجُوْنَهُمْ.
(صحيح البخاری : 6 : 2707، رقم : 7001)
’’وہ عرض کریں گے : اے ہمارے پروردگار! ہمارے یہ بھائی ہمارے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے اور ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ہی ساتھ حج کرتے تھے اور تونے انہیں دوزخ میں ڈال دیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اچھا تم جنہیں پہچانتے ہو انہیں جاکر خود ہی دوزخ سے نکال لو۔ کہتے ہیں : وہ ان کے پاس جائیں گے اور ان کی شکلیں دیکھ کر انہیں پہچان لیں گے۔ ان میں سے بعض کو تو آگ نے پنڈلیوں کے نصف تک اور بعض کو ٹخنوں تک پکڑا ہوگا۔ وہ انہیں نکال لیں گے‘‘۔
اللہ تعالیٰ اولیاء سے یہ کیوں فرمائے گا کہ خود نکال کر لے جاؤ؟ اس لئے کہ فرشتوں نے نکال کر بھیج دیا تو ممکن ہے کوئی شخص اس کو اپنے کسی عمل کا سبب جان لے۔ پس اس لئے تم ان کو اپنے ہاتھ سے نکالو تاکہ ہر ایک کو پتہ ہو کہ خدا نے دوزخ میں بھیجا تھا، اولیاء کی سنگت کام آئی اور وہ نکال کر لے گئے۔
ان دوزخ سے نکالے جانے والوں کے چہرے سلامت ہوں گے اور آگ نے صرف ٹخنوں کو چھوا ہوگا تاکہ اولیاء جب نکالنے آئیں تو ان کو چہروں سے پہچان لیں۔ اولیاء کرام اللہ کی رضا کے لئے چونکہ اپنی زندگی فنا کرچکے ہوتے ہیں اس لئے اللہ ان پر اپنی رحمتیں تمام کرتا ہے یہ بارگاہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض ہے جو اولیاء اللہ کے ذریعے قیامت کے دن تک جاری و ساری ہے۔ حضرت امام حسن بصری فرمایا کرتے تھے کہ
جب کسی کو دوست بنانا ہو اور کسی کی سنگت اختیار کرنی ہو تو ایک ہی پیمانہ دیکھا کر کہ اس کی سنگت قیامت کے دن کام آئے گی یا نہیں۔ اگر اس کی دوستی قیامت کے دن کام آنے والی ہو تو اس کو اختیار کرو ورنہ چھوڑ دے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نیک سنگتوں میں رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ