مجھے تو لفظ کوئی اور سوجھتا ہی نہیں
بجز حضور (ص)، پس حرف مدعا ہی نہیں
ہوائے غم ہوکہ یلغار ہو حوادث کی
چراغ عشق محمد (ص) کبھی بجھا ہی نہیں
حدیث عشق بیاں کرتے ہیں میرے آنسو
کسی کا نطق زباں اپنی کھولتا ہی نہیں
سر شعور عقیدت بھی سرنگوں ہے وہاں
فقط حضور (ص) کی چوکھٹ پہ یہ صبا ہی نہیں
حضور لذت سوز و گداز بھی تو ملے
ورق پہ اشک ندامت کبھی گرا ہی نہیں
دل ونظر کی گزرگاہ اجالنے والا
غبار شہر مدینہ کہ بھولتا ہی نہیں
میں منتظر ہوں اجازت حضور دیں تو چلوں
یہ فاصلہ تو حقیقت میں فاصلہ ہی نہیں
خزاں کا خوف مسلط ہے اس کے چہرے پر
بہار ان کے تصور سے آشنا ہی نہیں
عجیب ایک تماشا سا ہے سر محشر
ریاض آپ کے قدموں کو چھوڑتا ہی نہیں