جہاں کے خالق و مالک کا یہ سب سلسلہ کیا ہے
کسے معلوم اس کی ابتدا کیا انتہا کیا ہے
ہے اس کی قدرت و صناعی کا مظہر جہاں سارا
یہ کلیاں پھول غنچے رنگ و بو موجِ صبا کیا ہے
رضا محبوب (ص) کی مطلوب ہے خلاقِ عالم کو
بجز اُن کی رضا کے اور خالق کی رضا کیا ہے
جہانِ آب و گل میں حسن و رعنائی اُسی سے ہے
وگرنہ اس نگارستانِ ہستی میں رکھا کیا ہے
وہی داتا حقیقی جملہ مخلوقِ خدا کا ہے
نہ جس میں فضلِ ربانی ہو شامل وہ عطا کیا ہے
وہی اِک راہ سیدھی ہے جو اس نے ہم کو بتلائی
جو لے جائے نہ منزل تک بھلا وہ راستہ کیا ہے
اسی کی حمد میں صبح و مساء سب زمزمہ خواں ہیں
چمن میں یہ صفیرِ طائرانِ خوش نوا کیا ہے
اسی کے ذکر سے مہکی ہوئی ہیں ساعتیں ساری
یہ خوئے بندگی یہ اُس کی خاطر رتجگا کیا ہے
مکان و لامکاں، ارض و سماء میں سو بسو نیّر
وجودِ ذاتِ ربّ العالمیں کے ماسوا کیا ہے